حیرت اس بات پرنہیں کہ عالم کفر ان کو ذلیل و رسوا کرنے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے متحد ہوچکا ہے کیونکہ صادق و مصدوق نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو پہلے ہی الکفرملة واحدة فرما کر ان کے اتحاد کی خبر دے چکے، حیرت اور دکھ اس بات پر ہے کہ وہ امت جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔
اَلْمُوْمِنُ کَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُه بَعْضًا وَشَبّک بَيْن اَصَابِعه.
’’مومن ایک ایسی دیوار کی مانند ہیں جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے (پھر مثال سمجھانے کے لئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر جال کی طرح بنایا‘‘۔
مطلب یہ تھا کہ جس طرح انگلیاں الگ الگ وجود رکھتی ہیں لیکن ایک ہاتھ کے اجزا ہونے کی وجہ سے آپس میں مل کر ایک قوت ہیں اسی طرح مومن بظاہر الگ الگ وجود رکھتے ہیں لیکن عقیدہ توحید و رسالت کے ذریعے ایک طاقت ہیں اور مل ایک کر مضبوط دیوار کی مانند ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر امت مسلمہ کو جسد واحد قرار دیا کہ جس کا ایک عضو بیمار ہوتو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔
امت مسلمہ کے باہمی نزاعات و اختلافات اور تفرقہ بازی نے جو صورت اختیار کرلی ہے اسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی امت ہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا تھا :
وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا
(آل عمران : 103)
’’اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے ‘‘۔
دین کی نسبت سے اخوت و محبت کی لڑی میں پروئے جانے کے لمحات تاریخ اسلامی کے درخشندہ ترین لمحات تھے اور ان لمحات کو دوام بخشنے کے لئے یہ بھی فرمادیا کہ
وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌO
(آل عمران : 105)
’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے، اور انہی لوگوں کے لئے سخت عذاب ہےo‘‘۔
اس وقت عالم کفر کے ہاتھوں دنیائے اسلام کی جو درگت بن رہی ہے اور آئے دن اس کی ذلت و رسوائی کے جو مناظر چشم فلک دیکھ رہی ہے اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ اسی باہمی تفرقہ و انتشار کی سزا ہم بھگت رہے ہیں جس سے بچنے کی تاکید احکم الحاکمین نے مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں دے دی تھی اور جسے ہم نے پس پشت ڈال دیا اور باہم دست و گریباں ہوگئے۔ چنانچہ ہم پر ذلت و رسوائی اور ظلم و جبر کا ایک ایسا عذاب عظیم مسلط ہوگیا ہے جو ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
علمی و تحقیقی اختلاف اور اسلاف کا عمل
دشمنی اور بغض و عناد پر مبنی مخالفت و گروہ بندی اور بات ہے جبکہ علمی اختلاف رائے بالکل ہی الگ چیز ہے۔ علم و تحقیق میں رائے کا مختلف ہونا ایک فطری امر ہے اور یہ شریعت کے منافی بھی نہیں۔ اسلام میں اس کی گنجائش ہے کیونکہ علمی اختلاف رائے سے ہی علم کے افق وسیع ہوتے اور خوب سے خوب تر کا سفر جاری رہتا ہے۔ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایک طرف فقہی دنیا میں علمی اختلاف رائے کی بنا پر شافعی، مالکی، حنفی اور حنبلی وغیرہ فقہی مکاتب فکر نظر آتے ہیں تو دوسری طرف تصوف کی دنیا میں چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی اور اویسی سلاسلِ طریقت دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ایسا کبھی نہ تھا کہ ان کے مابین علمی و فکری اختلاف فتنہ و فساد برپا کرنے یا امت کا شیرازہ منتشر کرنے کا باعث ہوا ہو۔
ان مختلف علمی مکاتب فکر کے باوجود امت کا شیرازہ بکھرنے سے محفوظ رہا تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر کو صرف اولیٰ قرار دیا تھا، اسے کفر اور اسلام کی جنگ نہیں بنایا تھا۔ ہمیں تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ کسی ایک خانقاہ نے اٹھ کر دوسری خانقاہ کو جلا دیا ہو یا کسی حنفی نے کسی شافعی کے مدرسے پر حملہ کرکے اس کے علمی ذخیرے کو نذر آتش کر دیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کے مابین مروت، رواداری، تحمل و برداشت اور دیگر اخلاقی قدریں اخلاص کے ساتھ موجود تھیں۔ وہ ایک دوسرے سے ملتے، علمی استفادہ کرتے دوسرے مکتب فکر کے شیوخ کو بھی اپنے شیخ کی طرح جانتے اور ان کے ادب و احترام میں کوئی فرق نہ کرتے۔
٭ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بغداد میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں، ان کی مسجد میں نماز ادا کرنے لگتے ہیں تو رفع یدین نہیں کرتے۔ کسی نے استفسار کیا کہ حضرت آپ کے نزدیک رفع یدین ضروری ہے لیکن آج آپ نے خود اپنی تحقیق پر عمل نہیں کیا، کیا آپ نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہے، فرمایا : نہیں بلکہ مجھے اتنے بڑے امام کی بارگاہ میں آکر ان کے مسلک کے خلاف عمل کرتے شرم آتی ہے۔
٭ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ دونوں علم و فضل فقہی بصیرت اور زہد و اتقاء میں بلند مقام رکھتے تھے، بہت سے مسائل میں ان کے مابین شدید علمی اختلاف بھی ہوا لیکن حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی فوت ہوئے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تعزیت کے لئے ان کے ہاں چلے گئے، حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور انہیں بڑی عزت و تکریم کے ساتھ لاکر اپنی مسند پر بٹھایا اور خود بڑے ادب کے ساتھ ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ امام صاحب کے جانے کے بعد کسی نے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا : حضرت آپ نے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اتنا اکرام کیوں کیا؟
