حج کا لغوی معنی ’’القصد‘‘ (ارادہ کرنا) ہے۔ جبکہ اصطلاح میں حج کا معنی ہے کہ:
هُوَ عِبَارَةٌ عَنِ الْاَفْعَالِ الْمَخْصُوْصَةِ مِنَ الطَّوَافِ وَالْوُقُوْفِ فِي وَقْتِهِ، مُحْرَماً بِنِیَّةِ الْحَجِّ سَابِقاً.
’’حج افعال مخصوصہ مثلاً طواف اور وقوف اپنے وقت میں بحالت احرام پہلے سے ہی حج کی نیت سے ادا کرنے سے عبارت ہے‘‘۔
الفتاوی الهندیةِ، 1: 216
قرآن وحدیث میں حج کی فضیلت واہمیت
حج اسلام کا بنیادی رکن ہے یہ ہر اس شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو صاحب استطاعت ہو۔ حج، اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ایسا رکن ہے جو اجتماعیت اور اتحاد و یگانگت کا آئینہ دار ہے۔ قرآن کریم میں حج کی فرضیت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَ ِﷲِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلاً
’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘۔
آل عمران: 97
حج کرنے والے کے لئے جنت ہے۔ حجاج کرام خدا کے مہمان ہوتے ہیں اور ان کی دعا قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔ یہ نفوس ہر قسم کی برائی کا خاتمہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے نیکیوں کے حصول کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زندگی میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تو وہ رب کائنات کی رحمتوں سے نہ صرف محروم ہوجاتا ہے بلکہ ہدایت کے راستے بھی اس کے لئے مسدود ہوجاتے ہیں۔
کتب احادیث میں سے ایسی کثیر روایات ہیں جن میں حج کی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ان میں سے چند ایک روایات ذیل میں درج کی جارہی ہیں:
- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا‘‘
عرض کی گئی: پھر کونسا ہے؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘
قِیلَ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: حَجٌّ مَبْرُورٌ
’’عرض کی گئی کہ پھر کونسا ہے؟ فرمایا کہ حج جو برائیوں سے پاک ہو۔‘‘
بخاري، الصحیح، 1:18 ، رقم:27
- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
مَنْ حَجَّ لِلّٰهِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ.
’’جو رضائے الٰہی کے لیے حج کرے جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب۔ وہ ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے ابھی جنا ہو۔‘‘
مسلم، الصحیح، 2: 983 ، رقم: 1350
- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلْعُمْرَةِ إِلَی الْعُمْرَةِ کَفَّارَةٌ لِمَا بَیْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلاَّ الْجَنَّةِ.
’’ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کا درمیانی عرصہ گناہوں کا کفارہ ہے، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ جنت ہی ہے۔‘‘
بخاري، الصحیح، 2: 929، رقم: 1683
- استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ کرم سے نکال دیتا ہے۔حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ لَمْ یَمْنَعْهُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ، فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَآءَ یَهُوْدِیًّا وَإِنْ شَآءَ نَصْرَانِیًّا.
’’جس شخص کو فریضۂ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (یعنی سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر ہی) مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے)۔‘‘
ترمذي، السنن، 3: 176، رقم: 812
- اس عظیم سعادت کو حاصل کرنے والے کو بخشش کی نوید سناتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ ﷲِ. إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوْهُ غَفَرَ لَهُمْ.
’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، 2: 9، رقم: 2892
- حجاج کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ دَخَلَ الْبَیْتَ دَخَلَ فِي حَسَنَةِ وَخَرَجَ مِنْ سَیِّئَةِ مَغْفُوْرًا لَهُ.
’’جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوگیا وہ نیکی میں داخل ہوگیا اور برائی سے خارج ہو کر مغفرت پا گیا۔‘‘
ابن خزیمةِ، الصحیح، 4: 332
- حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا لَقِیتَ الْحَاجَّ فَسَلِّمْ عَلَیْهِ وَصَافِحْهُ وَمُرْهُ أَنْ یَسْتَغْفِرَ لَکَ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بَیْتَهُ فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ.
’’جب تم حاجی سے ملو تو اسے سلام اور مصافحہ کرو اور اسے گھر داخل ہونے سے پہلے اپنے بخشش کی دعا کی درخواست کرو کہ وہ بخشا ہوا ہے۔‘‘
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 69، رقم: 5371
- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ خَرَجَ حَاجّاً أَوْ مُعتَمِراً أوْ غَازِیاً ثمَّ مَاتَ فِی طریقِه کَتَبَ ﷲُ لَهٗ أجْرَ الغازِی وَالْحَاجِّ وَالْمُعْتَمِرِ.
