حقیقی جمہوری ممالک اور مہذب معاشروں میں تمام قومی ادارے حکومتی اثرو رسوخ سے آزاد ہوتے ہیں اور قومی مفادات ہمیشہ ان کی ترجیح ٹھہرتے ہیں۔ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اقدامات کرتے ہیں۔ قانون کسی حکمران کی کلائی کی گھڑی نہیں ہوتا کہ جسے جب چاہیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے تبدیل کردیں۔ عدل و انصاف کی بالا دستی ہر صورت اور ہر سطح پر یقینی بنائی جاتی ہے۔ قومی ادارے اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتے ہیں اور آئین و قانون میں رہتے ہوئے آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ان کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔
مگر ہمارے ہاں ہر آنے والا دن گزشتہ دن کی نسبت روبہ زوال ہے۔ ایک ڈھلوانی راستہ ہے جس پر من حیث القوم ہمارے قدم رکنے میں ہی نہیں آرہے۔ دہشت گردی کا معاملہ ہو یا ملکی اقتصادی و معاشی صورت حال۔۔۔ کرپشن کی ہوشربا داستانیں ہوں یا بنیادی ضروریات سے محروم عوام کی حالت زار۔۔۔ بے سمت خارجہ پالیسی ہو یا سرحدوں پر دشمنوں کا وار۔۔۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے نزدیک یہ سب کچھ کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت ایک مافیا ہے، جس کے سامنے تمام قومی ادارے سرنڈر کر چکے ہیں۔ نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر جیسے اداروں میں حکمرانوں کے ملازم بیٹھے ہیں جو ان کے مفادات کے محافظ ہیں۔ اس کی واضح مثال سرل لیکس ہے جس کے ذریعے قومی سلامتی کو چیلنج کیا گیا لیکن کیا ہوا؟ صرف وقت گزاری کے لئے ایک مفلوج کمیشن کا قیام۔ جہاں قومی سالمیت کو انصاف نہ مل رہا ہو وہاں قتل کے مقدمات میں عام آدمی کو کیا انصاف ملے گا؟ مقامِ غور ہے کہ سرل لیک کے ذریعے فوج کے ادارے کو بدنام کیا گیا، آپریشن ضرب عضب اور فوج کے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا۔ مگر ذمہ داروں کو کیا سزا دی گئی؟ سزا تو بڑی دور کی بات، ایسا اہتمام کیا گیا کہ اصل کرداروں پر شک کا سایہ بھی نہ پڑنے پائے۔
یہی حال پانامہ لیکس کے ساتھ ہے۔ بقول قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پانامہ لیکس کا فیصلہ 7 دن کے اندر ہو سکتا ہے، بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں میں کونسا پیسہ استعمال کیا گیا اور اسکی منی ٹریل کیا ہے صرف ان ثبوتوں سے ہی مسئلہ حل ہو جائے گا۔ مگر یہاں بھی یہی ہوگا کہ حکمرانوں کو کلین چٹ تھمادی جائے گی، اس لئے کہ معاشرے کے کمزور طبقات اور افراد کے خلاف قانون کچھ اور ہے اور طاقتور کے لئے کچھ اور۔ ماضی میں بھی اسی طرح ہوا کہ سیکرٹری خزانہ بلوچستان کے گھر سے75 کروڑ کیش نکلا، سندھ کے ایک وزیر کے گھر سے دو ارب کا کیش پکڑا گیا مگر آج کے دن تک ان کرپشن کیسز کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
دہشت گردی کے واقعات میں اگرچہ کمی آئی ہے مگر اس ناسور کی مکمل بیخ کنی ضرب عضب کے ساتھ ساتھ قومی ایکشن پلان پر سیاسی سطح پر پیش رفت سے ممکن ہے۔ کوئٹہ میں 100 وکلاء شہید ہوئے، درگاہ شاہ نورانی پر دہشتگرد حملہ میں 50 سے زائد جانیں چلی گئیں۔ مگر حکمران ایکشن پلان اور قومی سلامتی سے کھیل رہے ہیں۔ درگاہ پر جو قیامت گزری اس کے ذمہ دار موجودہ حکمران ہیں۔ انسانیت کے قاتل دہشتگردوں کے ہمدرد موجودہ حکمران ایکشن پلان پر سنجیدگی سے عمل کرتے، دہشتگردوں کے ماسٹر مائنڈوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹتے تو اس لعنت پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ ملک میں جنگل کا قانون ہے، حکومت امن و امان کے قیام میں ناکام ہے۔ عدم تحفظ کے شدید احساس نے عوام کو بے چین و مضطرب کررکھا ہے۔ جمہوریت کے لبادے میں یہ حکمران بد ترین آمر ہیں۔ یہ ملک میں سلطنت شریفیہ کا قیام چاہتے ہیں۔ جب تک یہ اقتدار میں رہیں گے، ملک کا ترقی کی طرف گامزن ہونا اور موجودہ بحرانوں سے نکلنا ناممکن ہے۔ یہ کرپشن کے بانی و بادشاہ اور دہشت گردوں کے معاون ہیں۔ انہوں نے ملک میں کرپشن کو بطور نظام استوار کر رکھا ہے۔
