بین المذاہب رواداری اور قیام امن کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی عہد شاز کاوشیں
تاریخ انسانی کو ہر دور میں کسی نہ کسی ایسے چیلنج کا سامنا ضرور رہا ہے جس کے باعث اسے مہیب خطرات در پیش ہوئے۔ فی زمانہ یہ چیلنج عالمی سطح پر قیام امن ہے۔ گو پچھلی صدی میں برطانوی سامراج کے عالمی سطح پر زوال پذیر ہونے اور پھر روس اور امریکہ کی سرد جنگ کے آغاز پر دنیا ایک نئے تناؤ کی کیفیت سے دوچار ہوئی مگر روس کے خاتمے پر پوری دنیا یک قطبی (Unipoler) نظامِ سیاست کے زیر اثر چلی گئی۔ جس کا نتیجہ دنیا بھر میں ایک ہی عالمی طاقت کے عروج اور تسلط کی صورت میں نکلا۔ سیاسی مضمرات سے قطع نظر عالمی سطح پر ایسے فکری رحجانات نے بھی جنم لیا جنہوں نے اسلامی دنیا اور مغرب کو باہم مقابل و متصادم کر دیا۔ یہ فکری رحجانات ان خطرات پر مشتمل تھے جو مغرب کو اپنے زوال اور دوسری تہذیبوں کے غلبے کے حوالے سے امکانی طور پر لاحق تھے۔
مغرب کے فکری رحجانات۔ عالمی امن کیلئے خطرات
سیموئیل بی ہن ٹنگٹن نے اپنی مشہور کتاب ’’Clash of civilization‘‘ میں ان نظریات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ
’’تاریخ کم از کم ایک بار ختم ہوتی ہے اور ہر تہذیب کی تاریخ میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب اس تہذیب کی آفاقی ریاست پیدا ہوتی ہے تو اس کے افراد کوٹوائن بی کے الفاظ میں ہمیشگی کا سراب اندھا کر دیتا ہے۔ انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ انسانی معاشرے کی آخری صورت وہی ہے جو ان کے معاشرے کی ہے۔ سلطنت روما، عباسی خلافت، مغلیہ سلطنت اور عثمانی سلطنت کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ان آفاقی ریاستوں کے شہری بیّن حقائق کے برخلاف اسے ویرانے میں رات بھر کا بسیرا نہیں سمجھتے بلکہ اسے انسانی کاوشوں کا حامل خیال کرتے ہیں۔ یہی بات برطانوی سلطنت کے عروج پر اس کے بارے میں بھی درست تھی۔ 1897ء میں انگریز متوسط طبقے کے لیے جیسا کہ انہیں نظر آ رہا تھا، تاریخ ختم ہو چکی تھی اور وہ خود کو انبساط کی اس مستقل کیفیت پر مبارکباد کا مستحق سمجھتے تھے جو تاریخ کے اس خاتمے نے ان کو عطا کی تھی۔ تاہم وہ معاشرے جو یہ فرض کرتے ہیں کہ ان کی تاریخ ختم ہو چکی ہے، عموماً ایسے معاشرے ہوتے ہیں جن کی تاریخ زوال پذیر ہونے والی ہو۔ لہٰذا زوال پذیر مغربی طاقت کے باوجود مغربی تہذیب کو محفوظ کرنے کے لیے امریکہ اور یورپی ملکوں کے مفاد میں ہے کہ :
- سیاسی اقتصادی اور فوجی اتحاد بڑھائیں اور اپنی پالیسیاں اس طرح مربوط کر لیں کہ دوسری تہذیبوں کی ریاستیں ان کے مابین اختلافات سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
- یورپی یونین اور نیٹو میں وسطی یورپ کی مغربی ریاستوں کو شامل کریں۔
- لاطینی امریکہ کی ’’مغربیت‘‘ اور جہاں تک ممکن ہو، مغرب کے ساتھ لاطینی امریکہ کے ممالک کے قریبی روابط کی حوصلہ افزائی کریں۔
- اسلامی ممالک اور چین کی روائتی اور غیر روائتی فوجی طاقت کی روک تھام کریں۔
- جاپان کی مغرب سے دوری اور چین سے مفاہمت کی رفتار آہستہ اور بالآخر ختم کریں۔
- روس کو آرتھو ڈوکس کی مرکزی ریاست اور اعلیٰ علاقائی طاقت تسلیم کریں جس کے اپنی جنوبی سرحدوں کی سلامتی کے حوالے سے جائز مفادات ہیں۔
- دوسری تہذیبوں خصوصاً اسلامی تہذیب پر مغربی تکنیکی اور فوجی برتری قائم رکھیں۔
- سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اور یورپین ممالک تسلیم کریں کہ دوسری تہذیبوں کے معاملات میں مغربی مداخلت کثیر تہذیبی دنیا میں عدم استحکام اور ممکنہ عالمی تنازعے کا خطرناک ترین منبع ہے۔
مغرب کے فکری رحجانات کا یہ مختصر جائزہ اس منظر نامے کو واضح کرتا ہے جو عالمی سطح پر امن کے قیام کو خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ اندریں حالات عالمی سطح پر اس وقت تک قیام امن کا خواب پورا نہیں ہو سکتا جب تک ایک واضح فکری رہنمائی اور عملی جدوجہد کے ذریعے ان مشکلات و موانعات کا تدارک نہ کر دیا جائے، جو اس کی راہ میں حائل ہوں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیاکی فلاح اس نظام فکر کو اختیار کرنے میں نہیں بلکہ اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ہے کہ :
آدمیت احترام آدمی
باخبر شو از مقام آدمی
اس میں شک نہیں کہ اس عالمی انتشار اور خوں آشام ماحول کو انسانیت پرور رشتوں میں ڈھالنے کا نسخہ صرف اور صرف اسلام کے آفاقی دین میں مضمر ہے کیونکہ یہی دین اس وقت دنیا میں خلاقِ عالم کی طرف سے اتری ہوئی آخری ہدایات پر مشتمل ہے۔
ثانیاً ان ہدایات اور تعلیمات کو ایک نظام کے طور پر محسن انسانیت نبی رحمت حضور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نافذ العمل بھی کیا اور پھر کئی صدیاں انسانیت اس نظام کے ثمرات سے مستفید ہوتی رہی۔
