انسانیت کے سامنے دین رحمت و امن کو حقیقی تعلیمات کے ساتھ پیش کرنے میں جو لوگ عالمی سطح پر پیش پیش ہیں ان میں بجا طور پر امت مسلمہ کی بالعموم اور قریہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاکستان کی بالخصوص نمائندگی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے حصے میں آئی ہے۔ دور حاضر میں یہ واحد بڑی مسلمان شخصیت ہیں جو مشرق و مغرب میں مقیم مایوس مسلمانوں کے چہروں سے احساس ندامت و شرمندگی ختم کرکے انہیں سکون و اطمینان کی علمی اور روحانی دولت لوٹا رہے ہیں۔ آپ کی شخصیت اندھیری غار کے دوسرے کنارے پر امید کا نشان دکھائی دے رہی ہے۔ اسلام کے روشن چہرے پر پڑ جانے والی اس گرد کو صاف کرنے اور اپنے فکر و عمل اور خداداد علمی صلاحیت کے ذریعے آپ پوری دنیا میں ہر پلیٹ فارم پر اسلام کے دفاع کے لئے فکری و نظریاتی اور علمی و عملی محاذوں پر مصروف جدوجہد ہیں۔۔۔شیخ الاسلام اپنی تنظیمی، انتظامی، تعلیمی، تحقیقی، تبلیغی اور روحانی خدمات کے ذریعے شرق تا غرب اسلام کے پیغام محبت و امن کو کامیابی کے ساتھ پہنچارہے ہیں۔ انہوں نے سینکڑوں کتب، ہزاروں تلامذہ اور لاکھوں چاہنے والوں کے ذریعے اسلام کی حقیقی تعلیمات جس باوقار انداز میں پھیلانے کا ہمہ گیر نظام وضع کیا ہے، اس کی مثال صدیوں پر مشتمل دور زوال میں کہیں میسر نہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہمہ جہتی اوصاف کی حامل شخصیت ہیں۔ ان کی حالیہ انقلابی جدوجہد نے عوام پاکستان کے شعور کو بیدار کرنے اور انہیں اپنے حقوق سے آگاہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسلامیان ہند نے برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے لئے جو طویل اور صبر آزما جدوجہد کی اس کا مقصد بھی ریاست مدینہ کی طرح ایک آزاد، خودمختار فلاحی اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لاکھوں لوگوں نے اس کے لئے جان و مال اور عزت آبرو کی قربانیاں دیں۔ بالآخر قائد اعظم محمد علی جناح کی باکردار عملی اور اقبال کی فکری قیادت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم اسلامی مملکت عطا فرمائی۔ شومئی قسمت کہ پاکستان کے بانی قائدین کی آنکھیں بند ہوتے ہی طالع آزما حکمرانوں کا ایک طبقہ اس ملک پر مسلط ہوگیا جس نے اس خداداد مملکت کو حرص و ہوس کا دستر خوان بنادیا۔ حالانکہ ہم نے بطور قوم، برصغیر میں اسلامی تشخص قائم کرنے کے لئے بے مثال قربانیاں دیں۔ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت سے گزرے، لاکھوں کلمہ گو معصوم لوگوں نے اپنے خون سے شہادتوں کی فصل بوکر پاکستان کا خطہ حاصل کیا مگر وہ نظریہ، وہ نعرہ، وہ جذبہ اور وہ خواب پس پشت ڈال دیئے گئے۔ ہم بطور قوم شہیدوں کے خون سے غداری کے مرتکب ہوچکے ہیں حتی کہ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئے ہوئے وعدے بھی بھلادیئے۔ پاکستان کو ہم نے خود توڑا اور بقیہ خطہ زمین کو اسلام کی دھرتی بنانے کی بجائے ہم نے استعماری طاقتوں کا میدان جنگ بنالیا۔ آج ہر صوبہ کئی کئی حصوں میں بٹنے کے لئے تو تیار ہے مگر قوم متحد نہیں ہوسکی۔ شعبدہ باز سیاستدانوں نے عوام کو اپنے مسائل میں اس طرح الجھادیا ہے کہ حصول پاکستان کے مقاصد ہی ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔
ہمارے ہاں کہنے کو توجمہوریت ہے مگر بے اصولی، ہوس پرستی، لالچ اور خودغرضی کی انتہاء ہوگئی ہے۔ ہمارے سیاستدان اور عام آدمی کے اخلاقی معیار سے بھی گرچکے ہیں۔ حکمرانوں کی بزدلی عاقبت نااندیشی اور کرپشن کو دیکھتے ہوئے ملک دشمن استعماری قوتوں نے سازشوں کا جال بچھادیا اور وطن عزیز کا چپہ چپہ غیر ملکی ایجنسیوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ فاٹا سے بلوچستان اور کراچی سے سوات تک ہر روز بے گناہ لوگ موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ خصوصاً ان حالات میں تو ہمیں عقل و خرد سے کام ضرور لینا چاہئے جب ملک کی سلامتی انہی جھوٹے کرپٹ اور بددیانت حکمرانوں کے ہاتھوں رسک پر ہے۔ ملکی سیاست میں حقیقی تبدیلی کے لئے موجودہ انتخابی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ اسی جانب پیش رفت کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے گذشتہ سال انقلاب مارچ و تاریخی دھرنا دیا جو ملکی تاریخ میں بہت بڑا مؤثرقدم ثابت ہوا جس نے نہ صرف عوام میں شعور بیدار کیا بلکہ عام آدمی کو بھی آگاہ کیا کہ وہ کون سے آئینی معیارات اور تقاضے ہیں جنہیں پورا کرنے کے بعد ہی کوئی شخص عوامی نمائندگی کرتے ہوئے قانون ساز ادارے کا نمائندہ بن سکتا ہے۔
