منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی تعلیمی اداروں میں سے ایک اہم ادارہ ’’منہاج انسٹی ٹیوٹ برائے قرأت و تحفیظ القرآن‘‘ ہے۔ یہ ادارہ بھی تحریک کے دیگر تعلیمی اداروں کی طرح نہایت کامیابی سے نونہالانِ قوم کی تعلیم و تربیت میں مصروف عمل ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں 1994ء میں ادارہ تحفیظ القرآن کا آغاز کیا گیا تھا۔ تقریباً 26سالوں میں تحفیظ القرآن سے ہزاروں بچے قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ اس عظیم تعلیمی ادارہ کے پرنسپل محترم علامہ محمد عباس نقشبندی سے اس ادارہ کے مقاصد، انفرادیت، تعلیمی ماحول، سہولیات اور شرائط داخلہ کے حوالے سے خصوصی گفتگو ہوئی جو نذرِ قارئین ہے:
منہاج انسٹی ٹیوٹ برائے قرأت و تحفیظ القرآن کے امتیاز اور انفرادیت کے ذکر سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے محترم علامہ محمد عباس نقشبندی نے کہا کہ ہمارے ہاں زیر تعلیم بچے باقاعدہ فیس ادا کر کے قرآن حفظ کرتے ہیں۔ قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو زکوۃ، خیرات اور صدقات پر نہیں پڑھایا جاتا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا یہ ویژن ہے جس نے دین کی تعلیم حاصل کرنی ہے، وہ اس پر خرچ کرے۔ اگر دنیاوی تعلیم کے حصول کے لئے والدین اپنے آپ کو مشکل میں ڈال کر بھاری فیسیں ادا کر سکتے ہیں تو دینی علوم کے حصول کے لئے یہ جذبہ مفقود کیوں ہو جاتا ہے؟ منہاج القرآن کے تعلیمی اداروں میں دینی علوم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے باوقار مستقبل اور ان کی عزتِ نفس کے تحفظ کا ہر ممکن خیال رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحفیظ القرآن میں قرآن مجید حفظ کرنے کے لئے آنے والے بچے ہر طبقۂ فکر سے آتے ہیں۔ ان میں ایلیٹ کلاس کے بچے بھی شامل ہیں کیونکہ تحفیظ القرآن نے حفظ قرآن کے لئے بہترین تعلیمی ماحول مہیا کیا ہے۔
اس انسٹی ٹیوٹ کے ماحول اور سہولیات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے علامہ محمد عباس نقشبندی نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس 4 سو سے زائد بچے قرآن مجید حفظ کررہے ہیں۔ بیشتر کلاس رومز ایئر کنڈیشنڈ ہیں، معمولی فیس ادا کرنے والے طالب علم کو ایئر کنڈیشنڈ سہولت میسر ہونے کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ کلاس روم کا ماحول حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہے، کلاس روم کشادہ اور ہوا دار ہیں، بچوں کے آرام کا خیال رکھنے کے لئے ہر کلاس روم میں کارپٹ بچھایا گیا ہے جس کی روزانہ کی بنیاد پر صفائی ہوتی ہے۔ تحفیظ القرآن کی خوبصورت عمارت بغداد ٹاؤن، ٹاؤن شپ لاہور دربار غوثیہ کے ساتھ واقع ہے۔ ہمارا یہ امتیاز اور دعویٰ ہے کہ حفظِ قرآن کے لئے اتنی خوبصورت اور کشادہ عمارت کہیں اور نظر نہیں آتی۔ یہاں ہاسٹل کی سہولت بھی میسر ہے، بچوں کو تین وقت کا کھانا مہیا کیا جاتا ہے، اساتذہ بھی وہی کھانا کھاتے ہیں جو طلبہ کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔بچوں کو تین وقت کا ایسا کھانا میسر ہوتا ہے جو مڈل کلاس کے گھروں میں میسر نہیں ہوتا۔
یہاں طلبہ کے لئے کینٹین اور بک شاپ کے ساتھ ساتھ ابتدائی طبی امداد کے لئے ایک میڈیکل یونٹ بھی قائم کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں بچوںکی سپورٹس اور تفریحی سرگرمیوں کا بطورِ خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ بچوں کے تحفظ اور نگہداشت کے لئے تمام کلاس رومز سی سی ٹی وی کے ذریعے مانیٹرکئے جاتے ہیں یعنی تحفیظ القرآن کا نظام پیشہ وارانہ انداز میں چلایا جا رہا ہے۔ والدین ہم پر اعتماد کرتے ہیں تو ہم بچوں کی نگہداشت، تعلیم و تربیت اور صحت و صفائی کے حوالے سے کسی غفلت کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔
منہاج انسٹی ٹیوٹ برائے قرأت و تحفیظ القرآن میں داخلہ اور تعلیمی سہولیات پر بات کرتے ہوئے علامہ محمد عباس نقشبندی کا کہنا تھا کہ تحفیظ القرآن میں 11 سال کی عمر کے پرائمری پاس بچوں کو داخل کیا جاتا ہے، سب سے پہلے انہیں ناظرہ کی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ بچہ صحتِ لفظی کے ساتھ ادائیگی کے قابل ہو سکے اور اس کے بعد حفظ کی باقاعدہ کلاسز کا آغاز ہوتا ہے۔ پرائمری پاس طلبہ کو تین سال میں قرآن مجید حفظ کراویا جاتا ہے اور حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ مڈل تک کی تعلیم بھی مکمل کروائی جاتی ہے۔ بعض بچے میٹرک بھی تحفیظ القرآن سے کرتے ہیں۔ تحفیظ القرآن میں طلبہ کو پرائمری سے پی ایچ ڈی تک کی تعلیمی سہولت میسر ہے۔
ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں ہر روز صبح اسمبلی ہوتی ہے جس میں تلاوت قرآن مجید باترجمہ، نعتِ رسول مقبول ﷺ اور احادیثِ مبارکہ کا درس ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بچے قومی ترانہ پڑھتے ہیں۔ اس اسمبلی کے بعد تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا جاتا ہے۔ بچوں کو نماز پنجگانہ کی ادائیگی اور طہارت کے مسائل اور دیگر دینی معلومات اول روز سے سکھائی اور ازبر کروائی جاتی ہیں۔ بچوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا بھی بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
حفظ القرآن اور سکول کی تعلیم کے لئے الگ الگ اساتذہ کرام ہیں۔ طلبہ کو باوقار صاف ستھرے اور پرسکون ماحول میں تعلیم دی جاتی ہے۔ اس ادارے کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ طلباء کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے والدین کو مشاورت میں شامل رکھا جاتا ہے۔
علامہ محمد عباس نقشبندی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو قرآن مجید حفظ کرانے والے اساتذہ میں نامور قراء حضرات شامل ہیں۔ اس لیے کہ قرآن کو صحتِ لفظی کے ساتھ پڑھنااور پڑھانا ایک افضل ترین عبادت ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی یہ خواہش اور حکم ہے کہ تجوید پر گرفت کے ساتھ ساتھ لحن اور لہجہ پر خاص توجہ دی جائے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بہترین آواز اور انداز کے ساتھ پڑھا جانے والا قرآن مجید بڑا محبوب ہے۔ ایک موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ کو کسی صحابی نے بتایا کہ فلاں صحابی بہت خوبصورت تلاوتِ قرآن کرتے ہیں۔ آپ ﷺ مسجد نبوی میں تشریف لائے، اس صحابی کی خوبصورت آواز، لحن اور لہجہ سماعت کیااور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ مجھے خوشی ہے کہ ایسے بھی میرے امتی ہیں۔
بچوں کی تعلیم و تربیت کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ محمد عباس نقشبندی کا کہنا تھا کہ اوائل عمری میں بچہ جو سیکھتا ہے وہ زندگی کی آخری سانس تک اس کی روز مرہ کی عادات کا حصہ بن جاتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے اور والدین کم سن بچوں کی تربیت کے پہلو کو کسی طور نظر انداز نہ کریں۔ منہاج القرآن کے تعلیمی ادارے اخلاقی تربیت کا بھرپور خیال رکھتے ہیں بلکہ منہاج القرآن وہ واحد تحریک ہے جس نے بچوں کی اخلاقی تربیت کے لئے ایگرز کے نام سے بھی ایک ڈیپارٹمنٹ قائم کررکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے عمر بھر ان کے تابعدار، علم دوست اور ملک و ملت کے وفادار بنیں تو وہ والدین جیسے ہی بچہ بولنے کا آغاز کرے تو وہ اس کے بولنے کی ابتداء صحتِ لفظی کے ساتھ قرآن مجید پڑھنے سے کروائیں اور بتدریج باترجمہ قرآن مجید پڑھنے کے لئے توجہ دیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ بچے کی قرآن سے یہ وابستگی انہیں ایک باعمل مسلمان اور ذمہ دار شہری بنائے گی۔