مگر سوال تو یہ ہے کہ اس متصادم تہذیبی ماحول میں دین امن کی حقیقی تعلیمات دنیا کے سامنے کیسے پیش کی جائیں؟ اس میں بھی شک نہیں کہ اس وقت 5 درجن مسلم ریاستیں قائم ہیں جہاں اسلام کا نام لیا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا کے مختلف مقامات پر مختلف تنظیمیں، ادارے اور شخصیات بھی سرگرم عمل ہیں مگر تصادم کی شدت میں روز بہ روز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس شدت کو کم از کم کرنا نہ صرف عالمی رائے عامہ کے لئے ضروری ہے بلکہ اسلام کی حقانیت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا بھی بہترین وقت ہے۔ صاف ظاہر ہے یہ اتنا آسان کام نہیں اس پر بہترین اسلامی اذہان کو لمبے عرصے تک کام کرنا پڑے گا۔
قیامِ امنِ عالم کیلئے شیخ الاسلام کا کردار
تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں اس عظیم مشن کے لئے دنیا بھر میں مصروف جدوجہد ہے۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کا علمبردار ہونے، انسانی حقوق کی نشر و اشاعت اور دنیا کے ہر ملک کے لیے امن و آشتی کے پیغام کے فروغ کے سبب دنیا بھر کی اصلاحی اور اسلامی تحریکوں میں تحریک منہاج القرآن نے انفرادیت اور امتیاز حاصل کیا ہے۔ آج اس تحریک کو ملت اسلامیہ کی وہ نمائندہ تحریک سمجھا جاتا ہے جو وطن عزیز اور بیرون ممالک میں اصلاح احوال کے مشن کی تکمیل میں مصروف عمل ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی بصیرت و حکمت سے دورِ حاضر کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنی جدوجہد کو ان خطوط پر استوار کی :
- وابستگان تحریک میں ایمان، اخلاقی برتری، عمل و کردار، تقویٰ اور اسلام کی عطا کردہ اعلیٰ انسانی اقدار کو فروغ دیا جائے۔
- فکری واضحیت سے آراستہ ایسے افراد تیار کیے جائیں جو راست فکر اور راست عمل کا مظہر ہوں۔
- عہد حاضر کے اخلاقی، معاشی، مادی، سیاسی، سائنسی اور عسکری چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے علم کو فروغ دیا جائے اور تخلیقی علم کے کلچر کو عام کیا جائے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی جدوجہد صرف وطن عزیز تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار عالمی سطح پر پھیلا ہوا ہے۔ تہذیبوں کے مابین مفاہمت اور مکالمے کی بات انہوں نے عالمی سطح پر اٹھائی ہے۔ ان کی جدوجہد کا مقصد یہ ہے کہ :
- عالمی سطح پر حکومتوں کو باہمی افہام و تفہیم اور بات چیت کی طرف راغب کیا جائے۔
- ان ممالک کے عوام اور اہل دانش تک رسائی حاصل کر کے اور ان تک حقائق پہنچائے جائیں تاکہ باہمی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔
- پھر ان ممالک میں ایسے عناصر سے رابطہ اور تعارف کی راہ ہموار کی جائے جن سے کلی یا جزوی اشتراک عمل ممکن ہے۔
شیخ الاسلام کی کاوشوں کا عالمی سطح پر اعتراف
دہشت گردی کی نفی، اسلامی تعلیمات کی غلط تعبیر کی مذمت اور عالمی سطح پر قیام امن کے اسلام کے کردار کو اجاگر کرنے کے سبب دنیا بھر کے اہل فکر و نظر نے آپ کے اس کردار کو تحسین پیش کی ہے، جس کی ایک مثال برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز کی سالانہ رپورٹ کے درج ذیل اقتباسات اور اقوام متحدہ کی طرف سے ان کی کاوشوں کی تحسین ہے :
Immediately, after the incidents of 11 September, religious figures within Pakistan condemned such acts and expressed regret over the loss of life. The most vocal of these was the Chairman of Pakistan Awami Tehreek, Dr. Tahir-ul-Qadri who is also a recognized religious authority within the Muslim world. Dr. Qadri claimed that any terrorist act is against the basic precepts of Islam, and that it does not allow aggression, oppression and barbarism in any event. He set out the reasons for such acts (1) because of the unsettled disputes within the Muslim world, (2) and that there is a faction in the Islamic world whose interpretations of Islam are extremist in nature. Their handling of political, social and cultural matters reflect the extremist trend in their thinking. He stated that this "extremist class" believes that Islam is inconsistent with democracy and any association with democracy is forbidden.
Criticizing the extremist elements he stated that such groups present a horrifying picture of Islam in the Western world and provoke the religious sentiments of the people for their personal gains. Dr. Qadri encouraged the Taliban to hand Osama bin Laden over to a third party; he suggested that such a role can be played by NATO, the European Union, or the Organization Islamic Conference (OIC).
