ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محمد خلیق عامر
حصہ اوّل ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مسعود کی برکت استغفار سے بھی مقدم ہیں۔ اس لیے کہ استغفار سے اللہ کی بخشش اور رحمت ملتی ہے اور آقا علیہ السلام کے وجود سے ملنے والی بخشش و رحمت اس بخشش و رحمت سے قوی تر ہے۔ یہ بات میں نے ایسے ہی نہیں کہہ دی بلکہ اتنی بڑی بات کی تائید خود قرآن کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر فرمایا:
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ اِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا.
’’تو آپ (تشکراً) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح فرمائیں اور (تواضعاً) اس سے استغفار کریں، بے شک وہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا (اور مزید رحمت کے ساتھ رجوع فرمانے والا) ہے‘‘
(النصر، 110: 3)
دوسری آیت میں فرمایا:
وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ جَآئُْوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا.
(النساء، 4: 64)
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے‘‘۔
جہاں صرف اللہ سے استغفار تھا وہاں فرمایا اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آکر بخشش طلب کرنے کا ذکر کیا تو وہاں تَوَّابًا کے ساتھ رَّحِيْمًا بھی لگا دیا۔ فرمایا: صرف بخشنے والا نہیں بلکہ بے حساب رحمت کرنے والا بھی پاتے۔ جس نے اللہ سے معافی مانگی اُس کے لیے صرف بخشنے والا اور جو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ آ گیا اُس کے لیے فرمادیا کہ میں بخشنے والا بھی ہوں اور رحم فرمانے والا بھی ہوں۔ گویا اُس کے لیے دو صفتوں کا اظہار کردیا کہ میں توّاب بھی ہوں اور رحیم بھی ہوں۔
اللہ رب العزت نے یہ فرق ایسے ہی تو نہیں رکھا بلکہ اس کی حقیقت بھی ہے اور وہ یہ کہ جو محض اللہ سے معافی طلب کرے اُس کے لیے اللہ تَوَّابْ ہے اور جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آ کر معافی طلب کرے اُس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی دو صفتوں کا فیض جاری فرمادیتا ہے، اُسے تواب کا فیض بھی ملتا ہے اور اللہ کی رحیمیت کا فیض بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے ملتا ہے۔
- اب انہی دو آیتوں میں ایک اور اسلوب دیکھئے:
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ اِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا.
جس نے اللہ سے معافی مانگی، حمد و تسبیح کی، عبادت کی تو فرمایا: بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ اِس آیت میں بخشنے کا وعدہ نہیں کیا کہ جو مجھ سے معافی مانگے اسے یقینی بخش دوں گا۔ اس میں کہیں وعدہ نہیں ہے۔ صرف فرمادیا اللہ بڑا بخشنے والا ہے۔ یعنی جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے نہ بخشے۔ جبکہ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں آنے والوں کے لیے فرمایا: جو میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آ کر معافی مانگے:
لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا.
’’تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے‘‘۔
وہ لوگ اگر میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آئیں تو وہ اللہ کو بڑی بخشش فرمانے والا، رحم فرمانے والا پالیں گے۔ وَجَدُوا اﷲَ کے الفاظ استعمال فرمائے یعنی میں ایسا کر کے رہوں گا اور تمہیں نظر آ جائے گا کہ بخش دیا۔ لام تاکید لگاکر واضح کردیا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ کوئی آ جائے اور میں اُس کو بخش نہ دوں۔ بخش بھی دوں گا اور رحمت بھی دوں گا، یہ میرا وعدہ ہے۔ پہلی آیت میں صرف اپنی شان بیان کر دی جبکہ دوسری آیت میں صرف شان بیان نہیں کی بلکہ وعدہ بھی کر دیا اور وعدہ بھی تاکیدی کہ ہوہی نہیں سکتا کہ نہ بخشوں اور رحمت سے جھولیاں نہ بھر دوں۔ المختصر یہ کہ استغفار سے جو رحمت ملتی ہے وہ کم ہے اور جو رحمت وجودِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ملتی ہے وہ زیادہ ہے۔ اس لیے رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجودِ مسعود ہے۔
لہذا آپ جو عقیدہ آقا علیہ السلام کی بارگاہ اور نسبت کے ساتھ رکھتے ہیں اُس پہ فخر کیا کریں۔ یہ کوئی کمزوری نہیں ہے بلکہ بہت طاقتور اور سچا عقیدہ ہے۔ اپنے اندر اعتماد رکھا کریں۔ سارا قرآن اسی عقیدے کی تائید میں ہے، کل احادیث نبوی اسی عقیدہ کی تائید میں ہیں۔
چند تفسیری نکات
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ.
