(نائب ناظم اعلیٰ تحریک)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر برپا خلفشار، افتراق، بدامنی، عدم استحکام، عدم تحفظ، نا انصافی، ظلم و استحصال، انسانی حقوق کی پامالی، انسانیت کی تحقیر و تذلیل، خونِ ا نسانی کی ارزانی، معاشرے کے انتہا پسند عناصر کی شر پسندی اور دہشت گردی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سارے بگاڑ کی اصل وجہ انسان کی اُس ضابطۂ امن سے دوری ہے جو دنیا کے خالق نے انسانوں کو امن اور سلامتی، محبت اور آشتی، نیکی اور پرہیز گاری، ایثار و قربانی اور دردمندی اور احسان کے ساتھ زندگی گذارنے کے لئے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔ آپ نے پورے عا لمِ انسانی کو اُس ایک مالک پر اور اس کے آخری رسول پر ایمان لانے کی دعوت دی جس نے قافلۂ انسانی کو آخرت کی منزل تک بحفاظت رسائی کے لئے ضابطۂ زندگی اور اس کا عملی نمونہ عطا کیا۔ پھر جو جو کمیونٹی اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن پر ایمان سے بہرہ مند ہو کر زندگی کے نظام کو اس کے مطابق ڈھالتی گئی وہ اسلام کے حصارِ امن میں داخل ہو تی گئی، دہشت گردی، خون خرابے اور قتل و غارت سے محفوظ ہوتی گئی اور انسانوں کے مابین محبت و یگانگت کے ایسے رشتے قائم ہوتے چلے گئے جو خونی رشتوں کی وحدت پر بھی بازی لے گئے۔ اسلام قبول کرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ضابطۂ امن پر ایمان لے آئے، پھر صدیوں کی دشمنیاں محبت اور دوستی میں بدل جاتیں۔۔۔ ان کے تعلقات کی بنیاد احترامِ آدمیت، ایثار اور قربانی کے مقدس جذبے پر رکھ دی جاتی۔۔۔ غریب اور امیر کا فرق مٹ جات۔۔۔ ایک دوسرے سے خوف و خطر کے اندیشے عنقا ہو جاتے اور سب انسان ایسی وحدت میں پرو دیئے جاتے جس میں نفرت و افتراق کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ جاتی۔ بدگمانیاں کافور ہو جاتیں۔۔۔ تعلقات شک کی بجائے یقین پر استوار ہونے لگتے۔۔۔ اور انسانی صلاحیتوں کی پرورش میں ایسی روانی آجاتی کہ ہر طرف خیر و عافیت کی بہاریں لہلہانے لگتیں۔۔۔ ایک جنّتی معاشرہ وجود میں آ جاتا۔ جب کوئی ایمان لانے کی خاطر بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتا تو وہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعتِ محبت کرتا اور پھر اس محبت میں ایسا ڈوب جاتا کہ آپس میں جھگڑنا بھول جاتا۔ یہ تھی وہ دعوتِ ایمانی جو اہلِ ایمان کو امن اور سلامتی، حقوق کے تحفظ، عزت و آبرو اور عدل و انصاف کی ضمانت مہیا کرتی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مشاہدہ کی بنیاد پر یہ لائحہ عمل طے کر لیا کہ جب جملہ اخلاقی، مذہبی، روحانی اور انسانی قدریں دم توڑ چکی ہیں اور انسان انسان کے خون کا پیا سا ہے تو اس کا حل صرف دعوت الیٰ اللہ، دعوت الیٰ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رجوع الیٰ القرآن ہے کیونکہ یہ دعوت اخلاقی، مذہبی، روحانی اور انسانی قدروں کی دعوت ہے۔۔۔ امن کی دعوت ہے۔۔۔ جو سلامتی کی منزل پر لے کر جاتی ہے۔۔۔ اس کا منہاج، قرآن ہے جو انسانیت کی بقاء اور اس کے ارتقاء کا ضامن ہے۔۔۔ اس کی دعوت دہشت گردی اور قتل و غارت سے نجات کی دعوت ہے اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جدال و قتال اور ظلم و بربریت کا جو بازار گرم ہے اس کا توڑ اسی دعوت سے ممکن ہے۔۔۔ یہی دعوت دنیا کو بالعموم اور عالمِ اسلام کو بالخصوص از سرِ نو امن و آشتی کی جنت عطا کر سکتی ہے اور دینِ اسلام کے خلاف ہونے والی ان سازشوں کا قلع قمع کر سکتی ہے جو انتہا پسند، امن دشمن اور دہشت گرد عناصر اسلام کے اصل چہرے کو مسخ کر کے اسے انتہا پسند اور دہشت گرد ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
اسلام کو درپیش اسی چیلنج اور حالات و واقعات کے پیش نظر شیخ الاسلام دعوتِ امن کا یہ عظیم مشن لے کر میدانِ عمل میں آ گئے کہ آج کے دور میں اسلام کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ اسلام وہ کچھ قرار دیا جاتا ہے جو اسلام نہیں اور جو اسلام ہے اسے اسلام تسلیم نہیں کیا جاتا۔ مغربی دنیا میں اسلام کی حقانیت کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ اسلام کا معنیٰ ہی سلامتی و امن ہے، اس کی تبلیغ امن کا پرچار ہے اور اس کی دعوت امن کی دعوت ہے مگر انتہا پسندی، مذہبی جنون اور دہشت گردی کو امت مسلمہ پر تھوپ کر اسلام کی حقیقت کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام چیلنجوں کا عملی مقابلہ کیا جائے۔ عالم کفر اور عالم مغرب کے سامنے اسلام کا عملی نمونہ پیش کیا جائے اور یہ کام علمی، فکری اور عملی سطح پر کیا جائے تاکہ اسلام کی حقانیت اور اسلام کی صداقت کا لوہا منوایا جا سکے۔ اس طرح ایک وسیع تر تصور کو سامنے لایا جائے اور اسلام کی کلیت اور آفاقیت کو دنیا کے سامنے رکھا جائے تا کہ عا لم کفر جان لے کہ کائنات میں اگر کوئی سچا دین ہے جو ہمارے سارے مسائل کا حل ہے اور ہر دور میں قابل عمل ہے تو وہ فقط دین مصطفوی، دین اسلام ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اسلام یعنی سلامتی و بقاء، تحفظ و ارتقاء، انسانیت کی فلاح اور نجات کی اس دعوت کو انہی بنیادوں پر استوار کیا جن پر اسے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سر انجام دیا کہ صرف دو دہائیوں کی قلیل مدت میں انسانیت کی کایا پلٹ دی۔ صدیوں سے ایک دوسرے کے خون سے ہولی کھیلنے والے خون آشام قبائل کو حلاوتِ ایمان نے یوں شیر و شکر کر دیا گویا وہ ایک دوسرے کے بغیر ادھورے اور نامکمل ہوں اور زندہ ہی نہ رہ سکتے ہوں۔ مواخات، ایثار اور قربانی نے انہیں امن، سلامتی، عزت و احترام اور باہمی محبت اور بھائی چارے کی وہ نعمتیں عطا کر دیں جو آج بھی تمام اقوامِ عالم کی رہ نمائی کے لئے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اس دعوت کا ایک طریقۂ کار ہے جس کا آغاز داعی کی ایک خاص نہج پر تعمیرِ شخصیت سے ہوتا ہے۔ یہ نہج داخلی امن اور طمانیت کی نہج ہے۔ بندہ اندر سے امن کی برسات میں بھیگا ہوتا ہے۔ جب سب انسان اندر سے امن کے داعی بن جاتے ہیں تو ان کا پورا ماحول محبت کی فصل بن کر لہلہانے لگتا ہے۔ حلاوتِ ایمان کی بدولت دل میں سلامتی گھر کر لیتی ہے اور مومن کے سینے میں قلبِ سلیم دھڑکنے لگتا ہے جو امن و آشتی کا سر چشمہ بن جاتا ہے۔ یہ داعی اپنے عمل کو ایسی حکمتوں سے مزین کر لیتا ہے جن کے فیض سے امن کا پھریرا پورے عالم پر لہرانے لگتا ہے۔ یہ ہے وہ کارنامہ جو شیخ الاسلام ربع صدی سے سر انجام دینے میں مصروف ہیں۔
گذشتہ ماہ شائع ہونے والی قسط (دعوت کا اولین مخاطب) میں ہم نے دیکھا کہ شیخ الاسلام کی تعلیمات کے مطابق تحریک منہاج القرآن دعوت الی اللہ اور دعوت الی الرسول کی تحریک ہے۔ دعوت کوئی ایسا پیکج نہیں جس کے طریقہ کار کو کسی گائیڈ بک سے پڑھ کر ہر کوئی اس پر عمل درآمد کر کے دعوت کے نتائج حاصل کر سکتا ہے، بلکہ دعوت کا مرکز و محور خود داعی کی اپنی ذات ہے۔ اس کے قلبی احوال ہیں اور اس کے من میں نمو پانے والے وہ انوارِ ہدایت ہیں جن کا سرچشمہ اس کے دل میں سدا سلامت رہنے والی حُبِّ الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ دعوت اس کی روح سے خود رو دھارے کی طرح پھوٹتی ہے اور اس کے من کو سیراب کرتی رہتی ہے، اس کی زبان سے ادا ہونے والے ہر لفظ اور اس کے جسم کی ہر حرکت سے ہویدا ہوتی ہے۔ جو کوئی بھی اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے اس کے حسنِ عمل سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
ہجرت سے ایک سال قبل بیعت عقبہ ثانی سے پہلے مدینہ میں متعین کئے جانے والے نقیبِ دعوت حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا یہی حسنِ عمل ہی تو تھا کہ مدینہ میں بسنے والے حالتِ کفر میں پکار اٹھے کہ مصعب رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی نہ جائے، نہ کوئی ان سے بات کرنے کا خطرہ مول لے کیونکہ جو کوئی اس کے ساتھ دو گھڑی ٹھہر جاتا ہے ایمان قبول کئے بغیر نہیں لوٹتا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری مدظلہ العالی نے اپنی زندگی دعوت کے لئے وقف کرتے ہوئے جب تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی تو آپ نے اس کی بنیاد دعوت الی اللہ کے اِسی اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسوۂ صحابہ رضی اللہ عنہم پر رکھی اوراس کی نتیجہ خیزی دنیا نے دیکھی کہ تھوڑے ہی عرصے میں یہ دعوت صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کے کونے کونے میں پہنچی اور دیکھتے ہی دیکھتے تحریک منہاج القرآن کی دعوت کا نیٹ ورک دنیا کے 80 سے زیادہ ممالک میں پھیل گیا۔ بالخصوص یورپی ممالک میں مقیم مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ ان کے بچوں کو غیر اسلامی کلچر میں رہتے ہوئے بھی دین کا شعور ملا اور کثیر تعداد میں غیر مسلم مسلمان ہونے لگے۔ نیز اقوام عالم میں دین اسلام کی حقیقی تعلیمات کا چہرہ نکھر کر سامنے آنے لگا۔
شیخ الاسلام اور دعوتِ امن کی وسعتیں
