تحریک منہاج القرآن کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس گزشتہ ماہ مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت مرکزی امیر تحریک محترم مسکین فیض الرحمن خان درانی نے کی جبکہ اس اجلاس کو ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کنڈکٹ کیا۔ اجلاس میں نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہدفیاض، ناظم تنظیمات محترم سردار منصور، امیر پنجاب محترم احمد نواز انجم، ناظم امور خارجہ محترم جی ایم ملک، سیکرٹری جنرل PAT محترم انوار اختر ایڈووکیٹ، ناظم تحریک آزاد کشمیرمحترم ظفر اقبال طاہر، جملہ مرکزی ناظمین و سربراہان شعبہ جات اور ملک بھر سے تحریک منہاج القرآن کی مرکزی مجلس شوریٰ کے معزز ممبران نے خصوصی شرکت کی۔
تلاوت و نعت کے محترم صاحبزادہ فیض الرحمن درانی نے اسلام میں مشاورت کی اہمیت، ذمہ داری اور اس حوالے سے تحریک منہاج القرآن کی انفرادیت پر ابتدائی گفتگو کی۔ مرکزی مجلس شوریٰ کے اس اجلاس میں
٭ششماہی کارکردگی رپورٹس کا جائزہ اور باقی ماندہ سال کے لئے لائحہ عمل ٭آئندہ سال کی ترجیحات
٭ملکی و عالمی حالات اور تحریکی پالیسی کا جائزہ لینے کے لئے معزز ممبران نے اپنی آراء کا اظہار کیا۔
1۔ اجلاس میں محترم شاہد لطیف قادری نے EEC کی طرف سے مرکزی تعلیمی اداراجات میں نظام، نظم و ضبط اور تعلیمی معیار کی بہتری کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی اور ان مشکلات کا ذکر کیا جو بعض تحریکی احباب کی طرف سے نظام اور Discipline میں رعایات و Relaxation کے مطالبہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس پرمعزز ممبران شوریٰ کی بھاری اکثریت نے ایک قرار دار کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ آ ئندہ داخلہ میں میرٹ کی پابندی، فیس معافی، ہاسٹل اور کالج کے Discipline، ملنے اور گھر جانے کے اوقات و دیگر معاملات میں طے شدہ نظام پر سختی سے پابندی کروائی جائے اور کسی طرح کی رعایت نہ دی جائے۔
2۔ ششماہی کارکردگی رپوٹ اور باقی ماندہ سال کا لائحہ عمل
نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض نے مختلف نظامتوں، فورمز کی ششماہی کارکردگی رپورٹ ہاؤس کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ اجلاس میں ہم نے درج ذیل امور کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا تھا۔
٭شیخ الاسلام کی تصانیف اور ریکارڈ شدہ خطابات کو عوام الناس تک پہنچانا۔
٭متوسط، تعلیم یافتہ طبقات بالخصوص نوجوانوں اور طلبہ تک مشن کے پیغام کا مؤثر ابلاغ۔
٭تنظیمی استحکام۔ ٭نظریاتی کارکنوں کی تیاری۔ ٭تحریکی دعوت کا فروغ۔
٭تنظیمی نیٹ ورک کی توسیع۔ ٭عہدیداران، کارکنان و وابستگان کی تربیت۔
٭الیکٹرانک و پرنٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے مشن کی تشہیر۔
٭12ماڈل شہروں میں سابقہ سال کے طے شدہ اہداف کا حصول۔
محترم نائب ناظم اعلیٰ نے کہا کہ ہماری تنظیمات، متعلقہ نظامتوں اور ذمہ داراحباب نے ملکی حالات میں بے یقینی کی فضاء کے باوجود اپنی ترجیحات اور ٹارگٹس کو حاصل کرنے کی بہترین کاوشیں کیں اور ہمیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی مگر ہمیں اس سمت میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
ششماہی کارکردگی رپورٹس کو معزز ممبران شوریٰ کے سامنے پیش کرنے کے بعد محترم ناظم اعلیٰ نے بحث کو سمیٹے ہوئے آئندہ چھ ماہ کیلئے درج ذیل امور پر خصوصی توجہ دینے کی قراردار ہاؤس میں پیش کی جس کی منظوری دی گئی۔
3۔ آ ئندہ چھ ماہ کی ترجیحات
- یونین کونسل سطح پر تنظیمات کے قیام کے سلسلے میں ہر تحصیل میں 6 یونین کونسل میں متحرک اور فعال تنظیمات قائم کی جائیں گی اور وہاں ہفتہ وار حلقہ درود پاک قائم کیا جائے گا۔
- مؤثر افراد تک دعوت کے فروغ کے سلسلے میں ہر تحصیلی عہدیدار کم از کم ایک مؤثر فرد تک ماہانہ بنیادوں پر دعوت پہنچائے۔
- دروس قرآن کو مزید منظم کیا جائے اور تنظیمات ان کے ثمرات کو سمیٹنے کی بھرپور کوشش کریں۔
- طلبہ اور خواتین کی بالخصوص سرپرستی کی جائے گی۔
- تربیتی کیمپ کے سلسلے کو جاری و ساری رکھا جائے گا۔
- حلقہ دورد کا قیام
- عرفان القرآن کورسز کے قیام پر بھی توجہ دی جائے۔
4۔ موجودہ ملکی اور عالمی صورت حال اور تحریک کی پالیسی کے حوالے سے معزز اراکین شوریٰ نے اپنی آراء کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں آئندہ سال کیلئے ترجیحات بارے ہاؤس کو آگاہ کیا۔
