ربیع الاول۔۔۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا مبارک مہینہ، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور وجود اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزول کا موسم دلربا ہے۔ ربیع الاول اہل بصیرت و معرفت کے ہاں ربیع النور بھی کہلاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ’’ربیع‘‘ یعنی بہار تو ایسے مختصر موسمی وقت کا استعارہ ہے جو کئی اعتبار سے ناقص ہے۔ بہار آتی ہے اور چلی جاتی ہے، موسم بہار میں اگر ہریالی آتی ہے تو صرف خزاں رسیدہ درختوں اور پودوں پر، خنکی کا اثر بھی آب وہوا تک محدود رہتا ہے۔۔۔ لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور تو۔۔۔ نوروں کی بہار تھی۔ ابدی اور دائمی فیوضات کا سرمدی موسم شروع ہوا تھا۔ نبض ہستی کی حرکت و حرارت کا باعث ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف بہاروں کا پیغام نہیں، دائمی انوار و فیوضات کا سرچشمہ ہے جس نے قیامت تک بلکہ اس کے بعد بھی موجزن رہنا ہے۔ پھر یہ انوار و فیوضات کسی ایک عالم کے لئے نہیں بلکہ عالم جن و انس کے لئے بھی ہیں، عالم نباتات و جمادات کے لئے بھی عالم چرند و پرند کے لئے بھی حتی کہ عالم لاہوت و ملکوت کے لئے بھی۔
عالم آب و خاک میں ترے ظہور سے فروغ
زرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
قرآن حکیم نے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت و ولادت کو اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم قرار دیا، صاف ظاہر ہے اللہ پاک کی ہر نعمت انسانوں پر اس کا احسان ہے لیکن عادت و شان ربوبیت کے برعکس اس نے اس نعمت کبریٰ کا احسان جتلانا شاید اس لئے مناسب سمجھا کہ انسان کی طبعی احسان فراموشی رسول اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عام نعمت سمجھتے ہوئے ناقدری کی مرتکب نہ ہوجائے۔ چنانچہ اہل ایمان کا غنچۂ دل اس ماہ مبارک کی آمد کے ساتھ ہی کھل اٹھتا ہے وہ اللہ رب العزت کے حضور وفور سپاس سے سربسجود ہوجاتے ہیں کہ اس ذات نے انہیں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ایمان کی دولت بے بدل سے نوازا۔
یہی وفور شوق محافل و مجالس میلاد کا سبب ہے اور اسی باطنی ایمانی جذبے کے تحت اہل اسلام آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر اس دن کو جشن اور عید کے طور پر مناتے چلے آئے ہیں۔ اس لئے بعض نادان دوستوں کی ’’مخصوص تعبیر دین‘‘ کے برعکس ہر آنے والے سال میں گذشتہ سال کی نسبت میلاد کی دھوم زیادہ ہوتی ہے کیونکہ رفعت ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معجزاتی پہلو قرآن حکیم کے اعلان ’’وَلَلْآخِرَۃُ خَیْرٌلَّکَ مِنَ الْاُوْلیٰ (محبوب آپ کے لئے ہر آنے والی گھڑی پہلی گھڑی سے بہتر ہوگی) کے مطابق عین منشائے الہٰی ہے۔
یوم میلاد۔۔۔ یوم تحدیث نعمت بھی ہے اور یوم تجدید عہد بھی۔ تحدیث نعمت کا تقاضا فرحت، جشن، عید، محفل اور ہر جائز طریقے سے اظہار مسرت کے ذریعے پورا ہوجاتا ہے۔ نعمت چونکہ سب کے لئے ہے اس لئے نعمت کا شکر بجالانے میں بھی خواص و عوام دونوں شامل ہوجاتے ہیں۔ تاہم۔۔۔ تجدید عہد۔۔۔ خواص کے لئے ہے۔ اس لئے اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے والے بھی صاحبان علم وفکر، حاملان دعوت و اصلاح اور راہنمایان قوم وملت ہیں۔ بالخصوص عالم اسلام کی وہ قیادتیں جن کے ہاتھ میں مسلمانان عالم کی زمام اقتدار ہے۔ اس ذمہ دار گروہ میں اسلام کی دینی و مذہبی اور روحانی قیادتیں بھی شامل ہیں۔ نیز وہ لوگ بھی جو کسی نہ کسی اعتبار سے منصب تعلیم و تدریس اور دعوت و اصلاح پر فائز ہیں۔ ان سب لوگوں پر کون سے عہد کی تجدید اور کونسے فریضے کی تکمیل لازم ہے؟ اسی فریضے کی جس کے لئے طویل سلسلہ انبیاء و رسل کے آخر میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی اور وہ ہے انسانیت تک اللہ کے پیغام کا صحیح صحیح ابلاغ، اقامت دین اور اسلام کو تمام ادیان و مذاہب کے مقابلے میں زیادہ قابل عمل بنانے کا فریضہ۔