شیخ الاسلام نے دعوت کے اس انتہائی حساس عمل کو کن وسعتوں سے آشنا کی۔۔۔ دعوت کو عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوؤں سے آراستہ کر کے کس طرح زمان و مکاں کی حدوں سے ماوراء لے گئے اور کس طرح اسوۂِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسوۂِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو اپنے عملِ دعوت کی بنیاد بناکر اسے عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی محنت کا رنگ عطا کر دی۔۔۔ آپ نے دعوت کی حکمت کو دعوت کے عمل کے کون کون سے جدید پیمانوں سے منطبق کرتے ہوئے اس کے بے اثر روایٔتی طُرق کو مسدُود کیا اور دعوت کے نتیجہ خیز اور سحر انگیز جدید طرزِ عمل کو کیسے متشکّل کی۔۔۔ فروغ بخش۔۔۔ اوراسے تحریک منہاج القرآن کے رفقاء کے قلوب میں اتارا !یہی ہمارا موضوع ہے۔
دعوت کے حوالے سے آپ کی جدوجہد اور سرگرمیاں اِس موضوع یا عنوان کے تحت ان کی کسی ایک کتاب میں محفوظ نہیں، نہ ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ شروع سے آج تک ان کا ہر عمل اور ان کا ہر سانس دعوت ہے، اسے حرف و صوت کی بندشوں میں مقّید نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے آپ کی تعلیمات جاننے کے لئے آپ کے جملہ خطابات جو کہ آڈیو اور ویڈیو میڈیا میں محفوظ ہیں اور بآسانی دستیاب ہیں اور آپ کی مطبوعہ کتب کا مطالعہ اور آپ کی مجالس کے باطنی احوال سے آگہی کی کرنیں اکٹھی کرنا ہوں گی، خصوصاً شیخ الاسلام کی اوائل دور کی تحریریں جو 80ء اور 90ء کی دہائی میں شائع ہوئیں اور اسی زمانے کے تربیتی خطابات ایک اہم خزینہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ ایک ریاضت ہے جو مصمم ارادے کی متقاضی ہے، پھر ان کی دعوت کے جملہ اصول سمجھ میں آجاتے ہیں اور جو حکمت انہوں نے آج اختیار کر رکھی ہے، اور جو بتدریج بدلتے ہوئے عالمی حالات کے مطابق ارتقاء پذیر ہوتی رہتی ہے، اسے سمجھنے میں بھی آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ ریاضت تحریک منہاج القران کے ہر رفیق کے لئے از حد لازم ہے کیونکہ تحریک منہاج القرآن دعوتِ توحید و رسالت کی تحریک ہے۔ دنیا بھر میں امن و سلامتی برپا کرنے اور ہر قسم کی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی تحریک ہے۔ اس کا ہر رفیق رفاقت حاصل کرنے کے حوالے سے سب سے پہلے داعی ہے اور بعد میں کچھ اور، لہٰذا ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اس فریضے کی مؤثر انجام دہی کے لئے دعوت کے بنیادی اصولوں کا اوراس ضمن میں شیخ الاسلام کی تعلیمات کا کامل ادراک حاصل کریں۔
دعوتِ توحید میں حال و قال کا امتیاز
جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے منہاج القرآن کی دعوت توحید و رسالت کی دعوت ہے (لا اله الا الله محمد رسول الله)، ان دونوں میں کچھ فرق نہیں، یہ ایک ہی دعوت ہے۔ رسالت کے بغیر توحید کی دعوت ناقابلِ فہم ہے۔ رسول کی اطاعت کے بغیر اللہ کی اطاعت کا تصور بھی ناممکن ہے۔ دونوں میں فرق کریں گے کہ تو ملت اسلامیہ کی وحدت کا شیرازہ بکھرنے لگے گا۔
اس دعوت کا تعلق بیک وقت حقیقت توحید اور ادب رسالت سے ہے۔ توحید کا تعلق صرف قال سے نہیں اس کا تعلق حال یا مستقل قلبی کیفییات سے ہے۔ قال کی توحید ذہن میں وارد ہوتی ہے جبکہ حال کی توحید کا ورود انسان کے قلب پر ہوتا ہے۔۔۔ قال کی توحید کا صدور زبان سے ہوتا ہے اور حال کی توحید کا ورود روح سے۔۔۔ قال کی توحید پر لوگ نادانی میں تنازع کرتے ہیں جبکہ حال کی توحید سے محبت و مؤدت اور عرفان جنم لیتا ہے۔۔۔ قال کی توحید میں لوگ ایک دوسرے کو کافر و مشرک گرداننے لگتے ہیں مگر حال کی توحید سے انسان اپنے سیرت و کردار سے کافروں کو مسلمان کرتا ہے۔
یہی حال کی توحید منہاج القرآن کی دعوت ہے، ایسی دعوت جو توحید کے معارف، لذتوں، حلاوتوں، برکتوں اور سعادتوں کو انسان کی روح میں اتار دے، اسے ذہن سے اور شخصیت کے ظاہری مظاہر سے اٹھا کر باطن اور باطن کے باطن کی تہوں میں منتقل کر دے اور زبان کے قول و اقرار سے قلبی کیفییات یا حال کی گہرائیوں میں اتار دے۔ داعی نگاہ اٹھائے تو کفر و شرک کے بت پاش پاش ہونے لگیں اور اس کی صحبت میں پتھر دل موم ہونے لگیں۔ اس کے برعکس اگر توحید کی لذت قلب میں حال کو آراستہ نہیں کرتی تو پھر لوگوں کے دل دنیوی حرص و طمع کی لعنت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ انہیں دنیا کی رغبتیں اور شہوتیں اپنی طرف کھینچنے لگتی ہیں اور دنیا کی رنگینیوں کی چاہتیں دل پر اپنی حکمرانی قائم کر لیتی ہیں۔ دنیا کی رغبتوں اور شہوتوں کی دل پر یہ حکمرانی دل کو مردہ یا بیمار کر دیتی ہے اور بندہ خواہشات کے بتوں کا پجاری بن جاتا ہے۔ زبان پر بے شک توحید سجی رہے لیکن دل کے صنم خانے میں توحید کے نور کی کوئی کرن روشنی نہیں کر رہی ہوتی کیونکہ اس نور کے لئے تو اللہ اور اس کے رسول کی چاہت کی روشنی درکار ہوتی ہے۔ مگر جو حال والے ہیں وہ اللہ کی محبت میں گرفتار اور بیقرار رہتے ہیں۔ انہیں اس کی یاد کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اللہ ہی ان کا معبود، مطلوب، مقصود اور محبوب ہوتا ہے۔ یہ دل ہر غیر کے نقش، ذکر اور چاہت سے پاک ہوتا ہے، اور اللہ کے غیر سے مراد ہر وہ شے ہے جو بندے کو اللہ سے دور لے جائے۔ اللہ والے ایسے ہر شخص اور ایسی ہر شے سے بہت دور رہتے ہیں۔ ان کے سینے میں قلب سلیم ہوتا ہے، صحت مند اور تندرست و توانا دل، ایسا دل جس پر روح کی حکومت ہو، جو نفس کی دست برد سے محفوظ ہو، جس پر مالا ئے اعلیٰ سے انوار اتریں، فرشتے اتریں، تجلیات اتریں، الہامات و برکات اتریں۔ جو نفس اور دنیا کی رغبتوں سے آزاد ہو اور اس پر شیطان کی آرائش محفل بے اثر رہے۔ یہی دل سرچشمۂ امن اور پیامِ نجات ہے۔ اسی دل کا حصول دعوتِ اسلام ہے، دعوتِ امن ہے، سلامتی کی ضمانت ہے اور دعوتِ منہاج القرآن ہے۔
قلبِ سلیم کی مؤثر اور نتیجہ خیز دعوت
قلب سلیم وہ دل ہے جو اللہ اور اس کے پیارے رسول ا کی محبت کے لئے وجود میں آتا ہے جسے اللہ کی معرفت کے حصول اور شہوتوں اور چاہتوں کو قربان کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ دل اس لئے بنایا گیا ہے کہ بندہ اللہ سے محبت کرے، اسے یاد کرے، اللہ کی طرف رجوع کرے، اس کے ساتھ انابت رکھے اور اللہ کا ذکر ہی اس کی خوراک اور اس کی غذا ہو۔ دنیاوی مفادات، خود غرضی، حسد، بغض، انتقام کی بیماریوں سے سلامت اور پاک ہو۔ جب دعوت قلبِ سلیم دیتا ہے تو یہ لوگوں کے دلوں میں اترنے لگتی ہے۔ کیونکہ زبان سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت میں گندھا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے لفظوں کی تاثیر یہ ہوتی ہے کہ ان سے پتھر بھی موم ہو جاتے ہیں۔ ان سے دلوں میں محبت کی لو جاگ اٹھتی ہے اور ایثار و قربانی انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ گویا یہ تکلم نہیں طلوعِ سحر ہے کہ رات کے اندھیرے چھٹنے لگتے ہیں اور پو پھٹنے لگتی ہے اور دلوں میں آفتابِ توحید جلوہ گر ہونے لگتا ہے۔ دلوں میں محبت، چاہت اور رغبت صرف ایک کے لئے رہ جاتی ہے جو مالکِ حقیقی ہے جس نے ہمیں اپنے حبیب کی اطاعت اور محبت اور ادب و تعظیم کی وہ نعمت عطا فرما دی جو ہماری نجات کا سامان ہے۔ اگر داعی ایسے قلبِ سلیم سے محروم ہے تو عمر بھر دعوت کا کلمہ الاپتا رہے دلوں میں توحید کے چراغ نہیں جلا سکے گا کہ وہ خود اس چراغ سے محروم ہے۔
بلاشبہ شیخ الاسلام کی دعوتِ امن کی آفاقیت و جامعیت اور ان کے اقوال و افعال کی تاثیر و اثرات کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیخ الاسلام قلبِ سلیم کی نعمت کو اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہیں اور ان کا ہر قول و فعل بھی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں امن، سلامتی، رواداری، ہم آہنگی اور برداشت کی دعوت کو چہار دانگ عالم میں پھیلانے میں مصروف عمل ہیں۔ نیز ایک عالم ان کی ان خدمات سے مستفید و مستنیر ہو رہا ہے۔ شیخ الاسلام کے سینے میں موجود قلبِ سلیم سے نکلنے والی دعوت کیونکر اپنے اثرات ظاہر کرتی ہے اس کے لئے آیئے مؤثر دعوت کے لئے لابدی قلب سلیم کی علامتوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔
قلبِ سلیم کی علامات
1۔ یہ وہ صحت مند دل ہے جو کبھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوت۔۔۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے :
’’جن کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے تو ان کے پیچھے کبھی نہ پھرا کر اور جو ہر وقت اللہ کی یاد میں غرق رہتے ہیں وہ خدمت کے بھی لائق ہوتے ہیں اور ہر دم تکے جانے کے بھی لائق ہوتے ہیں۔‘‘ (سورہ کہف)
ان کوتکنا اللہ کی یاد کو قائم رکھنے کا سبب ہوتا ہے۔ اور جن کے دل اللہ کی یاد سے غافل ہو جائیں ان کے پیچھے نہ پھرا کر، وہ بیکار لوگ ہیں۔ سو پہلی علامت یہ ہے کہ قلبِ سلیم کبھی اللہ کی یاد اور ذکر سے غافل نہیں ہوتا۔
2۔ قلبِ سلیم کبھی اللہ کی خدمت ترک نہیں کرتا، ہر وقت اللہ کی نوکری میں رہتا ہے، استقامت سے ڈٹا رہتا ہے۔ صبح سے شام جو اس کا وظیفہ حیات ہے وہ اللہ کی رضا کے مطابق ہوتا ہے۔ نماز کے وقت، نماز ادا کرنا، روزے کے وقت روزہ، جو حلال ہے وہی کھاتا ہے، جو حرام ہے اس کے قریب نہیں جاتا۔ اِدھر ُادھر نہیں تکتا، آنکھ بند کر لیتا ہے۔ جس کو چاہنا ہے اسی کو چاہتا ہے، وہ جدھر چلائے ادھر چلتا ہے، جہاں بٹھائے وہاں بیٹھتا ہے جہاں سے روکے وہاں رک جاتا ہے۔ ہر دم اس کی خدمت میں رہتا ہے۔ اس کی خدمت کبھی ترک نہیں کرتا۔
