دنیا میں ہر قسم کی علمی و فکری اور انقلابی تحریک کی کامیابی کا دارومدار ذیلی قیادت (2nd line leadership) کی اہلیت و صلاحیت پر بھی مبنی ہوتا ہے۔ وہ اعلیٰ اور بانی قیادت جو جہاندیدہ ہو، وہ ہمیشہ ذیلی قیادت کی تیاری کی طرف اول دن سے ہی متوجہ رہتی ہے۔ اس قیادت کی تیاری میں بانی قیادت کو خون جگر صرف کرنا پڑتا ہے۔ ان کی سیرت و کردار، اخلاق و عادات اور ان کے مجموعی طرزِ حیات کو ایسے سانچے میں ڈھالنا ہوتا ہے جس سے ارفع قیادت کے اوصاف و کمالات بھی جھلکیں اور مطلق رہبری کی جملہ صلاحیت و قابلیت بھی۔ جن تحریکوں میں ذیلی قیادت کی تیاری پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے ان کا تسلسل بغیر کسی انقطاع کے جاری و ساری رہتا ہے اور ہر زمان و مکان میں ان کی صدائے بازگشت گونجتی رہتی ہے۔ اپنے وجود کو منوانے اور زندہ رکھنے کے لیے انہیں کسی خارجی سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ اپنے مسلسل نتائج سے صرف زندہ ہی نہیں بلکہ زندہ جاوید رہتی ہیں۔
تحریکوں کے تسلسل اور دوامیت کے اسی فلسفے کو پیش نظر رکھتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک منہاج القرآن کی بنیاد ان خطوط پر استوار کی ہے جس سے ہر سطح پر ذیلی قیادت کی تیاری کا عمل ہمہ وقت جاری و ساری ہے۔ یہ ذیلی قیادت اپنی اعلیٰ قیادت کے عطا کردہ نصب العین اور مقاصد کی تکمیل میں انتہائی محنت، ایثار، تندہی اور جفاکشی سے مصروف عمل ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے قیام کے ساتھ ہی 1980ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک کی ذیلی قیادت کی تیاری کا آغاز فرمادیا تھا اور پھر عرصہ 12 سال تک قائد تحریک شب و روز محنت و مشقت کرتے رہے تاکہ قوم و ملت کو قحط الرجال کے بحران سے نکال کر قیادت سے نوازا جائے اور بے امام قوم کو امام اور رہبر دیئے جائیں۔ بالآخر تحریک منہاج القرآن کی تاریخ میں 17 اپریل 1992ء کی صبح کا سورج اپنے اندر بنیاد و فروغ انقلاب کا پیغام لے کر طلوع ہوا، جب قائد تحریک کو جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن سے فارغ التحصیل طلبہ کی صورت میں پہلے 42 دست و بازو ملے اور اس طرح علم و فکر سے لیس ایسی رہبر و رہنما افرادی قوت کے سلسلے کا آغاز ہوا، جو آج تک تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اب تک متعدد بیجز میں ایک ہزار سے زائد طلبہ فراغت کا اعزاز پاچکے ہیں اور منہاجینز کے ٹائٹل سے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی اپنے قائد کی عظیم فکر کے فروغ کے لیے شب و روز کوشاں ہے اور فکرِ قائد کا ترجمان بن کر قریہ قریہ، گائوںگائوں اور شہر شہر گھوم رہا ہے۔
