ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ علم ہی سابقہ و موجودہ اقوام و ملل کی ترقی و عظمتِ رفتہ کی بنیاد ہے۔ علم اور صاحبِ علم کی فضیلت اللہ رب العزت کے ہاں اس فرمان سے واضح ہوتی ہے کہ:
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً.
’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ ‘‘
(البقرة، 2: 30)
یعنی ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور علم عطا فرمایا پھر فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ علم کی برتری کی وجہ سے فرشتوں نے سجدہ کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقی علم کہاں سے میسر آتا ہے جو انسان کی رفعت و برتری، ترقی و فلاح اور ہدایت کا عظیم ذریعہ بنتا ہے؟
حقیقی علم کا بنیادی مصدر کتاب مبین یعنی قرآن کریم ہے۔ کتاب مبین کا مطالعہ انسان کو ہدایت اور ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo
’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔ ‘‘
(البقرة، 2: 1)
اللہ رب العزت نے بے راہ رو اور گمراہی میں مبتلا لوگوں کی رہنمائی کے لیے اپنے برگزیدہ بندوں یعنی انبیاء کو مبعوث فرمایا اور انہیں صحف اور کتابیں عطا فرمائیں تاکہ لوگ ان صحیفوں اور کتابوں کو پڑھ کر حقیقی علم تک رسائی حاصل کریں۔
مطالعہ کتب کی اہمیت اہلِ اسلام کے نزدیک ایک مسلّم امر ہے جس کا انکار کسی سطح پر ناممکن ہے۔ کیونکہ خطابِ الہٰی کا پہلا لفظ ہی اقراء (پڑھو) ہے، اسی لفظ سے اللہ جل مجدہ نے اپنے خاتم النبین و مرسلین ﷺ کی نبوت و رسالت کا آغاز فرمایا ہے اور یہی پہلا حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مصطفی کریم ﷺ کو عطا فرمایا۔
دنیا کے مختلف علوم و معارف اور اسراو رموز اگر ہمیں کسی جگہ سے دستیاب ہو سکتے ہیں، وہ کتاب ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ علم و حکمت کو کتاب کی صورت میں جمع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ امام حاکم بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
قیدوا العلم بالکتابة.
’’علم کو کتاب میں قید کرو یعنی لکھا کرو۔ ‘‘
اسی بنا پر علماء و مفکرین کتاب کو کنز اور خزانہ قرار دیتے تھے۔ حافظ ابن جوزی فرماتے ہیں:
إذا وجدت کتاب جدیدا فکأنی وقعت علی کنز.
’’اگر مجھے کوئی نئی کتا ب ملتی تو گویا مجھے خزانہ حاصل ہو ا۔ ‘‘
کتاب قاری کو اپنے دور کے مصنفین کے افکار و نظریات اور احوالِ زمانہ سے آگاہ رکھتی ہے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نئے افراد کی مضبوط کھیپ تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جہاں قاری کتب کے ذریعے حالاتِ حاضرہ سے آگاہی حاصل کرتا ہے وہاں کچھ کتب اسے دورِ قدیم کے نامور ائمہ، محدثین، فلاسفہ، حکماء اور مفکرین سے بھی فیضیاب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یعنی دورِ جدید میں رہتے ہوئے اگر دورِ قدیم تک کوئی رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا واحد ذریعہ کتاب ہے۔ چنانچہ امام ابن جوزی فرماتے ہیں:
’’لوگ جتنا علم اپنے اسلاف کی کتابوں میں پاتے ہیں اتنا اپنے اساتذہ اور مشائخ سے نہیں حاصل کر سکتے ہیں۔ ‘‘
- ہمارے اسلاف مطالعہ کتب کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ بعض ایسے شواہد بھی تاریخ میں ملتے ہیں کہ کتابوں پر دسترس حاصل کرنے کے ارادہ سے وہ رشتہء ازدواج میں منسلک ہونے کو بھی قبول کر لیتے تھے۔ اسی طرح لڑکیوں کے جہیز میں کتب خانے کے بھی نظائر و شواہد تاریخ میں ملتے ہیں۔ چنانچہ امام اسحاق بن راہویہ نے سلیمان بن عبد اللہ زغندانی کی بیٹی سے شادی اس لیے کی تھی کہ اس سے انھیں امام شافعی کی جملہ تصانیف پر مشتمل کتب خانہ مل جانا تھا۔ (انساب للسمعانی، 6: 306)
- امام محمدبن حسن شیبانی جو کہ امام ابوحنیفہ کے عظیم شاگردوں میں سے ہیں، ان کی سیرت کا مطالعہ کر کے ایک انگریز نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے چھوٹے محمد کا یہ حال ہے تو بڑے محمد ﷺ کا کیا حال ہوگا؟
امام محمد کے مطالعہ کا عالم یہ تھاکہ آپ پوری پوری رات مطالعہ کتب میں جاگتے گزار دیتے۔ جب لوگوں نے آپ سے اس مشقت اور مجاہدہ کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:
’’میں کیسے سو جاؤں، جبکہ عام مسلمان اس وجہ سے بے فکر ہو کر سوجاتے ہیں کہ جب انہیں جب کوئی مسئلہ درپیش ہوگا تو اس کا جواب محمد بن حسن سے مل جائے گا۔ ‘‘
یعنی آپ کو امت مسلمہ کے مسائل کی اس قدر فکر رہتی تھی کہ ساری رات کتابوں میں ان کے مسائل کا حل تلاش کرتے اور ڈھونڈتے گزار دیتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ لوگ ان پر اعتماد کر کے سو جاتے ہیں۔
- مطالعہ کتب سے سے قوتِ حافظہ کو تقویت ملتی ہے چنانچہ امامِ بخاری سے حافظہ کی دوا کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمانے لگے:
لاَ أَعْلَمُ شَیْئاً أَنْفَعَ لِلْحفظِ مِنْ نَهْمَةِ الرَّجُلِ، وَمُدَاومَةِ النَّظَرِ.