3۔ ایسا دل کبھی غیر سے مانوس نہیں ہوتا، اللہ کی یاد اوراللہ کے رسول کی یاد ہی میں اس کو راحت، سکون اورلذت ملتی ہے، اور وہ اسی یاد میں بھیگا رہتا ہے۔
4۔ اگر کبھی اللہ کی خدمت کا وظیفہ چھوٹ جائے، اللہ کی بندگی میں کسی لمحے مجبوری سے کوئی خدمت کا عمل ترک ہو جائے تو قلبِ سلیم اتنے افسوس اور دکھ میں مبتلا ہو جاتا ہے جتنا دنیا کے حریص کا اگر مال ڈوب جائے تو اس کو غم کھا جاتا ہے۔ اسے اللہ کی چاہت اور رغبت اتنی شدت کی ہوتی ہے جتنی بھوکے کو کھانے کی ہوتی ہے اور پیاسے کو ٹھنڈے پانی کی ہوتی ہے۔ کسی کو شدید پیاس ہو، گرمی کا موسم ہو اور تین دن سے پانی کی بوند نہ ملی ہو اوراس کو چشمے کا ٹھنڈا پانی نظر آ جائے تو اس کی کیفیت اس پانی کے لئے کیا ہوگی؟ پیاسے کو جو لذت اس وقت ملے گی قلبِ سلیم کو اس سے کروڑوں درجہ زیادہ لذت اپنے پیارے رب کی خدمت اور محبت میں ملتی ہے۔
5۔ جب بندہ نماز میں داخل ہو، اللہ کے ذکر اور عبادت میں داخل ہو تو دنیا کے سب غم اس طرح بھول جائیں جیسے کوئی غم تھا ہی نہیں۔ قلبِ سلیم دنیا کے سارے غم لمحۂِ ذکر الٰہی، لمحۂِ خدمت الٰہی اور لمحۂِ عبادت الٰہی میں بھول جاتا ہے۔
6۔ اسے ایک ہی غم ہوتا ہے، اللہ کی رضا کا غم، اس کے سوا کوئی غم نہیں ہوتا۔ دنیا کے نفع اور نقصان میں دنیا کے ضابطوں کے مطابق معاملہ کرتا ہے، اگر کوئی غم دل کو لگتا ہے تو ایک ہی اور وہ اللہ کی رضا کا غم ہوتا ہے کہ کہیں مالک مجھ سے ناراض نہ ہوجائے۔ کہیں میرا مالک پردہ نہ ڈال دے، مجھے محجوب نہ کردے مجھے اپنے دیدار سے محروم نہ کردے۔ مجھ پر غضبناک نہ ہوجائے۔
7۔ ساتویں علامت صحت مند دل کی یہ ہے کہ اگر ایک لمحہ بھی یاد الٰہی کے بغیر گزر گیا تو وہ سمجھے کہ میری زندگی ضائع ہوگئی۔ وقت کے ضائع ہونے کا اتنا خوف اتنا ڈر ہوتا ہے۔
8۔ اس کا حسن نیت کمال درجے کا ہوتا ہے۔ جو کام کرتاہے اس کی نیت خالصتاً لوجہ اللہ ہوتی ہے، کسی سے سنگت یا دوستی بناتا ہے تو اللہ کے لئے، کسی سے محبت کرتا ہے تو اللہ کے لئے، کسی سے دشمنی کرتا ہے تو اللہ کے لئے، مال کماتا ہے تو اللہ کے لئے، خرچ کرتا ہے تو اللہ کے لئے، کسی کے پاس مجلس میں بیٹھے تو اللہ کے لئے اور کسی کوچھوڑ دیتا ہے تو اللہ کے لئے۔ جب دل صحت مند اور سلیم ہو جاتا ہے تو بندہ عمل کے ڈھیر کی بجائے عمل کی خالصیت پر توجہ کرتا ہے، کثرت عمل کی بجائے حسن عمل پر دھیان کرتا ہے ۔ یہ نہیں سوچتا کہ اتنی تسبیح کر لوں تو اتنا ثواب ہوگا۔ وہ ثواب کی تجارت میں نہیں پڑتا۔ دل جب قلب سلیم ہو جائے تو اسے خوشی، کیف اور سرور صرف اس بات میں ملتا ہے کہ جو کروں خالص یار کے لئے کروں تا کہ وہ راضی ہو جائے۔
دعوت کی تجدیدی حکمتیں
جب قلبِ سلیم کی یہ علامات کسی کو نصیب ہو گئیں تو توحید و رسالت کا داعی اپنی فتح مندیوں کے جلو میں میدان میں آ گیا۔ اب اسے دعوت کی تدبیر کرنا ہے جس کی بنیاد حکمت پر رکھی جائے گی۔ ادع الی سبیل ربک با الحکمۃ۔ عملِ دعوت کو حکمت کے ساتھ سرانجام کرو۔ اب حکمت اس وقت تک حکمت نہیں بنتی جب تک ہر دور کے حالات اور تقاضوں کے پیشِ نظر نہ رکھا جائے اور مخاطب کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اس سے گفتگو نہ کی جائے۔
1980ء میں جب شیخ الاسلام نے دعوت امن کے سفر کا آغاز کیا تو معروضی حالات آج جیسے نہ تھے۔ اس وقت اس دور کے ملکی اور بین الاقوامی حالات کے عین مطابق دعوت دی گئی اور نتیجہ خیزی کے حوالے سے کامیابیوں کا ریکارڈ موجود ہے جو اس زمانے کے حالات کے مطابق اختیا کی گئی حکمت کی وجہ سے حاصل ہوئیں۔ دنیا کے جس کونے میں بھی اس دعوت کی صدا پہنچی، سب نے خوشبو کی طرح اس کی پذیرائی کی۔ 1981 سے 1989 تک پاکستان سے باہر خلیجی ریاستوں ابوظہبی، کویت، عمان، یورپ میں لندن، برمنگھم، مانچسٹر، گلاسگو، فرانس، بلجیئم، ڈنمارک، ناروے اور امریکہ اور کینیڈا میں تحریکِ منہاج القرآن کی شاخیں قائم ہونے کے بعد اپنا کام شروع کر چکی تھیں۔ اور آج دنیا کے 80 ممالک میں اس کے سنٹرز بھرپور نتیجہ خیزی کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ اور دنیا کی کوئی مذہبی، روحانی، ویلفئیر اور سیاسی جماعت ایسی نہیں جس کا اس عمل میں منہاج القرآن کے مقابلے میں نام بھی لیا جا سکے۔