تحریک کی فکر نے منہاجینز کی سوچوں کے رخ بدل دیئے ہیں۔ انہیں فکرِ ذات کی بجائے فکرِ امت سے روشناس کردیا ہے اور امت کے زوال کو عروج میں بدلنے کا درد دے دیا ہے۔ قائد کی روش پر چلتے ہوئے انہیں آرام کا خیال ہے اور نہ آسائش کی پرواہ۔ کام کی دھن میں مست و بے خود ہونا ہی ان کی خاص پہچان ہے۔ کچھ کر گزرنے کی ایک سچی تڑپ انہیں ہر وقت تڑپاتی ہے۔ زوالِ امت کا درد اپنے نفسی درد سے بھی زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ اس فکر کا کمال ہے جس کا طرۂ امتیاز غلبہ دین حق کی بحالی، امت مسلمہ کا احیاء و اتحاد اور قرآن و سنت کی عظیم فکر پر مبنی عالمگیر سطح پر مصطفوی انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔ یہی فکر آج امتِ مسلمہ کے عروق مردہ میں جان ڈال سکتی ہے اور امت کا احیاء اور عظمت و تمکنت اسی سے وابستہ ہے۔
آیئے! اس امر کا جائزہ لیں اس فکر کے حاملین کہاں، کیسے اور کس طریق مصطفوی مشن میں اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں:
1۔ تدریسی ذمہ داریاں
تعلیم کے دوران تدریسی ذوق رکھنے والے طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور نکھارنے کے لیے انہیں مختلف سطح پر تدریسی ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی صلاحیت و قابلیت سے ملک و ملت کے لیے جوہر قابل تیار کریں اور ان کے ذہن و دماغ کو انقلابی فکر سے بھی اس طرح مزین کریں کہ بعد ازاں اس انقلابی فکر کے منابع ہر سمت پھوٹتے رہیں۔ سو اس مقصد کے لیے ہمارے منہاجینز مختلف یونیورسٹیز، کالجز اور سکولز کی سطح پر سرگرم عمل ہیں۔ ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب قائد کے ان فیض یافتہ منہاجینز کی صحبت سے ملت کو قابل، لائق اور اہل افراد بھی میسر آئیں گے اور ملت کی قیادت و سیادت کا فریضہ سرانجام دینے والے بھی۔
2۔ تحقیقی ذمہ داریاں
علم و فکر کے ارتقاء کا تسلسل اقوام کو عروج و بلندی کی طرف لے جاتا ہے اور جس قوم کے علم و فکر کے سوتے خشک اور جامد پڑجائیں اور معطل ہوجائیں تو زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ اسلام نے اسی لیے اجتہاد کا دروازہ ہر دور میں کھلا رکھا ہے۔ ہر دور میں ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جو ایسی تحقیقی تصانیف رقم کرتے رہے ہیں، جن کے نقوش انمٹ ہیں اور ہر زمانے میں انہوں نے جہاں اقوام کو شعور دیا، وہاں رہبری کے گر سکھانے کے ساتھ ساتھ امراضِ ملت کی تشخیص کرکے ان کا علاج بھی بتایا ہے۔ اس انتہائی اہم ذمہ داری کو نبھانے کے لیے اور تمام تر فکری و عصری تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتہائی قابل اور لائق منہاجینز کو فکرِ قائد کی ترویج و اشاعت کے لیے متعین کیا جاتا ہے تاکہ وہ فکرِ قائد کو ہر فرد کے لیے منظم، ٹھوس اور جامع انداز میں پیش کرکے فکری و علمی ارتقاء کو نہ صرف بحال کریں بلکہ اس کے تسلسل کے لیے تشویش و ترغیب کا ساماں بھی کریں۔
3۔ تنظیمی ذمہ داریاں