اس Discussion کو سمیٹتے ہوئے محترم ناظم اعلیٰ نے کہا کہ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ آپ کی رائے کے مطابق ہماری تنظیمات کے ذمہ داران، کارکنان اور رفقاء موجود ہ پالیسی و حکمت عملی سے مجموعی طور پر مطمئن ہیں۔ البتہ بعض areas اور شعبہ جات میں موجودہ پالیسی و حکمت عملی میں رہتے ہوئے ہی کام کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
اجلاس میں ناظم تربیت محترم ڈاکٹر تنویر اعظم سندھو نے تربیت کی اہمیت اور تربیتی کیمپس کے انعقاد، محترم میاں عبدالقادر قادری نے حلقہ جات درود اور SMS Culb اور سیکرٹری جنرل PAT محترم انوار اختر ایڈووکیٹ نے عوامی تائید کیلئے موجودہ پالیسی کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
5۔ اجلاس میں یکم مارچ 2009ء کو مرکز ی سیکرٹریٹ پر کل پاکستان مشائخ کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا گیا جس میں شیخ الاسلام خود شرکت فرمائیں گے۔ اس کانفرنس کا مقصد اصلاح معاشرہ، تعمیر ملت اور فروغ تعلیم کیلئے مشائخ کی مشاورت سے لائحہ عمل طے کرنا ہے۔
مرکزی مجلسِ شوریٰ کے اس اجلاس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ٹیلی فونک اظہار خیال کیا۔
6۔ بریفنگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
اس امت کو پیغمبرانہ ذمہ داریوں میں سے چند ذمہ داریاں عطا فرمائی گئی ہیں جو دراصل حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی نیابت ہے۔ ان ذمہ داریوں میں سرفہرست دعوت الی الخیر، دعوت الی اللہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے اپنی بہترین کوششیں بروئے کار لانا ہے۔ امر بالمعروف سے مراد نیکی کی مضبوطی کی کوششیں کرتے رہنا بھی ہے۔ اسی طرح نہی عن المنکر سے مراد معاشرے سے برائی کے خاتمے کی جدوجہد کرنا ہے۔ ایمان کے دعوے کی دلیل یہی امور ہیں۔ دعوت الی الخیر، امربالمعروف و نہی عن المنکر امت میں یہ تین کام جاری رہیں تو ایمان باللہ کا ثبوت بنتے ہیں۔ پس معاشرے میں خیر و بھلائی کی دعوت دینا، نیکی کو مزید مضبوط کرنے کی کوششیں کرنا اور معاشرے سے برائی کے خاتمے کی جدوجہد کرنا اللہ پر حقیقی معنوں میں ایمان لانے کا ثبوت ہیں۔
پاکستان اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی خستہ حالی دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں کو اللہ کی مدد حاصل کیوں نہیں ہو رہی؟ قرآن کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ الحمد سے والناس تک مسلمانوں کی غیر مشروط مدد کا وعدہ کہیں بھی نہیں ہے، جہاں بھی مدد کی بات آئی ہے اسے مشروط کیا گیا ہے۔ ان تنصرالله ينصرکم. کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو پھر اللہ تمہاری مدد کرے گا، اگر تم اللہ کی مدد نہیں کرتے، شرائط پوری نہیں کرتے تو تم بھی طبقات خلق میں سے ایک ہو، پھر دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تمہارا اپنا معاملہ ہے، جو طاقتور ہوگا وہ کمزور پر ظلم کرے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی مدد سے کیا مراد ہے؟ اللہ کی مدد سے مراد اللہ کے دین کی مدد کرنا، نیکی کا ساتھ دینا، حق و خیر کی دعوت دینا، نہی عن المنکر اور امر بالمعروف پر عمل پیرا ہونا، دین کو پہلے اپنی زندگی میں، پھر اپنے گھروں میں، پھر اپنے معاشرے میں اور پھر اپنے ملک میں متمکن کرنے کی کوشش کرنا اللہ کی مدد کرنا ہی ہے۔ آج اگر ہم اپنی صورت حال کا جائزہ لیں تو اس حوالے سے ہمارا اپنا کردار واضح ہو جاتا ہے کہ 16 کروڑ لوگوں میں سے دین کے غلبہ و نفاذ کے لئے کوششیں کرنے والے کتنے ہیں؟ معاشرے میں نمازی حضرات کا Ratue نکال لیں، نمازی بھی ہیں اور بے نمازی بھی، مگر نماز سے بڑھ کر اللہ کی مدد کی طرف کوئی نہیں آتا۔ آج قوم کو دین کا تقاضا پورا کرنے کے لئے تیار ہونا ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے قوم کو پکارا کہ کون میری مدد کرے گا؟ امت نے جواب نہ دیا تو اللہ نے اپنے محبوب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان سے اٹھا ہی لیا اور قوم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وجود ہی سے محروم ہوگئی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اَنْتُم الْاَعْلَوْن اِنْ کُنْتُمْ مُوْمِنِيْن.