(House of Commons Defence Committee Sixth Report of Session 2002-03, Vol-II : pp. Ev 41-Ev142)
’’11 ستمبر کے سانحے کے فوراً بعد پاکستان کے اندر مذہبی حلقوں نے دہشت گردانہ کارروائیوں کی مذمت کی اور جانی نقصان پر اظہار افسوس کیا۔ ان میں سب سے توانا آواز پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تھی جو دنیائے اسلام میں مذہبی حوالے سے ایک جانی پہچانی شخصیت بھی ہیں۔
ڈاکٹر قادری نے اپنا موقف پیش کیا کہ دہشت گردی اسلامی تصورات کے خلاف ہے اور اسلام میں کسی حوالے سے جارحیت، شدت پسندی اور ظلم و بربریت کی کوئی گنجائش نہیں اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے دہشت گردانہ واقعات کے یہ اسباب بیان کئے کہ
(1) عالم اسلام میں تصفیہ طلب تنازعات کا حل نہ ہونا
(2) اسلامی دنیا میں ایسے عناصر ہیں جن کی اسلامی تشریحات و تعبیرات انتہا پسندانہ نوعیت کی ہیں، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی معاملات میں ان کے رویے اور سوچ میں انتہا پسندی پائی جاتی ہے۔ ان کے بقول یہ انتہا پسندانہ جماعت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اسلام اور جمہوریت میں کوئی اشتراک نہیں اور جمہوریت سے کسی قسم کا رابطہ استوار کرنا غیر اسلامی اور حرام ہے۔
انتہا پسند عناصر کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ لوگ مغربی دنیا میں اسلام کی ہیبت ناک تصویر پیش کرتے اور اپنے ذاتی مفادات کے لئے لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکاتے ہیں۔ ڈاکٹر قادری نے طالبان کو تجویز پیش کی تھی کہ وہ (افغانستان کو امریکی جنگ سے بچانے کے لئے) اسامہ بن لادن کو کسی تیسرے فریق کے حوالے کردیں۔ ان کے خیال میں ایسا کردار نیٹو، یورپی یونین یا اسلامی کانفرنس کی تنظیم (OIC) میں سے کوئی بھی ادا کرسکتا ہے‘‘۔
(ہاؤس آف کامنز ڈیفنس کمیٹی چھٹی رپورٹ سیشن 2002-03 جلد دوم : 14۔ 42)
اسلامی تصورات و تعلیمات کا تحفظ بذریعہ علم و امن
شیخ الاسلام نے اسلام کے علم و دانش اور اعلیٰ تصوراتی محاذوں کے خلاف حملوں کا مقابلہ مخاصمت یا غیض و غضب کی فضا میں نہیں بلکہ تعلیم و تعلم، علم دوستی اور منطق کو فروغ دے کر کیا ہے۔ ابھی گیارہ ستمبر کی مصیبت نہیں ٹوٹی تھی جب انہوں نے اوسلو میں13 اگست 1999ء میں بین الاقوامی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہ :
’’اسلام میں جس چیز کو قابلِ ذکر طور پر انتہائی اہمیت حاصل ہے وہ اوّل و آخر ابتدا تا انتہا سوائے امن کے اور کچھ نہیں۔ کوئی چیز جو امن کے خلاف، امن کے منافی، امن سے متصادم اور امن سے متضاد ہو اس کا مطلقًا اسلامی تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں اور چاہے جو کوئی بھی ہو اگر اس کے مزاج اور کردار میں دہشت گردی یا انتہا پسندی کا مادہ ہے اور وہ انسانی معاشرتی عالمی امن کے لئے خطرے کا باعث ہے تو مطلق طور پر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور وہ دین کا مخالف ہے‘‘۔
(اوسلو، ناروے، 13 اگست 1999)
جولائی 2005ء کو لندن میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد حکومت برطانیہ نے مختلف اسلامک سنٹرز اور مساجد سے سکیورٹی کے حوالے سے ایک مذاکراتی نشست کا اہتمام کیا۔ اس سلسلے میں منہاج القرآن کی اعتدال و توازن پر مبنی پالیسیوں اور قیام امن کے حوالے سے اس کی کاوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میٹروپولیٹن پولیس کمشنر مسٹر آئن بلیئر نے منہاج القرآن اسلامک سنٹر میں آئے اور وہاں پر موجود منتظمین و حاضرین کے ساتھ بین المذاہب رواداری کے حوالے سے منہاج القرآن کے کردار کو سراہتے ہوئے گفتگو کی۔ منہاج القرآن سنٹر میں خطاب کرتے ہوئے مسٹر آئن بلیئر نے تمام شرکاء سے اپیل کی کہ ہمیں آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ہمیں آپ کے والدین اور بچوں کی خوشی اور سلامتی عزیز ہے۔ ہمیں کاؤنٹر دہشت گردی کو جتنا جلدی ممکن ہو سکے ختم کرنا ہو گا تاکہ اس ہفتے یا پھر اس سے اگلے ہفتے تک تاکہ مسلم آبادی (جو برطانیہ میں رہتی ہے) صدمے اور بے یقینی کی کیفیت سے نکل آئے‘‘۔
تحریک منہاج القرآن کے مقامی قائدین نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام کا جدید مثبت پہلو میڈیا میں پیش کیا جائے تاکہ منفی اثرات کم از ہوں کم اور انتہا پسندی کو روکا جا سکے۔ تحریک منہاج القرآن کئی سالوں سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کا پیغام پہنچا رہی ہے۔ دہشت گردی اور خود کش حملوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے تحریک منہاج القرآن کے نوجوان مسلمانوں کو اعتدال پسندی کا درس دے رہے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں ایسے عوامل جن سے معاشرے میں انتہا پسندی کا خطرہ ہو سکتا ہے اور نوجوان نسل (جو ابھی پختہ ذہن نہیں) انتہائی قدم اٹھا سکتی ہے، ایسی صورت حال میں اسلام کے سنہرے اصولوں پر عمل کر کے ان سے بچا جا سکتا ہے۔ گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ مسلم یوتھ اور منہاج القرآن کے ساتھ میٹنگ کریں اور پورے ملک میں نوجوانوں کی تربیت کے لیے (کلاس) لیکچرز کا اہتمام کیا جائے تاکہ نوجوانوں کو متحد رہنے اور امن و امان کی صورتحال قائم رکھنے کا درس دیا جائے۔ منہاج القرآن کا ہی واحد راستہ ہے جسے برطانوی حکومت اپنا کر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت سکتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن اورمنہاج القرآن یوتھ لیگ پر امن اسلام اور اعتدال پسندی کا پیغام پھیلانے کے لیے معاشرے میں کلیدی رول ادا کر سکتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن معاشرے میں امن قائم کرنے کے لیے حکومتی ارکان کو مکمل سپورٹ کرتی ہے تاکہ عوام دہشت گردی سے بچ سکیں اور مساجد میں بھی امن و امان قائم ہو سکے‘‘۔
