پانی ایک ایسی نعمت ہے جس پر تمام جانداروں کی زندگی کا انحصار ہے۔ انسانی زندگی میں پانی کو ہمیشہ بڑی اہمیت رہی ہے۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ تمام بڑے شہر اور قصبے دریاؤں وغیرہ کے قریب ہی آباد ہوئے۔ انسانی خوراک کا زیادہ تر دارومدار زراعت یعنی زمین سے حاصل ہونے والی اجناس پر ہے اور زراعت کے لیے پانی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور ہمارے لیے پانی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ پانی کے محفوظ، دیرپا اور محفوظ استعمال کا دنیا بھر میں معروف طریقہ ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں بہنے والے زیادہ تر دریاؤں کا منبع بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں ہے اور ماضی میں بعض حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ایک طرف بھارت دن بدن ہمارے پانیوں پر قابض ہوتا چلا جارہا ہے تو دوسری جانب ہم دستیاب آبی وسائل کے بہتر استعمال کے خود کو قابل نہیں بناسکے۔ بانی پاکستان قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ پانی کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے اور اسی لیے آپ نے کشمیر کو پاکستان کہ شہ رگ قرار دیا تھا اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں آپ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نہایت فکر مند تھے۔
بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمارے حصے میں آنے والے دریاؤں پر بھی جگہ جگہ ڈیم اور آبی ذخائر تعمیر کرکے پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کرنے کے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ صدر ایوب نے ستمبر 1960ء میں بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرلیا حالانکہ 1953ء کو اس معاہدے کو پاکستان کی جانب سے مسترد کردیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت تین دریا راوی، ستلج اور بیاس بھارت کو دے دیئے گئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ دریا عملی طور پر خشک ہوچکے ہیں، صرف بارش کے موسم میں یا بھارت کی جانب سے اضافی پانی چھوڑے جانے پر ان دریاؤں میں کچھ روانی آتی ہے۔ بھارت نے صرف ان ہی تین دریاؤں پر بس نہیں کیا بلکہ بڑے بڑے ڈیم اور ہائیڈل پاور پراجیکٹ بناکر دریائے چناب اور دریائے جہلم کا بہت زیادہ پانی بھی روکنا شروع کردیا ہے جوسندھ طاس معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر اور دیگر علاقوں میں 50 سے زائد ڈیم تعمیر کرکے پاکستان کے حصے کا پانی روک رہا ہے۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بھارت نے پاکستانی دریاؤں پر ڈیم تعمیر کرکے اور رابطہ نہریں بناکر پاکستان کے حصے کا پانی بھارت ہی میں روکنے کا انتظام کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی دریا خشک ہوتے چلے جارہے ہیں اور پاکستان پانی کی شدید کمی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ ایشیا میں بہترین نہری نظام رکھنے کے باوجود پاکستان بہت سی سبزیاں اور اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہے۔
گذشتہ کئی عشروں سے ملکی و غیر ملکی ماہرین حکومت پاکستان کو بار بار خبردار کرتے چلے آرہے ہیں کہ اگر پاکستان نے آبی وسائل کے حوالے سے موثر منصوبہ بندی نہ کی اور بڑے ڈیم تعمیر کرکے موجودہ آبی وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کئے تو آنے والے برسوں میں ملک میں پانی کی قلت اس حد تک بڑھ جائے گی کہ آبپاشی تو درکنار، پینے کا پانی بھی وافر مقدار میں دستیاب نہ ہوگا۔ پاکستان چونکہ بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور اس کی تقریباً 70 فیصد آبادی زراعت پیشہ ہے، اس لیے پاکستان کے لیے پانی کی بلا رکاوٹ دستیابی ناگزیر ہے۔ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کی بدولت ہی ملکی صنعت کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے مگر کتنا افسوس ہے کہ براعظم ایشیا میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے مثالی نہری نظام رکھنے کے باوجود ہم زرعی اجناس بیرون ملک سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب سے پاکستانی قوم کو کئی کئی گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ برداشت کرنا پڑ رہی ہے جس سے کاروباری اور صنعتی سرگرمیاں مفلوج ہوکر رہ گئی ہیں۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم تربیلا اور منگلا کے بعد کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کرسکے۔
دنیا میں ہر ملک اپنی معاشی اور اقتصادی ترقی کے لیے دریاؤں میں بہنے والے 30 سے 40 فیصد پانی کو ذخیرہ کرکے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے جبکہ پاکستان صرف 12 فیصد تک پانی کو ذخیرہ کررہا ہے اور اس میں بھی کمی آرہی ہے۔ دنیا میں پانی کے ایک ایک قطرے کو محفوط رکھنے کا بھرپور انتظام کیا جاتا ہے کیونکہ وہ پانی کی اہمیت سے آگاہ ہیں لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم قدرت کی طرف سے ملنے والی اس عظیم نعمت کو ٹھکرانے اور اس کی بے ادبی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ہمارا اربوں ڈالر کا پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور فوری طور پرایک دو بڑے ڈیم تعمیر نہ کئے تو پھر شاید بہت تاخیر ہوجائے۔
اس وقت پاکستان میں نئے ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے جو سب سے زیادہ قابل عمل منصوبہ ہے وہ کالا باغ ڈیم کا ہے مگر بدقسمتی سے اس عظیم الشان اور فائدہ مند منصوبے کو سیاست کی بھینٹ چڑھادیا گیا ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس منصوبے پر قومی اتفاق رائے ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس ڈیم پر کام کا آغاز 1953ء میں ہی شروع ہوگیا تھا جو 1989ء تک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔ اس دوران جتنا تحقیقی اور فنی کام اس پراجیکٹ پر ہوا ہے دنیا بھر میں کسی اور آبی منصوبے پر نہیں ہوا۔ اس کی بنیادی تیاریوں اور دیگر امور پر اب تک ایک ارب 20 کروڑ روپے سے زائد خرچ ہوچکے ہیں۔
بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ کالا باغ ڈیم کے لیے اس سے بہتر اور قدرتی جگہ (سائٹ) اور نہیں ہوسکتی۔ اس مجوزہ آبی ذخیرے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پاکستان کے دوسرے آبی ذخیروں کے مقابلے میں اس کی زندگی لامحدود ہوگی۔ تربیلا اور منگلا ڈیم کی عمر اس لیے محدود ہے کہ وہاں گار جمع ہوتی رہتی ہے اور اسے صاف کرنے کا کوئی طریقہ دستیاب نہیں جبکہ کالا باغ ڈیم کی یہ صورت نہیں ہوگی۔ اس کی سائٹ جغرافیائی اعتبار سے کچھ ایسی ہے کہ وہاں ریت جمع نہیں ہوسکے گی۔ قدرتی طور پر پانی کی رفتار بے حد تیز ہوگی جو مٹی کو بہاکراپنے ساتھ لے جائے گی۔ یہی سبب ہے کہ عالمی ماہرین اسے ایک ایسا ڈیم قرار دے رہے ہیں جس کی عمر بہت لمبی اور لامحدود ہوگی۔ ایک دفعہ بن گیا تو عشروں تک اس میں گار بھر جانے کا خطرہ پیدا نہیں ہوگا۔
یہ عظیم الشان آبی منصوبہ کسی ایک صوبے یا کسی ایک علاقے سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس کی تعمیر سے پورے ملک اور پوری قوم کا مستقبل وابستہ ہے۔ کالا باغ ڈیم سے پاکستان کو بہت سستی بجلی دستیاب ہوگی جو 60 سے 70 پیسے فی یونٹ پڑے گی۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنی فصلوں کے لیے بھی وافر آبِ حیات میسر آئے گا۔
ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی دلچسپی اور فنڈ کا قیام خوش آئند ہے۔ یہ کام پارلیمنٹ کے کرنے کا تھا مگر شاید پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہوؤں کو چوروں، لٹیروں کے تحفظ سے فرصت نہیں۔