ہر مذہب بنیادی طور پر اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر مذاہب کی بنیادی تعلیمات اور اصول و ضوابط میں افراد کے ہاتھوں وقت کے ساتھ منفی تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود کوئی مذہب دنیا میں ایسا نہیں جو معاشرے میں بدامنی اور خون آشامی کی تعلیمات دیتا ہو۔ اسلام بطور آخری دین، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع انسان کے لئے امن، تحفظ اور رواداری کا جامع دستور لے کر آیا۔ انسانی حقوق تو درکنار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پرندوں، جانوروں اور پودوں کے حقوق کی بھی تلقین فرمائی۔ آج مغربی اقوام اہل اسلام کو دہشت گردی کا طعنہ دیتی ہیں اور ان کے دانشمند مسلمانوں کو خونخوار قوم کے طور پر مشہورکر رہے ہیں حالانکہ تاریخ کے ہر دور میں یہود و نصاریٰ نے انسانوں کا سب سے زیادہ خون بہایا ہے۔ دور جانے کی کیا ضرورت ہے جنگ عظیم اول اور دوم میں کروڑ ہا لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے اور معلوم انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں تو کیا یہ سب کچھ مسلمان ’’دہشت گردوں‘‘ کے ہاتھوں ہوا؟
ذرا آگے بڑھیئے! سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ نے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ جاری کیا اور 11/9 کے حادثات نے اس نئے عالمی نظام کو آگے بڑھانے کے لئے جارحیت سے بھرپور مواقع فراہم کئے۔ عراق میں دس لاکھ اور افغانستان میں چھ لاکھ سے زائد بے قصور مسلمان کس نے موت کے گھاٹ اتارے؟ عالمی استعمار کو اپنی ریاستی جارحیت نظر نہیں آتی لیکن مسلمانوں کی طرف سے فطری مزاحمت پر سیخ پا ہو رہا ہے۔ پوری دنیا کے کروڑوں انسانوں کے احتجاج سے قطع نظر جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا اور ہنستے بستے شہروں کو کھنڈرات بنایا تو بہانہ یہ تھا کہ عراق مہلک کیمیاوی اسلحہ نہ بنالے۔ اس کے برعکس حال ہی میں اسرائیلی افواج نے غزہ پر فاسفورس بم استعمال کئے معصوم بچوں اور عورتوں کو پوری دنیا کے سامنے ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں سے نشانہ بنایا لیکن اسی سلامتی کونسل میں گیارہ قرار دادیں امریکہ نے ویٹو کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینکوا دیں۔ عالمی امن کی ضامن UNO اب محض ’’Debating کونسل‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ اسے فی الواقع دنیا کے امن و سکون سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کی چھتری کے نیچے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنایا جا رہا ہے۔ واضح ریاستی دہشت گردی کو War Against Terror یعنی ’’بحالی امن کی جنگ‘‘ کا ٹائیٹل دے دیا گیاہے۔
ان معاندانہ عالمی مناظر کے رد عمل میں مسلمانوں کی کچھ جماعتیں اور تنظیمیں ایسی بھی وجود میں آئیں جنہوں نے دشمن کی خطرناک منصوبہ بندی کو بھانپ کر پائیدار حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے ان استعماری ہتھکنڈوں کو مزید مضبوط کیا۔ انہوں نے غیر مرئی (Invisible) ہاتھوں کا آلہ کار بنتے ہوئے جہاد کے نام پر اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہانا شروع کر دیا۔ اس کی واضح مثالیں افغانستان، فلسطین اور اب پاکستان کے شمالی علاقوں میں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ وہ خطرناک اور افسوسناک رحجان ہے جس کے پرچار کا سبب بھی بدقسمتی سے مذہبی تنظیمیں ہی بن رہی ہیں۔ اس خانہ جنگی کا بڑانقصان یہ ہو رہا ہے کہ اس میں دونوں طرف سے مسلمانوں کا قیمتی خون بہہ رہا ہے اور دشمن دور بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے۔