بچے زندگی کے جس شعبہ میں بھی جانا چاہتے ہیں جائیں، ڈاکٹر بنیں، انجینئر بنیں، سپورٹس مین بنیں، شاعر بنیں، مصور بنیں، فنونِ لطیفہ سے وابستہ ہوں نیز اپنی خداداد صلاحیتوں اور ٹیلنٹ کو بروئے کار لاتے ہوئے عملی زندگی میں کوئی بھی فیلڈ اختیار کریں لیکن قرآن سے اپنی محبت اوروابستگی کو ہر حال میں قائم رکھیں۔ یہ وابستگی اندھیرے میں روشنی، مایوسی میں امید اور زوال میں کمال کا باعث بنے گی۔ والدین بچوں کی قرآنی تعلیم و تربیت کا خیال رکھیں اور اپنی اور اپنے بچوں کی دنیا اور آخرت کو سنواریں۔
اساتذہ اور طلبہ کے رشتہ کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ محمد عباس نقشبندی نے کہا کہ والدین اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت کے لئے اساتذہ کے حوالے کرتے ہیں۔ اساتذہ پر یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، انہیں اپنی اس ذمہ داری سے پورا پورا انصاف کرنا چاہیے، یہ باعزت روزگار بھی ہے اور دین اور دنیا کی نجات بھی اس عمل میں ہے۔ جو اساتذہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے نافرمان ہیں یا وہ اپنے بچوں کی وجہ سے کسی تکلیف سے دو چار ہیں تو وہ جان لیں کہ وہ دوسروں کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کسی کوتاہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ استاد دوسروں کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا حق ادا کریں، اس کے صدقے اللہ تعالیٰ ان کو کامیابیوں سے ہمکنار کر دے گا اور ایسے اساتذہ کی اولاد کو ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے گا۔
دیگر مذہبی انسٹی ٹیوشنز اور منہاج القرآن کے تعلیمی اداروں کے مابین بنیادی فرق کا ذکر کرتے ہوئے علامہ محمد عباس نقشبندی نے بتایا کہ مذہبی انسٹی ٹیوشنز نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے طریقہ تدریس اور ماحول کو اپ گریڈ نہیں کیا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید دینی تعلیم یا قرآن مجید وہی حفظ کرتے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے کسی معذوری کا شکار ہوتے ہیں اور دین کی تعلیم صدقات اور خیرات پر مفت میسر آتی ہے۔ اس تاثر کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور تحریک منہاج القرآن نے ختم کرنے کے لئے سخت محنت کی ہے اور الحمدللہ ادارہ منہاج القرآن اس طبقہ کو دین کی طرف لے کر آیا ہے جو آسودہ حال ہے اور وہ اپنے بچوں کی دینی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں اور اس طبقہ کے بچے مذہبی سکالر بھی بنتے ہیں، حافظ قرآن بھی بنتے ہیں، نعت خوان اور قاری بھی بنتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیسر بھی بنتے ہیں۔
تحفیظ القرآن کے بچوں کو ایصال ثواب کی محفلوں میں نہیں بھیجا جاتا تاکہ بچوں کے اعتماد، وقار اور عزتِ نفس کی حفاظت ہو۔ بدقسمتی سے ہماری سوسائٹی میں ایک رواج ہے کہ فوتگی کے موقع پر مدرسے کے بچوں کو بلایا جاتا ہے اور اس کے بدلے میں انہیں اچھا کھانا کھلا دیا جاتا ہے۔ ہم ایصال ثواب کے قائل ہیں مگر اس روایت کو وسیع تر بہتری کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ جس گھر میں فوتگی ہوتی ہے، امیر ہو یا غریب وہ ایک بہت بڑا خاندان ہوتا ہے، اپنے کسی پیارے کے ایصال ثواب کے لئے وہ خود قرآن خوانی کی محافل کا انعقاد کیوں نہیں کرتے؟ ہم چاہتے ہیں قرآن مجید کی تلاوت کی آوازیں گھر گھر سے آئیں اور ہر شخص باقاعدہ سیکھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرے۔