فرمایا : یہ شخص علم کے بڑے بلند درجے پر فائز ہے، پھر سائل کے چہرے کے تاثرات بھانپتے ہوئے فرمایا : چلو اگر میں ان کے علم کی وجہ سے ان کی عزت نہ کرتا تو کیا ان کی عمر کا بھی لحاظ نہ کرتا کہ وہ مجھ سے بڑے ہیں۔ اس سے بھی قطع نظر کر لیتا تو ان کے ورع و تقوی کا لحاظ بھی نہ کرتا کہ پرہیزگاری میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔
سبحان اللہ کیا للہیت ہے کہ نفسانیت کا شائبہ تک نہیں۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا شدید علمی و فقہی اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک، مروت، رواداری میں کمی نہیں آتی تھی۔
علمی اختلاف اور مسلکی انتہا پسندی
بعد ازاں جب مسالک معرض وجود میں آگئے اور ان کے مابین اخلاص پر مبنی علمی اختلاف کی بجائے نفسانیت پر مبنی مخالفت آگئی اور یہ مخالفت مخاصمت اور عداوت میں بدل گئی، ہوتے ہوتے باہمی منافرت اس حد تک بڑھی کہ ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کرنے لگے۔ بقول ابن انشا ایک وقت تھا کہ دائرہ اسلام میں لوگوں کو داخل کیا جاتا تھا اب صرف خارج کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آج مختلف مسالک کے مابین منافرت سازی، تکفیر بازی اور بدعت و شرک اندازی کے جو تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں اور صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک دوسرے سے سلام کے بھی روادار نہیں۔
تین سال پہلے کی بات ہے ہم نئے محلے میں کرائے کے مکان میں شفٹ ہوئے تھے، ہمارے پڑوس میں ایک دینی گھرانہ تھا۔ باشرع اور ماتھوں پر محراب رکھنے والے یہ لوگ بظاہر بڑے اچھے لگے لیکن پہلے تعارف کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ لوگ نہ تو سلام میں پہل کرتے ہیں اور نہ ہی زبان سے سلام کا جواب دیتے۔ بس سرکو ہلکی سی جنبش دیتے گذر جاتے۔ آخر ایک دن ان کی بے اعتنائی کا راز کھل ہی گیا۔ محلے کی ایک خاتون ان کے ساتھ والے گھر میں ختم کا تبرک تقسیم کرنے جارہی تھی۔ اس مذہبی گھرانے کا ایک بچہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا دیکھ رہا تھا، اس نے سمجھا شاید رومال سے ڈھکا تبرک ان کے گھر لارہی ہے، قریب پہنچی تو بچہ پکار اٹھا : ہمارے گھر نہ لانا ہم ختموں کا تبرک نہیں کھاتے، ہم مسلمان ہیں۔
مسلک گزیدہ لوگوں کی یہی وہ سوچ ہے جس نے اخوت اسلامی کو تباہ اور وحدت امت کا شیرازہ بکھیر دیا۔ ہماری وہ صلاحیتیں اوروسائل جو غیروں کو دعوت دین کے لئے استعمال ہوتے وہ اپنوں کو غیر مسلم اور کافر ثابت کرنے میں صرف ہونے لگے۔ چنانچہ ہر مسلک کے کتب خانوں میں ایسی فکر پر مبنی کتابوں کے انبار لگنے لگے جس میں مخالف کو مشرک، بدعتی اور دائرہ اسلام سے خارج ثابت کیا جاتا ہے۔ اسی سے نفرت کی آندھیاں اور طوفان اٹھتے ہیں اور ایک خدا، ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ایک کتاب کو ماننے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو کر غارت گری پر اتر آتے ہیں۔
سقوط بغداد تو ماضی بعید کی بات ہے جس کے پس پردہ مسلکی بغض و عناد اور منافرت کا گھناؤنا کردار بھی کار فرما تھا، لیکن سقوط ڈھاکہ تو کل کی بات ہے۔ بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے مشہور عالم دین اور صاحب علم و فضل مولانا متین ہاشمی سقوط ڈھاکہ سے کچھ ہی عرصہ قبل مسلکی مخالفت اور منافرت کی بناء پر رونما ہونے والے بعض واقعات بیان کرتے ہیں۔ جن میں سے دو زیر بحث موضوع کی وضاحت کے لئے درج کئے جاتے ہیں۔
٭ سلہٹ میں ایک مرتبہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے یا نہ پڑھنے اور ولاالضالین کے تلفظ پر مناظرہ بازی کے بعد ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا دیئے گئے جس کے نتیجے میں چاقو چھریوں کا ایسا آزادانہ استعمال ہوا کہ سات آدمی مارے گئے۔ مارنے والوں کا یقین تھا کہ ہم نے جہاد کیا اور مقتولین کے ہمنواؤں نے سمجھا کہ ہمارے ساتھیوں نے جام شہادت نوش کر لیا۔
٭ دوسرا واقعہ چاٹ گام کے علاقے میں مشہور علمی مقام پٹیا میں ہوا جہاں دو مختلف مسلکوں کے مدارس ہیں۔ دونوں میں مناظرہ ہوا ہر جماعت نے دوسری جماعت کے مدرسے کو آگ لگا دی، تقریباً اڑھائی لاکھ روپے کی تفسیر و حدیث اور فقہ کی کتابیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔ مولانا ہاشمی بڑے دکھ سے لکھتے ہیں کہ یہ کتابیں چنگیز خان یا ہلاکو خان نے نہیں جلائی تھیں نہ کسی ہندو یا سکھ نے بلکہ ان قرآن اور احادیث کے نسخوں کو جلانے والے ایک طرف نعرہ تکبیر اور دوسری طرف نعرہ رسالت بلند کر رہے تھے۔
مولانا متین ہاشمی جو سقوط ڈھاکہ سے پہلے کہ یہ دل دوز منظر دیکھ کر آئے تھے بڑے دکھ سے کہتے ہیں کہاں ہیں وہ مدرسے جہاں سے اسلام کی محبت کے متوالے برچھیاں اور بھالے لے کر نکلتے تھے اور ولاالضالین میں ضاد کو ’’دال‘‘ سے مشابہ کر کے پڑھنے والوں پر جہاد کیا کرتے تھے؟ نگاہ عبرت اور گوش نصیحت رکھنے والوں کو مولانا ہاشمی بتاتے ہیں کہ ان دینی مراکز اورمدرسوں میں مکتی باہنی کے دفاتر بن گئے اور اس علاقے میں ہزاروں ایسے علماء کو قتل کر دیا گیا جن کو نہ کفن میسر آیا نہ ان پر نماز جنازہ پڑھی گئی۔ ان کی لاشوں کے ساتھ کیا ہوا قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ بقول غالب
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
شیخ الاسلام کی فکر و عمل
فرقہ پرستی کی یہی وہ فتنہ سامانیاں ہیں جس کے گردو پیش میں مشاہدے نے اوائل عمر ہی سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے درد مند دل کو بے چین اور مضطرب کر رکھا تھا۔ یقینا ایسی بے چینی ان روحوں کے ہی مقدر میں ہوتی ہے جنہیں رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ گداز کا فیض نصیب ہوتا ہے۔ وہ قلب اقدس جس میں امت کے لئے بے پناہ درد اور اضطراب دیکھ کر رب کائنات جل شانہ نے فرمایا تھا۔
لعلک باخع نفسک الا يکونوا مومنين.
