دین اسلام کے آغاز سے ہی نبیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے محبوب نبی کے ساتھ جس والہانہ و وارفتانہ عشق و محبت کا اظہار فرمایا وہ تاریخ انسانیت میں ایک تابندہ و روشن مثال ہے۔ یہ اظہارِ محبت ایسا چمکتا و دمکتا ستارہ ہے جو سماء آفاق پر ایسے طلوع ہوا کہ جس کو بھلانا اور تاریخ سے منہاء کرنا ناممکن ہے۔
محبت ایسی چیز ہے جو نہ چھپتی ہے اور نہ مخفی رہتی ہے بلکہ محب اپنی کیفیت کا اظہار طرح طرح کے طریقوں اور سلیقوں سے کرتا ہے اور حال یہ ہوتا ہے کہ محبوب کی ذات عاشق کی آنکھوں سے ایک لمحہ بھی اوجھل نہیں ہوتی بلکہ اس کے اذھان و دماغ میں محبوب کی ذات اور اس کی ہر ادا ثبت ہوکر رہ جاتی ہے۔ پھر عاشق اپنی اس کیفیت کا والہانہ اظہار اپنے افعال سے یا زبان سے کرتا ہے۔
مدح مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ باب ہے جس کا مصدر خود ذات باری تعالیٰ ہے جس نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و عظمت کو اپنے الہامی کلام میں نہ صرف خود بارہا دفعہ ذکر فرمایا بلکہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ثناء و تعریف، ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، توقیر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اپنے جان و مال اور عزت و آبرو کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کرنے کی تعلیم بھی دی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تعلیمات الہٰیہ کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و آبرو کی حفاظت اپنی جانوں اور مالوں سے بڑھ کر کی۔ ہر محاذ پر جانثارانہ مثالیں پیش کیں۔ انسانی عقل جانثاری و حبی تعلق کی ان مثالوں پر آج تک حیران ہے۔ مگر خاص بات یہ ہے کہ ان عشاق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تائید الہٰی حاصل تھی اور درحقیقت یہ اللہ کی مدد و نصرت کے مظاہر تھے جو ان کے ہاتھوں ظہور پذیر ہورہے تھے۔
شعراء نے ثنائے مصطفی اور مدحت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو موضوع باندھا ہے، وہ انمول و نایاب، مضبوط و پائیدار بنیادوں پر مبنی ہے۔ اس کے اہم ارکان آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال، حسب و نسب اور عظمت و شرف کے مظاہر کے بیان ہیں۔ نیز خود آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اے فلاں اس بات کا رد کرو اور جواب دو جیسے حضرت حسان بن ثابت، حضرت کعب اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کافروں اور منافقوں کے اعتراضات و طعن کا جواب دو۔ ان اصحاب کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حکم دیتے ہوئے خصوصی دعا سے بھی نوازا، جس کی برکت سے انہوں نے ثنائے مصطفی میں کمال جوہر دکھائے۔ ذیل میں چند شعراء اسلام کے کلام پیش کئے جارہے ہیں:
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ
حضرت امام محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کے تین آدمیوں عمرو بن العاص، عبداللہ بن زمعری اور ابو سفیان نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی تو مہاجرین نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم کیوں نہیں دیتے کہ وہ ہماری طرف سے ان مشرکین کی مذمت کریں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی اس کام کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب ایک قوم نے اللہ کے رسول کی اپنے ہاتھوں اور اسلحہ سے مدد کی ہے تو وہ اپنی زبانوں سے بھی مدد کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔
انصار نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد ہم انصار ہیں۔ (جب جواب ملا) تو وہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ وہ آگے بڑھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے مجھے یہ پسند نہیں کہ مجھے میرے قول کے بدلے صنعا اور بصری کے مابین پائی جانے والی دولت ملے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم ہی اس کام کے لئے موزوں ہو۔ حضرت حسان نے عرض کی کہ مجھے قریش کے بارے میں علم نہیں ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا: اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! حسان رضی اللہ عنہ کو قریش کے بارے میں بتادو یعنی ان کی خامیوں اور خرابیوں کے بارے میں اسے آگاہ کردو۔
اس کے بعد حضرت حسان ثابت رضی اللہ عنہ نے مشرکین کی مذمت میں اشعار کہے۔
- صحیح بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ قریطہ کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا:
اهج المشرکين فان جبريل معک.