اس دھرنے نے جہاں تحریک کے پیغام کو گھر گھر پہنچایا وہاں شیخ الاسلام کی قیادت اور استقامت کا لوہا بھی منوایا ہے۔ اس وقت ملک کی کشتی کو گرداب سے نکال کر ترقی کے سفر پر گام زن کرنے کی اہلیت و صلاحیت اگر کوئی رکھتا ہے تو وہ صرف ڈاکٹر طاہر القادری کی ذات ہے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ کسی بھی ملکی و غیر ملکی امداد کے بغیر، ہر طرح کے خطرات کے امکانات کے باوجود ہر طرح کے لالچ سے بے نیاز رہتے ہوئے انہوں نے عوا م کے حقوق کی آواز کو موثر طریقے سے بلند کیا۔ تحریک منہاج القرآن اپنے قیام کے وقت سے ہی قوم کو مقصدیت سے رُوشناس کرانے کے لیے متعدد سطحوں پر سرگرمِ عمل رہی ہے۔ لہذا تحریک کے کارکنان اپنے عظیم اور جرات مند قائد کی سرپرستی میں پرامن انقلاب کے لئے دن رات ایک کردیں۔ یہ وقت ہے کہ وابستگان تحریک خواتین و حضرات اپنے ارد گرد بستیوں میں پھیل جائیں، تحریک کی دعوت دیں، تحمل دانشمندی اور حوصلے سے اس شعور کو گھر گھر اور نگر نگر پہنچادیں اور اس سارے عمل کو وہ اپنے لئے اعزاز سمجھیں کہ اللہ پاک ان کے ذریعے ملک میں مثبت تبدیلی کا راستہ ہموار کررہا ہے۔ معاشروں میں تبدیلیاں ایسے ہی آیا کرتی ہیں۔ بیداریِ شعور کی اس تحریک کا مقصد عوام کو درپیش مسائل اور چیلنجز سے آگاہ کرنا اور ان کے حل کے لیے جد و جہد پر آمادہ کرنا کہ کسی بھی معاشرے میں اس وقت تک تبدیلی نہیں آسکتی جب تک قوم تبدیلی کی ضرورت اور اس کے تقاضوں سے مکمل طور پر آگاہ نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ شیخ الاسلام کی طرف سے عوام کے بنیادی آئینی حقوق کے لئے کی گئی جدوجہد کا اجمالی خاکہ ہے جبکہ دوسری طرف بین المذاہب ہم آہنگی اور قیام امن کے لئے بھی آپ کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اسے شومئی قسمت کہیں یا مکافات عمل کہ وہ امت جو دنیا پر امن قائم کرنے، انسانی معاشروں کو امن، محبت اور عدل بانٹنے کے لئے آئی تھی کہیں خود ظلم کا شکار اور کہیں ظلم کا آلہ کار بن چکی ہے۔ اس کی روشن پیشانی پر اب انسانیت نوازی کی جگہ دہشت گردی کا داغ چسپاں ہوگیا ہے۔ اسلامی شعائر جو کبھی رحمت، امن اور علم کی علامت ہوتے تھے اب وہ غنڈہ گردی اور خون خرابے کا ایک خطرناک نشان بن چکے ہیں۔ مسلم اُمہ پر ہر سمت سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ یقینا یہ ایک مشکل دور اور نازک مرحلہ تاریخ ہے۔ پوری دنیا میں مختلف ادارے شخصیات اور بعض حکومتیں عمداً قرآن حکیم، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تعلیمات اسلامی کے خلاف آئے روز پروپیگنڈا کرتی ہیں۔ بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلام کا چہرہ داغدار کیا جائے تاکہ اسلام کی طرف رغبت کم اور نفرت زیادہ ہو سکے۔
اس عالمی مخاصمانہ ماحول میں دین اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ اسلام کو حتی المقدور پُرامن بقائے باہمی کی سب سے بڑی آواز کے طور پر دنیا میں متعارف کروایا جائے۔ دوسرے معنوں میں اس وقت سب سے بڑا جہاد دشمنانِ اسلام کے خلاف عسکری جدوجہد نہیں بلکہ اسلام کے خلاف جاری منفی پروپیگنڈے کا علمی، عملی اور حقیقی توڑ ہے۔ اس لئے کہ کہیں سے بھی امن، رواداری اور بقائے باہمی کی یہ آواز بلند نہیں ہورہی۔۔۔ بقول اقبال
بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