’’ایسا لگتا ہے کہ ایمان کی دولت سے سرفراز نہ ہونے والوں کے غم میں آپ خود کو ہلکان کر لیں گے‘‘۔
شیخ الاسلام نے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری امت کے احوال کا شب و روز مطالعہ کر کے اس کی اصلاح احوال کے لئے ایک لائحہ عمل مرتب کیا جسے اپنی کتاب ’’فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے‘‘ میں بڑی تفصیل سے قلمبند کیا، جو اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں منفرد اور جامع ترین کتاب ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں فرقہ پرستی کے خاتمے کے لئے تجویز کردہ اقدامات غیر ممکن اور تخیلاتی نہیں بلکہ قابل عمل اور نتیجہ خیز ہیں اور شیخ الاسلام نے اس پر خود عمل کر کے ان کی افادیت پر مہر تصدیق بھی ثبت کردی۔
خانقاہی نظام کا احیاء
شیخ الاسلام امت مسلمہ کے افراد کے مابین محبت، رواداری، تحمل و بردباری اور وسیع القلبی کے فروغ کے لئے ایک زندہ اور متحرک خانقاہی نظام کے احیاء کو ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ’’خانقاہ‘‘ عہد رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مسجد نبوی میں قائم تعلیمی و تربیتی ادارے ’’صفہّ‘‘ کا تسلسل اور اس کی برکات کا حامل ادارہ تھا۔ جہاں باقاعدہ لوگوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کا اہتمام ہوتا تھا اور انہیں اللہ کی ساری مخلوق سے پیار اور رواداری کا عملی سبق دیا جاتا۔ اسی خانقاہی دنیا سے ایسے افراد نکلے جنہوں نے امت مسلمہ کی فکری و عملی رہنمائی کے ساتھ ساتھ تجدید و احیائے دین اور ملی وحدت و یکجہتی کے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم المرتبت مصلحین امت اسی خانقاہی دنیا سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ لیکن بعد ازاں خانقاہ نشینوں کی بے علمی، بدعملی، مادہ پرستی اور جاہ و منصب کی چاہت کی بناء پر روحانی و اخلاقی تربیت کا یہ اہم ادارہ زوال کا شکار ہوگیا۔ چنانچہ اس کی برکات سے ہمارا معاشرہ بھی محروم ہوتا چلا گیا۔
دوسری طرف فرقہ پرست واعظین و مناظرین اور متعصب مصنفین نے امت کو تقسیم کرنے اور ان کے درمیان نفرتیں اور کدورتیں پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ قدیم خانقاہی نظام سے وابستہ علمائے ربانیین (صوفیائے کرام) نے ہمیشہ تحمل و بردبادی اور محبت و رواداری کو ہی فروغ دیا۔ یہ لوگ تقسیم و تفریق کرنے والے نہیں جوڑنے اور جمع کرنے والے تھے۔
٭ حضرت فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک عقیدت مند نے قینچی کا تحفہ پیش کیا کہ اس کے شہر کی یہی سوغات مشہور تھی۔ حضرت گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : کاش تم قینچی کی بجائے مجھے سوئی دھاگے کا تحفہ دیتے کیونکہ قینچی کاٹنے اور سوئی جوڑنے کے کام آتی ہے، اس واقعہ سے خانقاہی لوگوں کے ان رویوں کا پتہ چلتا ہے جو امت کو تفرقہ و انتشار سے بچانے کے لئے انہوں نے اپنے دل میں سنبھال رکھا تھا۔
یہ صوفیائے کرام اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت عامہ کے مظہر اور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت کے وارث تھے ان کی شفقت و محبت خیر خواہی و دلنوازی، وطن، قبیلے، قوم اور مذہب کی حد بندیوں سے بالا تر ہوتی تھی۔
٭ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خانقاہ کے خدام کو تلقین فرما رکھی تھی کہ
ہر کہ دریں سرا آید نانش بدہید
از ایمانش مپرسید
’’جو ہمارے مہمان خانہ میں آئے اسے روٹی پیش کی جائے اس سے اس کا مذہب نہ پوچھا جائے‘‘۔
یہ لوگ امن و محبت کے سفیر تھے۔ کسی کی دل آزاری کرنا تو یہ جانتے ہی نہ تھے۔ جس مذہب و مسلک کا شخص ان کے ہاں آجاتا اس کی خدمت و دلجوئی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتے۔
٭ حضرت خواجہ محمد عمر بیربلوی رحمۃ اللہ علیہ متاخرین صوفیاء نقشبند میں ایک بلند علمی و روحانی شخصیت گذرے ہیں آپ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کے اکابر خلفاء میں سے تھے، انقلاب الحقیقت کے علاوہ تجدید تصوف میں کئی بلند پایہ کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کے ہاں دیوبندی مکتب فکر کے ایک عالم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ملاقات کے لئے بیربل شریف آئے۔ حضرت کے ہاں صبح کی نماز کے بعد بلند آواز سے صلوۃ و سلام پڑھنے اور شماروں پر درود شریف کا معمول تھا۔ لیکن اس دن امام صاحب نے جونہی فجر کی نماز مکمل کی حضرت نے فرمایا : آج دیگر معمولات نہیں ہوں گے۔ مفتی صاحب تشریف لائے ہیں آج صرف ان کا درس ہوگا۔ مفتی محمد شفیع صاحب چونکہ صیغہ نداء سے صلوۃ و سلام کے جواز کے قائل نہ تھے اس لئے معمول کے مطابق صلوۃ و سلام پڑھنا حضرت نے مناسب نہ جانا کہ کہیں مہمان کی طبیعت میں انقباض پیدا نہ ہو۔