تحریک منہاج القرآن کی امن کے قیام کے لیے کاوشوں کے اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس پروگرام کو برٹش اور انٹرنیشنل ٹی وی چینلز نے براہ راست دکھایا۔ ان چینلز میں Sky News، بی بی سی نیوز 24، ITV اور CNN قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں تحریک منہاج القرآن کے قائدین کے تفصیلی انٹرویوز بھی ان چینلز پر وقتاً فوقتاً نشر ہوتے رہے ہیں۔
قیام امن کیلئے عالمی سطح پر کاوشوں پر ایک نظر
یورپ میں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام کثیر سیمینارز، کانفرنسز، مکالمے اور لیکچرز کا خصوصی اہتمام کیا گیا جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں :
بین المذاہب سیمینار (لندن) :
تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل رامفورڈ روڈ لندن کے زیر اہتمام بین المذاہب سیمینار مورخہ 18 اکتوبر 2007ء کو منعقد ہوا۔ اس موقع پر مسلم ایسوسی ایشن اتحاد کے کونسلر محترم ڈاکٹر ڈوالفقار علی، محترم عبد الکریم شیخ، بریکنگ مسلم ایسوسی ایشن کے چیئر مین محترم الحاج محمد صدیق، فارسٹ گیٹ چرچ کے محترم رئیورنڈ پیٹرک موسپ، سینٹ ایمونئل چرچ کے فادر محترم مطلاب برناباس اور برطانیہ بھر سے دیگر مذہبی اور سیاسی رہنماؤں اور تاجر برادری کے نمائندگان بھی معزز مہمانوں میں شامل تھے۔ شیخ الاسلام نے اس موقع پر اپنے خصوصی خطاب میں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ
’’اسلام وہ دین ہے جس میں ہر مذہب کا احترام اور ان کے مذہبی عقائد و شعار کی تقدیس کی جاتی ہے۔ اس لیے اسلام نہ صرف تمام مذاہب کی حقانیت کو تسلیم کرتا ہے بلکہ عملی طور پر ان مذاہب کے پیرو کاروں اور انبیائے کرام علیہم السلام کے احترام کا بھی درس دیتا ہے۔ اسلام تحمل و برداشت اور بین المذاہب ڈائیلاگ کو فروغ دینے کی تلقین کرتا ہے۔ اس حوالے سے مسلمان اسلام کی تعلیمات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بائبل پر ایمان رکھتے ہیں۔ دوسرے مذاہب کو ماننا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ آج حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے والے ساری دنیا میں موجود ہیں جو ایک خدا کو مانتے ہیں اور قرآن پاک میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے جس کو تمام مسلمان مانتے ہیں۔
ہر مذہب کی بنیاد ایک مرکزی نقطہ پر ہے اور وہ تصورِ خدا ہے اس لیے اتحاد امم، انسانیت کے احیاء اور دنیا میں امن و امان کے قیام کے لیے ہم سب کو وقتی طور پر تمام اختلافات بھلا کر کم از کم اس ایک تصور پر اکٹھا ہونا ہوگا، اس کے بغیر امن عالم کا قیام ممکن نہیں ہے۔ آج دنیا کے تمام مذاہب کے پیشواؤں کو اپنے ماننے والوں کو اتحاد امم کا درس دینا ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں اپنے ذاتی و لسانی اختلافات بھلا کر امن عالم کے قیام میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ آج دنیا میں صوفی ازم کا پرچار اور اس کے فروغ پر کام ہو رہا ہے۔ یہ بنیادی نظر یہ اسلام کی تعلیمات سے ماخذ ہے جس کو اسلام نے ’’تصوف‘‘ کی اصطلاح دی۔ اس کے ذریعے انسان اپنے من کا محاسبہ کرتا اور اپنے آپ کو دنیا کی تمام الائشوں سے پاک کرتا ہے۔ اسلام کا یہی درس عملی طور پر بھی ہے کہ تمام اقوام اور مذاہب کو ظلم و ستم سے پاک رکھا جائے۔ دنیا کا ہر مذہب رواداری اور امن پر یقین رکھتا ہے اس لیے ہم سب کو صوفی ازم کے عملی تصور ’’فعل احسان‘‘ پر عمل کرنا ہوگا‘‘۔
بین المذاہب رواداری کانفرنس (گلاسگو۔ UK)
٭ شیخ الاسلام نے دہشت گردی کی موجودہ لہر پر 4 سال قبل گلاسگو UK میں منعقدہ سیمینار میں اپنا تبصرہ ان الفاظ میں بیان کی :
’’دہشت گردی اور دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ نہ تو مسلمان ہیں اور نہ یہودی نہ عیسائی وہ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ دہشت گردی مذہب سے بیگانہ ہے بلکہ یہ خود ایک مذہب، کلچر اور طرز عمل کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہ کسی آسمانی نازل شدہ مذاہب پر کوئی یقین نہیں رکھتی۔ قرآن مجید ان فتنہ پروازوں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتا۔ وہ نسل انسانی کے دشمن ہیں۔ باوجود اپنے طریقے، مذہب معاشرے یا زبان کے اسے مسلمان تصور نہیں کیا جا سکتا۔ (مورخہ 2005۔ 07۔ 27 کو گلاسکو یوکے میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے خطاب سے اقتباس)۔
اسلام میں انسانی حقوق سیمینار (مانچسٹر)
٭ فرغانہ انسٹی ٹیوٹ مانچسٹر کے زیر اہتمام ’’Islam on Peace, Integration & Human Rights‘‘ کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے بہت سی دیگر مثالوں کے علاوہ سیرت الرسولA کی روشنی میں اسلام کی اساس اور بنیاد کو واضح کیا۔ آپ نے فرمای : ’’عرب معاشرہ تشدد، ظلم و وحشت اور سفاکی سے بھرپور معاشرہ تھا، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو امن و سلامتی عام کرنے پر زور دیا۔
بیعت عقبہ اولیٰ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یثرب سے آئے ہوئے بارہ رکنی وفد سے درج ذیل نکات پر حلف لی :
- اﷲ تعالیٰ اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ گے۔
- کبھی چوری نہیں کرو گے۔
- کبھی بدکاری نہیں کرو گے۔
- کبھی اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور نہیں کرو گے۔
- کسی پر بہتان نہیں باندھو گے۔
- جو کچھ میں تم سے کہہ رہا ہوں تو ا س کی پیروی کرو گے۔