مقصدِ آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
معزز قارئین! آیئے ایک لمحے کے لئے اس مقام پر ذرا رک کر غور کریں، اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں، وہ بھی جو امت کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور وہ بھی جو کسی محدود ذمہ داری پر فائز ہیں، وہ بھی جو عشق و محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ بھی جنہیں اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ناز ہے۔ کیا دین کے جن جن حصوں کو ہم اپنائے ہوئے ہیں اور وہ عبادات جن کی ادائیگی کو ہم کل دین سمجھتے ہیں، یہی کچھ مقصدِ بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا یا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟
غور کریں مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اسلام قبول کرنے والے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کیا نماز، روزہ اور حج وغیرہ کی ادائیگی نہیں کرسکتے تھے؟ اگر کرسکتے تھے تو انہیں گھر بار کاروبار حتی کہ ماں باپ اور اولاد چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں مدینہ ہجرت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کا مقصد محض دعوت و تبلیغ ہی نہیں بلکہ دین حق کا عملی نفاذ اور اسے دیگر ادیان باطلہ پر غالب و فائق کرنا بھی تھا۔یہی وہ ذمہ داری تھی جسے سر کار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کما حقہ پورا فرمایا۔ اس راہ میں خواہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپناجسم انور لہولہان کرانا پڑا ‘ تین تین سال شعب ابی طالب میں اپنے خاندان اور ساتھیوںسمیت بھوکے پیاسے رہنا پڑا‘ معاشرتی بائیکاٹ ہوا ‘ طائف کے بازاروں میں پتھروں کی بارش برداشت کرنا پڑی‘ مکہ جیسا وطن چھوڑ ا‘ عزیز واقارب‘ دوست احباب چھوڑ کر ہجرت فرمائی ،سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تین دن رات غار ثور کی تاریکیوں میں بسر کئے۔
مدینہ طیبہ میں جاکر بھی چاہتے تو آرام وسکون سے نماز روزہ کرتے لیکن ہم جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی جماعت نے مسلسل جدوجہد کی، جنگیں لڑیں، معائدے کئے، مواخات قائم کی اور بالآخر ایک آزاد اسلامی ریاست قائم فرمائی۔ ایک فلاحی انسانی معاشرہ قائم کیا جو مقصود ومطلوب رسالت و نبوت تھا۔
تاریخِ انسانیت میں دس سالہ مختصر عرصے میں کسی قیادت ‘ جماعت یا ریاست کو اتنی کثرت سے اتنی سخت مزاحمت کا مقابلہ نہیں کرناپڑا۔یاد رہے کہ اس دس سالہ مدنی دور نبوت میں تقریباً چھوٹی بڑی تقریباً 100 جنگیں ہوئیں جن میں سے 26میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بطور سپہ سالار شریک ہوئے ۔یہ سب کچھ کیوں ہوتا رہا؟کیا کفار مکہ کو مسلمانوں کی مذہبی رسومات سے خطرہ تھا؟ ہرگز نہیں۔ مسلمان اپنی جگہ اللہ اللہ کرتے رہتے اور اس بات پر معاہدہ کر لیتے کہ کعبۃ اللہ ہمارے حوالے کر دو ہم پانچ وقت اذان دے کر نمازیں پڑھتے رہیں گے۔سال میں ماہ رمضان آئے گا توروزے رکھ لیا کریں گے۔حسب توفیق زکوٰۃ ادا کردیں گے اور حج کا مہینہ آئے گا تو ہم حج بھی کر لیں گے ‘ بس یہی ارکان اسلام تھے جن کی ادائیگی بغیر جنگ و جدال کے بآسانی ہو سکتی تھی۔