اس وقت سوات اور وزیرستان پر ہی نظر دوڑائی جائے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جنت نظیر وادیاں آگ اورخون کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ ہر روز بے گناہ شہری لقمہ اجل بنتے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھری اور بھوک پیاس کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ نفرتوں کی فصل پک رہی ہے اور نفاذ شریعت کے نام پر ایک مخصوص طبقہ بچیوں کے سینکڑوں سرکاری سکولوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے۔ پورا علاقہ بیٹھے بٹھائے ایک ان جانے خوف اور عذاب سے دوچار ہے حالانکہ یہاں کسی غیر مسلم فوج نے حملہ نہیں کیا۔ پاک فوج اور طالبان کی یہ عجیب ترین خانہ جنگی پورے ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگائے ہوئے ہے۔ بدترین داخلی انتشار اور خارجی دباؤ کے باعث وطن عزیز زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ اس پورے ماحول میں کہیں سے بھی امن رواداری اور بقائے باہمی کی آواز بلند نہیں ہورہی۔ ۔ ۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ
بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
ایک شخصیت ہے جس کی فکری اور عملی کاوشیں ملکی اور بین الاقوامی سطح اسلام کے حقیقی پیغام امن و محبت کی خوشبو پھیلا رہی ہیں۔ یہ آواز ہمارے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی آواز ہے جس نے نفرتوں بھرے اس خونی منظر نامے کو پرامن روحانی معاشرے میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ جس نے بین المسالک رواداری سے لے کر بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ تحریک منہاج القرآن کے مقاصد اور اہداف وہی ہیں جو تاریخ اسلام کے ہر مخلص داعی اور مصلح کے سامنے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رشتہ عبدیت، اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رشتہ محبت و اطاعت قرآن کی ابدی اور حتمی ہدایات کی طرف بنی نوع انسان کا تعلق اور فروغ تعلیم و شعور اس پیغمبرانہ دعوت کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں اسلام کوجو خطرناک چیلنجز درپیش رہے وہ یقینا اُس دور کے پیچیدہ مسائل تھے مگر اللہ پاک اپنے نظام ہدایت کے تحت ہر دور کے مشکل حالات میں اپنی برگزیدہ شخصیات پیدا فرماتا رہا جنہوں نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصوصی فیض سے حالات کا مقابلہ کیا۔ آج کا چیلنج گذشتہ ادوار کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہمہ جہتی ہے۔ ویسے بھی یہ دور فتن ہے اور اس دور میں اصلاح امت اور بھی مشکل امر ہے۔ اسلام کے مخالفین منظم بھی ہیں اور متحرک بھی، ان کے پاس وسائل بھی پہلے دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور مکر و فریب بھی پہلے سے کہیں بڑھ کر فنی۔ اس لئے جس مومنانہ فراست، حکمت و تدبر اور دور بینی کی ضرورت اب ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ الحمدللہ ہمارے قائد کو اللہ تعالیٰ نے یہ ساری خوبیاں عطا کر رکھی ہیں۔ تحریک اس سال اپنے عظیم قائد کی 58 ویں سالگرہ منا رہی ہے اور۔ ۔ ۔ ماہنامہ منہاج القرآن۔ ۔ ۔ کی یہ خصوصی اشاعت ان کی اسی پرامن عالمی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔
غزہ کے جرات مند مسلمانوں کو خراج تحسین