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘۔
(الأنبياء، 21: 107)
اس آیت مبارکہ میں ’’للعلمين‘‘ (تمام جہانوں کے لئے) کا لفظ غور طلب ہے۔ عربی لغت، نحو اور علم الصرف کے ماہرین جانتے ہیں کہ یہ بات دو طریقے سے کہی جا سکتی ہے اور جائز ہے:
- رَحْمَةً بِالْعٰلَمِيْنَ بھی کہا جا سکتا تھا۔
- رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ بھی کہا جا سکتا تھا۔
دونوں کا معنیٰ یہی ہوتا ’جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا، مگر رَحْمَةً بِالْعٰلَمِيْنََ نہیں فرمایا بلکہ رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ فرمایا۔ یہ فرق سمجھنے والا ہے۔ لغت کی کئی کتب میں اس فرق کو بیان کیا گیا ہے۔ رَحْمَةً بِالْعٰلَمِيْنَ آئے اُس کا معنی کیا ہوتا اور ’ب، نہیں بلکہ ’ل، لگایا یعنی لِّلْعٰلَمِيْنَ، تو اس میں فرق کیا ہے؟
رَحْمَةً بِالْعٰلَمِيْنَ سے کیا مراد ہوتی؟
حرف ’ب، بارہ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اُن میں سے ایک معنیٰ یہاں صادر آتا ہے اور وہ یہ کہ اگر ’ب، لگتا رَحْمَةً بِالْعٰلَمِيْنَ ہوتا تو یہ تبعیض پر دلالت کرتا یعنی اس میں بعضیّت کا معنی آتا۔ اس کو اصمعی، فارسی، ابن مالک، کوفیوں اور صرف و نحو اور لغت کے ماہرین نے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ’ب، لگے تو اُس کا کُل پر اطلاق نہیں ہوتا بلکہ کل میں سے بعض پر اطلاق ہوتا ہے۔ یعنی وہ چیز بعض کے لیے ثابت ہوتی ہے اور بعض اس میں سے محروم رہ جاتے ہیں، خارج ہوجاتے ہیں۔ پس اگر ’ب، لگتا تو کلیت نہ ہوتی بلکہ بعضیت ہوتی۔ جیسے فرمایا:
عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اﷲِ.
(الدهر، 76: 6)
(کافور جنت کا) ایک چشمہ ہے جس سے (خاص) بندگانِ خدا (یعنی اَولیاء اللہ) پیا کریں گے۔
یعنی اللہ کے کچھ بندے اُس میں سے پئیں گے یا اُس میں سے کچھ پئیں گے۔ اسی طرح قرآن مجید نے کہا:
وَامْسَحُوْا بِرُئُوْسِکُمْ.
