غریب و ناخواندہ مگر غیرت ایمانی سے سرشار، پرعزم اسلامیانِ برصغیر نے پاکستان کی شکل میں آزادی کی نعمت حاصل کی اور شومئی قسمت کہ نام نہاد پڑھے لکھے غیرتِ ایمانی سے محروم ہوسِ جا و ہوسِ زر میں مبتلا کرپٹ سیاسی ایلیٹ نے اسے معاشی اعتبار سے اغیار کا غلام اور ایک قابل رحم ایسا ملک بنا دیا، جس کے عوام آزادی کے 71 سال گزر جانے کے بعد بھی تعلیم، انصاف اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
آج ہم 71 واں یوم آزادی منارہے ہیں، ہر سال تجدیدِ عہدِ وفا کے عزم کے ساتھ ہم آزادی کا دن گزارتے ہیں مگر جب ہم گزرے ہوئے سال کے ہر دن پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں پستی، زبوں حالی اور پہلے سے زیادہ ابتری نظر آتی ہے اور معکوس ترقی کا یہ عمل رکتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ وہ ملک جو علم، حلم، رواداری، اعتدال، ایثار، یقین محکم، استقامت جیسی اعلیٰ اسلامی، انسانی اوصاف کے مظاہرے سے حاصل کیا گیا، اس میں اعلیٰ و ارفع اوصاف آج ناپید ہیں۔ علم کی جگہ جہالت نے لے لی۔۔۔ حلم کی جگہ کوتاہ نظری اور عدمِ برداشت نے لے لی۔۔۔ رواداری، اعتدال، ایثار، یقینِ محکم جیسے جذبے ہوس زر، خودغرضی اور ابن الوقتی کی نظر ہوگئے۔۔۔ اور قائداعظم محمد علی جناح جیسی مخلص قیادت رکھنے والی قوم کرپٹ کاروباری اور منافع خور ذہنیت کے نرغے میں آگئی۔
یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ کیا بانی پاکستان اور لاکھوں اسلامیانِ برصغیر نے جان، مال، عزت کی قربانی دے کر اس لیے پاکستان بنایا تھا کہ چند درجن خاندان اور ان کی عیاش اولادیں 98 فیصد عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالیں اور قومی وسائل اپنی ذات، جماعت اور خاندان کو مضبوط کرنے کیلئے ذاتی تصرف میں لائیں؟
ہر پانچ سال کے بعد جمہوریت کو مستحکم کرنے کی آڑ میں الیکشن کا ڈھونگ رچاکر فاقہ مست عوام سے ووٹ کی شکل میں لوٹ مار کا لائسنس حاصل کیا جاتا ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا یہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟
کرپٹ سیاسی انتخابی ایلیٹ سے یہ باز پرس کون کرے گا کہ 100 ارب ڈالر کے مقروض ملک کے غریب عوام روٹی کے سستے نوالے، صاف پانی کے ایک گھونٹ سے محروم کیوں ہیں؟
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے چاروں صوبوں بشمول مشرقی پاکستان کے ایک وفاق کی بنیاد رکھی تھی کہ جس کے سارے یونٹ انتظامی ،معاشی اعتبار سے خودمختار ہوں گے اور ان کے حقوق آئین کی شکل میں انہیں بلاروک ٹوک تفویض کیے جائیں گے مگر کرپٹ سیاسی ایلیٹ نے اپنے مفاد کیلئے اس ویژن کو بلڈوز کیا۔ غربت، اقتدار کی رسہ کشی، چھوٹے صوبوں کے ساتھ معاندانہ رویے، ناانصافی اور عدم تحفظ کی وجہ سے قائداعظم کا پاکستان انتشار، تقسیم در تقسیم اور افراتفری کا شکار ہے۔ احساس محرومی سے انتہا پسندی اور دہشتگردی نے جنم لیا، رہی سہی کسر کرپٹ سیاسی ایلیٹ کی بیڈگورننس نے نکال دی اور اس محرومی کے نتیجے میں جنم لینے والے ردعمل کو ایک بار پھر سامراجی قوتیںعلیحدگی پسندی کو بڑھاوا دینے کیلئے استعمال کررہی ہیں۔