ایک شخصیت ہے جس کی فکری اور عملی کاوشیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کے حقیقی پیغام امن و محبت کی خوشبو پھیلارہی ہیں۔ یہ آواز ہمارے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی آواز ہے جس نے نفرتوں بھرے اس خونی منظر نامے کو پرامن روحانی معاشرے میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ جس نے بین المسالک رواداری سے لے کر بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ تحریک منہاج القرآن کے مقاصد اور اہداف وہی ہیں جو تاریخ اسلام کے ہر مخلص داعی اور مصلح کے سامنے رہے۔ تاریخ کے ہر دور میں اسلام کوجو خطرناک چیلنجز درپیش رہے وہ یقینا اُس دور کے پیچیدہ مسائل تھے مگر اللہ پاک اپنے نظام ہدایت کے تحت ہر دور کے مشکل حالات میں اپنی برگزیدہ شخصیات پیدا فرماتا رہا جنہوں نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصوصی فیض سے حالات کا مقابلہ کیا۔ آج کا چیلنج گذشتہ ادوار کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہمہ جہتی ہے۔ ویسے بھی یہ دور فتن ہے اور اس دور میں اصلاح امت اور بھی مشکل امر ہے۔ اسلام کے مخالفین منظم بھی ہیں اور متحرک بھی، ان کے پاس وسائل بھی پہلے دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور مکرو فریب بھی پہلے سے کہیں بڑھ کر فنی۔ اس لئے جس مومنانہ فراست، حکمت و تدبر اور دور بینی کی ضرورت اب ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ الحمدللہ ہمارے قائد کو اللہ تعالیٰ نے یہ ساری خوبیاں عطا کررکھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ الاسلام مدظلہ نے دلوں میں جذبہ ِ عشق ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پختہ کرنے اور اسے ایمان و عمل میں اجاگر کرنے کیلئے نوجوانوں کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشن رکھا اور اتباع کا آفاقی تصور پیش کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتی‘ مذہبی‘ سماجی اور سیاسی زندگی کے مبارک اسوہِ کو اختیار کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ تحریک کا ہر رکن پہلے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے او ر بعد میں مبلغِ دین۔ اس کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوتی کاوشیں بھی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر جمال بھی۔
قائدِ تحریک کا سب سے بڑا کارنامہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عالمی سطح پر فروغ و احیاء ہے۔ افریقہ سے لیکر مشرق بعید کے ممالک اور یورپ سے لیکر لاطینی امریکہ‘ اسٹریلیا ‘مشرقِ وسطی اور دنیائے انسانیت کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں آپ نے محبت ِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آفاقی پیغام نہ پہنچا یا ہو۔یورپ کی چکاچوند میں مادیت کے بتوں کے سامنے سربہ سجود لاکھوں نوجوان، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو اٹھا کر آپ نے صاحبِ گنبدِ خضراء کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔ ان کا جینا مرنا، شب و روز کی محنتوں اور مشقتوں کا حاصل اب مصطفوی تحریک ہے۔
فرقہ پرستی، دہشت گردی اور نفسا نفسی کے اس ماحول میں تحریک منہاج القرآن کے سپاہی ملک کے طول و عرض میں تعلیم، صحت اور بیدارئ شعور کے پیغمبرانہ مشن پر کاربند ہیں۔ موجودہ عالمی دبائو میں پرامن بقائے باہمی کے اصول پر کاربند تحریک منہاج القرآن اور اس سے وابستہ علمائ، دانشور، داعیین، محققین اور مبلغین قرآن و حدیث کی حقیقی ترجمانی کررہے ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک اس عظیم مصطفوی مشن سے وابستہ کارکنان امسال شیخ الاسلام کی 64 ویں سالگرہ کے موقع پر اسلام اور پاکستان کی سربلندی کا عزم کرتے ہوئے اپنے قائد سے عہد تجدید کریں گے۔ یہ عزم اس احساس اور شعور کے ساتھ دہرایا جائے گا کہ اس وقت شیخ الاسلام عالمی سطح پر اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پھیلانے اور فروغِ امن میں مصروف کار ہیں اور ملکی سطح پر عوام الناس کو اُن کے بنیادی آئینی حقوق سے آگہی دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ خواتین و حضرات اور نوجوانان ملت کے لئے اس مرتبہ بھی قائد ملت اسلامیہ حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا یہی پیغام ہے۔
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونیں منظر سے
اس دور میں جینا لازم ہے جس دور میں جینا مشکل ہو