مگرآج کے دور میں دنیا بھر میں اسلام اور امتِ مسلمہ کے خلاف جو صورتحال پیدا ہو چکی ہے اس کے مدِ نظر دعوت کے کام کے لئے بیس سال پہلے اختیار کی گئی حکمت آج یقیناً نہ صرف بے سود ہو گی بلکہ نقصان کا باعث بھی ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام نے حکمتِ دعوت کو آج کے مخصوص معروضی حالات کے عین مطابق از سرِ نو تشکیل دیا ہے اور اس کے نتائج بھی یقیناً پہلے اختیار کی گئی حکمت کی طرح انتہائی شاندار ہونگے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے موثر حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ بات صرف نور باطن اور حکمتِ دعوت کی لمحہ بہ لمحہ حفاظت کی ہے۔
آج کے مخاطب کی نفسیات کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ جسے دعوت دی جا رہی ہے اس کے حالات، معاملات، مصائب اور گنجائشوں کو جاننا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دیکھنا کہ اس کی قلبی بے چینی کا سبب کیا ہے، حکمت کا اہم تقاضا ہے۔ پھر مخاطب کی علمی، ذہنی اور فکری سطح کو بھی پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ الغرض حکمت کے تقاضوں میں سے ہے کہ بات اپنے مخاطب تک پہنچانے کے لئے ہر اس بات کو ملحوظ رکھا جائے جسے ملحوظ رکھ کر پیغام زیادہ مؤثر طریقے سے مخاطب تک پہنچایا جا سکتا ہے تا کہ بات مخاطب کے قلب و باطن کی گہرائیوں میں اتر جائے۔
یہاں ہم حکمتِ دعوت کی ان مختلف جہتوں کا باری باری مطالعہ کرتے ہیں جو شیخ الاسلام نے منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے دی جانے والی دعوت کے لئے ترتیب دی ہیں اور دعوت کی یہ جہتیں ہمارا طرۂ امتیاز ہیں۔
1۔ جامعیت اور آفاقیت
آج شر اور بگاڑ کلی اعتبار سے مسلمانوں کی زندگی پر غالب آچکا ہے۔ یعنی ایسی بات نہیں کہ فقط اقتصادی زندگی میں بگاڑ ہو یا سیاسی زندگی میں بگاڑ ہو۔ مادی و معاشرتی زندگی اس سے پاک ہو یا فقط دنیوی زندگی میں بگاڑ ہو اور مذہبی زندگی پاک ہو یا مذہبی زندگی میں بگاڑ ہو اور تعلیمی زندگی پاک ہو الغرض مسلمانوں کی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی پہلو جتنے بھی ہیں وہ ایک ہمہ گیر زوال اور انحطاط کا شکار ہوچکے ہیں اور حق کی طاقتیں کچلی جا چکی ہیں۔ پھر یہ بگاڑ یک قومی نہیں، بین الاقوامی ہو چکا ہے جبکہ اس بگاڑ کو ختم کرنے والی کوششیں جزوی ہیں۔ بگاڑ کی نوعیت کلی ہے اور اصلاح کی کوشش جزوی ہے۔
افسوس آج ہمارا مجموعی طرز عمل یہ ہے کہ ہم فقط ایک مسلک کی بنیاد پر اصلاح کی کوشش کرتے ہیںاور ایک مسلک کو دعوت دیتے ہیں، باقی مسلک ہماری دعوت کا مخاطب نہیں ہوتے۔ نہ ہم ان کے ہاں جاتے ہیں اور نہ انہیں اپنے پاس آنے دیتے ہیں۔ یا پھر ہم محدود نوعیت کی دعوت کا کام کرتے ہیں یعنی فقط تبلیغی نوعیت کا کام کرتے ہیں اور زندگی کے باقی احوال اور مسائل سے ہماری تبلیغی کوششوں کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ زندگی کے باقی پہلو (Aspects) پر ہم کوئی توجہ نہیں دیتے۔ اس طرح ایک سمت سے اصلاح ہوتی ہے تو دوسری سمتوں کا بگاڑ اس اصلاح کے نتائج کو زائل کردیتا ہے۔ پھر جتنی اصلاحی کوششیں ہو رہی ہیں ان کے درمیان co-ordination نہیں ہے۔ یہ کوششیں نتائج کو ایک سمت میں مربوط انداز میں آگے نہیں بڑھاتیں۔ تمام فرقے جو امت مسلمہ کی اصلاح کیلئے کام کر رہے ہیں، ان کی طاقت اتنی اصلاح کے عمل کے لیے صرف نہیں ہو رہی جتنی ایک دوسرے کو نیچا کرنے کے لئے صرف ہو رہی ہے۔ اتنی طاقت دوسروں کو اسلام پر عمل پیرا کرنے کیلئے صرف نہیں ہو رہی جتنی آپس میں ایک دوسرے کو کافر بنانے پر خرچ ہو رہی ہیں۔ دین کا اجتماعی شعور مفقود ہے اور امت وحدت سے محروم۔
آج توجہ اسلام کے مفاد پر نہیں بلکہ طبقاتی اور گروہی تشخصات پر زیادہ ہے اس جزئیت، خود غرضی اور مفاد پرستی نے امت مسلمہ کے اجتماعی وجود کو پارہ پارہ اور اس کی کلیت اور ہمہ گیریت کو مجروح کر رکھا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے عالم انسانیت کے لیے ایک عام دعوت لیکر اٹھے تھے، اس دعوت سے کوئی طبقہ مستثنیٰ نہ تھا۔ اس دعوت سے کوئی حلقہ مستثنیٰ نہ تھا۔ آج پھر اس دور کے احوال کے پیش نظر پھر سے اس دعوت کی ہمہ گیریت کی طرف لوٹا جائے، پھر سے اس دعوت کی محمودیت کی طرف لوٹا جائے، پھر سے اس دعوت کی جامعیت کی طرف لوٹا جائے، جب اس آیت کریمہ کو ہم دیکھتے ہیں کہ ادع الی سبیل ربک میرے محبوب ا اپنے رب کی راہ کی طرف بلایئے، توسوال پیدا ہوتا ہے کس کو بلایئے؟ قرآن مجید نے قید نہیں لگائی، یہ نہیں فرمایا کہ فقط عربوں کو بلایئے یا فقط عجمیوں کو بلایئے، فقط امیروں کو یا غریبوں کو بلایئے، ادع بغیر کسی قید کے ایک عام دعوت کے تصور پر دعوت کرتا ہے کہ اے نبی ا جہاں جہاں تک آپ کی نبوت پھیلی ہوئی ہے وہاں وہاں تک ساری انسانیت کو دعوت حق دیں۔ بلا تفریق لسان، بلا تفریق زبان و رنگ تمام طبقات کو اس دعوت کی طرف بلائیں، اس لیے کہ دعوت میں اپنے اور غیروں کا امتیاز نہیں ہوتا۔ دعوت کا کمال یہ ہے کہ ہر کسی کو بلایا جائے۔ اگر پیغام فقط اپنوں میں گھومتا رہے اور جن کو آپ نے غیر سمجھ رکھا تھا وہ آپ کے پیغام سے محروم رہ گئے تو دعوت، دعوت نہیں رہتی۔