’’جو مسلمان حج یا عمرہ یا جہاد کی نیت سے نکلا اور راستہ میں مرگیا، اللہ اس کے لئے حج ، عمرہ یا جہاد کا اجر و ثواب لکھ دیتا ہے۔‘‘
بیهقی، شعب الایمان،3 : 474، رقم: 4100
- حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُلَبِّي إِلَّا لَبَّی مَنْ عَنْ یَمِینِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ حَتَّی تَنْقَطِعَ الْأَرْضُ مِنْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا.
’’جب کوئی مسلمان تلبیہ کہتا ہے اس کے دائیں بائیں تمام پتھر، درخت ڈھیلے تلبیہ کہتے ہیں، یہاں تک کہ زمین اِدھر اُدھر (مشرق و مغرب) سے پوری ہو جاتی ہے۔‘‘
ترمذي، السنن، 3: 189، رقم: 828
اقسام حج
ادائیگی کے طریقہ کے لحاظ سے حج کی تین اقسام ہیں:
- افراد: اس طریقے کو کہتے ہیں جس میں حج کا احرام باندھا جاتا ہے، حج کرنے والا اس میں عمرہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف حج ہی کرسکتا ہے اور احرام باندھنے سے حج کے اختتام تک مسلسل احرام کی شرائط کی پابندی ضروری ہے۔
- قِران: حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا جاتا ہے۔ مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ کیا جاتا ہے اور پھر اسی احرام میں حج ادا کرنا ہوتا ہے۔
- تمتع: وہ طریقہ حج ہے جس میں حج اور عمرہ کو ساتھ ساتھ اس طرح ادا کیا جاتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کی حالت سے باہر آسکتا ہے اور پھر حج کے لئے 8 ذی الحجہ کو حج کے ارادے سے احرام باندھتا ہے اور یہ سب سے آسان حج ہے۔
فرائض و واجباتِ حج
- فرائضِ حج درج ذیل ہیں:
- احرام باندھنا
- وقوفِ عرفات
- طواف زیارت کرنا
- ان تینوں فرائض کو مقررہ مقامات اور مقررہ اوقات میں ترتیب سے ادا کرنا۔
- سات چیزیں حج کے واجبات میں شامل ہیں:
- مزدلفہ میں ٹھہرنا
- جمرات کو کنکریاں مارنا
- اگر حج قِران یا حج تمتع کی نیت کی ہے تو قربانی کرنا
- سر کے بال منڈاونا یا کترانا
- صفا اور مروہ کے درمیان طوافِ سعی کرنا
- طواف و داع کرنا
- طواف زیارت کے سات چکر پورے کرنا
ان واجبات میں سے کوئی واجب بھی ترک ہوجائے تو ایک قربانی دینا ضروری ہے۔
ایامِ حج اور ارکانِ حج کی ادائیگی
8 ذی الحجہ سے 12 ذی الحجہ کے پانچ دن ایام حج کہلاتے ہیں۔ انہی ایام میں حج کے جملہ مناسک ادا کرنا ہوتے ہیں۔ان کی تفصیل یہ ہے:
- 8 ذالحجہ: منیٰ کو روانگی
حجاج 8 ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں نماز فجر ادا کرکے سورج نکلتے ہی منیٰ کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔ سفر میں تلبیہ کی کثرت کی جاتی ہے۔ منی پہنچ کر ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھنے کے بعد رات یہیں قیام کرتے ہیں اور 9 ذی الحجہ کی نماز فجر بھی منیٰ میں ادا کرتے ہیں۔
- 9 ذی الحجہ: وقوف عرفات
نماز فجر منیٰ میں ادا کرنے کے بعد سورج نکلنے پر عرفات کی طرف روانگی ہوتی ہے اور عرفات میں ظہر و عصر کی نمازیں ظہر کے وقت ملاکر پڑھی جاتی ہیں۔ میدان عرفات میں اسی قیام کو وقوف عرفات کہتے ہیں جو حج کا سب سے اہم رکن ہے۔ اگر کسی وجہ سے 9 ذی الحجہ کے دن یا اس رات بھی کوئی یہاں پہنچنے سے رہ جائے تو اس کا حج نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی تلافی کی کوئی گنجائش ہے۔
مزدلفہ میں قیام: اس دن غروب آفتاب کے وقت عازمین مغرب کی نماز پڑھے بغیر مزدلفہ روانہ ہوجاتے ہیں۔ مزدلفہ میں نماز عشاء کے وقت میں مغرب و عشاء کی نماز جمع کرکے پڑھی جاتی ہیں۔ رات مزدلفہ میں ہی قیام ہوتا ہے۔
- 10 ذی الحجہ: منٰی روانگی
فجر کی نماز کے بعد مزدلفہ میں توقف کرنا واجب ہے۔ بعد ازاں عازمین منیٰ کو روانہ ہوتے ہیں۔ منیٰ پہنچ کر حجاج کرام کو تین واجبات بالترتیب اداکرنے ہوں گے۔
- بڑے شیطان کو کنکریاں مارنا۔
- رمی سے فارغ ہونے کے بعد قربانی کرنا۔
- قربانی کے بعد سرمنڈاوانا یا کتروانا