یہ ہے صوفیاء کرام کی دانش روحانی اور رواداری کی ایک جھلک، افسوس یہ اخلاقی قدر تصوف کے زوال کے ساتھ ہی ہم سے چھن چکی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جس ماحول میں پرورش پاکر جوان ہوئے وہ خانقاہی نظام کی برکات سے مستنیر تھا۔ چنانچہ امت کی خیر خواہی، شفقت عامہ، تحمل و بردباری اور رواداری جیسی اعلیٰ اخلاقی اقدار انہیں ورثے میں ملیں۔ رب العزت نے شیخ الاسلام کو امت کے درد کے ساتھ ساتھ بصیرت اور فراست مومنانہ سے بھی نواز رکھا ہے۔ چنانچہ ان کی نگاہیں افق تا افق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لئے خیر کی تلاش میں رہتیں۔
شیخ الاسلام کے معتدل و متوازن رویہ پر متعصبین کا رد عمل
شیخ الاسلام اپنے گردو پیش امت مسلمہ کی زبوں حالی اور تفرقہ بازی کی فتنہ سازیوں کا مشاہدہ کرتے تو دکھی ہوجاتے اور پہروں اس سے نجات کی تدبیریں سوچتے۔ پھر کالج اور یونیورسٹی کے زمانہ میں فرقہ پرستی کے ہاتھوں ستائے ہوئے نوجوانوں کو دین سے باغی ہوتے یا نام نہاد مصلحین کے ہتھے چڑھ کر انہیں الحاد و بے دینی کا شکار ہوتے دیکھا تو دل میں ٹھان لی کہ کڑھنے کی بجائے امت مسلمہ کی وحدت ملی کو پارہ پارہ کرنے اور نوجوانوں کو بے دینی کی راہ پر لے جانے والی اس فرقہ پرستی سے امت کو نجات دلانے کی جدوجہد کریں گے بقول احمد فراز
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے
چنانچہ شیخ الاسلام نے اپنے حصے کی شمعیں ایک ایک کرکے جلانی شروع کر دیں۔ وہ محبت و خلوص اور رواداری کا پرچم لے کر امت کے بکھرے ہوئے طبقات کو ملی وحدت و یکجہتی کے دھارے میں شامل کرنے کے لئے میدان عمل میں آگئے۔ تنگ نظری، تعصب اور فرقہ پرستی کی تند و تیز آندھیوں نے امت کی اجتماعی قوت کو جس قدر برباد کر دیا تھا اس کا حال سب کے سامنے ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ متعصبانہ فرقہ پرستی کی نفسیات میں جینے والے اپنے سوا کسی کو اسلام اور دعوت دین کا کام کرنے کا مجاز اور اہل نہیں سمجھتے۔ اسلام صرف اسی وقت اسلام ہے اگر وہ ان کے ہاتھ میں ہے اگر کوئی دوسرا یہ کام کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ اسلام نہیں رہتا اور نہ داعی مسلمان رہتا ہے۔ چنانچہ اسی نفسیات کے حامل لوگوں نے ان کے خلاف فتوی سازی اور تکفیر بازی کا طوفان کھڑا کر دیا۔
پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں ملازمت کے دوران تعصب اور فرقہ پرستی کی تنگ نالیوں میں جینے والے ’’اسلام پسندوں‘‘ نے ان پرسوشلسٹ ہونے کا لیبل لگا کر ان کے خلاف مہم شروع کر دی اور طوفان بدتمیزی برپا کر دیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلام کے نام پر ان کی اجارہ داری یا ٹھیکیداری کے لئے کوئی شخص چیلنج بن سکے۔ ان ’’اسلام پسندوں‘‘ کی پنجاب یونیورسٹی کے اکثر شعبوں پر ایسی گرفت تھی کہ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مخالف مسلک کے امیدواروں کو حیلے بہانوں سے ٹرخا دیتے۔ اگرچہ یہی روش اب ملک کے دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی جاری ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکر صائب، حکمت و دانش پر مبنی گفتگو اور غیر متعصبانہ رویوں نے طلباء اور اساتذہ کے دلوں میں گھر کرنا شروع کر دیا تو ان لوگوں کی رات کی نیندیں اڑنے لگیں۔
ادھر فرقہ بندی پر قائم بعض دینی مدارس اور جماعتوں نے بین المسالک رواداری اور اتحاد امت کے فروغ کی مہم کو دوسرا رنگ دینا شروع کر دیا۔ کسی نے یہ الزام دھرا کہ یہ شرک و بدعت کو جدید علمی انداز سے فروغ دینے کا ایجنڈا لے کر آئے ہیں جبکہ پہلے سے شرک و بدعت کے فتوؤں کی زد میں رہنے والی جماعتوں نے ڈاکٹر صاحب کو ’’وہابی‘‘ اور غیر مقلد مشہور کرنا شروع کر دیا۔ ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے ایک اسّی (80) سالہ بزرگ صورت درویش سیرت کے سامنے جب کسی حوالے سے میں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ذکر کیا تو وہ بڑے بھولپن سے کہنے لگے۔ ’’سنا ہے طاہرالقادری وہابی ہوگیا ہے‘‘ میں نے ان سے بڑے ادب کے ساتھ پوچھا کہ کیا آپ نے ان سے ملاقات کی ہے۔ فرمانے لگے نہیں۔ میں نے عرض کیا آپ نے کوئی ایسی تقریر سنی یا کتاب پڑھی جس سے ان کی وہابیت کا ثبوت ملا ہو۔ کہنے لگے نہیں، لیکن لوگ کہتے ہیں کہ وہابی ہے۔ اس لئے میں نے انہیں سنا ہی نہیں‘‘۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا فتویٰ بازی اور الزام تراشی کا کاروبار ہی اس لئے ہوتا ہے کہ لوگ ان کے قریب نہ آئیں۔ حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال کو بھی جب ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوا تھا تو انہیں کہنا پڑا :