شیخ الاسلام نے دعوت کو صرف ایک تبلیغی عمل تک محدود نہیں رہنے دیا بلکہ اسے وسعت دے کر عالمی امن کے قیام، حقوقِ انسانی کی بحالی، اسلام کے عدل و انصاف پر مبنی اعتدال و توازن کے تہذیبی رویوں کی تکمیل، تحمل، برد باری اور انسانی عزت و توقیر کی اولیت کے لئے کی جانے والی کاوشوں پر محیط کر دیا ہے۔ اب یہ دعوت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک منظم جدو جہد کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ یہ دعوت صرف ملکی جغرافیائی حدوں میں مقّید نہیں بلکہ اب یہ نغمۂ دعوتِ امن و محبت دنیا کے تمام ایوان ہائے اقتدار میں گونج رہا ہے۔ آج تک دعوت کو یوں لامحدود نہیں کیا گیا تھا۔
آج کی دنیا تہذیبوں کے تصادم کے دہانے پر کھڑی ہے۔ لہٰذا بین المذاہب ہم آہنگی وقت کی اہم ترجیح بن کر سامنے آئی ہے تاکہ عالمی امن کی حفاظت کی جا سکے اور سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ چنانچہ شیخ الاسلام نے مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم کی بنیاد رکھ کر اور اسے دنیا بھر میں منہاج القرآن کے تمام سنٹرز سے فعّال کر کے بین المذاہب ہم آہنگی اور یک جہتی کے کمال فروغ کا اہتمام کیا ہے، ہر سال کرسمس کے موقع پر تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جس سے امن و آشتی کا ایک نیا کلچر وجود میں آیا ہے، اسلام دشمنی کی شدت میں کمی واقع ہوئی ہے اور تحمل اور بردباری کی فضا میں دعوت کا عمل تیزی سے آگے بڑھنے لگا ہے۔ یہ ہے شیخ الاسلام کی ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ کی عملی تفسیر۔
2۔ خالصیت
خالصیت حکمتِ دعوت کا دوسرا اہم تقاضا ہے۔ جب حکومتوں پر زوال طاری ہو جاتا ہے تو زوال سے نکال کر واپس عظمت کی طرف لے جانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پھر دین خالص کی طرف لوٹا جائے، کتاب و سنت کی تعلیمات کی طرف لوٹا جائے اور عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت کو سامنے لایا جائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت و کردار کو پھر سے اپنایا جائے۔ احوالِ حیات کے بدلنے کا آلہ فقط سیرتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور اس کا طریقہ اور نمونہ سیرتِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے۔ ہر دور کے حالات کے مطابق اجتہاد کیے جاتے ہیں، تحقیقات ہوتی ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکل حاوی ہو جاتی ہے اور روح کمزور پڑ جاتی ہے۔ چنانچہ اگر روح پر توجہ کم ہو جائے تو ضرورت پڑتی ہے کہ تعلیماتِ روح کی طرف لوٹ کر دین کو خالص کیا جائے۔ اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ سیرت و کردار کی اصل روح پانے کے لیے سیرتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسبِ فیض کیا جائے اور جدوجہد کے لیے اس نظام کو اپنا یا جائے جس پر چل کر حضور ا اور آپ کے صحابہ نے انقلاب برپا کیا۔ جب تک ہم اس نظام کو عملاً اپنی زندگی میں از سرِ نو برپا نہیں کرتے، ہم دور زوال سے باہر نہیں نکل سکتے۔ اسلام نے ساری قیادتوں کے ان بتوں کو پاش پاش کر دیا ہے جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ سے ہٹ کر کوئی اور راہ دکھائے، ہدایت فقط قرآن کی ہے، بہترین کتاب اللہ کی کتاب ہے اور بہترین راستہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ ہے۔ اس راستے کو اپنائے بغیر ہم اپنی جدوجہد میں خالصیت پیدا نہیں کر سکتے۔
چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج دعوت کے اس اصل اسلوب کی طرف لوٹا جائے اور اس کی خالصیت کو اپنا کر پھر ایک نئے عزم اور نئے جوش کے ساتھ اس کام کا آغاز کیا جائے ۔ صحابہ کرام اپنی زندگی میں اسلام کی خاطر جو کچھ قربان کرتے تھے وہ خالصیت کی ایمان افروز مثالیں ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’میں جو دین کی دعوت کا کام کر رہا ہوں، میں تم سے اس کی کوئی اجرت طلب نہیں کرتا، میرا اجر فقط میرے اللہ کے پاس ہے‘‘۔