دوسری طرف ملک کی اقتصادی صورت حال یہ ہے کہ ترسیلات زر، سرمایہ کاری، برآمدات، زرعی اہداف میں کمی کا بحران اپنی جگہ مگر یہاں تو موٹرویز سمیت 73 تاریخی عمارتیں گروی رکھ کر دھڑا دھڑ غیر ملکی قرضے لئے جارہے ہیں۔ 9 سال قبل ترقی کی شرح نمو 7.5 فیصد تھی جو آج 2016 ء میں 4.7 فیصد سے نیچے ہے۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کے ذمہ غیر ملکی واجب الادا قرضے73 ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔ نواز حکومت نے غیر ملکی قرضوں میں 13 ارب ڈالر اضافہ کیا۔ خراب غذائی صورت حال، ممالک کی درجہ بندی میں نچلا درجہ، مائیکرو اکنامک، صحت، پرائمری تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں بہتری لانے میں ناکامی، کرپشن کی بہتات، انسانی وسائل کی ترقی کے حصول میں ناکامی، عوام الناس کا بنیادی سہولتوں سے محروم رہنا اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنا وہ امور ہیں جن کا اظہار انٹرنیشنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹس اور عالمی اقتصادی ادارے وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔
قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے رقم یہاں تک جاپہنچی ہے کہ یہ رقم چاروں صوبوں کے مجموعی ترقیاتی بجٹ سے زیادہ ہے۔ یہ تمام اعداد و شمار اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاکستان کی معیشت بہتر نہیں ہو رہی بلکہ بے پناہ قرضے لے کر ملک کی سلامتی کے لیے سنگین مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں۔
عدل و انصاف کا حصول ہر آئے دن نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دینے لگا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو اڑھائی سال کا عرصہ گزر چکا، انصاف کے حصول کے لئے شہداء کے ورثاء آج بھی قانونی و آئینی تقاضوں کے تحت عدالتوں میں حاضریاں دے رہے ہیں۔ عدالتوں اور حاضریوں کے دوران اس کیس کے حوالے سے پیروی کرنے والوں پر کیا کچھ بیتتا ہے، تھانہ کچہری کلچر سے واقف ہر شخص اس کا اندازہ لگاسکتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود شہداء کے ورثاء اور کارکنان عوامی تحریک کے ہر کارکن کا عزم و حوصلہ جواں ہے۔ اس لئے کہ ہم نے موجودہ ظالم اور دھاندلی زدہ نظام کے خلاف جانی و مالی قربانیاں دی ہیں، لہذا ہم اپنی ان قربانیوں کو کسی صورت رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ موجودہ حکمرانوں کے جرائم کی فہرست میں سانحہ ماڈل ٹاؤن سب سے بڑا جرم ہے اس لئے کہ بقیہ کیسز قومی دولت لوٹنے اور کرپشن سے سے متعلق ہیں جبکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاست کے 14 شہریوں کو دن دیہاڑے قتل کرنے کا قومی جرم ہے۔ لہذا قاتل حکمرانوں کو بے گناہوں کا خون کبھی معاف نہیں کریں گے۔ صرف اسلامی تعلیمات ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں یہ اصول موجود ہے کہ انصاف کے بغیر جمہوریت تو کیا انسانیت بھی پروان نہیں چڑھ سکتی۔
پاکستانی عوامی تحریک کے جرأت مند اور با شعور کارکن اپنے قائد کے زیر قیادت انقلاب کی منزل اور جدوجہد کے حوالے سے بڑے کلیئر ہیں۔قاتلوں کی پراپیگنڈہ مشینری انکے ذہنوں کو اس سے پہلے پراگندہ کر سکی اور نہ آئندہ کر سکے گی۔ قصاص، احتساب، اصلاحات اور پھر انتخابات ہماری انقلابی جدوجہد کا روڈ میپ ہے۔ دو چار چہروں کے بدلنے سے نہیں بلکہ نظام کے بدلنے سے ملک بدلے گا۔