رمضان المبارک کا رحمتوں بھرا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور نوازشات انہی لوگوں کا مقدر بنتی ہیں جو اس ماہ کی مناسبت سے اپنے اوپر عائد فرائض و ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی سرانجام دیں۔ روزہ چونکہ پرمشقت عبادت ہے اس لئے اس میں احتیاط بھی ضروری ہے۔ اسی سلسلے میں ہم ذیل میں چند اہم نکات پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ خصوصاً یہ کہ روزوں کے حوالے سے ہم پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں، جن کی ادائیگی سے صحیح معنوں میں روزوں سے حاصل ہونے والی برکات و ثمرات سے مستفیض ہوا جاسکتا ہے:
1۔ نیت عمل میں برکت کا باعث ہے
نبیٔ رحمت تاجدار کائنات ﷺ نے اعمال کی درستگی اور صحت کا دارومدار نیت پر رکھا ہے۔ الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ باطنی ارادے اور عزم کی پختگی بھی نیت ہے۔ یوں تو ہر عبادت کی قبولیت نیت سے مشروط ہے مگر روزے کا تعلق نیت کے ساتھ بڑا گہرا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم مسنون الفاظ کے ساتھ روزے کی نیت کے علاوہ دل سے بھی پختہ عہد کریں۔ بعض لوگ نماز یا روزے جیسی عبادات کو اپنے آبائو اجداد کی عادت کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ وہ روزہ اس لئے رکھتے ہیں کہ لوگ روزے رکھتے ہیں، وہ حج اس لئے کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی حج کرتے ہیں، وہ تزکیہ نفس کے لئے مجاہدہ اس لئے کرتے ہیں کہ لوگوں کو ایسا کرتے دیکھتے ہیں۔ اللہ کی بندگی میں یہ تقلید کافی نہیں۔ ہمارے لئے واجب ہے کہ ہم اللہ کی رضا کے لئے بندگی کا شعور رکھتے ہوئے روزے رکھیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ روزہ رکھنے کی حقیقی نیت کریں۔
جب ہم غروب آفتاب کے وقت روزہ افطار کرنے لگیں تو یہ قلبی اقرار کریں کہ ہم نے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم دن کی قدر کی اور اسے اس کی منشاء کے مطابق گزارا۔ ان شاء اللہ آنے والے دن کو بھی اسی جذبے، اخلاص اور محبت کے ساتھ روزے کی حالت میں گزاریں گے۔ سحری کرتے وقت یہ نیت کرنی چاہئے کہ اس کھانے سے جسم میں جو طاقت آئے گی اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کیا جائے گا اور اس سے دن بھر روزہ برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ یوں روزے دار کا ہر ہر لمحہ رضائے الہٰی کا مظہر بن جائے گا اور اس کے تمام اعمال و افعال قربِ الہٰی کا ذریعہ بنتے چلے جائیں گے۔
2۔ تلاوتِ قرآن کی کثرت
ماہ رمضان میں ہم پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کریں کیونکہ قرآن مجید اسی مہینے میں نازل کیا گیا جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ.
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں‘‘۔
(البقره، 2: 185)
یہ اللہ کا کلام ہے جب ہم اس کی تلاوت کررہے ہوں تو ہمارے جسم پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے جاہ و جلال اور عظمت کا اثرمرتب ہورہا ہو۔ خاص طور پر جب ہم مساجد میں قرآن سنتے ہیں تو اللہ کا کلام سنتے ہوئے اس میں ڈوب کر کیف حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
قرآن حکیم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا بھی ناگزیر ہے۔ یہ قرآن کا فرمان ہے اور یہی قرآن حکیم کا اصل مقصد ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت کرنے والا یا فائدہ حاصل کرنے والا ہے یا نقصان۔ یا تو قرآن حکیم کی تلاوت سے اس کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا ہے یا پھر قرآنی احکام پر عمل نہ کرکے خسارے میں رہتا ہے۔ ہمیں بدعملی کا خسارہ اٹھانے سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے۔
اس بات کو اس مثال سے سمجھیں کہ قرآن مجید والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، حسنِ خلق اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے لیکن اگر ان احکامات پر مبنی آیات وہ اشخاص تلاوت کریں جو عملاً والدین سے بدسلوکی، بداخلاقی اور قطع رحمی میں ملوث ہوں تو ایسے اشخاص کل بروز قیامت قرآن کی شفاعت سے محروم ہوں گے۔
3۔ توبہ کی تجدید
ماہ رمضان میں ہمارا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی توبہ کی تجدید کریں۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
رمضان الی رمضانٍ والجمعة الی الجمعة والصلاة الی الصلاة مکفرات لما بینهن وذالک الدهر کله مالم یوت کبیر.