پس خالص دعوت کا پہلا عنصر یہ ہے کہ دعوت مادی منفعت سے بے نیاز ہو کر دی جائے، مالی مفادات سے بالاتر ہو کر دی جائے اور دعوت دینے والا بھی اپنی جیب سے دین پر خرچ کر رہا ہو اور دعوت قبول کرنے والے بھی اپنی جیب سے خرچ کر رہے ہوں۔ جب تک دعوت دینے والے کے اندر اس خالصیت کی روح بیدار نہیں ہوتی۔۔۔ بے نیازی نہیں آتی۔۔۔ دین کا درد اور دین کی تڑپ ہر طلب اور ہر تڑپ سے بلند نہیں ہوجاتی۔۔۔ ان کی آنکھیں امت مسلمہ کے درد میں برستی نہیں۔۔۔ ان کی راتوں میں بے چینی نہیں آتی۔۔۔ اس وقت تک سمجھ لیں کہ سیرت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ نہیں مل سکتا۔
آج اگر ہم شیخ الاسلام کی دعوت کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تحریک منہاج القرآن کی قیادت خالصیت کے اسلحہ سے لیس ہے۔ مصطفوی مشن کے حصول کے لئے تمام کارکنان و قائدین کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھنا ہی کامیابی کی منزل کی جانب انہیں گامزن رکھے گا۔ اسی خالصیت کی دولت کی بناء پر تحریک اور قائد تحریک کو ہر پلیٹ فارم پر ہر پہلو سے پذیرائی نصیب ہو رہی ہے۔۔۔ دعوت اپنے اندر تاثیر لئے ہوئے ہے۔۔۔ قلب و باطن کے اندھیرے ختم ہو رہے ہیں اور دنیا شیخ الاسلام کی دعوت امن کے اندر موجود خالصیت کے رنگ ہی کی بناء پر اسلام کے تصور امن و سلامتی اور محبت و رواداری کی طرف متوجہ ہو رہی ہے۔
افسوس آج نام نہاد مذہبی جماعتوں نے دعوت کے کام کو ایک مشن کی بجائے ایک پروفیشن بنا دیا ہے جس کام کے ساتھ دنیا کا لالچ وابستہ ہو جائے وہ کام کبھی مشن نہیں رہتا۔ وہ ایک پروفیشن ہو جاتا ہے اور پروفیشن سے کاروبار حیات تو ہوتا ہے لیکن زندگی میں انقلاب نہیں آسکتا۔ دین خالص کی پکار یہ ہے کہ اسلام کی دعوت اسی وقت مؤثر ہوگی اور انہیں ہاتھوں سے دین کا احیاءِ ہوگا۔۔۔ اسی طبقے سے تجدید امت کا کام ہوگا۔۔۔ اور اصلاح احوال کا کام ہوگا۔۔۔ جو طبقہ اپنا تن من دھن بغیر کسی دنیوی مفاد کے فقط اللہ کی رضا کیلئے اللہ کی راہ میں لڑا چکا ہوگا اور جو اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کا سودا کر چکا ہو گا۔
3۔ صالحیت اور روحانیت
دعوت کو مؤثر بنانے کے لئے صالحیت ناگزیر ہے۔ دین کی دعوت کا کام کردار میں صالحیت کے بغیر ممکن نہیں۔ دین کی دعوت کردار کی صالحیت، تقویٰ، طہارت، زہد و ورع، طاعت و عبادت، حب الٰہی اور حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی قدروں کے بغیر ممکن نہیں اور یہ صالحیت تب پیدا ہوگی جب ہم اپنی دعوت کو قرون اولیٰ کے اکابر کی طرز پر پھر سے استوار کریں۔ حضور ا نے صحابہ کرام کی دعوت کو مؤثر کرنے کے لیے اصحاب صفہ کی جماعت تیار کی۔ صبح و شام وہ حضور ا کی خدمت میں رہتے۔ روحانی تربیت پاتے اپنے اخلاق کی تکمیل کرتے، ان کے باطن کا تزکیہ ہوتا۔ نفوس کا تزکیہ ہوتا، پے در پے روزے رکھتے، عبادتیں کرتے، طہارت کو زیور زندگی بناتے، اللہ کی عبادت اور اطاعت میں مصروف رہتے۔ اس سے ان کے اندر نور باطن پیدا ہوتا، ان کے سینے کے اندر اُجالا پیدا ہوتا۔ اللہ کی معرفت ان کے سینوں میں اترتی، ان کے دلوں میں ایمان کا چراغ جلتا ان کے دلوں میں ایمان کے وجدان کا چراغ جلتا جب ان کا باطن، عبادت، تقوی اور زہد کے نور سے روشن ہو جاتا تو ان کے ظاہر میں بھی روشنی پھوٹتی۔ وہ جدھر قدم اٹھاتے گمراہیوں اور ظلمتوں کے اندھیرے چھٹتے چلے جاتے تھے۔
شیخ الاسلام نے تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے دعوتِ توحید و رسالت اور امن و سلامتی کے اس الوہی پیغام کو عوام الناس تک مؤثر طریقے سے پہنچانے کے لئے اپنے رفقاء کے ساتھ عمر بھر اس محنت کا اہتمام رکھا ہے۔ کون ہے جو ان کے ساتھ جاگتی راتوں میں آنسوؤں کی برسات کو فراموش کر سکے۔ مجالسِ ذکر، تزکیۂ نفس اور زہد و ورع کی تعلیمات کے لئے شب بیداریوں کے اجتماعات، روحانی تربیت اور شخصیت سازی کے لئے دس روزہ اجتماعی اعتکاف، شبِ برات، شبِ معراج اور لیلتہ القدر کے خصوصی پروگرام، خطابات، کتب و کیسٹس کے ذریعے رفقاء و وابستگان کی رہنمائی کے انتظامات اور تنظیمی سطح پر وسیع پیمانے پر دنیا بھر میں منہاج القرآن سنٹرز پر ہفتہ وار، ماہانہ، سہ ماہی اور سالانہ محافل و مجالس اور کیمپس صفائے باطن اور حصول قلبِ سلیم کی اسی مشقت کے بیمثال مظاہر ہیں جن کی بدولت دعوت امن کی یہ تحریک دنیا بھر کو اپنی جولانگاہ بنائے ٹھا ٹھیں مارتے سمندر کی طرح شش جہت موجزن ہے۔
(شیخ الاسلام کی تعلیمات سے ماخوذ)
اگلی قسط میں دعوت کے تربیتی نصاب اورمنہاج القرآن کی دعوت کے پانچ اہداف بیان کئے جائیں گے۔