اگر اسلام محض ان ارکانِ اسلام پر عمل کر لینے ‘ بعض معاملات میں حلال و حرام کی تمیز برتنے اورحسب ضرورت خداکی راہ میں مستحقین پر تھوڑا بہت مال خرچ کر دینے کا ہی نام ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جا نثار صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت اپنے جسم تیروں سے چھلنی نہ کرواتے ۔۔۔ صحابہ گھر بار چھوڑ کر ہجرت حبشہ اور بعد ازاں ہجرت مدینہ نہ کرتے۔بڑی آسانی سے قریش مکہ کے ساتھ سمجھوتہ ہو سکتا تھا کہ تم ہمارے مذہب کو نہ چھیڑو‘ ہم تمہارے باطل اور منافقانہ نظام کو نہیں چھیڑتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔پھر مسلمان جب ہجرت کر کے مکہ سے سینکڑوں میل دور جا بسے تھے ‘ چاہئے تو یہ تھا کہ یہاں دونوں فریق کبھی نہ الجھتے لیکن جب تک مکہ فتح نہیں ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے فتح مبین کے ذریعے پورے عرب پر اسلام کا پرچم لہرا نہیں دیا‘ کفارنے مسلمانوں کے ساتھ اس وقت تک شدید مزاحمت جاری رکھی اس لئے کہ کفار کو اسلام کے اس انقلابی منشور سے خطرہ تھا جس کے تحت ہر سطح پر ان کی اجارہ داریاں ختم ہو رہی تھیں اور منصفانہ اسلامی نظام سیاست و معیشت کی موجودگی میں انہیں اپنے مذموم مفادات خطرے میں پڑتے نظر آرہے تھے۔ چنانچہ جب سر زمین عرب اسلام کے زیر نگیں آچکا اور وہاں ایک فلاحی سیاسی قوت دنیا کے نقشے پر ابھر آئی توحجتہ الوداع کے تاریخی موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری پیغام بھیجا ۔’’ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ‘‘ ’’ محبوب آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی‘‘۔
اگر دین محض عبادات و ریاضات کی ادائیگی اورتکمیل کا نام ہوتا تو اللہ تعالیٰ یہ آیۂ مبارکہ فتح مکہ کے بعدنہ اتارتے اور نہ ہی اس سیاسی غلبہ و تفوق کو اتمام نعمت سے تعبیر فرماتے۔ یہی دراصل مصطفوی انقلاب تھا۔ اسی غیر معمولی انقلاب کے حقیقی اثرات، کردار، عمل، یقین اور ایمان کی صورت میں جب پھیلے تو اسلام عالمی قوت بن کر ابھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے قیصر وکسریٰ کی سپر طاقتوں کو اپنے قدموں میں سرنگوں کردیا۔
جمہوریت و شورائیت کا بادشاہت میں بدلنا
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قائم کردہ اسی ریاست کی بنیادوں کو خلفائے راشدین نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ مضبوط کیا لیکن اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کی شبانہ روز محنت اور قربانی سے تیار کی گئی دنیا کی یہ پہلی بڑی فلاحی ریاست نصف صدی بعد ہی بادشاہت میں بدل دی گئی۔ اس سے پہلے کہ شاہان وقت اس ریاست کے ذریعے فیضان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمی، سیاسی اور فلاحی شعور سے اکتساب فیض کرتے یہاں بھی روایتی مطلق العنان حکمرانوں نے شب خون مارکر پیغمبرانہ مشن کو دنیا میں پھیلنے سے خود ہی روک دیا۔
وہ جمہوریت اور شورائیت جو اسلام کی روح رواں تھی، بادشاہت کے ناپاک قدموں نے اسے بری طرح مجروح کیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ تین براعظموں میں پھیلی ہوئی اس فلاحی ریاست کو مزید مستحکم کیا جاتا، عدل و مساوات، قانون کی حکمرانی، علم دوستی، تقویٰ، دیانت اور فلاح انسانیت کے فاروقی عزائم کو مضبوط اداروں کے ذریعے پوری دنیا میں متعارف کیا جاتا تاکہ صدیوں سے ظلم سہنے والی اقوام دین انسانیت کے دامن میں پناہ لیتے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اسلامی تحریک اور مصطفوی مشن اگرچہ آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا لیکن اسلامی تاریخ کے (یزید سے لیکر آخری عثمانی بادشاہ تک الاماشاء اللہ)97 بادشاہوں نے اس کے تارپود بکھیرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
تاہم اس پورے 14 سو سالہ تاریخی جبر اور پے درپے حملوں کے باوجود اسلام کے موجودہ ڈھانچے کی بقاء کا راز خود اسلام کی حقانیت اور قرآن و حدیث پر عمل کرنے والے بعض نفوس قدسیہ کے اخلاص میں مضمر ہے ورنہ اسلامی ممالک کے حکمران تو انہی بادشاہوں کا تسلسل ہیں اور آج بھی اسلام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ خود ہیں۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روز تجدید عہد کرنے والے ان باشعور اور بااختیار لوگوں کے سامنے آج اقتصادی، سیاسی، نظریاتی، علمی، تہذیبی اور ثقافتی چیلنج سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ ان چیلنجز کی گہرائی میں جب ایک نظر دوڑاتے ہیں تو حقائق (Facts & Figures) ہمیں منہ چڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
