13 جولائی 2018ء کا دن اس اعتبار سے انتہائی اہم ہے کہ لاہور کے عوام نے کرپشن اور ناجائز اثاثے رکھنے کا جرم ثابت ہونے پر شریف خاندان کیلئے سڑکوں پر آنے سے انکار کر دیا اور اپنا ووٹ کرپشن کے خلاف دیا۔ نواز لیگ کی لیڈر شپ نے پورے پاکستان سے لاکھوں بندے لاہور لانے کیلئے ایڈوانس بانٹے، تمام جتن کیے لیکن پاکستان سے تو کیا لاہور سے بھی عوام نے کرپٹ خاندان کیلئے نکلنے سے انکار کر دیا اور 13 جولائی کے دن لاہور کے سوا ملک کے کسی حصے میں بھی چند درجن لوگ کرپٹ نواز شریف کیلئے باہر نہیں نکلے۔ لاہور سے نکلنے والی ریلی جس کی قیادت شہباز شریف کررہے تھے، پٹواریوں اور خوشامدیوں پر مشتمل تھی۔ اس ریلی کی کیا سیاسی حیثیت اور اہمیت تھی اس حوالے سے میڈیا، سینئر صحافی تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں اور اسے ایک بدترین، ناکام شو قرار دے چکے ہیں۔ 13 جولائی کے دن شریف خاندان کی کرپشن کیخلاف ریلی کا حصہ نہ بن کر لاہور کے عوام نے پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جس پر پنجاب بالخصوص لاہور کے عوام مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ملک کے دیگر عوام کی طرح لاہور کے عوام بھی جان گئے ہیں کہ شریف خاندان سیاست کے نام پر منی لانڈرنگ کا کاروبارکرتا ہے اور ریاستی اثر و رسوخ بروئے کار لا کر دنیا بھر میں ناجائز اثاثے بناتا ہے۔ ایون فیلڈ اس کی جیتی، جاگتی مثال ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ماسٹر مائنڈ سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے 13 جولائی کی ناکام ریلی کے حوالے سے مضحکہ خیز الزام لگایا ہے کہ 13 جولائی کی ریلی کو ناکام بنانے کیلئے پنجاب پولیس نے اندھا دھند گرفتاریاں اور پکڑ دھکڑ کی۔حالانکہ ان کے اس الزام کا بھانڈا بھی لاہور ہائیکورٹ میں پھوٹ چکا ہے کہ پولیس نے صرف 141 لوگوں کو پکڑا جن میں کوئی اہم عہدیدار شامل نہیں تھا۔ بہرحال قاتل اعلیٰ شہباز شریف کو اپنی تربیت یافتہ پنجاب پولیس کے خلاف بیان بازی کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے، یہ وہی پولیس ہے کہ:
- جس کی شہبازشریف نے مسلسل 10 سال سرپرستی کی اور پنجاب کے تھانہ اور پولیس کلچر کو بدلنے کے لیے سرکاری خزانے سے 10 سالوں میں کم وبیش 8سو ارب روپے کے فنڈز نکلوائے۔
- یہ وہی پنجاب پولیس ہے جس نے شہباز شریف کے حکم پر 17 جون 2014 کے دن پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی دفتر کے سامنے پرامن کارکنوں پر فائر کھولا،100لوگوں کو گولیاں ماریں، 14کو شہید کیا۔
- شہباز شریف کی تربیت یافتہ اس پولیس نے ان زخمی کارکنوں پر بھی لاٹھیاں اور ڈنڈے برسائے جنہیں ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے طبی امداد دینے کے لیے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔
- شہباز شریف کی اس تربیت یافتہ پولیس نے 17 جون 2014 کے دن درجنوں زخمی کارکنوں کو اٹھایا اور لاہور کے مختلف تھانوں اور نجی عقوبت خانوں میں رات بھر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اگلی صبح ان نیم مردہ کارکنوں کو لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں پھینک دیا۔
- شہباز شریف کی اسی تربیت یافتہ پنجاب پولیس نے 17جون کے سانحہ کی ایف آئی آر درج کرنے سے ناصرف انکار کیا بلکہ تھانہ فیصل ٹاؤن لاہور میں ایف آئی آر نمبر 510 درج کی کہ عوامی تحریک کے 42 کارکنوں نے اپنے کارکنوں کو فائرنگ کر کے قتل وزخمی کیا۔