منتشر اور بکھری ہوئی قوت کو ایک لڑی میں پرو دینے اور ان کی کاوشوں اور جدوجہد کو ایک خاص سمت مرتکز کردینے کا کام بڑا جاں گسل ہے۔ ہم خیال اور ہم فکر لوگوں کے مابین سوچوں میں ذاتی مفادات کی وجہ سے کبھی کبھی بعدالمشرقین کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کو یک جان اور یک قالب رکھنا ہی منتظم کی خوبی اور کمال ہے۔ دیہاتوں، شہروں، اضلاع اور مرکز کی سطح پر اور بیرون ملک منہاجینز کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی ہے، جسے وہ شب و روز محنت اور جہدِ مسلسل سے بطریقِ احسن نبھا رہے ہیں۔
4۔ انتظامی ذمہ داریاں
زندگی نظم کا نام ہے جو زندگی حسنِ نظم سے ہٹ جائے، اس کی کاوشیں بے نتیجہ ہوجاتی ہیں۔ ہر وقت نتائج کا حصول، افراد کی کارکردگی میں اضافہ، ہر ادارے کی مجموعی ترقی اور اس کا امتیازی اورجداگانہ تشخص قائم کرنا، اس کی ظاہری اور باطنی آرائش، متعلقہ افراد کی ذہنی اور قلبی سکون کی بحالی اور ان کا اعتماد اور ان کا خیال اور لحاظ کرنا ہی قابلِ رشک انتظامیہ کی ذمہ داری ہے جو اپنے وسائل کو انتہائی امانت اور دیانت کے ساتھ اس طرح خرچ کرے کہ جس سے نہ تو اسراف و تبذیر کا کوئی پہلو نکلے اور نہ ہی بخل و کنجوسی کا۔
انتظامی کام کی حسنِ انجام دہی کا انحصار انسانی نفسیات کے جاننے پر ہے۔ انتظامی معاملات میں افراد کے ذہن بکھرتے اور دل ٹوٹتے ہیں۔ اس منصب کے لیے دل سمندر جیسا اور زبان شہد سے بھی میٹھی چاہیے۔ اس منصب پر دل توڑنے والا نہیں بلکہ جوڑنے والا ہونا چاہیے۔ بالخصوص اگر یہ ذمہ داری تحریکی افراد کے متعلق ہو تو پھر تلخ بولتے ہوئے سو بار سوچنا چاہیے۔ بہر حال اس احساس ذمہ داری پر بھی منہاجینز ہر سطح پر جزوی اور مستقل طور اول دن سے مصروف عمل ہیں۔
5۔ تربیتی ذمہ داریاں
مربیّ ہونا جہاں ایک بہت بڑا اعزاز ہے وہاں بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے جو انسان کو فضلِ خداوندی کے باعث ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری پر فائز مربیّ ایک شفاف آئینے کی طرح اور ایک سفید کپڑے کی مثل اپنے زیر تربیت افراد کے سامنے ہوتا ہے۔ وہ چلتی پھرتی تصویر درحقیقت ایک کھلی کتاب کی مانند ہوتی ہے جس سے زیر تربیت جب اور جس وقت چاہیں اپنی سیرت و کردار، اخلاق و عادات، عبادات و معاملات، آداب و اطوار کی تشکیل سازی کے لیے مطالعہ شروع کردیں۔ زیر تربیت افراد یہ چیزیں دیگر کتابوں سے کم پڑھتے اور سمجھتے ہیں کیونکہ ان میں صرف وہ حروف ہیں جن کے پاس زبان نہیں جبکہ مربیّ وہ کتاب ہے جس کے پاس حروف بھی ہیں اور انہیں بولنے کے لیے زبان بھی ہے اس لیے ان کا مرکز و محور مربیّ ہوتا ہے۔ یوں جو افراد تیار ہوتے ہیں ان میں ہر خوبی کا منبع درحقیقت ان کا مربیّ ہی ہوتا ہے۔ یہ ذمہ داری بھی ہمارے منہاجینز انتہائی خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں اور ذمہ داری کے مذکورہ تقاضے کے مطابق وہ خود کو مجسم پیکر بنائے ہوئے ہیں۔
6۔ دعوتی ذمہ داریاں