’’رمضان سے لے کر اگلے رمضان تک، جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک، نماز سے لے کر اگلی نماز تک درمیانی وقفے میں کئے گئے گناہوں کو مٹادیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ زمانہ بھر کے لئے ہے بشرطیکہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ ہو‘‘۔
(صحیح مسلم، کتاب الطهارة، باب الصلوات الخمس والجمعة الی الجمعة... الخ، 14-16/ 233)
گویا اگلے اور پچھلے رمضان کے درمیان جو ہم صغیرہ گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں وہ رمضان کی برکت سے مٹادیئے جاتے ہیں بشرطیکہ ان کے ارتکاب میں مداومت نہ ہو۔ البتہ کبیرہ گناہوں کی معافی کے لئے صدقِ دل سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے، یہ روزوں سے معاف نہیں ہوگا، اس کے لئے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح شراب نوشی، چوری چکاری بھی کبیرہ گناہ ہیں یہ صرف روزے رکھنے اور نماز پڑھنے سے معاف نہیں ہوتے، ان کی معافی کے لئے توبہ ضروری ہے۔ البتہ رمضان کے روزے ان سب صغیرہ گناہوں کو مٹادیتے ہیں جن سے ہمارا نامہ اعمال سیاہ ہوچکا ہوتا ہے۔ ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کہ صغیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمارا مواخذہ نہ کرے اور اس مبارک مہینے میں رکھے گئے روزوں کی وجہ سے ہمارے سب گناہوں کو معاف کردے۔
مسلمانوں کی نئی نسل کو گناہوں نے ہی تباہ و برباد کیا۔ ان گناہوں اور نافرمانیوں نے ہی ان کی ذہانت اور بصیرت کو مٹاکر رکھ دیا اور ان کی زندگی کی قوت کے سرچشمے ان گناہوں ہی کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوئے۔ اسی لئے سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
المعصیة ظلمة فی القلب وسواد فی الوجه وبغض فی قلوب الخلق وضیق فی الرزق.
’’گناہ دل میں ایک تاریکی، چہرے پر سیاہی، مخلوق کے دلوں میں بغض اور رزق میں تنگی کا باعث ہوتا ہے‘‘۔
اسی طرح وہ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں:
الطاعة نور فی الوجه و بیاض فی القلب و محبة فی قلوب الخلق وسعة فی الرزق.
’’اطاعت چہرے پہ نور، دل میں روشنی، مخلوق کے دلوں میں محبت اور رزق میں فراوانی کا باعث ہوتی ہے‘‘۔
جو یہ چاہتا ہے کہ اسے قوت، دلی راحت، دنیا و آخرت میں سعادت، ذہانت، فہم و فراست اور نور میسر آئے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت اختیار کرے اور گناہ چھوڑ دے۔
رمضان المبارک کے یہ رحمتوں بھرے شب و روز ہمیں گناہوں سے اجتناب کی نہ صرف دعوت دیتے ہیں بلکہ اس کے لئے ایک نورانی ماحول بھی فراہم کرتے ہیں۔ لہذا ہمیں ان لمحات میں اس قدر محنت مجاہدہ اور ریاضت کرنی چاہئے کہ ایک ماہ کی مشق ہمیں پوری زندگی اطاعت وفرمانبرداری کے قالب میں ڈھال دے۔
ہم پر واجب ہے کہ ہم اس مبارک مہینے میں اپنے اعمال کا جائزہ لیں۔ اگر برے اعمال کے مرتکب ہیں تو ہم ان کی بجائے نیک اعمال سرانجام دینے کو اپنا معمول بنالیں۔
4۔ وقت کی اہمیت کا احساس
رمضان المبارک کے سعادت بھرے لمحات ہمیں وقت کی قدرو اہمیت کی جانب بھی متوجہ کرتے ہیں۔ ہم میں سے جو کوتاہی کرتا ہے یا خود ہی اپنا وقت ضائع کرتا ہے اسے ابھی سے اپنے اوقات کو منظم کرنا چاہئے اور اپنی زندگی کے چلن کو درست کرنا چاہئے۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
نعمتان مغبون فیهما کثیر من الناس الصحة والفراغ.