70ء کی دہائی میں بنگلہ دیش بنانے کے منصوبے پر کام کرنے والے ’’کے جی بی‘‘ کے ایک افسر بیزمی نوف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا جو آج بھی یو ٹیوب پر دستیاب ہے کہ ’’مشرقی پاکستان کا منصوبہ ہم نے بنایا اور جب ریاست اس طرز کا کوئی منصوبہ بناتی ہے تو پھر Useful Ediot میسر آجاتے ہیں۔‘‘ ان کا اشارہ شیخ مجیب کی طرف تھا اور انہوں نے مشرقی پاکستان کے خلاف لکھنے والے قلمی طوائفوں کا ذکر بھی کیا۔ ایسے ہی کچھ Useful Ediot آج بھی عالمی سامراجی قوتوں اور توسیع پسندی کا ایجنڈا رکھنے والی فورسز کو اپنی خدمات مہیا کرنے کیلئے بے تاب نظر آرہے ہیں۔
پاکستان اپنی آزادی کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، کچھ بنیادی نوعیت کے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، انہی فیصلوں نے پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے، ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ آیا ہم نے اسی نظام کو سینے سے لگا کررکھنا ہے جس نے 1971ء میں پاکستان دولخت کیا، دہشتگردی، خودکش دھماکوں، مذہبی جنونیت، عدمِ برداشت، کرپشن، اقرباپروری، ابن الوقتی کوایک نظام کے طور پر مسلط کیا یا اس نظام سے نجات حاصل کرنی ہے۔۔۔؟ بہرحال اب یہ فیصلے کی گھڑی ہے ورنہ دنیا کے نقشے پر بطور ملک افغانستان بھی موجود ہے، عراق، ایتھوپیا، یمن، فلسطین بھی موجود ہیں۔ ہمیں اپنی آزادی اور خودمختاری پر تحفظ کیلئے بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
Useful Ediot جنہوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے اداروں کو تباہ کیا وہ آج ایک بار پھر عدلیہ اور فوج کے ادارے کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں ایڈوانس کھائے بیٹھے ہیں۔ پاکستان بچانے کیلئے ان منفی عناصر سے نجات کی سبیل کرنا ہو گی ۔ سٹیٹس کو کی قوتوں کو نظام کی تبدیلی کے ذریعے شکست دینا ہوگی اور ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے اس نظام کی قباحتیں دور کرنا ہوں گی۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نظام کے تحت شخصیات ریاست سے زیادہ مضبوط ہوچکی ہیں، اس کا نظارہ ہم پاناما لیکس کے فیصلے میں دیکھ چکے ہیں کہ ایک خاندان اپنی کرپشن چھپانے کیلئے تمام اداروں کو آنکھیں دکھارہا ہے۔
نواز شریف خاندان بالآخر احتساب عدالت کے فیصلے کی روشنی میں گرفتار ہوچکا، نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی کو 8 سال اور داماد کو 1 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے اور مجموعی طور پر 165 کروڑ روپے جرمانہ کیا گیاہے۔ احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں حکم دیا کہ لندن فلیٹس ضبط کر لیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی سنایا گیا کہ ملزمان کسی بینک سے مالی فائدہ حاصل نہیں کر سکیں گے اور دس سال تک کوئی عوامی عہدہ بھی نہیں رکھ سکتے جبکہ نواز شریف کے بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کو دائمی اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔ فیصلہ کے مطابق حسین نواز نے تسلیم کیا کہ وہ لندن فلیٹس کے مالک ہیں اور مریم نواز کی جانب سے جمع کرائی گئی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ثابت ہوئی اور انہیں والد کے اثاثے چھپانے کے جرم میں معاون قرار دیا گیا۔
فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ کبھی بھی ملزمان نے قطری خطوط کے ذریعے لندن جائیداد کا پہلے کبھی ذکر نہیں کیا۔ یہ جائیدادیں 1993ء سے اس خاندان کے پاس ہیں جبکہ 1993ء میں مریم کی عمر 20، حسین 17 سال اور حسن نواز کی عمر 15 سال تھی۔ یہ طالب علم 15 اور 17 سال کی عمر میں اربوں روپے مالیت کے قیمتی اپارٹمنٹس کے کیسے مالک بنے؟ یہ ایک سوال تھا جو 6 مہینے تک جے آئی ٹی میں اور 9 مہینے تک احتساب عدالت میں پوچھا جاتا رہا مگر نواز شریف اور مریم صفدر سمیت شریف خاندان کا کوئی فرد اس کا جواب نہ دے سکا۔ احتساب عدالت کا فیصلہ 174 صفحات پر مشتمل ہے جس میں شریف خاندان کے جرائم کی روداد رقم ہے۔
بلاشبہ کرپشن کے انسداد کے حوالے سے احتساب عدالت کا فیصلہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ پہلی بار انتہائی چالاک، عیار شریف خاندان کے خلاف عدالت نے فیصلہ سنایا اور ملزمان کو اوپن کورٹ میں 9 مہینے تک صفائی پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔ نواز شریف اور ان کے حواریوں نے ٹرائل کورٹ کی قانونی کارروائی کو میڈیا ٹرائل کے ذریعے متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ ججز پر رکیک حملے کیے، عدلیہ کے وقار کو مجروح کیا، یہاں تک کہ قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف تاریخ کی بدترین مہم چلائی۔ میڈیا ہاؤسز، صحافیوں، کالم نویسوں،اینکرز پرسنز، سیاسی، سماجی ،قانونی شخصیات کی بولیاں لگانے کی کوشش کی۔ ان سارے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈے کا مقصد اپنے مالی جرائم سے توجہ ہٹانا تھا اور اس ضمن میں نواز شریف اور ان کی بیٹی نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نام پر پر اداروں کی بے توقیری پر مبنی بدترین مہم بھی چلائی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عوامی سطح پر عدلیہ، ججز اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف گالم گلوچ کیا۔ اس پر ان کے حواریوں کو توہین عدالت پر سزائیں بھی ہوئیں۔
مریم بی بی نے تو قومی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہر حد عبور کی، بالخصوص سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سپریم کورٹ اور فوج کیخلاف بدترین مہم چلائی اور اس مقصد کیلئے پی آئی ڈی، وزارت اطلاعات، پی ٹی وی ،پیمرا کے سرکاری وسائل اورافرادی قوت کو استعمال کیا گیا۔
نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے اپنی ناجائز دولت اور اثاثوں پر قانونی کارروائی کو سبوتاژ کرنے کیلئے ریاست پاکستان پر بھی حملے کیے۔ نواز شریف نے ممبئی حملوںکے دہشت گرد پاکستان کی طرف سے بھیجے جانے کا گھناؤنا الزام بھی لگایا اور پاکستان کے روایتی دشمن بھارت کو عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم کا مواد فراہم کیا اور کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ یہی نہیں پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد نواز شریف نے ایک بدترین پارلیمنٹرین اور بدترین شہری ہونے کا ثبوت بھی دیا اور اپنی ذات کے دفاع اور عالمی مدد کے حصول کیلئے مسلّمہ عقیدہ ختم نبوت کے خلاف اقدامات کرنے سے بھی باز نہیں آئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی مسلمان کیلئے اس سے بڑی کوئی اور بدبختی نہیں ہے کہ اللہ اسے شعائرِ دین اور بنیادی عقائد کے تحفظ کیلئے وسائل اور قوت دے اور وہ شخص ان وسائل اور اختیارات کو ان عقائد کے خلاف بروئے کار لائے۔
نواز شریف نے ناجائزاثاثوں کے مقدمات سے جان چھڑانے اور غیر ملکی قوتوں کی توجہ اور مدد کے حصول کیلئے عقیدہ ختم نبوت کے حلف نامے کو تبدیل کروایا اور پھر جب یہ نظریاتی ڈکیتی پکڑی گئی تو پھر اسلامیانِ پاکستان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں کمیٹی بنائی جس کی مبہم رپورٹ کو بھی پبلک کرنے سے انکار کیا گیا۔