’’مشرکین کی ہجو کرو، جبریل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل فرمائی اور مدح مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے شانِ مصطفی کا دفاع یوں فرمایا:
هجوت محمدا فاجبت عنه
وعندالله فی ذاک الجزاء
’’تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی، پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے جواب دیا ہے اور اس کی حقیقی جزاء اللہ تعالیٰ کے پاس ہے‘‘۔
هجوت محمدا براً حنيفاً
رسول الله شيمته الوفاء
’’تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی، جو نیک اور ادیان باطلہ سے دور رہنے والے ہیں، وہ اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور ان کی خصلت وفا ہے‘‘۔
فان ابی و والدتي وعرضی
لعرض محمد منکم وقاء
’’بلاشبہ میرا باپ، میرے دادا اور میری عزت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے تمہارے سامنے ڈھال ہے‘‘۔
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اِن اشعار میں مخالف کو اپنے عقیدہ اور اس کے عقیدہ میں فرق بیان کرتے ہوئے کہا کہ تو نے تو دنیاوی مال و دولت اور انعام و اکرام کے لالچ و طمع میں آکر اس عظیم ہستی کی شانِ علو میں زبان درازی کی ہمت کی ہے مگر سن ہم عاشق مصطفی دنیا کی مال و متاع سے ماوراء و بالا ہوکر آپ کی مدح و ثنا کرتے ہیں۔ ہمیں تو صرف آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نوری مکھڑے کی ایک مسکراہٹ کی طلب ہے اور ہم اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب چہرے پر مخالفین کی وجہ سے آنے والے ناگواری اور ناراضگی کے آثار قبول نہیں کرتے بلکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی و مسرت کے لئے ہم اپنا سب کچھ لٹا سکتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام انبیاء میں بزرگی اور شان ختم نبوت کے حوالہ سے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ ابیات ارشاد فرمائے:
شهدت باذن الله ان محمداً
رسول الذی فوق السماوات من عل
’’میں اللہ تعالیٰ کے اذن سے گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی اللہ تعالیٰ کے ایسے برگزیدہ رسول ہیں کہ جن کا مقام و مرتبہ آسمانوں سے بھی بلند ہے‘‘۔
وان ابا يحيیٰ ويحيیٰ کلاهما
له عمل فی دينه متقبل
وان اخا الاحقاف اذا قام فيهم
يقول بذات الله فيهم ويعدل
’’اور بلاشبہ ابو یحییٰ (یعنی حضرت زکریا علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ علیہ السلام دونوں اپنے دین میں قبول کئے گئے ہیں۔ اور جب حضرت ہود علیہ السلام اپنی قوم میں کھڑے ہوئے تو فرماتے ہیں: اللہ کی قسم وہ (نبی آخرالزماں) ان میں ہی ہیں‘‘۔
جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے یہ ابیات سنے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ کے اس قول پر مہر ثبت فرمائی اور فرمایا ہاں، وہ آخری نبی میں ہی ہوں۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ
حضرت کعب رضی اللہ عنہ اسلام کے عظیم شاعر تھے جن کی شاعری میں وہ تاثیر تھی کہ تلوار سے زیادہ سخت اور تیروں سے زیادہ مضبوط تھی۔ کتب تاریخ و سیر میں آپ رضی اللہ عنہ کی شاعری سے اسلام کو جو تقویت ملی اس کے تذکرے ملتے ہیں۔
حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں مجھے بتایا گیا کہ قبیلہ دوس حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے ان اشعار کی وجہ سے اسلام لے آیا:
قضينا من تهامة کل ريب
وخيبر تم اجمعنا السيوفا
نخيرها ولو نطقت لقالت
قواطعهن دوسااو ثقيفا
’’ہم نے تہامہ اور خیبر سے ہر شک کو دور کردیا، پھر ہم نے تلواریں جمع کیں۔ ہم نے تلواروں کو اختیار دیا اگر وہ بول سکتیں تو بلاشبہ یہ کہتیں کہ ان کی کاٹ قبیلہ دوس اور قبیلہ ثقیف ہیں۔
ان اشعار کے بارے راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، یہ اشعار ان کفار پر تیروں کے اثر انداز ہونے سے بھی زیادہ اثر رکھتے ہیں۔
- ایک دفعہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے شعر کہنے کی اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو وہی ہے جس نے ھمت والا شعر کہا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: جی ہاں! وہ شعر یہ ہے:
همت سخينة ان تغالب ربها
فليغلبن مغالب الغلاب