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
دوسری طرف اہل سنت کے بیشتر حلقوں میں یہ پروپیگنڈہ ہوتا رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب تفضیلی شیعہ ہوگئے ہیں کیونکہ وہ شیعہ حضرات کو اپنے ہاں آنے سے نہیں روکتے اور اکثر اوقات فضائل اہل بیت پر لکھتے اور بولتے رہتے ہیں۔۔۔
یہ تھے الزامات اور فتوؤں کے طوفان لیکن شیخ الاسلام نے اپنا چراغ محبت، اخلاص اور مشن سے سچی وابستگی کی اوٹ میں بجھنے سے بچائے رکھا۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امت کی خیر خواہی و دردمندی کا نشہ ایسا نہیں تھا کہ اسے الزامات اور فتوؤں کی ترشی اتاردیتی چنانچہ انہوں نے رواداری پر مبنی اپنا مشن جاری رکھا۔
دانش مند کہتے ہیں تالاب کو متعفن اور گدلے پانی سے صاف کرنے کے دو طریقے ہیں۔ تالاب میں موجود پہلا پانی یکسر نکال دیا جائے اور اس کی جگہ پاک اور صاف پانی بھردیا جائے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جب پہلا پانی نکالا نہ جاسکے تو اس میں صاف اور پاک پانی چھوڑ دیا جائے ایک وقت آئے گا کہ گدلا اور متعفن پانی اس کے ساتھ گُھل کر کناروں سے بہہ بہہ کر خارج ہوجائے گا اور تالاب صاف شفاف پانی سے بھر جائے گا۔ شیخ الاسلام نے اپنی نئی حکمت عملی کی بنیاد اس دوسرے طریقے پر رکھی۔ اس کے لئے انہوں نے مندرجہ ذیل اقدامات کئے۔
1۔ منفرد اور مثبت اسلوب خطاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آغاز ہی سے ان منکرات سے اپنے خطابات کو آلودہ ہونے سے بچائے رکھا جو مسالک کے درمیان دوریاں پیدا کر کے نفرت اور بغض و عناد کا بیج بوتیں اور فتنہ و فساد کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ قرآن مجید نے ان برائیوں کو سورہ الحجرات میں تفصیل سے بیان کر کے ان کی بیخ کنی کی طرف خصوصی توجہ دلائی۔ ان میں دوسروں کا مذاق اڑانا اور نامناسب القابات وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے ہاں فرقہ پرست اور تفرقہ پسند مقررین ان قرآنی احکامات کو پس پشت ڈال کر جس طرح نفرت کی چنگاریاں کاشت کرتے ہیں اور ان سے جس طرح وحدت ملی اور بین المسالک رواداری کی فضا برباد ہوتی ہے چشم بینا سے پوشیدہ نہیں۔
شیخ الاسلام مسلکی موضوعات پر لٹھ کی بجائے دلائل کی زبان سے بات منوانے کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ مثبت انداز سے دلائل کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ دوسروں پر نہ تو طعن و تشنیع کرتے ہیں اور نہ ہی دوسرے مسلک کے اکابرین کو برے القابات سے یاد کرتے ہیں۔ کفر کے فتوے جاری کرنے سے بھی ان کا دامن پاک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تفرقہ بازوں کے روائتی انداز خطابت سے نالاں اندرون و بیرون ملک سامعین کا ایک وسیع حلقہ ان کے لئے چشم براہ رہتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کے اجتماعات میں دیگر مسالک کے لوگ بھی کثیر تعداد میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ یہاں ان کی دلآزاری نہیں ہوتی بلکہ علم و دانش کی باتیں ہی میسر آتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طعن و تشنیع، گالی دینے اور دل آزار باتیں کرنے سے دوسرے فریق کو دور تو کر سکتے ہیں اپنے موقف کا قائل نہیں کر سکتے۔ فریق ثانی مسلم ہو یا غیر مسلم اسے قائل ہمیشہ محبت کی زبان سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ محبت کے ساتھ اگر دلیل اور منطق کی طاقت بھی ہوگی تو بات معقول اور وزنی ہو جاتی ہے۔ شیخ الاسلام کی یہی خصوصیت انہیں اپنے معاصر علماء میں منفرد کرتی ہے۔
2۔ بین المسالک روابط کا آغاز
بین المسالک دوریاں ختم کرنے اور افہام و تفہیم کی فضا پیدا کرنے کے لئے ڈاکٹر صاحب نے بین المسالک دو طرفہ روابط کا آغاز کر دیا۔ چنانچہ آغاز کار سے اب تک وہ ہر مسلک کے جید اور نمائندہ علماء کو اپنے اجتماعات میں شرکت اور خطاب کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ اسی طرح دیگر مسالک کے دینی اور تربیتی اجتماعات میں اگر انہیں خطاب کی دعوت دی جائے تو انکار نہیں کرتے۔ ان باہمی روابط سے نفرتیں، کدورتیں اور غلط فہمیاں رفع ہوتی ہیں اور علمی اشکالات جو ایک دوسرے کے بارے ذہنوں میں موجود ہوتے ہیں ان کو سمجھنے اور رفع کرنے میں مدد ملتی ہے۔
شیخ الاسلام نے جب ان روابط کا آغاز کیا تو حالات سخت ناموافق تھے۔ ہمارے ہاں مسلکی فضا اتنی مکدر تھی کہ ایک مسلک کے علماء کا دوسرے مسلک کے علماء سے میل جول رکھنا تو دور کی بات ہے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا بھی مسلکی غیرت کے منافی سمجھا جاتا تھا۔