عالمِ اسباب کے تقاضوں کی بجا آوری لازم ہے
یہ عالم اسباب ہے اور موجودہ دور میں وہی قومیں صفحہ ہستی پر عزت و وقار کے ساتھ زندہ رہ سکتی ہیں جو موجودہ دور کے تمام چیلنجز کا جواب دینے کے لئے ہر شعبہ میں مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں۔ ہم خود کو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سمجھتے ہوئے انعامات کا حقدار تو ٹھہراتے ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے اصول و ضوابط پر عمل کرنے سے کتراتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص واعظ ہے، ناصح ہے، مفکر اور مربی ہے لیکن ہم میں سے ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ صرف وعظ کرے، نصیحت دے، فکر انڈیلتا رہے اور تربیت کے پلان تیار کرتا رہے، عمل کرنا اس کی ذمہ داری نہیں دوسروں کی ہے۔ ہماری سوسائٹیوں میں عدل وانصاف اور قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔۔۔ ہمارے مزاج میں توازن اعتدال اور برداشت جیسی خصوصیات ناپید ہوچکی ہیں۔۔۔ اجتماعی اور قومی مقاصد کی بجائے ہم ذاتی مفادات کی دوڑ میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ تحمل، تعقل اور تدبر سے عصر جدید کے چیلنج کا مقابلہ اب بھی کیا جاسکتا ہے مگر یہ صفات پیدا کیسے ہوں؟ ہم رک کر ترقی یافتہ فعال اور مضبوط اقوام کی کامیابیوں کا کھوج لگانے اور ان طریقوں پر عمل کئے بغیر ان کی منہ زور طاقت کا مقابلہ کرنے نکل پڑے ہیںتو قدرت کیسے ہمارا ساتھ دے۔
شوق شہادت اور جذبہ جہاد اپنی جگہ درست اور حق سہی لیکن جہاد کی غلط تعبیر کرنا اور اپنوں کو ہی خودکش دھماکوں کی نذر کردینا کہاں کا اسلام ہے؟ اغیار کی کامیابیوں پر کڑھنے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے نام نہاد، ناقابل عمل اور اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس دعوے کرنے کے بجائے اپنی توانائیاں مثبت طریقوں پر لگانے کی ضرورت ہے۔
غلامیٔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقاضے
ہمارے سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہماری زندگیوں میں یہ ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جتنی مرتبہ پلٹ کر آیا ‘ کیا ہم نے ایک مرتبہ بھی اس کے دامن میں تشریف لانے والی ہستی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام پر کان دھرے ؟ کیا ہم نے جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے ہوئے کبھی سوچا کہ آج کے دن پیدا ہونے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و آخر کا مقصد بعثت کیا تھا؟ انہو ں نے زندگی بھر کیا امور سرانجام دیئے اور اس بارے ہم پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں؟ ان کے نام لیوا ہونے کی حیثیت سے ہم نے ان کے پاکیزہ مشن کیلئے کتنی قربانیاں دی ہیں؟
مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کا جشنِ ولادت ہم ہر سال عقیدت و محبت اور جوش و جذبہ سے مناتے ہیں، اس لیے کہ ہم ان کے نام لیوا امتی ہیں اوران کی غلامی اور اتباع کا دم بھرتے ہیں ۔ان کے لائے ہوئے دین کی عظمتوں کو دل سے تسلیم کرتے ہیں اور ان کے درِ اقدس سے ملنے والی ایمان و عمل کی روشنی کو نورِ سرمدی سمجھتے ہیں ۔اس تعلقِ غلامی کا ایک تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس احسانِ عظیم پر سراپا تشکر و امتنان بن جائیں ‘ یہ خوشی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک دن کیلئے نہیں زندگی کی ہر سانس بھی ان کے نام کر دیں تو بھی حقِ غلامی ادا نہیں ہو سکتا!