- شہباز شریف کی اس تربیت یافتہ پولیس نے 20 جون 2014 تا 23 جون 2014ء 3 یوم تک پنجاب کو عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنان کے لیے نوگو ایریا بنایا، پورے پنجاب کو کنٹینر کھڑے کر کے سیل کر دیا، ایک ضلع کا دوسرے ضلع سے رابطہ ختم کر دیا، ہزاروں کارکن گھروں سے اٹھا لیے گئے، چادر اور چار دیواری کے تقدس کی دھجیاں اڑائیں۔ یہ ساری پکڑ دھکڑ اس لیے تھی کہ کارکن اپنے قائد کے استقبال کے لیے اسلام آباد یا لاہور ایئر پورٹ نہ آسکیں۔
- شہباز شریف کی اسی پولیس نے 10 اگست تا 14 اگست 2014ء کو ایک بار پھر کریک ڈاؤن کیا، چھاپے مارے، پنجاب کو کنٹینروں سے سیل کردیا تاکہ کارکن یومِ شہداء میں شریک نہ ہوسکیں، اپنے پیاروں کے لیے فاتحہ خوانی نہ کرسکیں۔ماڈل ٹاؤن لاہور کو نو گو ایریا بنا دیا گیا۔ 7 یوم تک ماڈل ٹاؤن کا محاصرہ کیا گیا۔ اس عرصہ کے دوران سربراہ عوامی تحریک پر 40 کے قریب مقدمات قائم ہوئے، کارکنوں پر پنجاب کے مختلف تھانوں میں سینکڑوں دہشتگردی کے مقدمات درج کئے گئے۔ اس سارے کریک ڈاؤن اور انتظامیہ کے پر تشدد کردار کے باعث ہزاروں کارکن گرفتار ہوئے، حبس بے جا میں رکھے گئے۔
13 جولائی کی ریلی ناکام بنانے کیلئے اپنی ہی تربیت یافتہ پولیس پر الزام تراشی کرنے والے شہباز شریف بتائیں کہ ان کے کتنے لوگوں کو پولیس نے قتل کیا۔۔۔؟ کتنی خواتین کے بال اور دوپٹے نوچے۔۔۔؟ کتنے کارکن آج دہشتگردی کی دفعات کے تحت جیلوں میں بند ہیں۔۔۔؟ ن لیگ سے تعلق رکھنے والے کتنے بوڑھوں کی پولیس کے ڈنڈوں سے ہڈیاں ٹوٹیں۔۔۔؟ کتنے کارکن گھروں سے اٹھائے گئے۔۔۔؟ تاکہ پتہ چلے کہ وہ کون سا ایسا ظلم ہے جو پولیس نے ن لیگ کے کارکنوں کے ساتھ کیا اور ان کی ریلی ناکام ہو گئی؟
یہ وہی شہباز شریف ہیں کہ جن کی سرپرستی میں عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنان کے ساتھ یہ سارے مظالم ہوئے۔ کرسی بچانے کیلئے شریف خاندان نے کارکنوں کو قتل کروایا اور آج بھی ان کے ورثاء انصاف کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ شہبازشریف کن مظالم کی بات کرتے ہیں؟
شہباز شریف تو13جولائی کو ایک قومی مجرم کے استقبال اور اسے گرفتاری سے بچانے کے لیے ایئر پورٹ کا محاصرہ کرنا چاہتے تھے لیکن 17 جون 2014ء کے دن عوامی تحریک کے کارکنان نے کون سا ایسا غیر قانونی کام کیا تھا کہ ماڈل ٹاؤن کو خون میں نہلا دیاگیا؟ 23 جون 2014ء کے دن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کون سا ملکی قانون توڑا تھا کہ شریف برادران ان کے طیارے کو اترنے نہیں دے رہے تھے؟ ان کے طیارے کو اسلام آباد کی فضاؤں میں چکر لگوائے گئے، کئی گھنٹے طیارے کو یرغمال بنائے رکھا۔ شریف برادران نے جس طرح لندن فلیٹس کی خریداری کی جعلی منی ٹریل دی اسی طرح ان کی مظلومیت کی داستانیں بھی جعلی ہیں۔ اس خاندان کے افراد سرتاپا جھوٹے اور تہمت باز ہیں۔ بہرحال اگر قاتل اعلیٰ پنجاب نے پنجاب پولیس کو اپنا باڈی گارڈ بنانے کی بجائے اسے ایک ادارہ اور غیر سیاسی فورس بنایا ہوتا تو نہ سانحہ ماڈل ہوتا اور نہ آج وہ کوئی شکایت کررہے ہوتے۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 11 جولائی کو سپین پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے درست کہا کہ شریف برادران کی ذلت و رسوائی آسمانی انتقام ہے۔ کرپشن تو یہ 1980ء سے کررہے تھے، ان پر مقدمات بھی بنے مگر گرفت نہ ہوسکی، ان کی گرفت کا آغاز سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد ہوا۔ شہیدوں کا لہو رنگ لا رہا ہے، پانامہ لیکس تو محض ایک بہانہ تھی، نواز شریف کو بے گناہوں کے خون اور مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں نے انجام سے دو چار کیا۔