دعوت ہی ہر تحریک کی پہچان ہوتی ہے اور اس کی روح بھی۔ تحریک کا فروغ اور پھیلائو اس کی مؤثر دعوت پر منحصر ہے۔ دعوت تحریری صورت میں بھی ہے اور تقریری میں بھی۔ کتابی صورت میں بھی ہے اور خطابی میں بھی۔ کاش ہماری دعوت کی یہ دونوں صورتیں اتنی موثر اور منظم ہوجائیں کہ پاکستان کی دھرتی کا ایک چھوٹا سا گائوں تو کیا بلکہ ایک گھر بھی نہ بچے، جہاں ہماری دعوت دونوں صورتوں میں پہنچ نہ جائے۔ اسی صورت ہی ہم اپنے بے مثال اور عظیم قائد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں۔ ہمیں ایسی منصوبہ بندی کرنا ہوگی کہ ہمارا دعوتی اور فکری لٹریچر معاشرے کے ہر فرد تک پہنچ جائے اور فکر قائد کے حوالے سے پاکستان کا ہر گوشہ اور ہر خطہ روشناس ہوجائے۔
الحمدللہ! اس وقت مرکز کی سطح پر اور مختلف اضلاع میں جزوی اور مستقل طور پر منہاجینز یہ ذمہ داری نبھارہے ہیں جس کے دور رس اور انتہائی حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں۔
7۔ ہمہ جہتی تحریکی ذمہ داریاں
کسی خاص ذمہ داری کو نبھانے کا تحریکی زندگی میں ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ فردِ خاص دیگر ذمہ داریوں سے کلیتاً لاتعلق بھی ہوگا اور بے خبر بھی کیونکہ ایسی صورت میں سرکاری ملازمت کی طرح تحریک سے اس کا شعبہ جاتی تعلق تو رہ جائے گا مگر مکمل تحریکی نہیں ہوگا۔ یوں یہ چیز اس کی اپنی شخصیت کو ادھورا اور نامکمل بنادے گی اور اس کی ہمہ جہتی تحریکی پہچان کو بھی مجروح کرے گی۔ اعلیٰ تحریکی قیادت کی تیاری کا راز بھی اسی میں مضمر ہے کہ مستقبل میں ہر سطح پر منصبِ قیادت پر فائز ہونے والی شخصیت تمام معاملات اور مسائل حیات کو گہرائی تک سمجھتی ہو اور ان کا مکمل ادراک بھی رکھتی ہو تاکہ وہ ہر اعتبار سے مکمل اور صائب راہنمائی دے سکے۔
اندرون اور بیرون ملک بعض منہاجینز ہمہ جہتی تحریکی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں اور بیک وقت تنظیمی و انتظامی، تدریسی و تحقیقی اور دعوتی و تربیتی امور میں مصروفِ عمل ہیں۔
الحمدللہ! فکرِ قائد منہاجینز کے قلب و روح میں راسخ ہوچکی ہے۔ اتباعِ قائد میں ہماری منزل مصطفوی انقلاب ہی ہے۔۔۔ ہمارا جینا و مرنا اسی سے وابستہ ہے۔۔۔ یہ فکر زمان و مکان کی قیودات سے بالاتر ہے، جو جہاں ہے وہیں فکرِ قائد کا امین اور ترجمان ہے۔۔۔ ہماری متاعِ حیات یہی فکرِ قائد ہے۔۔۔ ہماری سوچ اور فکر کا خمیر اسی سے تشکیل پایا ہے۔۔۔ ہماری پہچان، ہماری شناخت اور ہماری انفرادیت فکر قائد ہے۔۔۔ ہمارا تشخص، ہمارا امتیاز اور ہمارا اعزاز فکرِ قائد ہے۔ اسی سے تمسک ہماری عزت ہے اور اس سے انحراف ہماری رسوائی ہے۔ (باری تعالیٰ اس ابتلاء سے ہر کسی کو محفوظ رکھے) ہماری ہر خوبی کا منبع اور سرچشمہ فکرِ قائد ہے۔۔۔ اسی کا فروغ اور اشاعت ہمارا مطمعِ زیست ہے۔ باری تعالیٰ! ہمیں فکرِ قائد کی ترویج کے لیے قابلیت، صلاحیت اور اہلیت کی خوبیوں سے نوازے۔