علامہ محمد عباس نقشبندی نے بتایا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ادارہ منہاج القرآن کے تمام تعلیمی، تربیتی پروگرامز ’’نو پرافٹ، نو لاس‘‘ کی بنیاد پر روبہ عمل آتے ہیں، ہم صرف اتنی فیسیں وصول کرتے ہیں جن سے بچوں کی ضروری دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ انتظامی اخراجات پورے ہو سکیں۔ الحمدللہ! اللہ تعالیٰ اس کام میں برکت ڈال رہا ہے اور ہم بچوں کو اچھا کھانا کھلانے، اچھی رہائش دینے کے ساتھ ساتھ انہیں معیاری تعلیم دینے میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔
ہمارا فیس سٹرکچر سالہا سال کے لئے ایک ہی ہوتا ہے اور ایک بجٹ بنا دیاجاتا ہے جس کے مطابق ہم اپنے اخراجات کرتے ہیں لیکن جب اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھتی ہیں یا بجلی گیس کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ہمارے لئے بھی کئی معاشی مسائل سر اٹھاتے ہیں، لیکن اس صورتِ حال میں دیگر تعلیمی اداروں کی طرح ہم مہنگائی کا رخ طلبہ کی طرف نہیں موڑتے بلکہ ایسے مواقع پر ہمیں قیادت کی توجہ اور اعانت میسر آتی ہے، جس کی وجہ سے ہم اس بحران کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں اس موقع پر حکومت سے بھی یہ کہوں گا کہ بچوں کو تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے، اگر ریاست کسی وجہ سے یہ ذمہ داری پوری نہیں کرپارہی تو کم از کم ان جماعتوں، تحریکوں اور انسٹی ٹیوشنز کے لئے مہنگائی اور گرانی کی شکل میں مسائل کھڑے نہ کرے جو اخلاص اور دردمندی کے ساتھ بچوں کو زیورِ علم سے آراستہ کررہے ہیں۔
اسی طرح کچھ بچے ذہین ہوتے ہیں اور ان کے اندر قرآن حفظ کرنے کا جذبہ بھی دیدنی ہوتا ہے مگر وہ فیس ادا نہیں کر پاتے تو ایسے بچوں کی مدد کے لئے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ذریعے فنانس کا بندوبست کیا جاتا ہے اور سٹوڈنٹ ویلفیئر بورڈ قائم کیا گیا ہے جو مستحق بچوں کی تعلیم کو جاری رکھنے میں اعانت مہیا کرتا ہے۔
علامہ محمد عباس نقشبندی نے بتایا منہاج انسٹی ٹیوٹ آف قرأت اینڈ تحفیظ القرآن 7 اپریل 1994ء میں قائم ہوا اور اس کے تحت منہاج القرآن ماڈل ہائی سکول (لڑکوں کے لئے) 2 اپریل 1998ء میں قائم کیا گیا۔ اس عظیم الشان انسٹی ٹیوٹ میں مختلف اوقات میں خدمات انجام دینے والوں کا بھی میں بطور خاص آج ذکر کروں گا جنہوں نے اپنے اپنے ادوار میں اللہ کی توفیق سے اس انسٹی ٹیوٹ کی خدمت کی اور آج یہ انسٹی ٹیوٹ حفظ کا ایک بہترین ادارہ بن کر موجود ہے۔ ان میں بشیر احمد خان لودھی، ولایت حسین قیصر، ایم زاہد چودھری، مسکین فیض الرحمن درانی (مرحوم)، میجر (ر) نور احمد، حاجی غلام مصطفی، پروفیسر ایم رفیق سیال، احمد نواز انجم، سکوارڈن لیڈر (ر) عبدالعزیز، ایم افضل کانجو، پروفیسر محمد اشرف، طاہر سرور، حافظ نیاز احمد شامل ہیں اور اب اس انسٹی ٹیوٹ میں خدمات سر انجام دینے کی سعادت مجھے میسر ہے۔
اللہ تعالیٰ جس شخصیت پر اپنے انعامات کی بارش کرتا ہے تو اس کی سوچ اور فکر کو فروغ دینے کی توفیق بھی مہیا کرتا ہے۔ میری مراد ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اللہ رب العزت نے نیک، صالح، فرمانبردار اور متقی اولاد کی نعمت سے نوازا ہے جو اپنے عظیم والدین گرامی کے خدمتِ دین اور خدمتِ انسانیت کے مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری شامل ہیں۔ تحفیظ القرآن کے معیار اور سہولتوں کی بہتری کے لئے ہمیں ہمہ وقت ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی سرپرستی اور رہنمائی میسرہے اور بچوں کی فکری اور روحانی تربیت کے لئے ہمیں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی ہمہ وقت سرپرستی میسر رہتی ہے۔ ان قائدین کی رہنمائی اور ہدایت کی روشنی میں تحفیظ القرآن کو روایتی اداروں سے مختلف بنایا گیا ہے۔ اس ادارہ کا بنیادی امتیاز یہ ہے کہ حفظ القرآن کے ساتھ سکول کی تعلیم کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے اور طلبہ کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی نظامِ تعلیم کا بطورِ خاص حصہ ہے۔