میرے استاد گرامی غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی قدس سرہ العزیز ساتویں اور آٹھویں دہائی میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں حکومت کی طرف سے شیخ الحدیث کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اس ادارے میں دیگر مسالک کے جید علماء بھی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ایک مذہبی طبقہ حضرت غزالی زماں سے ناراض تھا اور انہیں سخت تنقید کا نشانہ بناتا رہتا تھا کہ وہ جامعہ اسلامیہ کے مخلوط ماحول میں دیگر مسالک کے علماء سے ملتے جلتے اور علیک سلیک کرتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلک کی ’’خالصیت‘‘ کے لئے حضرت کاظمی صاحب جامعہ سے استعفیٰ دے دیں۔ ایک مرتبہ راقم اور صاحبزادہ پروفیسر محبوب حسین (سجادہ نشین بیربل شریف) کے ساتھ اس موضوع پر ان لوگوں کی سخت تکرار بھی ہوئی تھی۔
مدعائے کلام یہ ہے کہ باہمی افہام و تفہیم تو دور کی بات تھی میل جول بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مذہبی طبقات میں اس قدر ناچاقی ہو تو عام لوگوں کا تصور دین کیسا ہوگا؟ جب ایک دوسرے کو ملنا ہی ممکن نہ رہے تو بات چیت اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟
یہ وہ سخت مشکل حالات تھے جن میں شیخ الاسلام نے دیگر مسالک کے ساتھ دو طرفہ روابط شروع کئے۔ اس پر اگرچہ انہیں سخت تنقید اور فتوؤں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کے قدم نہ ڈگمگائے نہ پیچھے ہٹے۔
3۔ وحدت ملی کی طرف ایک اہم قدم
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بین المسالک روابط کے سلسلے میں جو جرات مندانہ اقدامات کئے تھے وہ آخر رنگ لے آئے اور وحدت ملی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کی راہ ہموار ہوگئی جس کا حسین منظر چشم فلک نے 24 اکتوبر 1988ء کی رات کو دیکھا جب مینار پاکستان کے سائے میں پاکستان بھر سے ہر مسلک کے نمائندہ علماء مشائخ کے ساتھ ایک ہی سٹیج پر جلوہ افروز تھے۔ اس فقیدالمثال اجتماع کی صدارت حضور قدوۃ الاولیاء حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرمارہے تھے۔
اس تاریخی رات مینار پاکستان کا وسیع و عریض سبزہ زار عشاق رسول سے بھرا ہوا تھا۔ آج کی ختم نبوت کانفرنس اگرچہ مرزا قادیانی کے خلیفہ مرزا طاہر کی طرف سے دی گئی مباہلہ کی دعوت قبول کرتے ہوئے منعقد کی گئی تھی۔ لیکن تمام مکاتب فکر کے جید علماء و مشائخ کی شرکت نے وحدت ملی کا ایک شاندار موقع فراہم کر دیا جس کے امکانات کا ادراک کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے تمام مکاتب فکر کے سنجیدہ اور امت کا درد رکھنے والے سر کردہ علماء کے مشورہ سے اتحاد امت کا ایک بارہ نکاتی فارمولا تیار کر لیا تھا جسے حضرت ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ نے اس تاریخی ختم نبوت کانفرنس کے موقع پر پڑھ کر سنایا تو لاکھوں افراد کے مجمع میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور تحسین و آفرین کی آوازیں آنے لگیں۔
ان بارہ نکات میں تمام علماء واعظین اور خطباء پر زور دیا گیا تھا کہ وہ ہر ایسی تقریر و تحریر سے مکمل اجتناب کریں جس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شان الوہیت کی تنقیص اور عقیدہ توحید کے مجروح ہونے کا احتمال ہو اہانت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادنی سا بھی شائبہ پایا جاتا ہو، اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم جمیعاً کے لئے تنقیص و اہانت یا طعن و تشنیع کا پہلو نکلتا ہو سلف صالحین، اولیائے کرام اور ائمہ دین اور شعائر اسلام کی تنقیص ہوتی ہو اور کسی بھی مکتبہ فکر کی دل آزاری ہوتی ہو۔
خطباء و مقررین سے کہا گیا تھا کہ مثبت انداز سے دلائل کے ساتھ اپنے نقطہ نظر کا پرچار کریں اور دوسرے کے اکابرین کا نام لے کر تحقیر اور طعن و تشنیع نہ کریں۔ نیز مخصوص مذہبی تہواروں پر کشیدگی اور تناؤ پیدا کرنے والے امور سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
اگر بنظر غائر ان نکات کا جائزہ لیا جائے توان میں ہر اس بنیاد کو توڑ دینے کی کوشش کی گئی جو مسلکی تنازعات اور فتنہ و فساد کی وجہ بنتی ہے اور وحدت ملی کو پارہ پارہ کرتی ہے۔
اس موقع پر تمام مذہبی مسالک کے اکابرین پر مشتمل مرکزی سپریم کونسل تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا جو اس اتحاد کے فارمولے کی تنفیذ کی کوشش کرے اور انحراف کرنے والے کے خلاف انضباطی کاروائی کرے۔ اس سپریم کونسل کی تشکیل کے لئے ایک رابطہ کمیٹی بنائی گئی جس کے چیئرمین ضیاء الامت حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کو مقرر کیا گیا۔
اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس ہم آہنگی کو بڑی خوبصورت تمثیل کے ذریعے واضح کیا، اسے بہت پسند کیا گیا۔ آپ نے فرمایا :
’’جس طرح ایک سارنگی کی مختلف تاریں ہوتی ہیں جو اپنا الگ الگ وجود اور آہنگ رکھتی ہیں لیکن جب مہارت کے ساتھ بیک وقت مختلف تاروں کو چھیڑا جاتا ہے تو ان رنگا رنگ آہنگوں سے ایک ایسی آہنگ پیدا ہوتی ہے جس کو سن کر روحیں وجد میں آجاتی ہیں اگر ایک تار نکال دیا جائے تو ساز بے کیف ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر مکتبہ فکر ایک تارکی مانند ہے، کسی تار کو چھیڑیں تو اس سے نغمہ توحید بلند ہوتا ہے، کسی سے نغمہ عشق رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کسی سے نغمہ حبِ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم، کسی سے ترانہ حبِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم۔ ہم نادانوں نے ہر تار کو جدا سمجھے رکھا۔ ہر تار اپنی اپنی آواز دیتا رہا۔ اب اکابر امت نے سب تاروں کو بیک وقت چھیڑنے کی طرح ڈالی ہے تاکہ تاروں کاآہنگ مجتمع ہوکر یک آواز ہوجائے۔ نغمہ توحید بھی ایک ہی مقام سے گونجے، ترانہ رسالت بھی ایک ہی مقام سے، حبِ صحابہ کرام و اہل بیت بھی ایک ہی مرکز سے بلند ہو۔ ترنگ ہر ایک کی جدا ہوگی لیکن ان کے امتزاج سے آہنگ ایک بن جائے گی۔ بس اسی مشترک آہنگ کانام اسلام ہے۔
4۔ اعلامیہ وحدت
ختم نبوت کانفرنس کے موقع پر طے پانے والا بارہ نکاتی فارمولا ’’وحدت ملی‘‘ کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اسی مثبت انداز فکر، باہمی احترام و رواداری اور بین المسالک رابطوں کی افادیت اور نتیجہ خیزی کا ایک اور واضح ثبوت 10 جنوری 1990ء کا اعلامیہ وحدت بھی ہے۔ یہ اعلامیہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے مابین قرار پایا تاکہ اسلامی انقلاب کے لئے برسر عمل جماعتوں کے درمیان متنازعہ امور طے کر کے یکجہتی و ہم آہنگی کے ساتھ ملک میں نفاذِ اسلام کی مشترکہ جدوجہد کی جا سکے۔
اعلامیہ وحدت کے مختصر نکات
اس اعلامیہ وحدت میں عقیدہ توحید و رسالت کو عقائد کا مرکزی نقطہ اور عمل کی اساس قرار دیا گیا۔
اس اعلامیہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا اقرار اور آپ کی شان میں بالواسطہ اور بلاواسطہ ادنی بے ادبی و گستاخی کے مرتکب کو کافر قرار دینے اور قرآن مجید کو الحمد تا والناس تک کمی بیشی اور تحریف سے پاک ہونے کا اقرار تھا۔
حبِ اہل بیت کو اساس ایمان اور ان سے بغض و عناد رکھنے والے کی ایمان سے محرومی کے اقرار کے ساتھ ساتھ جملہ صحابہ کرام کے برگزیدہ ہونے اور امہات المومنین اور صحابہ کرام کے ادب و احترام کے وجوب جبکہ ان کی بے ادبی کو حرام قرار دیا گیا تھا۔
اسی طرح جملہ ائمہ کرام اور اولیائے امت کے ادب و احترام کو واجب قرار دیا گیا تھا۔
اعلامیہ وحدت میں مذہبی رسوم اور خصوصی ایام میں باہمی رواداری اور احترام کو قائم رکھنے اور کشیدگی و تفرقہ سے اجتناب اور ملکی آئین میں قرآن و سنت کی بالادستی کے نکات بھی شامل تھے۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے ماہنامہ منہاج القرآن فروری1990ء)
اس اعلامیہ وحدت پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، مولانا محمد معراج الاسلام اور مولانا احمد علی قصوری جبکہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی طرف سے علامہ ساجد علی نقوی، آغا السید علی الموسوی اور مولانا موسیٰ بیگ نے دستخط کئے۔
اس اعلامیہ وحدت کے بعد یہ تجویز بھی زیر غور تھی کہ دونوں جماعتوں کے اشتراک عمل سے مینار پاکستان پر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کانفرنس اور امام حسین رضی اللہ عنہ کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی جس سے شیعہ اور سنی مسالک کے درمیان افہام و تفہیم اور رواداری کی فضا کو تقویت ملے گی۔ لیکن انتہا پسند اور تفرقہ باز بازی لے گئے اور انہوں نے مختلف سازشوں کے ذریعے وحدت ملی کے حسیں خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونے سے محروم کر دیا۔
دوسری طرف جن قوتوں کا مفاد ملت اسلامیہ کو باہم دست بگریباں رکھنے میں ہے یا جو انتہا پسندی اور تنگ نظری کا شکار ہیں انہوں نے اس اعلامیہ وحدت پر بھی خوب شور مچایا اور غلط فہمیوں کو پھیلانے میں اپنا پورا زور صرف کردیا۔ ان کا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ اعلامیہ کے الفاظ کیا ہیں اور کیا ہونے چاہئیں۔ یہ لوگ سرے سے وحدت ملی اور بین المسالک میل جول اور رواداری کے ہی خلاف ہیں۔
ان لوگوں کی سوچ پر تعجب ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اہل کتاب کو بھی مشترک بنیادوں پر تعاون کی دعوت دی اور فرمایا :
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ.