(المائدة، 5: 6)
’’اور اپنے سروں کا مسح کرو‘‘۔
چونکہ حرفِ ’ب، لگ گیا لہذا ’ب، لگنے کا مطلب یہ ہے کہ سارے سر پر مسح کرنا فرض نہیں ہے۔ اُس کے تھوڑے حصے پر اگر کر لیا تو اس سے بھی حکم پورا ہو گیا۔ اس لئے کہ ’ب، لگ جائے تو بعض پر اطلاق سے بات پوری ہو جاتی ہے۔
اب اگر اللہ تعالیٰ وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً بِالْعٰلَمِيْنَ فرماتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ سارے جہانوں میں سے بعضوں کے لیے رحمت ہیں اور بعضوں کے لیے نہیں۔ جو مستحق ہیں ان کے لیے رحمت ہیں اور جو مستحق نہیں، اُن کے لیے رحمت نہیں۔ deservings کے لیے آپ کی mercy ہے اور جو deservings نہیں ہیں اُن کے لیے نہیں ہے۔ لہذا کچھ اس میں سے exclude ہو جاتے اور کچھ کے لیے آقا علیہ السلام کی رحمت ہوتی۔ اس وجہ سے ’ب، نہیں لگایا۔
رَحْمَةً لِلْعٰلَمِيْن کیوں فرمایا؟
حرفِ ’ل‘ کا بائیس (22) معانی کے لیے آتا ہے۔ جو معنیٰ اس آیت مبارکہ میں پورے ہوتے ہیں وہ دو ہیں:
- ’’لام‘‘ استحقاق کے لیے آتا ہے۔
- ’’لام‘‘ تملیک یا شبہ تملیک کے لیے آتا ہے۔
استحقاق کے بغیر رحمت کا مستحق بنادیا
آیت مبارکہ میں ’ب، نہ لگا کر یہ واضح کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت بعض کے لئے نہیں بلکہ کل کے لئے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر فرد، ہر شے، ہر ذرے، ہر جنس، ہر نوع اور ہر قسم کے لیے رحمت ہیں۔ یعنی آقا علیہ السلام انسانوں، فرشتوں، جنات، نباتات، جمادات، ہواؤں، حیوانات، خلاء، چاند، سورج، ستاروں، ہر ذی شعور، غیر ذی شعور، مومنوں، کافروں الغرض ہر ایک کے لیے رحمت ہیں۔ یہ لِلْعٰلَمِيْنَ کا مطلب ہے۔ یعنی کائنات کی کوئی شے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے خارج ہی نہیں ہے۔
لِلْعٰلَمِيْن میں ’ل، کو استحقاق کے لیے سمجھا جائے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کو اس آیت سے سمجھتے ہیں۔ قرآن پاک نے کہا:
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَ.
(المطففين، 83: 1)
’’بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے‘‘۔
دوسری جگہ فرمایا:
لَهُمْ فِی الدُّنْيَا خِزْیٌ.
(المائدة، 5: 41)
’’ان کے لیے دنیا میں (کفر کی) ذلّت ہے‘‘۔
ایسا کرنے والوں کے لیے جہنم، ہلاکت، شرمساری اور تباہی ہے۔ یعنی وہ اس عمل کے باعث دوزخ کے مستحق ہیں۔ اب زیر بحث آیت مبارکہ کی طرف آتے ہیں۔ آقا علیہ السلام کے لیے فرمایا:
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ.
عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا، اگر ’ل، کو استحقاق کے لیے سمجھیں تو مطلب یہ کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے اور آپ نے ہر ایک کو مستحق رحمت بنادیا۔ بھلے کوئی اس کا مستحق تھا یا نہ تھا۔ اگر میں فرما دیتا رَحْمَةً بِالْعٰلَمِيْنَ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمال نہ رہتا۔ پھر معنٰی ہوتا جو میری رحمت کا مستحق ہے اُس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت ہیں اور جو مستحق نہیں اُس کے لیے رحمت نہیں۔ کسی کو رحمت اُس کو استحقاق کی وجہ سے ملتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے نہیں۔ اب رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ کا مطلب ہے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ نہ ہوتے تو میں رحمت تقسیم کرتا، جو مستحق ہوتا اُس کو رحمت ملتی اور جو مستحق نہ ہوتا اُسے رحمت نہ دیتا۔ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگئے، اب استحقاق اور عدمِ استحقاق کا فرق مٹ گیا۔ کوئی مستحق ہے تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت پر پل رہا ہے اور جو مستحق نہیں وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت پر پل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر ایک کو اُس کے استحقاق کے بغیر رحمت کا مستحق بنا دیا۔ آقا علیہ السلام نے ساری کائنات کو اپنی رحمت کا مستحق بنا دیا۔ یہ آقا علیہ السلام کا احسان عظیم ہے۔ یہی معنی رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ میں پنہاں ہے۔
احساسِ تحفظ عطا فرمان
رحمۃ للعلمین میں موجود حرف لام کو اگر تملیک کے معنی میں لیں تو تملیک کا معنیٰ ہے کسی کو مالک بنانا، ملک دے دینا۔ ارشاد فرمایا:
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ.
محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ چونکہ نفسِ رحمت ہیں، میری ساری رحمت ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے تو آپ نے کائنات کی مِلک میں میری رحمت دے دی۔ مِلک دینے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اگر کسی کی ملکیت میں کوئی گھر آ جائے، مکان دے دیں، پراپرٹی دے دیں، پیسہ دے دیں تو اس تملیک کا مطلب ہوتا ہے کہ احساسِ تحفظ پیدا ہو گیا۔ شادی ہوتی ہے تو بیوی کہتی ہے مہر لکھ دو، گھر میری مِلک میں دے دو۔ مِلک میں کوئی شے مل جائے تو اس سے احساسِ حفاظت پیدا ہو جاتا ہے کہ میں protected ہوں۔ میری حفاظت ہے۔ خطرات ٹل جاتے ہیں۔
میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے اور کائنات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی رحمت کی ملکیت دی کہ ساری کائنات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے احساسِ تحفظ مل گیا۔ کائنات میں ہر شے کو حفاظت کا احساس مل گیا۔ امان کا احساس مل گیا، کہ ہاں کوئی ہے ہمارے اوپر حفاظت کرنے والا۔۔۔ کوئی ہے ہمیں عذاب سے بچانے والا۔۔۔ کوئی ہے جو ہمیں قیامت کے دن جہنم سے نکال کر جنت میں لے جائے گا۔
احساسِ تحفظ اور عذاب سے بچانے کے متعلق یہ تمام امور صحیح بخاری و مسلم کی متفق علیہ احادیث سے ثابت ہیں۔ ہمارے عقیدے کا کوئی گوشہ صحیح بخاری و صحیح مسلم سے باہر نہیں ہے اور نہ قرآن سے باہر ہے۔ قیامت جب آئے گی سو آئے گی مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی مِلک بنا کر احساسِ تحفظ دے دیا۔
اعلانِ شفاعت، احساسِ تحفظ عطا کرنا ہے
ابھی بندے مرے ہیں اور نہ قیامت قائم ہوئی ہے، یہ واقعہ بعد میں ہو گا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے فرما دیا کہ قیامت کے دن یوں ہوگا کہ اپنے اپنے اعمال کے باعث دوزخ میں جانے والوں کو اللہ دوزخ میں بھیج دے گا، وہ دوزخ میں چلے جائیں گے۔ اس موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے ان لوگوں کو جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ حتی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ
فَاخْرجْ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَی أَدْنَی أَدْنَی مِثْقَالِ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ.
(بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، بَاب کَلَامِ الرَّبِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الْأَنْبِيَاءِ 6: 2727، رقم: 7072)
’’اگر کسی کے دل میں ایک رائی کے دانے سے بھی کم اُس سے بھی کم اُس سے بھی کم ایمان ہے اُس کو بھی نکال کر لے جائیں‘‘۔
بار بار حکم ہوگا کہ خود جائیں اور نکال کر لے جائیں۔ یہ کیوں فرمایا جا رہا ہے کہ خود نکال کر لے جائیں؟ حکم کر سکتا ہے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا ہے، لہذا ان لوگوں کو فرشتو دوزخ سے نکال دو لیکن یہ نہیں فرمایا۔ دوزخ سے نکالیں گے فرشتے مگر محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر پر کھڑے ہوں گے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ایسا نہ ہو کہ دوزخ سے نکالوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اور وہاں جا کر کوئی یہ نہ کہے کہ میرے اعمال مجھے جنت میں لے آئے اور میری فلاں چیز جنت میں لے آئی۔ میں نے حج اتنے کیے تھے، عمرے اتنے کیے تھے، زکٰوۃ اتنی دی تھی، تبلیغ بہت کی تھی لہذا یہ اعمال جنت میں لے گئے۔ فرمایا: بھاڑ میں جائیں اُن کے اعمال۔ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! وہ تو دوزخ میں پڑے تھے، نکالوں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اور انہیں معلوم نہ ہو۔ نکالوں بھی آپ کی وجہ سے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مانیں بھی نہ، تو میں نے ان کو کیوں جنت میں بھیجنا ہے؟ جلتے رہیں دوزخ میں۔