یہ وہی نواز شریف ہیں جنہوں نے کرسی بچانے کیلئے 17 جون 2014ء کے دن ماڈل ٹاؤن لاہور میں خون کی ہولی کھیلی، قتلِ عام کروایا، 14 شہریوں کو اپنے کٹھ پتلی پولیس افسران کے ذریعے شہید کروایا جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ اس بدبخت شخص نے پاکستان کے اس بدترین قتلِ عام کے واقعہ کی تحقیقات تک نہ ہونے دی، جو پولیس افسران اس قتلِ عام میں براہ راست ملوث تھے انہیں ترقیاں اور تحفظ دیا، ان کی مراعات میں اضافہ کیا، اور آج کے دن تک شرمندگی اور تعزیت کا ایک لفظ ان کے منہ سے نہیں نکلا۔جو خاندان انسانی حرمت کے خلاف ریاستی طاقت کا بے رحم استعمال کرے ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘کے الفاظ ان کے منہ سے نکلتے اچھے نہیں لگتے۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دو دہائیوں سے شریف خاندان کی کرپشن کے حقائق قوم کے سامنے رکھتے رہے، کلمہ حق بلند کرتے رہے، قوم کو 2014ء کے دھرنے کے موقع پر ان کے خطابات یاد ہوں گے، وہ شدومد کے ساتھ ہر روز کہتے تھے کہ قوم کو علم ہی نہیں ہے کہ اسے کون کون کس کس طرح سے لوٹ رہا ہے۔۔۔؟ کس طرح لانچوں پر، جہازوں پر پاکستان کی دولت بریف کیس بھر بھر کے بیرون ملک پہنچائی جاتی ہے اور کس طرح کرپشن کی جاتی ہے۔۔۔؟ کیسے کیسے کک بیکس وصول کی جاتی ہیں۔۔۔؟
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کہنا ہے کہ لندن فلیٹس 90ء سے بھی پہلے کے ہیں اور یہ نواز شریف کی ملکیت ہیں۔ یہ سارا پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے لندن پہنچایا گیا اور یہ فلیٹس بے نامی جائیدادوں میں تبدیل کیے گئے اور پھر ان کے بینی فشری بچے بنائے گئے جو اس وقت 15اور 17سال کی عمر کے تھے۔ کیا قوم بھول گئی کہ نواز شریف نے لندن فلیٹس کی منی ٹریل کے حوالے سے پارلیمنٹ میں کوئی اور بیان دیا، قوم سے دو بار خطاب کرتے ہوئے کوئی اور بیان دیا اور سپریم کورٹ میں اپنے سابقہ موقف کے برعکس قطری خط لے آئے، اور پھر احتساب عدالت میں ان سے کہا گیا کہ کیا وہ حلف دے کر بیان ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں؟ تو نواز شریف نے انکار کر دیا۔ جو شخص اپنے لیے قسم اٹھانے پر تیار نہیں تھا، وہ کس منہ سے قوم سے کہتا ہے کہ وہ اس کے دفاع کیلئے اٹھ کھڑی ہو؟
بہرحال یہ سوال اس کے علاوہ ہے کہ جس شخص کو اور جس خاندان کو پاکستان نے عزت دی، مالا مال کیا، وہ خاندان اپنا کاروبار اور پیسہ کیوں بیرون ملک لے کر گیا۔۔۔؟ اگر یہ پیسہ پاکستان میں انویسٹ ہوتا تو اس سے روزگار کے مواقع بڑھتے، لوگوں کو روزگار ملتا، ریاستِ پاکستان کو ٹیکس ملتا، بلواسطہ یا بلاواسطہ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا مگر اس بدبخت خاندان نے ہر موقع اور ہر مرحلہ پر پاکستان اور اس کے عوام کے مفاد کو نقصان پہنچایا۔
یوم آزادی کے مبارک دن اور مہینہ کی مناسبت سے ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو خائن اور جھوٹوں کی قیادت سے دور رکھے اور کرپشن کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے جس نے بھی قومی دولت کولوٹا ہے ان کی اسی طرح گرفت کی جائے جس طرح کرپٹ شریف خاندان کی گئی ہے۔ اسی طرح باقی مقدمات کے فیصلے بھی بلاتاخیر کیے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کو بھی انصاف دیاجائے۔