’’دو نعمتیں ایسی ہیں کہ ان میں بہت سے لوگ کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور وہ ہیں صحت اور فراغت‘‘۔
(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب الصحة والفراغ ولا عیش الاعیش الآخرة، 6412)
اس حدیث مبارک میں جسمانی صحت اور وقت کی فراغت کو نعمت قرار دیا گیا ہے۔ مغبون فیہما کا مطلب یہ ہے کہ وقت ضائع کرنے والے کو کوتاہی کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ معاشرے میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ جن نوجوانوں کو اللہ تعالیٰ نے صحت اور فراغت سے نواز رکھا ہے وہ اکثر و بیشتر کوتاہی کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔ وہ اپنا وقت کھیل کود اور سیر سپاٹے میں ضائع کردیتے ہیں اور اپنی صحت کو برے اعمال کے ارتکاب سے برباد کربیٹھتے ہیں، اس حوالے سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ہمیں عافیت اور سلامتی کی التجا کرنی چاہئے۔
سب سے پہلے نماز کے اوقات کی حفاظت کرنی چاہئے یعنی بروقت نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا ہمارے لئے از حد ضروری ہے، کوئی دور کرنے والا ہمیں نماز سے دور نہ کرسکے اور نہ ہی امتحان، مذاکرہ، مہمان کا استقبال، کسی کا کوئی بات سننا، کوئی کتاب کا پڑھنا یا کہیں آنا جانا نماز سے ہمیں غافل نہ کرسکے۔ جس نے نماز کو ان وجوہات میں سے کسی بھی وجہ کے پیش نظر ترک کیا تو سب سے پہلے اس نے اپنی ذات سے خیانت کی۔ پھر اپنے پیغمبر ﷺ سے خیانت کی اور پھر اپنے دین سے خیانت کی۔
رمضان المبارک کے یہ ایام ہمیں اپنے نظام الاوقات کو ترتیب دینے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا باقاعدگی سے اہتمام کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ نیز ہمیں اس امر کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ ہم محض لہو و لعب میں ہی زندگی کے ان قیمتی ایام کو ضائع نہ کریں بلکہ ان اوقات کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
رمضان میں مخالفِ شریعت اعمال
آج کل ماہ رمضان میں بہت سے لوگ بعض ایسے اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں جس میں شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ نیکی سمجھ کر ان خطائوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہمیں حتی المقدور ان سے اجتناب کرنا چاہئے۔ رمضان میں ان اعمال کی تین صورتیں سامنے آتی ہیں:
1۔ بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کو صرف ماہ رمضان میں پہچانتے ہیں اور باقی گیارہ مہینے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اللہ کی نافرمانیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ گیارہ مہینوں میں وہ قرآن حکیم کی تلاوت سے دور بھاگتے اور شرعی احکام کی مخالفت اور نافرمانیوں کے مرتکب ہوتے ہیں مگر جب وہ سنتے ہیں کہ ماہ رمضان آگیا تو مساجد کا رخ کرتے ہیں اور اپنے اوپر مسکینی، عاجزی اور انکساری طاری کرلیتے ہیں۔ گویا کہ وہ اللہ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کیا رمضان کا رب بقیہ مہینوں کا رب نہیں اور وہ جو رمضان میں پوشیدہ و مخفی باتوں کو جانتا ہے بھلا وہ غیر رمضان میں پوشیدہ و مخفی کو نہیں جانتا؟ پھر جب رمضان رخصت ہوجاتا ہے تولوگ اپنی پرانی روش یعنی نافرمانی و عصیاں اور عدم اطاعتِ الہٰی کی طرف واپس لوٹ جاتے ہیں اور رب کائنات سے اپنا تعلق توڑ لیتے ہیں۔