اہل یثرب کے لیے جانے والے اس پہلے حلف کے نکات پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مکہ کی دشمنی کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینے کا کوئی عندیہ دیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اخلاقی، معاشرتی و سماجی اصلاح پر زور دیا اور انہیں تکریم انسانیت کی تعلیم دی۔ یہ تعلیمات کا پہلا پیکج تھا جو یثرب سے آئے ہوئے پہلے وفد کو پیغمبر اسلام کی طرف سے دیا گیا۔ بعد ازاں اس وفد نے یہ تعلیمات پھیلانا شروع کیں اور لوگوں نے اسلام کے دامن میں کشش محسوس کی۔ بعد ازاں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت فرما کر گئے تو اہل مدینہ کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے محبت کا سمندر موجزن تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ان دشمنیوں اور معاشرتی برائیوں سے نجات دلائی جو صدیوں سے ان کے اندر زہر گھول رہی تھیں۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل نکات پر مشتمل پہلا خطبہ دی :
- اے لوگو! اﷲ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تمہارے اعمال کی اصلاح ہو سکے۔
- ہمیشہ ذہن نشین رکھو کہ تمہیں روز محشر اس خدائے واحد لا شریک کے حضور اپنے اعمال پر جواب دہ ہونا ہے۔
- صدقہ و خیرات کی کثرت کرو۔
- اپنے رویہ اور باتوں میں ہمیشہ نرمی اور رحم دلی اختیار کرو اور اپنے دل کو سخت اور ظالم نہ ہونے دیں۔
- نفرت کی بجائے ایک دوسرے سے محبت کریں۔
- اپنے نفس، دل اور ذہن کے شر انگیز پہلو سے پناہ مانگیں۔
- قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کریں۔
- ہمیشہ اپنے وعدوں کی پاس داری کریں۔
مذکورہ بالا شقیں واضح کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک فلاحی معاشرے کا قیام چاہتے تھے جس کی بنیاد غریب پروری اور احسان پر ہو۔ جہاں لوگ امن و آشتی اور صلح پسندی کے ساتھ رہیں، جہاں ہر ایک کے حقوق محفوظ ہوں، کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ یہ نکات آج کے ان رہنماؤں سے سوال کر رہے ہیں جو جہاد کے نام پر امت کے نوجوانوں اور پوری دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں۔ نیز یہ نکات مغربی دنیا کے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو اسلام کو تشدد، دہشت گردی اور انتہا پسندی سے تعبیر کرتے ہیں‘‘۔
بین المسالک رواداری
جب تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو ملک میں فرقہ پرستی کا دور دورہ تھا مذہبی تنظیموں کا قیام فرقوں کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا تھا۔ شرک سازی، بدعت، کردار کشی اور اتہام بازی عام تھی۔ توہین مذہب، بد عقیدگی اور شیعہ سنی کشمکش کو ہوا دی جا رہی تھی۔ ان حالات میں تحریک کی بنیادیں اٹھانے کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کھلے عام اعلان کیا کہ
’’منہاج القرآن کے کوئی فرقہ وارانہ مقاصد نہیں اور اس کا قیام خالصۃً اسلام کا علم بلند کرنے اور مسلمانوں میں امن و محبت کو فروغ دینے کے لئے عمل میں لایا گیا ہے۔ اس کے دروازے فرقہ اور مسلک سے بالاتر تمام مسلمانوں کے لئے کھلے ہیں‘‘۔
شیخ الاسلام نے اس نظریے کو متعارف کرایا اور اس خیال کی ترویج کی تاکہ مشترک عوامل پر زور دیں اور اختلاف کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ اس طرح ان کے اندازِ خطابت اور کتابوں نے مسلم امہ کو اتحادِ ملت، تحمل، رواداری اور میانہ روی کی ڈگر پر گامزن کرنے اور ان میں بین المسالک ہم آہنگی بالخصوص اتحاد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ شیعہ سنی باہم دست و گریبان تھے، شیخ الاسلام نے دونوں کو رواداری اور برادشت سے کام لینے کی طرف راغب کیا اور انہیں ایک تحریری معاہدہ کرنے پر آمادہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہیں گے اور باہم مل جل کر اسلام کی خدمت پرامن طور پر کریں گے۔ اور اس طرح دائمی بنیادوں پر امن کے قیام کو یقینی بنائیں گے۔ گذشتہ دو عشروں سے وہ اس معاہدے پر عمل پیرا ہیں۔
مقصدِ اولین اعتدال و توازن کا فروغ
MQI کے تمام فورمز شیخ الاسلام کی ولولہ انگیز اتحاد آفریں قیادت میں ایسی معاشرتی ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے کارہائے نمایاں ہیں جو دنیا بھر میں امن کا فروغ دینے کا موجب ہیں۔
وطن عزیز میں بھی آپ کی کاوش کا مطمع نظر ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جہاں ہر طرح کی تفرقہ بازی اور کشاکش کا خاتمہ کر کے باہمی ہم آہنگی اور امن و آشتی کی فضا کو فروغ ملے۔ دریں سلسلہ آپ نے درج ذیل حوالے سے جدوجہد کی :
- اعتقادی سطح پر اعتدال کا فروغ
- مذہبی سطح پر اعتدال کا فروغ
- سماجی سطح پر اعتدال و ہم آہنگی کا فروغ
1۔ اعتقاد میں اعتدال کا فروغ
تحریک کے قیام کے ایام یعنی 1980ء کی دہائی پر غور کریں تو پورے ملک میں اعتقادی فرقہ واریت پر مبنی تکفیر کی مہم مذہبی حلقوں میں عام تھی۔ ایسے ماحول میں شیخ الاسلام کی پکار لق و دق صحرا میں باد بہار کے مصداق تھی۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تصوف و روحانیت کی حلاوتوں پر مشتمل دعوت دین کے جس مشن کا آپ نے آغاز فرمایا دیکھتے ہی دیکھتے اس کا اثر ملک بھر کے مذہبی حلقوں پر مرتب ہوتا چلا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دعوت دین کا کام کرنے والوں کا لہجہ بھی بدلا۔ آج نور و بشر، حاضر و ناظر اور اس طرح کے دیگر مسائل مذہبی حلقوں کی بحثوں سے خارج ہو چکے ہیں۔ نعت اور میلاد آج کسی ایک مکتبہ فکر ہی کی پہچان نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے من حیث الکل ذات نبوت سے تعلق کی استواری کی پہچان اور شناخت بن چکے ہیں۔
2۔ مذہب میں اعتدال کا فروغ