’’حافظہ کے لیے آدمی کے انہماک، دائمی نظر و مطالعہ سے بہتر کوئی چیز میرے علم میں نہیں۔ ‘‘
اچھی کتابوں کا مطالعہ نہ صرف انسان کے ذہن و شعور کو جلا بخشتا ہے بلکہ انسان کو مہذب بھی بناتا ہے۔ بہترین کتب انسانی شخصیت میں نکھار اور وقار عطا کرتی ہیں۔ کتاب سے دوستی انسان کو شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کرواتی ہے الغرض کتاب ہی انسان کی بہترین مونس اور رفیق ہے۔
- زمانہ عباسی کے مشہور شاعر متنبی کا شعر بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے، چنانچہ وہ لکھتا ہے:
أَعَزُّ مَکَانٍ فی الدُّنَی سَرْجُ سَابِحٍ
وَخَیْرُ جَلِیْسٍ فی الزَّمانِ کِتابُ
’’ایک مسافر کے لیے دنیا کا بہترین مقام گھوڑے کی پشت ہے اور زمانہ میں بہترین ہمنشین کتاب ہے۔ ‘‘
- ارسطو سے پوچھا گیا کہ آپ کسی شخص کو جاننے کے لیے کیا پیمانہ استعمال کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں اس سے پوچھتا ہوں کہ تو نے کتنی کتابیں پڑھیں اور کیا کیا پڑھا ہے؟
- مشہور مسلم مفکر، دانشور اور فلسفی ابو نصر الفارابی جنہیں تاریخ ارسطوئے ثانی اور معلمِ ثانی کے نام سے پہچانتی ہے، مسلم دنیا کے یہ عظیم سائنسدان دنیا کی 70 زبانیں جانتے تھے، ان کی ابتدائی زندگی انتہائی غربت میں گزری مگر اتنا بڑا مقام انہیں کتاب کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے ملا۔ کہا جاتا ہے کہ ابونصر فارابی کی غربت کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس چراغ کے تیل خریدنے کے لئے بھی پیسہ نہ تھا، چنانچہ وہ رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہوکر کتاب کا مطالعہ کرتے تھے۔
- امام جرجانی لکھتے ہیں:
ما تطعمت لذة العیش حتی
صرت فی وحدتی للکتاب جلیسًا
’’میں نے زندگی کا مزہ اس وقت تک نہ چکھا جب تک کہ میں نے کتاب کو اپنی خلوت کا ہم نشین نہ بنا لیا۔ ‘‘
لیس عندی شیء أجل من
العلم فلا ابتغی سواه أنیسًا
’’میرے نزدیک علم سے زیادہ کوئی افضل چیز نہیں ہے اور نہ ہی میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا دوست و انیس تلاش کرتا ہوں۔ ‘‘
- احمد شوقی کہتے ہیں:
أنا من بدَّل بالکتب الصحابا
لم أجد لی وافیًا إلا الکتابا
’’میں وہ ہوں جس نے ساتھیوں کے بدلے کتابیں اپنائیں اور میں اپنے لیے کتاب سے زیادہ وفادار کسی کو نہیں جانتا۔ ‘‘
- خلیفہ مامون کے زمانے میں ایک عظیم ادیب نے اتنی اہم کتاب لکھی کہ اس سے کہا گیا:
سنعطیک ثمن هذا الکتاب ما یساوی وزنه ذهبًا.
’’ہم آپ کو اس کتاب کے وزن کے برابر قیمت میں سونا عطا کریں گے۔ ‘‘ تو اس ادیب نے جواب دیا:
هذا کتاب لو یباع بوزنه
ذهبًا لکان البائع المغبونا
’’اگر یہ کتاب سونے کے وزن کے برابر بیچی جائے تو بائع (سیلر)دھوکہ باز قرار پائے گا۔ ‘‘
أما من الخسران أنک آخذ
ذهبًا وتترک جوهرًا مکنونًا
’’کیا میں خسارے والوں میں سے نہیں ہوں گا کہ آپ سونا لینے والے ہوں گے اور جوہر کو دور چھپا ہوا چھوڑدیں گے۔ ‘‘
- قدیم رومی جمہوری سلطنت کے ادیب اور عظیم فلسفی سوسیر کا قول ہے کہ:
بیت من غیر کتب کجسم من غیر روح.