محبوب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جائیں اور دوزخ سے نکال کر لے جائیں تا کہ جنت میں بھی جائیں اور مانیں بھی سہی کہ ہمارے اعمال نے ہمیں دوزخ میں بھیجا تھا، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جنت عطا کی۔ یہ احساسِ تحفظ لام تملیک کے ذریعے بیان فرمادیا۔ اعمال نے دوزخ دی لیکن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت دی۔
صحیح بخاری میں یہاں تک بھی آیا کہ دوزخ میں کئی جل چکے ہوں گے آقا علیہ السلام فرماتے ہیں: جب میری شفاعت سے وہ نکل کر جنت میں جائیں گے تو لوگ اُن کو کہیں گے کہ یہ جہنمی ہیں۔ اس لئے کہ اُن کی جلد جل چکی ہوئی ہوگی۔ جنت میں جا کر بھی وہ جلی ہوئی جلد نظر آئے گی،جس بنا پر جنتی انہیں جہنمی کہہ کر مخاطب کریں گے۔
وہ عرض کریں گے باری تعالیٰ! اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر جہنم سے نکال کر جنت میں تو پہنچا دیا ہے، جہنم تو ختم ہو گئی اب یہ title بھی ختم فرما دے۔ جو دیکھتا ہے کہتا ہے یہ جہنمی تھے، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں جنت میں لے آئے ہیں۔ یہ لوگ ہمیں جہنمی کہہ رہے ہیں، حالانکہ ہم جنت میں رہ رہے مگر ہمیں جو جلا ہوا دیکھتا ہے کہتا ہے یہ جہنمی ہیں۔ باری تعالیٰ! یہ نام بھی بدل دے۔ فرمایا: مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو جہنم سے نکالا ہے لہذا اُن کا جہنمی title بھی ختم کر دیا جائے۔ پس جہنم بھی گئی اور جہنمی کا نام بھی گیا۔ یہ رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ کے ذریعے حاصل ہونے والا احساسِ تحفظ ہے۔
اسی طرح جب ہم قبر میں ہوں گے، ہم سے سوال کئے جائیں گے تو اس وقت بھی سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہوں گے تاکہ ہمیں احساس ہو کہ بچانے والے بھی وہی ہیں۔ یہ رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ کا معنی ہے کہ اس سے تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یہ آقا علیہ السلام کی شان اقدس ہے جس کی وجہ سے باللعٰلَمِيْنَ نہیں فرمایا لِلْعٰلَمِيْنَ فرمایا۔
یومِ قیامت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مزید شانوں کا ظہور
مذکورہ تمام بیان کی تائید میں صحیح بخاری سے حدیث مبارکہ ذکر کرتا ہوں۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام نے فرمایا:
إِنَّ اﷲَ خَلَقَ الرَّحْمَةَ يَوْمَ خَلَقَہَا مِائَةَ رَحْمَةٍ۔فَأَمْسَکَ عِنْدَهُ تِسْعًا وَتِسْعِينَ رَحْمَةً۔وَأَرْسَلَ فِي خَلْقِهِ کُلِّهِمْ رَحْمَةً وَاحِدَةً.
یعنی اللہ رب العزت نے جس دن رحمت کو پیدا فرمایا تو سو رحمتیں پیدا کیں۔ رحمت کی سو جہتیں، سو شانیں، سو گنا رحمت پیدا کی۔ اللہ پاک نے ننانوے شانیں رحمت کی قیامت کے دن کے لئے محفوظ کر لیں اور اس دنیا کے لیے اُس رحمت کی صرف ایک شان کو مبعوث فرمایا۔
(بخاری، الصحيح، کتاب الرقاق، بَاب الرَّجَاءِ مَعَ الْخَوْفِ، 5: 2374، رقم: 6106)
قیامت سے پہلے تک جو منظر کائنات کا ہم دیکھ رہے ہیں یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک رحمت ہے۔ جو ساری کائنات اور جہانوں کو پوری آ رہی ہے اور جب قیامت ہو گی تو آقا علیہ السلام ننانوے مزید شانوں کے ساتھ جلوہ گر ہوں گے۔
حدیث مبارکہ میں فرمایا کہ وَأَرْسَلَ (اور وہ رحمت مبعوث فرمائی) جبکہ آیت مبارکہ میں بھی وماارسلنک کا لفظ استعمال فرمایا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کی بات ہو رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کی بعثت اور وجود کی شکل میں ایک شان ظاہر کی اور لوگو! تم سے ابھی یہ ہضم نہیں ہو رہی، تمہیں یہ سمجھ نہیں آ رہا اور قیامت کے دن جب بقیہ ننانوے شانوں کا تاج حضور علیہ السلام کے سرانور پہ رکھ دیا جائے گا، ننانوے شانیں رحمت کی مزید اجاگر ہو جائیں گی تو اس وقت کیا عالم ہوگا۔ اس لیے کہ
وَلَسَوْفَ يُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی.