مذہبی حوالے سے اعتدال و ہم آہنگی کے قیام کے لیے آپ نے زبانی تلقین و ارشاد تک ہی اپنی جدوجہد کو محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ ان اقدامات اور کاوشوں کا تفصیلی ذکر محترم پروفیسر نصراللہ معینی صاحب کی تحریر ’’بین المسالک رواداری‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ) پاکستان عوامی تحریک کے قیام کے بعد ہی تحریک جعفریہ سے اعلامیہ وحدت ملک کی فرقہ وارانہ مسلکی کشیدگی کی فضا میں ایک جرات مندانہ قدم تھا۔ اگرچہ اس وقت کے تنگ نظر مذہبی حلقوں نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا مگر تحریک نے امت کو اتحاد اور وسعت ظرفی کی وہ بنیاد فراہم کر دی کہ آج بھی تحریک کے پلیٹ فارم پر ہر مسلک کے لوگ آتے ہیں اور وحدت امت کا عملی نظارہ پیش کرتے ہیں۔ تحریک کا اعلامیہ وحدت ہی وہ پہلا قدم تھا جس کے زیر اثر بعد میں ملک بھر کی مذہبی جماعتیں پہلے ملی یک جہتی کونسل اور پھر متحدہ مجلس عمل کی شکل میں جمع ہوئیں اور ایک دوسرے کی امامت میں نماز تک ادا نہ کرنے کے روا دار ایک پلیٹ فارم پر جدوجہد کرنے کے لیے اکٹھے ہو گئے۔ مذہبی ہم آہنگی کے قیام کی آپ کی جدوجہد صرف مسالک تک ہی نہیں بلکہ دیگر عالمی مذاہب تک بھی پھیلی ہوئی ہے اور تحریک کے زیر اہتمامMuslim Christian Dialogue Forum میں ملک کی مقتدر عیسائی قیادت کے ساتھ اشتراک کار سے آپ نے دنیا کو اسلام کی وسعت نظری اور اعلیٰ ظرفی کا عملی مظاہرہ پیش کر دیا۔
3۔ سماجی سطح پر اعتدال کا فروغ
آپ نے منہاج القرآن ویلفیئر فاؤنڈیشن کے قیام اور منہاج القرآن ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت عوامی تعلیمی منصوبے کے ذریعے سماجی و معاشرتی سطح اور پاکستان عوامی تحریک کی سیاسی جدوجہد کے ذریعے سیاسی سطح پر اعتدال اور ہم آہنگی کے کلچر کو فروغ دینے کی عملی کاوش کی۔
بین المذاہب مکالمہ
اسی طرح عالمی سطح پر بین المذاہب حالات اور تہذیبی تصادم کی صورت حال بھی انتہائی خطرناک شکل میں ڈھل رہی ہے۔ اگرچہ تمام بڑے عالمی مذاہب امن کا پرچار کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ ایک حقیقت ہے کہ ان مذاہب کے علم برداروں میں خلفشار اور بدامنی کی فضا پائی جاتی ہے جس کا اظہار اکثر مذہبی بحث مباحثوں یا بین المذاہب اور بین المسالک تصادم اور کشمکش کی صورت میں ہوتا ہے۔ تاہم شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری عیسائی اور مسلم اقوام میں مفاہمت پیدا کرنے اور ان کے پیروکاروں کے مابین افہام و تفہیم کو بڑھانے میں پیش پیش ہیں۔ اپنے بیانات، بے شمار خطابات، لیکچرز اور تصنیفی و تالیفی نگارشات کے ذریعے انہوں نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں عیسائی اقلیت کے حقوق اور جذبات کا احترام وسیع تر طبقوں میں کیا جاتا ہے۔ منہاج القرآن عالمی پیمانے پر شیخ الاسلام کے تحمل و برداشت، عالمی بھائی چارہ اور محبت کے پیغام کو پھیلا رہی ہے جس کے لئے اس نے بین المسالک رفاقت اور دوستی کے پیغام کو دیگر تمام بڑے مذہبی پیروکاروں میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور ان کی عبادت گاہوں میں ملاقاتوں کے تبادلے کے ذریعے توسیع دینے کا اہتمام کیا ہے خواہ اس کا تعلق مسلمانوں عیسائیوں، یہودیوں، سکھ یا ہندو دھرم سے ہو۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے امن و رواداری کے پیغام کو بیک وقت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پھیلایا۔ پاکستان میں باقاعدہ اجلاسوں، مشترکہ پروگراموں کے ذریعے فضاء خوشگوار کی گئی تاکہ مسیحی اور مسلمان نوجوانوں کے مابین بین المذاہب مشترک اقدار کو باہمی مذہبی تعاون اور ہم آہنگی سے فروغ حاصل ہو۔ اس سلسلے میں کئے جانے والے درج ذیل اقدامات قابل صد ستائش ہیں۔
٭ ڈاکٹر طاہر القادری نے عیسائیوں کو سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عین مطابق منہاج القرآن جامع مسجد کے اندر عبادت کرنے کی اجازت دے کر ایک فقیدالمثال قدم اٹھایا۔ یہ اک جرات مندانہ علامتی اظہار اس بات کا غماز تھا کہ عیسائیوں کو عبادت کرنے کی آزادی کا حق تسلیم شدہ ہے اور وہ اسلامی مذہب کے ماننے والوں سے دوستی کا رشتہ استوار کر سکتے ہیں۔ اسی موقع پر وفد میں شریک عیسائی مبلغ نے شیخ الاسلام کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا
’’آج برصغیر اور پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے کہ ایک مسلم عالم نے عیسائی برادری کے افراد کو خوش آمدید کہا ہے اس جیسی کسی اور مثال کا ملنا ممکن نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے ہمارے لئے منہاج القرآن مسجد کے دروازے کھول دیئے ہیں اور اس طرح بین المذاہب تعلقات کا ایک نیا باب رقم کیا ہے‘‘۔
(بشپ انڈریو فرانسس چیئرمین کرسچن کوآرڈینیشن کونسل)
٭ عیسائی برادری کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لئے کرسمس پروگراموں کا انعقاد منہاج القرآن مراکز میں کیا جاتا ہے جن میں عیسائی بشپ، پادری اور دیگر معززین شرکت کرتے ہیں۔ یہ عیسائی مذہب کے لئے انتہائی احترام کا اظہار اور شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے سے مذہبی رواداری اور عالمی محبت و احترامِ انسانیت پر مبنی اقدام ہے۔
٭ ڈاکٹر طاہرالقادری ’’مسلم مسیحی ڈائیلاگ فورم‘‘ کے چیئرپرسن ہیں جو ان کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک(PAT) نے 9 نومبر1998ء کو قائم کیا۔ شیخ الاسلام خود یا ان کے سینئر عہدیداران ان کانفرنسوں اور کلچرل یا میوزیکل تقریبات میں مذہبی اتحاد اور بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینے کے لئے شریک ہوتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ڈاکٹر صاحب کو عیسائی تنظیمات نے دو امن ایوارڈ دیئے یہ ان خدمات کا اعتراف ہے جو انہوں نے مسیحی اور مسلم مذاہب کے درمیان پرامن تعلقات اور مکالمہ کو فروغ دینے کے لئے انجام دیں۔