’’کتابوں کے بغیر گھر ایسے ہی ہے جیسے جسم بغیر روح کے ہوتا ہے۔ ‘‘
- باکون کہتا ہے کہ ’’اگر آپ تنہائی میں انس، خلوت میں لذت اورمحفل میں زینت کا طریقہ جاننا چاہتے ہو تو کتاب سے پوچھو۔ ‘‘
- عباس العقاد کہتے ہیں:
’’آپ کو مربی و مرشد کہتے ہیں کہ وہ پڑھیں جو آپ کو نفع دے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو پڑھتے ہو، اس سے فائدہ حاصل کرو۔ ‘‘
- ابن جوزی فرماتے ہیں:
’’اگر تم لذت اور راحت چاہتے ہو تو اے علم والو! اپنے گھر کے اندر رہو اور وہاں بھی اپنے گھر والوں سے کنارہ کش رہو تو تمہاری زندگی خوشگوار ہو جائے گی۔ بیوی بچوں سے ملاقات کے لیے ایک وقت متعین کر لو کیونکہ جب انہیں ایک وقت معلوم ہو جائے گا تو پھر اس وقت تم سے ملاقات کے لیے تیاری کریں گے اور اس طرح تمہارا رہن سہن بہتر جائے گا۔ ‘‘
آپ مزید فرماتے ہیں: ’’تمہارے گھر میں کوٹھری ایسی ہونی چاہیے جس میں خلوت اختیار کر سکو تاکہ اس میں جاکر اپنی کتابوں کی سطروں سے گفتگو کر سکو اور اپنی فکر کے میدان میں دوڑ سکو۔ یعنی خلوت و تنہائی میں علم و معرفت پر مبنی وہ کتابیں جو انسان کو حق تعالیٰ کی معرفت اور اس کی مناجات کی طرف لے جائیں، بہترین ہم نشین ہیں۔ ‘‘کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
سُرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
- عصر حاضر میں علم و فکر کے احیاء و ترویج کی عظیم تحریک کے بانی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا نہ صرف عمر بھر کا اپنا معمول کثرتِ مطالعہ کتب ہے بلکہ آپ ہمیشہ طلبہ کو بھی اس بات کی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ کثرتِ مطالعہ کو اپنا معمول بنائیں۔ حلقات التربیۃ کے ایک درس میں آپ نے فرمایا:
’’تحریک منہاج القرآن کے کارکن کے لیے فرض ہے کہ وہ ہرروز گھنٹہ دو گھنٹے مطالعہ پرصرف کریں۔ جو علم سے تعلق نہیں رکھتا، سمجھ لے کہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رفقاء کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہرروز قرآن مجید کا مطالعہ کریں، احادیث مبارکہ کا مطالعہ کریں۔ میں نے ساری زندگی تصنیف و تالیف آپ کے لیے کی ہے تاکہ آپ ان کتب کا مطالعہ کریں۔ اپنا علم ہر روز بڑھائیں اور یہی پیغام اللہ رب العزت نے پہلی وحی میں عطا فرمایا ہے۔ ‘‘
انسان کی سرگرمیوں میں فی زمانہ مطالعہ کتاب اہم سرگرمی شمار ہوتا ہے۔ دور حاضر میں جدید ریسرچ نے مطالعہ کتب کی اہمیت اور فوائد کے بارے میں تحقیقات سے ثابت کیا ہے کہ کتاب بینی دماغی امراض سے انسان کی حفاظت کرتی ہے اور ٹینشن کو کم کرتی ہے۔
اچھی کتابیں زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔ ادب انسانی مزاج میں نرمی پیدا کرتا ہے۔ ۔ ۔ ذہن پر خوشگوار اور صحت مند اثرات مرتب ہوتے ہیں... مطالعے سے انسان کے اندر مثبت اور مضبوط سوچ پیدا ہوتی ہے... کتب کے مطالعہ سے انسان کے اندر دلیل کے ساتھ بات کرنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے... آج ہم سنی سنائی باتوں کی بجائے مطالعہ کے ذریعے اپنے اندر تحقیق کا رجحان پیدا کریں تو بہت سے مسائل اور جھگڑوں سے چھٹکا را حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ملّت اسلامیہ دوبارہ سے دنیا میں عزت اور عروج حاصل کرنا چاہتی ہے توہمیں چاہیے کہ علم کی اس متاعِ گم گشتہ کو پھر سے حاصل کرنے کی فکر کریں کیونکہ علم کے اس زینے سے گزرے بغیر کامیابی کی بلندی تک پہنچنا نہ صرف مشکل بلکہ ایک ناممکن عمل ہے۔