(الضحیٰ، 93: 5)
’’اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘۔
قیامت کے سارے فیصلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذ1ت کے اردگرد گھومیں گے۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو فرمائیں گے وہی ہو گا اور یہی قیامت ہے۔ اگر قیامت کی تعریف پوچھیں کہ قیامت کیا ہے؟
تو سن لیں! جس دن آقا علیہ السلام کی ہر منشا پوری ہوگی، اس دن کا نام یوم قیامت ہے۔
آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اﷲَ وَعَدَنِي أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي أَرْبَعَ مِائَةِ أَلْفٍ.
(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 165، رقم: 12695)
’’یقینا اللہ عزوجل نے مجھ سے میری امت کے 4 لاکھ افراد کو (بغیر حساب و عذاب کے) جنت میں داخل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے‘‘۔
- ایک اور مقام پر فرمایا:
لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُوْنَ أَلْفًا أَوْ سَبْعُ مِائَةِ أَلْفٍٍ، شَکَّ فِي أَحَدِهِمَا، مُتَمَاسِکِيْنَ آخِذٌ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ، حَتَّی يَدْخُلَ أَوُّلُهُمْ وَآخِرُهُمُ الْجَنَّةَ، وَوُجُوْهُهُمْ عَلَی ضَوْئِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ.
(بخاری، الصحيح، کتاب: الرقاق، باب: يدخل الجنة سبعون ألفا بغير حساب، 5: 2396، رقم: 6177)
’’میری امت کے ستر ہزار یا سات لاکھ افراد (بغیر حساب و عذاب کے) جنت میں داخل ہوں گے۔ (راوی کو دونوں میں سے ایک کا شک ہے) یہ ایک دوسرے کو (نسبت کی وجہ سے باہم) تھامے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ ان کا پہلا (قیادت کرنے والا) اور آخری شخص جنت میں داخل ہوجائے گا۔ ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے۔‘‘
یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے وہ ننانوے حصے ہیں جو قیامت کے دن ظاہر ہونے ہیں۔
- ایک اور مقام پر آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
لِلّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ مِائَةُ رَحْمَةٍ، وَإِنَّهُ قَسَمَ رَحْمَةً وَاحِدَةً بَيْنَ أَہْلِ الْأَرْضِ فَوَسِعَتْهُمْ إِلَی آجَالِهِمْ.
(احمد بن حنبل، المسند، 2: 514، رقم: 10680)
’’اللہ تعالیٰ سو رحمتوں کا مالک ہے، اس نے (ان میں سے) ایک رحمت کو جمیع اہلِ زمین کے درمیان تقسیم کر دیا جو ان کی اموات تک انہیں اپنے احاطہ میں لیے رہے گی‘‘۔
- قیامت کے دن ننانوے حصے رحمت کے ظاہر ہوں گے وہ صرف آقا علیہ السلام کے لیے نہیں بلکہ آقا علیہ السلام کے اولیاء کے لیے بھی اللہ نے محفوظ کر کے رکھے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَأَخَّرَ تِسْعَةً وَتِسْعِيْنَ لِأَوْلِيَائِهِ.
(حاکم، المستدرک، 1: 123، رقم: 185)
’’جبکہ ننانوے رحمتوں کو اس نے اپنے اولیاء کے لئے محفوظ کر لیا ہے‘‘۔
آقا علیہ السلام کی رحمت کی یہ شانیں قیامت کے دن ظاہر ہوں گی۔ پس اس دنیا سے لے کے اُس دنیا تک سارے نظارے آقا علیہ السلام کی رحمت کے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ حضور علیہ السلام کو قیامت کے دن عرش پر اپنی کرسی کے ساتھ کرسی رکھوا کر بٹھائے گا تاکہ جو فیصلہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرمائیں وہی میں اعلان کرتا جاؤں گا۔ یہ آقا علیہ السلام کی رحمت کا وہ اظہار ہے جو وَمَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَلَمِيْن کے اندر پنہاں ہے۔