(آل عمران : 64)
’’آپ فرما دیں : اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے‘‘۔
اگر ایک غیر مسلم اہل کتاب کو مشترک بنیادوں پر دعوت دی جا سکتی ہے تو کیا اہل اسلام اہل کتاب سے بھی گئے گزرے ہیں کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے وسیع تر مفاد کی خاطر رواداری اپناتے ہوئے باہم مشترک بنیادیں تلاش کر کے جمع نہیں ہو سکتے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اسی اشتراک کو ’’الجمع بين المختلفات‘‘ کا نام دیتے ہیں یعنی جو عقیدہ ہر جماعت کا ہے اس پر قائم رہتے ہوئے باہم مشترک نکات کو تلاش کریں اور اس کی بنیاد پر رواداری اپنائیں۔ ایک دوسرے سے علمی اختلاف تو رکھیں لیکن اسے مخالفت کا رنگ نہ دیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے اکابر کی توہین اور تکفیر کی جائے۔
کشادہ در کشادہ بازو
1۔ ہمارے ہاں مسلکی بنیادوں پر قائم ہونے والے دینی اداروں میں صرف اسی مسلک کے طلبہ داخلہ لے سکتے ہیں جس مسلک کی تبلیغ مہتمم صاحبان کر رہے ہوتے ہیں۔ مسلکی اختلافات کی دیواریں اتنی بلند ہوتی ہیں کہ دوسرا ادھر جھانک بھی نہیں سکتا۔ جس سے بین المسالک افہام و تفہیم کا ایک اہم موقع گنوا دیا جاتا ہے۔ اس کی بیسیوں مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مسلکی بنیادوں پر قائم ہونے والے تعلیمی اداروں کی تو پھر بھی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپنے اپنے دائروں میں اپنے اپنے نصاب اور ماحول کے مطابق چل رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو سرکاری جامعات کو بھی مسلکی تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ مخصوص مکتبہ فکر کے لوگ ان اداروں کے مذہبی شعبوں پر قابض ہیں اور وہ انہیں بہر صورت اپنے قبضے میں ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ ان شعبوں میں اعلیٰ تعلیم کے دروازے مخالف مسلک کے لوگوں پر بند ہیں۔ اگر کوئی اپنی خداداد صلاحیت کے بل بوتے پر وہاں اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرتا بھی ہے تو پہلے سے موجود ’’اہل علم‘‘ حضرات ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اسے ذلیل و رسوا کر کے فارغ کرنے میں ہی ’’دینی فریضے‘‘ کی ادائیگی سمجھتے ہیں۔ بظاہر یہ لوگ بڑے ملنسار، علم دوست، دینی شعائر کے پابند اور خوش اخلاق دکھائی دیتے ہیں مگر جیسے ہی ان کے نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والوں کے وجود کو برداشت کرنے کی بات ہوتی ہے وہاں ان کی ساری دینداری، علم دوستی اور حق پرستی ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ مروت و محبت کے سارے سبق اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کفر متحد ہوکر مسلمانوں کے اجتماعی وجود کو ختم کرنے کے درپے ہے مگر ان نازک حالات میں بھی وہ ’’صاحبان علم‘‘ دوسروں کے لئے نرم گوشہ رکھنے کو تیار نہیں۔ یہی ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا بہت بڑا المیہ ہے اور بدقسمتی سے اس کی بدترین مثالیں اسلامی شعبوں میں ہی پائی جاتی ہیں۔
ان تلخ حالات کو دیکھ کر شیخ الاسلام نے آغاز کار سے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں کے سامنے مسلک کی دیوار کھڑی نہیں کریں گے بلکہ ان کے دروازے ہر مسلک کے طالب علم کے کے لئے کھلے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے تحت قائم ہونے والے تمام تعلیمی اداروں میں داخلہ کے وقت مسلک کا امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔ امیدوار کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو میرٹ پر داخلہ کا اہل ہوتا ہے۔
اسی طرح منہاج القرآن کے تعلیمی اداروں اور مراکز میں منعقد ہونے والے سالانہ مباحثوں اور مسابقوں میں بھی ہر مسلک کے طالب علم کو حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے علاوہ ازیں ممتحین اور منصفین کے انتخاب میں بھی مسلک کی قید روا نہیں رکھی جاتی۔ دیگر مسالک کے اہل علم سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔
2۔ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں ہوں یا دعوت دین کا کام کرنے والی تنظیمیں وہ اپنی رکنیت کو عموماً اپنے ہم مسلک لوگوں تک ہی محدود رکھتی ہیں مثلاً جمعیت علمائے پاکستان میں اہل سنت بریلوی مکتب فکر کے علاوہ کوئی دوسرا رکن نہیں بن سکتا، اسی طرح جمعیت علمائے اسلام میں دیوبندی مسلک رکھنے والا ہی اس کا رکن بنتا ہے لیکن تحریک منہاج القرآن کا سیاسی ونگ پاکستان عوامی تحریک ہو یا دعوت دین کا کام کرنے والی تنظیم ’’ادارہ منہاج القرآن‘‘، دونوں کے دروازے ہر اس شخص کے لئے کھلے ہیں جو ان کے پروگرام سے متفق ہو کر ان کا ہمسفر بننا چاہتا ہے اس میں مسلک کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔
3۔ تحریک کے زیر انتظام ملک اور بیرون ملک مساجد اور اسلامک سینٹرز میں بھی بقائے باہمی اور رواداری کا یہی اصول کارفرما ہے۔ شیخ الاسلام کے عوامی اجتماعات ہوں یا مساجد میں ہونے والے مذہبی اجتماعات ہر مسلک و مذہب کے لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں۔ زبانی کلامی تو ہر شخص رواداری کی بات کرتا ہے مگر جب عملاً اس کی ذات اور ادارے کا معاملہ آتا ہے تو اس کی مروت Expose ہو جاتی ہے کیونکہ اس تنگ ماحول میں یہ عملی مروت اتنی آسان بھی نہیں لیکن الحمدللہ صوفیاء کی خانقاہوں اور مجالس کی طرح شیخ الاسلام کی محافل، اجتماعات اور اسلامک سنٹرز میں ہر قسم کے لوگ آزادانہ آتے ہیں اور وہاں سے فیوضات سمیٹ کر جاتے ہیں اور انہیں کسی تنگ نظری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
حرف آخر
آخر میں ہم قارئین کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ مسلکی رواداری کے لئے ذاتی انا کی قربانی دینا پڑتی ہے اور لوگوں کی کڑوی کسیلی بھی سہنا پڑتی ہیں۔ گذشتہ 29 سالوں میں شیخ الاسلام نے وسیع المشربی کا جو مظاہرہ کیا اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں کافی حد تک برف پگھل چکی ہے۔ ان کی کاوشیں رنگ لا رہی ہیں تاہم اب بھی بعض مذہبی حلقوں میں شیخ الاسلام ’’متنازع شخصیت‘‘ کے طور پر اسی لئے پہچانے جاتے ہیں کہ آپ نے کبھی بھی کسی سے ملنے، کسی کو اپنے ہاں آنے اور اظہار خیال کی پابندی نہیں لگائی۔ نتیجتاً کوئی انہیں وہابی بتاتا ہے، کوئی شیعہ ہونے کا الزام دھرتا ہے اور کوئی سستی شہرت کا طعنہ دیتا ہے۔ حالات کا دھارا جس خطرناک رخ کی طرف بڑھ رہا ہے اس نے وقت کی عدالت میں ثابت کر دیا ہے کہ اس وقت امت کی جملہ امراض کا علاج اتفاق و اتحاد میں مضمر ہے، اختلافات اچھالنے اور انتشار بڑھانے میں نہیں۔ یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے کہ قدرت کس کی صلاحیتوں کو انتشار کے لئے اور کس کی کاوشوں کو اتحاد کے لئے چن رہی ہے۔