یہاں بھی مومنین ہونے کی شرط لگا دی گئی کہ اگر مومن ہو تو تم ہی کامیابی کو حاصل کرو گے۔ ایمان اگر غیر معمولی ہو تو اللہ کی مدد بھی غیر معمولی ہوتی ہے، صرف کلمہ پڑھنے سے مدد و نصرت کا نزول نہیں ہوتا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ ایسی رہے گی جو اللہ کے دین پر قائم رہے گی، جو ان کی مدد نہیں کرے گا یا مخالفت کرے گا وہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک اللہ کا امر (یعنی قیامت) آجائے گی اور یہ گروہ/ طبقہ اسی طرح قائم رہے گا۔ (متفق الیہ)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس نے میری سنت کے ساتھ اس دور میں جو امت میں دور فساد ہوگا تمسک اختیار کیا، اس کو سو شہیدوں کا ثواب دیا جائے گا‘‘۔
اسی طرح مزید ارشاد فرمایا کہ ’’جو دین کے علم کی دعوت اور اسے فروغ اس نسبت سے دیتا ہے کہ اس سے اسلام زندہ ہو، اس کے اور انبیاء کے درمیان صرف ایک درجے کا فرق ہوگا‘‘۔
گویا دین کے فروغ کے سلسلے میں کی جانے والی کاوشوں پر بے انتہا انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ اس حوالے سے ’’المنهاج السلامه فی دعوت الی الاقامه‘‘ کا مطالعہ کریں۔
دعوت دین کے کام میں اپنی حکمت عملی کو وقت کی تبدیلی کے ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے۔ اپنی کوششوں کو بہتر بنانا پڑتا ہے۔ اس وقت دعوت الی الحق، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے موثر افرادِ معاشرہ تک دعوت پہنچانا بہت ضروری ہے۔ اپنے معاشرہ میں ڈاکٹرز، اساتذہ، لیکچررز، سکول ٹیچر، انجینئر، تاجر، صنعت کار اور اسی طرح دیگر موثر طبقات کو دعوت دے کر مشن میں شامل کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے اس حوالے سے کئی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ آپ نے معاشرے کے موثر افراد کی دلجوئی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی دلجوئی کے نتیجے میں آہستہ آہستہ ایمان ان کے دل میں اتر گیا۔ ایک سردار قریش کے اسلام میں آنے سے پورے کا پورا قبیلہ اسلام لے آتا اور اس سے اسلام کو تقویت ملتی۔ لہذا یہ ایک بنیادی کلیہ ہے کہ معاشرے کا طاقتور، موثر، Professional اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد تک دعوت پہنچائیں ان میں سے کئی احباب ایسے ہوتے ہیں جو زیادہ نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔ بدی طاقتور ہوتی جاری ہے لہذا آپ بھی موثر طبقات تک دعوت پہنچائیں، نئے مؤثر لوگوں پر محنت کریں۔ ان کو ذمہ داریوں کے حوالے سے ترجیح دیں، روح رواں آپ ہی رہیں، ان کو Front پر لے کر آئیں، ان کو منظم کریں، عملی کام کا شوق رکھنے والوں کو کام کے لئے آگے لے کر آئیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد و نصرت فرمائے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کملی کا سایہ آپ کے سروں پر قائم و دائم رہے۔