شیخ الاسلام نے نہ صرف برصغیر بلکہ تمام عالم اسلام میں مذہبی عقیدہ و عمل میں میانہ روی پیدا کرنے کے لئے جو کارنامہ سرانجام دیا اس سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے دنیا بھر کے دورے کئے کیمونٹی سنٹر، یونیورسٹیوں اور دیگر مقامات میں خطابات اور لیکچرز دیئے جن کے ذریعے اعتدال پسند اسلام کا پرچار کیا اور مذہبی قدامت پرستی کے رحجان کی حوصلہ شکنی کی۔
تاحال ان کے ہزارہا لیکچرز تمام formats میں دستیاب ہیں جو صحیح اسلامی اقدارِ امن، رواداری، اور محبت کو فروغ دینے میں ان کی انتھک کوششوں کا بین ثبوت ہیں۔ ان لیکچرز کے علاوہ ان کی شائع شدہ تصنیفات کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن سے اسلام کے روشن اور متحمل پیغام کی اشاعت دینی اور قانونی اعتبار سے کی گئی ہے جو ان کے نقطہ نظر کی ترجمان ہے۔
بین الاقوامی شخصیات کے نام خصوصی مراسلہ
عالمی سطح پر قیام امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے آپ کا ایک اور قدم تاریخی نوعیت کا ہے۔ یورپی اخبارات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں نازیبا مواد کی اشاعت پر شیخ الاسلام نے دنیابھر کے مقتدر حلقوں کو خصوصی مراسلہ ارسال کیا۔ آپ کا یہ مراسلہ عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی میں حائل رکاوٹوں کے ازالے کی واضح سبیل فراہم کرتا ہے۔ آپ نے اپنے اس خصوصی مراسلے ’’A Call to prevent a clash of civilisations‘‘ میں لکھا۔ ذیل میں اس مراسلے سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
’’بعض یورپی اخبارات میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز اور گستاخانہ خاکوں کی اشاعت نے دنیا کو انتہائی ہیجانی اور اشتعال انگیز صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اس معاملے سے نبرد آزما ہونے میں حکومتوں کی ناکامی کے باعث دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے اضطراب اور بے چینی کی ایسی فضا پیدا ہو گئی ہے جس کا خاتمہ ہوتا قریب قریب نظر نہیں آتا۔ اگر اس کشیدہ صورتحال کو اسی طرح بے قابو رہنے دیا گیا تو پرامن بقائے باہمی کا تصور معرض خطر میں پڑ جائے گا اور اگر اس سے پیدا ہونے والے بگاڑ کا مداوا نہ کیا گیا تو اس امر کا امکان ہے کہ نہ صرف تہذیبیں آپس میں متصادم ہوں گی بلکہ یہ تصادم مذاہب اور معاشروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس مراسلے کا مقصد معاملے کی صحیح تناظر میں رکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ اور قابل عمل اقدامات تجویز کرنا ہے جس سے سلجھاؤ کی کوئی صورت نکل سکے‘‘۔
’’فی الوقت ملوث اخبارات آزادی اظہار کے حق کو اس قبیح اشاعت کا جواز بنا رہے ہیں۔ اس کے دفاع میں دکالت کرنے والے آزادی تقریری کی تقدیس پر زور دے رہے ہیں جس کا علم بلند رکھنا ان کے نزدیک ضروری ہے چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ تاہم فی الحقیقت یہ معاملہ آزادی اظہار کا نہیں کیونکہ یہ کوئی مطلق حق نہیں، نہ ہی کوئی ایسا دعویٰ کر سکتا ہے‘‘۔
’’حقوق اپنی نوعیت کے اعتبار سے باہم معکوس ہوتے ہیں اور ان کی تنفیذ کا دارومدار باہمی طور پر دیگر بنیادی حقوق پر ہوتا ہے۔ اس بات پر اصرار کرنا غلطی ہو گا کہ کوئی حق مطلق ہوتا ہے اس لیے کہ اس حق کی زد دوسروں کے بنیادی حقوق پر پڑ سکتی ہے۔ مہذب اور جمہوری دنیا کا حصہ ہونے کے دعویدار ہر ملک نے اظہار کی آزادی پر اپنے معاشرے کے مفاد میں کچھ حدود اور پابندیاں عائد کر رکھی ہیں تاکہ ایک خاص سطح کے انسانی طرز عمل کو برقرار رکھا جا سکے ایسی پابندیاں بعض اوقات مقامی رسوم و رواج اور معاشرتی روایات پر مبنی ہوتی ہیں تو بعض اوقات ثقافتی اقدار اور مذہبی تعلیمات ان کی بنیاد بنتی ہیں۔ اس کی روح یہ ہے کہ وہ اپنے اخلاقی، تہذیبی، سماجی اور معاشرتی اقدار اور وقار کے تحفظ کے داعی بنیں‘‘۔
’’دنیا کے کم و بیش تمام مالک میں ہرجانہ کے دیوانی قانون کے تحت ہتک عزت کا قانون نافذ ہے جس کے تحت کسی فرد کو کسی کی حق تلفی یا شہرت کے نقصان پر ہرجانہ ادا کرنے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس طرح آزادانہ اظہار کے مطلق حق کی تعزیر کسی فرد کے حقوق کو توازن عطا کرنے کے لیے عمل میں لائی جاتی ہے۔ بعینہ اگر کسی کا عمل ایک خاص قوم یا ملت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا باعث بنتا ہے تو آزادی تقریر کی آڑ میں اسے کبھی جائز نہیں گردانا جا سکتا۔ مزید برآں بہت سے ملکوں میں مخصوص اداروں کے دستور کی تضحیک و توہین قانونی طور پر قابل گرفت ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ان قومی اداروں میں فوج، قانونی عدالتیں یا پارلیمنٹ شامل ہیں۔ اس طرح دنیا بھر میں توہین عدالت کا قانون موجود ہے جو آزادی تقریر پر سخت پابندیاں عائد کرتا ہے اس کی خلاف ورزی کرنے پر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اگر مطلق آزادی اظہار کا قانون موجود ہے تو ان قوانین پر اعتراضات کیوں نہیں اٹھائے جاتے؟ کسی فرد کی عزت و آبرو کا تحفظ ایک بنیادی انسانی حق ہے جس میں نازیبا کلمے اور گستاخانہ الفاظ کہنے اور لکھنے کی ممانعت، ہتک عزت پر پابندی اور مذہبی آزادی کا تحفظ شامل ہے۔ اقوام متحدہ کا منشور اور بہت سے ممالک کے دساتیر اور قوانین میں ان حقوق کے تحفظ کی شق موجود ہے۔
UNO چارٹر کی دفعہ 1 (ii) کے مطابق اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانی بین الاقوامی مسائل کے حل اور بین الاقوامی تعاون کے حصول کی خاطر انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کی حوصلہ افزائی کرنا، سب کے لیے بلاامتیاز نسل، جنس، زبان و مذہب کی آزادی جیسے بنیادی حقوق کو تسلیم کیا گیا۔