ہمارا اللہ کو پہچاننا یا اس سے لگائو رکھنا صرف رمضان تک ہی محدود نہیں ہونا چاہئے۔ ہلاکت و بربادی ہے اس کے لئے جو یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ کی پہچان صرف رمضان میں ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کو منانے کے لئے صرف رمضان میں نیک اعمال کرنا ہی کافی ہے۔ رمضان المبارک میں نیک اعمال سرانجام دینا وقتی طور پر تو اس کے حال کو بدل سکتے ہیں مگر اس کی اس کیفیت کو مسلسل نہیں رہنے دیتے۔
2۔ دوسرا عمل جو رمضان کے دوران دیکھنے میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ رمضان میں نماز تراویح کی ادائیگی کے حوالے سے سستی اور کاہلی کا شکار رہتے ہیں۔ یاد رکھیں! رمضان المبارک کے مہینہ میں قیام اللیل کی بہت فضیلت ہے اور نمازِ تراویح کی صورت میں اگر ہمیں یہ موقع میسر آتا ہے تو ہمیں اس کا اچھی طرح اہتمام کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں اس بات کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ مساجد میں قرآن مجید سنانے کی سعادت حاصل کرنے والے حفاظ کرام بھی قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے اعتدال کا راستہ اختیار کریں۔ اکثر مساجد میں جلد از جلد تراویح ختم کرنے کے لیے الفاظِ قرآن کی درست ادائیگی کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ ہمارے حفاظ کرام کو اس حوالے سے خاص احتیاط کرنی چاہیے، یہ نہ ہو کہ کل بروز قیامت قرآن مجید کو اس طرح بے دلی سے پڑھنا اور جلد از جلد ختم کرنے کی عادت کی وجہ سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شرمندگی اٹھانا پڑے اور قرآن مجید پڑھنے کے باوجود اس کی شفاعت سے محروم قرار پائیں۔
3۔ رمضان کے دوران تیسری بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ بہت سے لوگ دن بھر یا دن کا بیشتر حصہ سوکر گزارتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو عصر سے مغرب تک بھی سوئے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں روزوں کی لذت کہاں گئی۔۔۔؟ بھوک کی حرارت اور پیاس کی مشقت کہاں گئی۔۔۔؟ جب آپ دن بھر سوئے رہے، اسکا مطلب یہ ہوا کہ آپ رات میں سانس لے رہے ہیں گویا کہ آپ نے روزہ رکھا ہی نہیں۔ اس صورت میں رمضان کا ایمانی مفہوم کدھر گیا۔۔۔؟ جب ساری رات باتیں کرنے اور کھیل کود میں گزرے اور پورا دن سونے کی نذر ہوجائے تو پھر رمضان کا مطلب کیا ہوا۔۔۔؟ ایسا شخص جو رمضان کے دنوں میں غروب آفتاب کا انتظار کرے تاکہ وہ آفتاب غروب ہوتے ہی کھائے پئے، دلپسند نغمے سنے اور لطف اندوز ہو اور پھر دوسرے دن وہ چادر لپیٹ کر پورا دن سوکر گزارے تو ایسے شخص کے روزوں کا کیا معنی و مفہوم اور کیا فائدہ۔۔۔؟
دن میں سونا شرعاً ممنوع نہیں لیکن لمبی تان کر نہ سوئے، اس لیے کہ روزوں کا مقصد یہ ہے کہ ان کے اثرات طبیعت پر طاری ہوں۔۔۔ رمضان کی گھڑیوں سے روحانی بالیدگی حاصل ہو۔۔۔ اور رمضان کے مبارک لمحات میں دلوں میں لطافت اور رقت پیدا ہو۔ بھوک اور پیاس کا احساس انسان کی تربیت کے لئے بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ روزہ رکھنے سے درحقیقت مسلمان کو اپنی روح کی صفائی اور پاکیزگی کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ دن کے وقت سونا افضلیت کے منافی ہے۔ سلف صالحین رمضان کے دن سوکر نہیں گزارتے تھے۔ افضل یہ ہے کہ رات کو سویا جائے۔ جب اسے اس حقیقت کا علم ہوجاتا ہے کہ دن کے وقت سونے سے عمر کا ایک حصہ ضائع ہورہا ہے اور قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے اور قرب الہٰی کے حصول کے مواقع ختم ہورہے ہیں تو پھر اس احساس کے بعد اُسے نیند نہیں آسکتی۔
اللہ رب العزت ہمیں اس ماهِ مبارک کے تقاضوں کو مکمل کرنے اور اس ماہ میں اپنے اوپر عائد فرائض و ذمہ داریوں کوکماحقہ پورا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