اس کے بعد احرام کھول کر عام لباس پہن لیا جاتا ہے اور حجاج سے احرام کی سب پابندیاں (سوائے مباشرت کے) ختم ہوجاتی ہیں۔
- طوافِ زیارت اور سعی
حجاج احرام کھولنے کے بعد مکہ مکرمہ میں چوتھا رکن طوافِ زیارت ادا کرتے ہیں۔ یہ حج کے فرائض میں شامل ہے اور 12 ذی الحجہ کا آفتاب غروب ہونے تک جائز ہے اس کے بعد دم (قربانی) واجب ہوگا اور فرض بھی ذمہ رہے گا۔
- طواف زیارت کے بعد صفا و مروہ کی سعی کرنا واجب ہے۔
- منیٰ واپسی
طواف زیارت و سعی کے بعد دو رات اور دو دن منیٰ میں قیام کرنا سنت موکدہ ہے۔ مکہ میں یا کسی اور جگہ رات گزارنا ممنوع ہے۔ گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو ایام رمی، کہتے ہیں۔ ان تینوں تاریخوں میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے۔ رمی کا وقت زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک ہوتا ہے۔ پہلے جمرہ اولیٰ پر پھر جمرہ وسطیٰ اور بعد ازاں جمرہ عقبہ پر۔ پھر مکہ واپسی ہوتی ہے۔
- طوافِ وداع
یہ حج کا آخری واجب ہے جو صرف میقات سے باہر رہنے والوں پر واجب ہے کہ جب وہ مکہ سے رخصت ہونے لگیں تو آخری طواف کرلیں۔
- مدینہ منورہ روانگی
مکہ میں مناسک حج کی تکمیل کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کی حاضری کے لئے عشاق مدینہ منورہ روانہ ہوجاتے ہیں۔
قربانی کی اہمیت و فضیلت
قربانی کی لغوی اور اصطلاحی تعریف یہ ہے:
اَلْقُرْبَانُ مَایَتَقَرَّبُ بِهِ اِلَی ﷲِ وَصَارَ فِی التَّعَارُفِ اِسْماً لِلنّسِیْکَةِ الَّتِیْ هِیَ الذَّبِیْحَةِ.
’’قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے،اصطلاح شرع میں یہ قربانی جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔‘‘
أصفهاني، المفردات، 399
قرآن پاک میں قربانی کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَلِکُلِّ اُمَّةِ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوْ اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَارَزَقَهُمُ اللّٰهُ مِنْم بهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ.
’’اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں، اس کے دیئے ہوئے بے زبان چوپائیوں پر۔‘‘
الحج، 22: 34
اللہ تعالیٰ نے قربانی کرنے کے طریقہ سے آگاہ اور اسکے تقسیم کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ ﷲِ لَکُمْ فِیْهَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ ﷲِ عَلَیْهَا صَوَآفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَکُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰهَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo
الحج، 22: 36
’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے اﷲ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے ان میں تمہارے لیے بھلائی ہے پس تم (انہیں) قطار میں کھڑا کرکے (نیزہ مار کر نحر کے وقت) ان پر اﷲ کا نام لو، پھر جب وہ اپنے پہلو کے بل گر جائیں تو تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو (بھی) کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔‘‘
احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:
قربانی کے حوالے سے متعدد احادیث مبارکہ ہماری رہنمائی فرماتی ہیں، جن میں چند ایک درج ذیل ہیں:
- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ من اِهْرَاقِ الدَّم ِواِنَّهٗ لَیَاْتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ بِالْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِهَا نَفْسًا.
’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔‘‘
ابن ماجه، السنن، 2: 1045، رقم: 3126
- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قربانی کرتے وقت دعا فرماتے:
بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ.