’’قبیلہ سخینہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے مربی پر غلبہ پالیں، پس چاہئے کہ بہت زیادہ غلبہ پانے والا شخص ہر مغلوب جگہ پر غالب آجائے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ
حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ عظیم صحابی تھے جو کفار پر کفر کا عیب لگاکر اشعار کہتے تھے اور انہیں کفر کے ساتھ منسوب کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے ہاں کفر سے بڑھ کر کوئی چیز بری نہ تھی۔ علاوہ ازیں حضرت عبداللہ بن رواحہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن وجمال کو بہت ہی خوبصورت انداز میں یوں بیان کیا ہے:
فثبت الله ما اعطاک من حسن
تثبيت موسیٰ و نصرا مثل ما نصروا
’’پس اللہ رب العزت نے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حسن و جمال عطا کیا ہے وہ اسے ایسے سلامت رکھے جیسے اس نے حضرت موسیٰ کے حسن کو سلامت رکھا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد فرمائے جسے اس نے ان کی مدد فرمائی‘‘۔
حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ
قبول اسلام سے قبل حضرت کعب بن زہیر سے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بے ادبی سرزد ہوئی، جب اس کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے کعب کے سر کی قیمت مقرر کردی۔ بعد ازاں کعب کو اس صورتحال کا علم ہوا تو تائب ہوکر بارگاہ میں حاضر خدمت ہوکر یوں معافی طلب کی۔
انبئت ان رسول الله او عدنی
والعفو عند رسول الله مامول
مهلا هداک الذی اعطاک ناقلة انی
قرآن فيها مواعيظ وتفصيل
’’مجھے خبر ملی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سزا کا مستحق قرار دیا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہی معافی کی امید کی جاتی ہے۔ ٹھہریئے (میرے ساتھ نرمی برتیں) اس ذات کے واسطے جس نے آپ کو قرآن کا تحفہ دیا ہے جو نصائح اور تفصیل پر مشتمل ہے‘‘۔
پھر حضرت کعب بن زہیر نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت کا تذکرہ کیا:
ان الرسول لنور يستضاء به
مهند من سيوف الله مسلول
’’بے شک رسول اللہ نور ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نور طلب بھی کیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پختہ ہندی تلوار کی طرح اللہ کی تیز دھار تلواروں میں سے مضبوط تلوار ہیں۔
حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت امام بوصیری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کیلئے ایک پُروقار اورعظیم ادبی اسلوب کو اپنایا ہے۔ جس میں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ حمیدہ، خصائلِ شریفہ، شمائلِ مبارکہ اور خصائصِ عظیمہ کو نعتیہ پیرائے میں پیش کرنے کے علاوہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات ِجمیلہ اور عادات ِمبارکہ کو بھی صفحہ قرطاس کے سینے میں شعروں کی لڑیوں کی صورت میں فنی و ادبی اسالیب میں پرویا ہے۔ ان عظیم تعبیرات سے آپ کی علمی ثقاہت اور ادبی نظم کی جھلکیاں تابندہ و روشن ستاروں کی مانند پے در پے قاری کے نصیب میں آتی ہیں۔ ذیل میں قصیدہ بردہ شریف سے کچھ اشعار درج کئے جارہے ہیں:
ابان مولده عن طيب عنصره
ياطيب مبتدا منه ومختتم
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت نے آپ کے جسد اقدس کی پاکی واضح کردی ہے۔ سبحان اللہ ہر پاکی کی ابتدا اور انتہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود سے ہوتی ہے‘‘۔
مُحَمَّدٌّ سَيِّدُ الْکَوْنَيْنِ وَالثَّقَلَيْنِ
وَالْفَرِيْقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ ومِنْ عَجَمِ
’’آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں جہانوں اور جن و انس کے سردار ہیں۔ اور عرب وعجم کے دونوں گروہوں کے آقاومولیٰ ہیں۔‘‘
تاجدار ِکون و مکان کی شان حدود و قیودسے بالا تر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں بھی تمام مخلوقات کے سردار ہیں اور آخرت میں بھی سب کے آقا و مولیٰ ہونگے۔ جنات بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے دائرہ کار میں ہیں اور انسان بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع فرمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیادت کو محدود نہیں رکھا۔ بلکہ جغرافیائی حدود سے نکال کر خطہ عرب میں بسنے والے عرب باسیوں اور عجم میں رہنے والے لوگوں کو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرداری کے ماتحت کردیا ہے۔