مقبوضہ فلسطین کے گنجان آباد شہر غزہ پر تین ہفتے اسرائیل کی بری بحری اور ہوائی افواج دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں کی مدد سے تباہی مچا کر واپس جا چکی ہیں۔ دنیا اسے اگرچہ حماس اور اسرائیل کی جنگ کہتی ہے لیکن جنگ کی تعریف شاید یہاں مناسب نہیں۔ جنگ تو دو ایسے دھڑوں میں ہوتی ہے جن میں کم از کم طاقت کا کوئی تناسب موجود ہوتا ہے جبکہ ان بائیس دنوں میں ایک طرف دنیا کی اعلیٰ ترین تربیت یافتہ اور جدید ترین اسلحہ سے لیس اسرائیلی لشکر ان نہتے شہریوں پر چڑھ دوڑا جو سامانِ حرب تو کجا گذشتہ کئی مہینوں سے اشیائے خوردو نوش سے بھی محروم تھے۔ فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام مسلمان آبادی کل بھی یہودیوں کے رحم و کرم پر تھی اور آج بھی انہی کے زیر نگین ہے۔ اسرائیلیوں کا بچہ بچہ اسلحے سے لیس ہے جبکہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے لئے معمولی ہتھیار تو دور کی بات ضروریات زندگی بھی دستیاب نہیں۔
گذشتہ 60 سال سے ان مسلمانوں اور قابض اسرائیلی فوج کے درمیان ان گنت تصادم ہوتے رہے۔ اسرائیل نے ہر بار اپنی طرف سے جان لیوا حملوں کی منصوبہ بندی کی اور ممکنہ حد تک خطے میں تباہی پھیلاتا رہا مگر حیران کن بات یہ ہے کہ چند سالوں کے بعد وہیں پر مسلمان دوبارہ مزاحمت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اب فلسطینی مسلمانوں کی تیسری نسل شہادتوں کی فصل بو رہی ہے۔ موجودہ درندگی میں اسرائیلی فوجوں نے اسی لئے زیر تعلیم بچوں کو زیادہ شہید کیا کیونکہ وہ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کا منصوبہ بناکر آئے تھے۔ اپنی طرف سے انہوں نے حماس کو بھی ختم کرنے اور ان کے بنیادی ڈھانچے کو برباد کرنے کا پروگرام حتمی کیا تھا۔ حملے کے دوران بار بار اسرائیلی حکومتی عہدیدار اس خواہش کا اظہار بھی کر رہے تھے کہ ہم اپنے مقاصد کے حصول تک ہوائی حملے اور گولہ باری بند نہیں کریں گے۔ ان کے یہ مقاصد کیا تھے؟ اور کیا وہ واقعتا ان میں کامیاب ہو پائے ہیں؟ یہ دو بنیادی سوالات ہیں جن پر غور ضروری ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 2 سال قبل 2006ء میں اسرائیلی فوجوں نے اسی طرح بھرپور تیاری کے ساتھ لبنان میں موجود مزاحمتی تنظیم حزب اللہ پر چڑھائی کی تھی۔ اس وقت بھی امریکی اور اسرائیلی عہدیداروں نے عندیہ دیا تھا کہ اسرائیلی فوج لبنان سے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کئے بغیر واپس نہیں آئے گی، مگر ہوا یہ کہ اسرائیلی افواج بری طرح حزب اللہ کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئیں۔ بیروت کی آبادی پر بھی غزہ کی طرح اندھا دھند گولہ باری ہوتی رہی اور سینکڑوں عمارتیں کھنڈر بنادی گئیں مگر حزب اللہ کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے سرخرو ہوئی اور لبنانی قوم نے غیر متوقع طور پر اس کا ساتھ دیا۔ اس دن سے اسرائیلی گھمنڈ خاک میں مل گیا تھا۔ پوری دنیا اور بالخصوص خطے میں اسرائیلی فوجی طاقت کا رعب ختم ہوگیا اور خود اسرائیلی حکومت کو شدید اندرونی اختلافات اور دباؤ کا سامنا رہا۔ اب جبکہ وہاں انتخاب ہونے والے تھے وہی حکومت اب دوبارہ عوام کے سامنے آئندہ مدت کے لئے ووٹ مانگنے سے پہلے اس شکست کا داغ مٹانے کے لئے نہتے فلسطینیوں پر ٹوٹ پڑی۔ عزت تو اسی کا مقدر ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ عزت سے نوازتا ہے۔ پوری دنیا کے آزاد میڈیا نے یہ حقیقت تسلیم کی ہے کہ اسرائیل 2006ء میں لبنان کی طرح غزہ کی جنگ بھی ہار چکا ہے۔ اس لئے کہ اسے مطلوبہ مقاصد میں نہ صرف کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ دنیا کے سامنے اس کے سرپرست مزید ننگے ہوگئے ہیں۔ ان کے مظالم نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ جو لوگ آج تک اسرائیل کے یکطرفہ مظالم سے ناواقف تھے اور عالمی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ہر مسلمان کو ’’دہشت گرد‘‘ سمجھ بیٹھے تھے اس حملے نے کافی حد تک اصل صورت حال واضح کر دی ہے۔ اس کی ایک مثال لاطینی امریکہ کے دو ممالک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کا خاتمہ ہے۔ حزب اللہ کے ہاتھوں شکست کا داغ کیا دھونا تھا ایک مرتبہ پھر شکست کا داغ سمیٹ کر اسرائیلی فوجیں اپنے ٹینکوں سمیت واپس لوٹی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ غزہ شہر میں بے پناہ نقصان ہوا، 12 ہزار مکانات کھنڈر بن گئے، 40 سے زائد مساجد شہید ہوئیں درجنوں سکول اڑا دیئے گئے اور عوامی کاروباری مراکز سمیت ہر وہ جگہ جہاں فلسطینی مسلمانوں کا کوئی مفاد وابستہ تھا حتی کہ شادی ہال، ہسپتال اور ہوٹل بھی مسمار کر دیئے گئے مگر باہمت فلسطینی مسلمان حوصلے نہیں ہارے۔ ان کے 1400 شہداء کا خون پوری دنیا کے بے جہت اور منتشر مسلمانوں میں نیا عزم اور حوصلے کا باعث بن گیا ہے۔ خون میں لت پت بچوں اور عورتوں کے لاشوں نے باقی ماندہ مسلمانوں کی حمیت و غیرت کو مہمیز دی ہے۔ اس خون نے حماس اور الفتح کے باہمی جھگڑوں کو وقتی طور پر ختم کر دیا ہے اور ایک بار پھر انہیں اصلی اور ازلی دشمن کی شناخت کروا دی ہے۔ اردگرد کے جو مسلمان ممالک اس حملے میں واضح طور پر مجرمانہ جانبدارانہ کردار ادا کرتے رہے، بیچارے لٹے پٹے زخمی فلسطینی مسلمانوں پر اپنی سرحدوں کے راستے بھی بند رکھے اور مصلحت آمیز خاموشی میں وقت ضائع کیا، وہاں کی عوام اب بیدار ہو چکے ہیں، حکمرانوں کی استعمار پسندی اور ہوس پرستی طشت از بام ہو چکی ہے۔ اب استعماری ایجنٹ بادشاہت کی کرسیوں پر زیادہ طویل عرصے تک براجمان نہیں رہ سکیں گے۔ جلد یا بدیر وہاں عوامی لہر ضرور اٹھے گی۔ رہ گئی فلسطینی مظلوم مسلمان قوم تو وہ قربانیاں دے دے کر اس قدر پختہ ہوگئی ہے کہ انہیں موت سے کوئی خوف نہیں رہا۔ جن بچوں نے خون اور آگ کے یہ دریا اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ بڑے ہو کر اسرائیلی حکومت کے لئے کون سے جذبات رکھیں گے؟
اب آیئے فلسطین میں موجود یہودیوں اور مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بھی نوٹ کرلیں۔ اس وقت اسرائیلی اور فلسطینی علاقوں میں آباد عربوں کا تخمینہ 55 لاکھ لگایا جا رہا ہے جو آبادی میں اضافے کے موجودہ رفتار کے ساتھ 2020 تک 85 لاکھ ہوجائیں گے جبکہ فلسفین میں یہودیوں کی کل تعداد 54 لاکھ بتائی جاتی ہے جو کے موجودہ تناسب کے ساتھ 2020 میں بمشکل 64 لاکھ ہوں گے۔ آبادی میں اس واضح فرق اور تناسب میں عدم توازن نے مستقبل کے حوالے سے اسرائیل کو سخت پریشان کر رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ نسل کشی جیسے قبیح جرم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ مگر اسے یہ بات کون سمجھائے کہ جو قوم قربانی دینا جانتی ہے اسے کوئی طاقت صفحہ ہستی سے نہیں مٹاسکتی۔ حالیہ حملوں میں اسرائیل نے اپنی طرف سے جس حماس کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی منصوبہ بندی کی تھی وہ اب پہلے سے زیادہ مضبوط اور متحد ہو کر مزاحمت کرے گی۔ جن عمارتوں کو گرا دیا گیا ہے وہ پرعزم فلسطینی دوبارہ بنالیں گے۔ جو زخمی ہوئے ہیں وہ اپنی نسلوں کو رہتی زندگی تک دشمن کے لئے چیلنج بناتے رہیں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے کربلا میں یزیدی فوجوں نے فتح یاب ہونے کے باوجود دنیا اور آخرت میں ذلت کمائی مگر بے خانماں برباد قافلۂ عزیمت کے نقوش پا حریت و آزادی کے ہزاروں قافلوں کو زندگی بخش گئے۔ بات جرات عزیمت اور ہمت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ آج بھی اہل ایماں کے لئے اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں احد و بدر میں تھا شرط ایمان اور وفاداری کی ہے۔
ڈاکٹر علی اکبر قادری