نباتات و جمادات میں احساس وادارک کی صفت نہیں ہوتی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق اتنی بڑی حیران کن طاقت (Force )ہے کہ وہ خشک تنے کو ہوش و خرد اور احساس وادراک ہی نہیں محبت و عشق کے جذبے سے بھی نواز دیتی ہے اور ایک طرف ہم ہیں کہ تمام تر قلبی ذہنی اور حسی صلاحیتیں رکھتے ہوئے بھی بے حس ‘ بے کیف اور محروم ہیں۔ کیا ہم ان پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوگئے ہیںجو قربتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض پاکر حیات جاویدکے مستحق ٹھہرے۔ مگر ہم توحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے، آپ پر ایمان کے دعویدار اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا دم بھرنے والے ہیں۔ آج کیوں ہم اپنے رب تعالیٰ سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور اپنی عاقبت سے بے خبر ہیں۔ ہمارے سینوں کے اندر دل دھڑکتے ضرور ہیں لیکن ان دھڑکنوں میں فانی دنیا کی محبتیں رچ بس گئی ہیں۔دل کی تختیاں غفلت اور شامتِ اعمال سے سیاہ ہو چکی ہیں ۔یہی سیاہی ہماری بے چینی اور اضطراب کا سبب ہے۔ نہ ہمیں اپنے گھر میں سکون‘ نہ ہمارے معاشرے امن کے امین‘ نہ ملکی اور قومی سطح پر استحکام اور نہ اقوام ِ عالم میں ہمارا کوئی وقار ۔جو نبی شجر ‘ حجر ‘ چرند‘ پرند سب کے لئے رحمت بن کر آئے ان کی مسندِ علم و عظ پر بیٹھنے والوں سے آج انسان بھی خائف ہیں۔ یہ قتل و غارت گری‘ مار دھاڑ اور خون خرابے اسی رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوں کے ہاتھوں ہو رہے ہیں۔ دنیا میں امن تقسیم کرنے والوں کی پیشانی پر آج دہشت گردی کا بدنما داغ لگ چکا ہے۔
یومِ میلاد تو انسانیت کیلئے یومِ نجات تھا۔ ظلم و جبر سے نجات ‘ شیطانی حربوں اور جھوٹی خدائی سے نجات‘ نا انصافی سے جھوٹ فریب اور تمام غیر عادلانہ رویوں اور غیرانسانی اعمال وافکار سے نجات ۔لیکن اس امت کو کیا ہوا کہ اس نجات دہندہ پیغمبر ِانسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واضح احکامات‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ ٔحسنہ، آپ کی پاکیزہ تعلیمات اور بے مثل قیادت کے باوجود زمانے بھر کے دکھ درد اور غم و آلام اس کا مقدر ہیں۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس صبح سعادت سے آج تک تقریباً ساڑھے چودہ سو سال سے زائدکا طویل عرصہ بیت چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوا ہر سال اس صبح سعید کا استقبال حتی المقدور جذبۂ ایمانی اور ملی جوش وخروش سے کرتے آئے ہیں ۔یوم میلاد کو کماحقہ منانے کیلئے اس سے لاکھوں درجے جوش و جذبہ ‘ جشن ‘ تقریبات اور جلوس وغیرہ کا اہتمام ہونا چاہئے کیونکہ یہ دن امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے سال بھر میں افضل ترین دن ہے۔ اسے شایان شان طریقے سے منانے کیلئے جتنی کوشش‘ محنت اور جانی و مالی قربانی ہوسکے کرنی عین تقاضائے ایمان ہے لیکن اس دن کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ ایک زندہ و باشعور امت ہونے کے ناطے ہم اس دن کو بطور عید منانے کے ساتھ ساتھ یومِ تجدید ِعہد کے طور پر بھی منائیں۔
آیئے! اپنے اپنے اداروں، گھروں، محلوں اور حلقہ ہائے اثر میں سیرت و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس آفاقی پیغام پر غور و فکر کی دعوت دیں لیکن ایک مرتبہ پھر اپنے ذاتی کردار کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آئینے کے سامنے رکھ کر ضرور دیکھ لیں۔