هُوَ الْحَبِيْبُ الَّذِیْ تُرْجَی شَفَاعَتُهُ
لِکُلِّ هَوْلٍ مِّنَ الْاَهْوَالِ مُقْتَحَمِ
’’وہ ایسے محبوب ہیں۔ جن کی شفاعت کی امید (دنیا و آخرت میں) پڑنے والے کربناک مصائب میں سے ہر مصیبت میں کی گئی ہے۔‘‘
دَعَا اِلی اللّٰهِ فَالْمُسْتَمسِکُوْنَ بهِ
مُسْتَمسِکُونَ بِحَبْلٍ غَيْرِ مُنفَصِمِ
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی طرف بلایا۔ پس جو دامنِ مصطفیٰ کو تھامنے والے ہیں وہ ایسی رسی کو (یعنی نبوت و رسالتِ محمدی) کو پکڑنے والے ہیں جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔‘‘
ہمارے آقا ومولی شان محبوبیت کے تاجور ہیں۔ ساری مخلوقات میں اللہ رب العزت سے محبت کرنے میں آپ سے کوئی برتر نہیں ہے۔ دوسری طرف اللہ رب العزت کی محبت جتنی آپ سے ہے اتنی کسی دوسرے سے نہیں ہے۔ یعنی آپ ذات الہی کے محب اعظم بھی اور محبوب افضل بھی ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت سے محبت کرتے ہیں اور اس کے محبوب آقا ومولی ہیں۔
حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شانِ شفاعت کے مالک ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شافع و مشفع ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے عاشقوں کے مصائب و آلام کا مداوا فرمائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عاشق حقیقی کو مایوس نہیں ہونے دیں گے اورہر اس شخص کو نوازیں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاامیدوار ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواز شات اور انعامات موسلا دھار بارش کی مثل نازل ہوں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شان داعیت الی اللہ کے رتبہ پر فائز ہیں۔ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور دامن ِمصطفیٰ کو مضبوطی سے تھام لیا۔ وہ جان لیں کہ یہ کوئی معمولی وہلکا عمل نہیں ہے جو قابل فائدہ نہ ہو بلکہ یہ عمل ان کی نجات کاذریعہ بنے گا کیونکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حبی و عشقی تعلق کومضبوط اور پختہ کرنا در اصل اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہی ہے۔ لہٰذا یہ طرز عمل نیک بختی اور سعادت مندی کی روشن نشانی ہے۔
فَهُوَ الَّذِیْ تَمَّ مِعْنَاهُ وَصُوْرَتُهُ
ثُمَّ اصْطَفَاهُ حَبِيْبًا بَارِيئُ النَّسَمِ
’’پس آپ وہ (ذاتِ اتم) ہیں جن کے ظاہری و باطنی کمالات مکمل ہوئے تو خالقِ ارواح نے انہیں اپنا منتخب محبوب بنا لیا۔‘‘
اس سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں اگر کوئی ذات مکمل واتم ہے تو وہ صرف اور صرف ذاتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت تمام ظاہری کمالات و حسن کا مرقع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باطن تمام اخلاق و محامد کا مجموعہ ہے یعنی رب کائنات نے آپکوجتنی عظمت بخشی پھر اس سے بڑھ کرآپکواعزار عطا کیا اور وہ اعزاز محبوبیت کا ہے یعنی اللہ تعالی نے آقا کو اپنا محبوب بنا لیا۔
فَاِنَّهُ شَمْسُ فَضْلٍ هُمْ کَوَاکِبُهَا
يُظْهِرْنَ اَنْوَارَهَا لِلنَّاسِ فِی الظُّلَمِ
’’کیونکہ آپ فضیلت و برتری میں (روشن) آفتاب کی مانند ہیں وہ سب (انبیاء ) (روشن) ستارے ہیں جو اس آفتاب (نبوت) کے انوار کو لوگوں کیلئے تاریکیوں میں ظاہر کرتے رہے ہیں۔‘‘
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ بات کو مکمل کرتے ہوئے ایک مثال سے سمجھاتے ہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام ان ستاروں کی مانند ہیں جنہوں نے آفتاب محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اکتساب نور کیا اور تاریکیوں میں گم لوگوں کو ہر زمانہ نورِ ہدایت مہیا کیا۔ جس طرح آفتاب طلوع ہوتا ہے تو تمام ستارے چھپ جاتے ہیں اسی طرح جب شریعت محمدی کا نورطلوع ہوا تو سابقہ تمام شریعتیں منسوخ ہو گئیں۔
الغرض امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے آقا کی مدح و تعریف ایسے باکمال اور مودبانہ انداز میں کی ہے اور ایسی ادبی تعبیرات و عبارات اور بلاغی تشبیہات کا چنائو کیا ہے کہ صاحبانِ علم و دانش آپ کی بصیرت و علمی استعداد اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مضبوط حبی وعشقی تعلق کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