نیز اس شق کو انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کی دفعہ 9 میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اپنے مذہب یا عقائد کی آزادی کو ظاہر کرنے پر صرف ایسی حدود عائد کی جائیں گی جو جمہوری معاشرے میں عوام کے اجتماعی تحفظ، عوامی نظم و نسق کی بحالی، صحت یا اخلاق عامہ یا دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہوں اور ان کے لیے قانونی ضابطے موجود ہوں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا دستور، ترمیمی بل برائے حقوق کے مطابق : ’’کانگرس مذہب کو قائم کرنے یا اس کی آزادی میں رخنہ اندازی کرنے یا تقریر اور پریس کی آزادی کو پا بہ زنجیر کرنے، یا لوگوں کے آزادانہ اجتماع کے حق کی پاسداری اور حکومت کو شکایات کے ازالے سے روکنے کے لیے کوئی قانون و وضع نہیں کرے گی۔
بعض امریکی ریاستوں نے گستاخانہ تضحیک و تنقیص کی روک تھام کے حوالے سے قوانین اپنی قانون کی کتابوں میں درج کر رکھے ہیں کہ
’’جو کوئی بھی خدا کے پاک نام پر دانستہ گستاخانہ اور بے ادبی کے الفاظ کہتا ہے یا خدا کے بارے میں بدزبانی، بیہودہ گستاخانہ زبان درازی اور یاوہ گوئی سے کام لیتا ہے یا س کی مخلوق مملکت یا حتمی انصاف کرنے والی ہیئت مقتدرہ کو ہدف بناتا ہے یا یسوع مسیح یا مقدس روح کی تضحیک کرتا ہے، مقدس صحیفوں میں درج خدائی فرامین کی ہتک اور توہین کرتا ہے اسے جیل میں قید کی سزا دی جائے گی‘‘۔ (باب272، سیکشن360)
آپ نے یورپی ممالک میں موجود قوانین کے تفصیلی حوالے دے کر یہ ثابت کیا کہ گستاخانہ کلمات اور بے ادبی کی سزا مغربی قانون میں بھی موجود ہے۔
’’مثال کے طور پر عیسائی دنیا میں گرجوں کی تقدیس کو قانون کا درجہ حاصل ہے، بعض یورپی ممالک کے دساتیر میں ان کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ڈنمارک کے دستور کے سیکشن 4 (سٹیٹ چرچ) کی مثال موجود ہے جس میں کہا گیا ہے :
’’اوینجیلیکل لوتھرن (پروٹسٹنٹ) چرچ ڈنمارک کا ریاستی قائم کردہ چرچ ہو گا اور اس کی مدد و اعانت ریاست کے ذمہ ہو گی‘‘۔
خصوصی مراسلہ کی عالمی سطح پر پذیرائی
یہ تاریخی مراسلہ اقوام متحدہ، یورپی یونین، اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC)، انسانی حقوق کمیشن (اقوام متحدہ)، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بیشتر ممالک کے سربراہان کے علاوہ پاکستان میں اراکین صوبائی و قومی اسمبلی، ممبران سینٹ اور پاکستان بھر کے سیاسی، علمی اور دانشور حلقوں کو بھی ارسال کیا گیا۔ جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں :
اس مراسلے کو ہر فورم اور ہر سطح پر بے حد پذیرائی ملی۔ اقوام عالم نے اس مراسلے کو اس مسئلہ کے حل کے لئے تعمیری اور مثبت قرار دیا اور عالمی سطح پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
1۔ اس سلسلے کا ایک خط اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق کی مس لوئس اربر کی طرف سے موصول ہوا جس میں انہوں نے گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مراسلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی اہم ہے اور ہائی کمیشن اس کا سنجیدگی سے نوٹس لے رہا ہے۔ اس معاملے سے عالمی سطح پر پائے جانے والے اضطراب اور کشیدگی کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے قائد تحریک کی طرف سے لکھے گئے مراسلے میں اٹھائے گئے نکات اور خدشات سے ہم آہنگی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق کے فورم پر اس مراسلہ کو ڈسکس کریں گی اور حل کے لئے پیش کردہ تجاویز پر غور کیا جائے گا۔
2۔ عالمی سطح پر خیر مقدمی خطوط میں سے ایک خط برٹش ہائی کمشنر مارک لائل گرانٹ کی طرف سے موصول ہوا جس میں انہوں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ میں تہہ دل سے آپ سے متفق ہوں کہ معتدل رویوں اور عقائد کی حامل شخصیات کو اس مشکل وقت میں اپنا کردار ادا کرنا ہے اور تہذیبی تصادم کو عملی طور پر رونما ہونے سے روکنا ہے۔ آپ نے مراسلہ کے ذریعہ جو مثبت حل پیش کیا ہے وہ قابل ستائش ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے خیالات اس بحث میں گرانقدر حیثیت کے حامل ہیں۔
3۔ سینٹ کے چیئرمین محترم محمد میاں سومرو کی طرف سے بھی اس تاریخی مراسلے پر جواب موصول ہوا جس میں انہوں نے لکھا کہ ایک معاشرتی مصلح کی حیثیت سے آپ نے موجودہ حالات کے تناظر میں اس اہم مسئلے کا مسلمانوں کی بیقراری اور احتجاج کی وجوہات کا صحیح ادراک کیا ہے اور اس مسئلے کے حل کے لئے اس مراسلہ کے ذریعے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ ہم نے سینٹ کی لائبریری میں آپ کا یہ مراسلہ ممبران کے استفادے کے لئے رکھ دیا ہے۔
4۔ جرمنی کے سفیر Dr. Gunter Muiack کی طرف سے بھی اس تاریخی مراسلے کا جواب موصول ہوا جس میں انہوں نے اس مراسلہ کو پرفکر قرار دیا۔
5۔ علاوہ ازیں وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیئر، ویٹی کن سٹی کے نمائندے، کوپن ہیگن (ڈنمارک)، دی ہیگ (Nether Lands) اور آئر لینڈ کے سفراء و سربراہان مملکت کی طرف سے بھی اس تاریخی مراسلے پر جوابات موصول ہوئے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک جدوجہد اور ایک فکر کا عنوان ہیں۔ جو فی زمانہ کردار و عمل ہی نہیں بلکہ سوچ و فکر اور رویوں میں تبدیلی کے لیے مصروف جدوجہد ہیں۔ آپ کی ان کاوشوں کے اندرون ملک اور عالمی سطح پر مرتب ہونے والے اثرات آج بقائے باہمی کے اصولوں کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں ممد ہو سکتے ہیں جہاں حقوق انسانی کے تحفظ کے ساتھ امن عالم کی ضمانت موجود ہو۔
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیئے ہیں انداز خسروانہ