’’الٰہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی آل اور آپ کی امت کی طرف سے قبول فرما۔‘‘
مسلم، الصحیح، 3: 1557 ، رقم: 1967
- دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:
اَللّٰهُمَّ هٰذَا عَنِّیْ وَعَمَّنْ لَّمْ یُضَحِّ مِن اُمَّتِیْ.
’’الٰہی یہ میری طرف سے اور میرے ان امتیوں کی طرف سے قبول فرما جو قربانی نہیں کرسکے‘‘۔
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 356، رقم: 14880
سبحان اللہ! اغنیائے امت کو ان کی قربانیاں مبارک ہوں۔ خدا کرے و ہ حلال کمائی سے ہوں۔ خلوص سے ہوں، عمدہ ہوں اور قبول ہوں۔ فقرائے امت کی خوش نصیبی دیکھئے ان کے احساس محرومی کا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے قربانی دے کر ہمیشہ کے لئے ازالہ فرمادیا۔ تاکہ کوئی غریب مسلمان یہ سوچ کر احساس کمتری کا شکار نہ ہو کہ اہل ثروت نے قربانی کا سارا ثواب حاصل کرلیا اور ہم محروم رہے۔
- آقائے کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے جانوروں کو لٹا کر یہ پڑھا:
اِنِّی وجَّهْتُ وَجَهْیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوْاتِ وَالْاَرْضَ عَلٰی مِلَّةِ اِبْرَاهِیْمَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ. اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔َ لاَ شَرِیْکَ لَهٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ. اَللّٰهُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّاُمّتِهٖ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ.
’’بے شک میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ملت ابراہیم پر یکسو ہوکر اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔ بے شک میری نماز اور قربانی میری زندگی اور موت اللہ پروردگار عالمیاں کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ الہی تجھ سے اور تیرے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی امت کی طرف سے اللہ کے نام سے اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ پھر ذبح فرمایا۔‘‘
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 375، رقم: 15064
- حنش کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا، میں نے پوچھا یہ کیا؟ فرمایا:
اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَوْصَانِیْ اَنْ اُضَحِّی عَنْهُ۔فَاَنَا اُضَحِّ عَنْهُ.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس بات کی وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور کی طرف سے قربانی کروں۔سو میں سرکار کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں‘‘۔
أبي داود، السنن، 3: 94، رقم: 2790
سبحان اللہ، کیسے سعادت مند ہیں وہ اہل خیر، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، رسول محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے آج بھی عمدہ قربانی دیتے ہیں۔ یقینا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح خوش ہوگی اور یقینا اس کے طفیل ان کی اپنی قربانی بھی شرف قبول پائے گی۔ اللہ توفیق دے۔
- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟
قَالَ سُنَّةِ اَبِیْکُمْ اِبْرَاهِیْمَ عِلیه السَّلاَمُ قَالُوْا فَمَالَنَا فِیْهَا یَارَسُوْلَ اللّٰهِ بِکُلِّ شَعْرَةِ مِّنَ الصُّوْفِ حَسَنَةٌ.
’’فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ ہمارے لئے ان میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی عرض کی: یارسول اللہ! اون کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: اون کے بدلے نیکی ہے۔‘‘
أحمد بن حنبل، المسند، 4: 368، رقم: 19302
- حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ! یہ بتائیں کہ اگر میرے پاس منیحہ مؤنث (وہ جانور جو کوئی شخص دوسرے کو دودھ، اون وغیرہ کا فائدہ اٹھانے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے دے، بعد میں واپس کرلے) کے سوا کچھ نہ ہو، کیا اسی کی قربانی کردوں؟
قَالَ لاَ وَلٰکِنْ خُدْ مِنْ شَعْرِکَ وَاَظْفَارِکَ وَتَقُصَّ شَارِبَکَ وَتَحَلْقَ عَانَنَکَ فَذٰلِکَ تَمَامُ اُضْحِبْتُکَ عِنْدَاللّٰهِ.
فرمایا: نہیں، تم اپنے بال اور ناخن تراشوائو، مونچھیں ترشوائو (نہ کہ مونڈھوائو) زیر ناف بال مونڈھو۔ اللہ کے ہاں تمہاری یہی مکمل قربانی ہے۔
أبي داود، السنن، 3: 93، رقم: 2789
سبحان! قربانی کا مفہوم کتنا عام فرمادیا کہ اہل ثروت بھی عمل کرسکیں اور عام مفلس مسلمان بھی۔ خیروبرکت کا ایسا دریا بہہ رہا ہے کہ ہر پیاسا سیراب ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خوش دلی کے ساتھ اس فریضہ کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