قومی نصاب برائے فروغ امن و انسداد دہشت گردی
دہشت گردی کی سوچ رکھنے والے افراد راتوں رات جنم نہیں لیتے بلکہ ان کے اذہان کو اس منفی سمت ڈھالنے کے لئے بھی ایک وقت درکار ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح معاشرتی رویوں، باہمی معاملات، رسوم و رواج، اخلاق اور اعمال میں امن، سکون، سلامتی کا داعیہ بھی یک لخت پیدا نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے بھی مسلسل ایک ریاضت و مجاہدہ کی ضرورت ہے۔ جس وقت امن، سلامتی اور محبت کے رویے فروغ نہیں پائیں گے تو لامحالہ دہشت گردی و انتہا پسندی کسی نہ کسی کونے کھدرے میں پروان چڑھتی رہے گی۔ پس اگر معاشرہ میں امن فروغ پائے تو اس کے برعکس دہشت گردی و انتہا پسندی کے رویے خودبخود اپنے منطقی انجام پر پہنچتے رہیں گے لیکن اگر ہر آئے دن دہشت گردی و انتہا پسندی مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ امن و سلامتی اور محبت کے رویے معاشرے میں فروغ نہیں پا رہے۔
پاکستانی معاشرہ حکمرانوں سے لے کر عوام الناس کے جملہ طبقات تک مجموعی طور پر امن و اخلاق کی اقدار سے بے بہرہ ہے۔ نفسا نفسی کا ایسا عالم ہے کہ الامان الحفیظ۔ گھریلو حالات ہوں یا کاروباری معاملات، سماجی تعلقات ہوں یا ریاستی امور، مذہب ہو یا سیاست ہر جگہ پر عدم برداشت، نفرت، تعصب اور تشدد نظر آتا ہے۔ ان حالات میں ایک دردِ دل رکھنے والا شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس مملکت خداداد کے قیام سے لے کر آج تک ان 65 سالوں میں کس مقام پر، کس سے کیا ایسی غلطی سرزد ہوئی کہ آج ہمارا پیارا وطن دھماکوں کی آواز سے گونج رہا ہے۔
محترم قارئین! ہم نے ملک پاکستان لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل تو کرلیا مگر اس کی بقاء کے لئے اقدامات نہ کئے۔ سیاسی مفادات کے پیش نظر وقتی ضرورت کے تحت فیصلے کرتے رہے اور کوئی طویل المیعاد منصوبہ سازی نہ کرسکے۔ نتیجتاً علمی و فکری محاذ پر اسلامی تعلیمات سے مکمل ناآشنائی ہمارا کردار ٹھہری۔ اسلام میں موجود امن، محبت، رحمت، شفقت، آسانی، اعتدال اور توازن کی تعلیمات کو جب معاشرہ کے ہر فرد تک پہنچانے کا مؤثر و منظم اہتمام نہ کیا گیا تو دوسری انتہاء پر موجود ملک دشمن عناصر نے اسلام کی امن پر مبنی مذکورہ تعلیمات اور رویوں کی جگہ ہماری قوم کے افراد میں شدت، عدم برداشت، تشدد اورنفرت کے بیج بونا شروع کردیے۔ ائمہ و خطباء ہوں یا اساتذہ و سیاستدان ہوں یا مذہبی قیادت، وکلاء و جج ہوں یا صحافی برادری، بچے ہوں یا بوڑھے یا خواتین تمام طبقات زندگی امن و محبت کی تعلیمات سے مزین نصاب کے بغیر زندگی گزارتے چلے گئے۔
قوم کی اس حوالے سے علمی و فکری اصلاح نہ کرنے کی ذمہ داری براہ راست ہمارے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اس سمت کوئی ایک بھی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا۔ دوسری طرف ہمارے سیاستدان اور مذہبی قیادت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے کہ اس نے بھی قوم کی اس سطح کی علمی و فکری راہنمائی کا فریضہ سرانجام نہیں دیا۔ دہشت گردی کے قلع قمع کے لئے ہمارے حکمران آج مدارس کے نصاب میں اصلاحات اور مدارس کے معمولات و معاملات پر نظر رکھنے کا عندیہ دے رہے ہیں حالانکہ صرف مدارس کے ہی نصاب پر نظرثانی کی ضرورت نہیں بلکہ سکولز، کالجز، یونیورسٹیز سطح تک کے تعلیمی نصاب میں حالات حاضرہ کے مطابق تبدیلی کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری ملازمین اور عامۃ الناس سطح تک بھی ایسے علمی و فکری کورسز کی ضرورت ہے جس سے رویوں میں موجود شدت و تعصب ختم ہو اور پیارو محبت اور رحمت و شفقت جنم لے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عالمی میلاد کانفرنس جنوری 2015ء میں ’’انسانیت سے محبت اور عدم تشدد‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے تعلیمی نصاب میں امن و محبت کے حوالے سے ابواب شامل کرنے کی ضرورت پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا:
’’سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کی نوبت کیوں آتی ہے؟یاد رکھیں! دہشت گردی انتہا پسندی سے شروع ہوتی ہے لہذا ہمیں انتہا پسندی کو جڑ سے کاٹنا ہو گا۔ افسوس! ابھی تک کوئی قدم انتہاپسندی کے خاتمے کی طرف نہیں اٹھایا گیا۔ لہذا انتہا پسندانہ سوچ و تبلیغ اور فرقہ واریت و تکفیری سوچ کو ختم کرنا ہوگا۔ معاشرے کو امن، رحمت، وفاداری، تحمل، بردباری، برداشت، اور توسط و اعتدال کا معاشرہ بنانا ہوگا۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو ئے، تو پاکستان کے قیام کے مقصدکو ہم نے پورا کیا، اور آقا علیہ السلام کے عشق ومحبت اور غلامی کا حق ادا کیا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اس حد تک ہمارے معاشرے پر غلبہ پالینے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دین اسلام کی امن و سلامتی، انسانیت سے محبت اور عدمِ تشدد پر مبنی تعلیمات کو اپنی قوم کے بچوں کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہی نہیں بنایا۔ ہمارے طلباء اور نوجوان نسل ان تعلیمات سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ یہ تعلیم پاکستان کے نصابات میں ہونی چاہیے۔ اس تناظر میں نصابات میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
مدرسہ کا نصاب ہو یا سکول، کالج یا یونیورسٹی کا نصاب۔ افسوس کسی سطح کے نصاب میں امن نام کا کوئی باب شامل نہیں ہے۔ جہاد کیا ہے اور فساد کیا ہے؟ اس پر بھی کوئی باب نہیں ہے۔ انسانیت سے محبت، عدم تشدد، اور برداشت پر کوئی باب نہیں ہے۔ جھگڑے اختلافات ہوں تو پر امن طریقے سے حل کیسے کریںاس پر کوئی باب نہیں ہے۔ اسی طرح غیر مسلموں کے حقوق پر کوئی باب نہیں ہے۔ قتل و غارت گری اور دہشتگردی کی مذمت پر کوئی باب نہیں ہے۔
یہ کیسا نظام تعلیم ہے؟ جس میں انسانیت ہی نہیں سکھائی جارہی ہے، اخلاق۔ محبت، الفت، برداشت، امن، تحمل کا درس نہیں دیا جا رہا ہے۔ قرآن و حدیث کی ان پرامن تعلیمات کو صرف مدارس کے ہی نہیں بلکہ سکولوں، کالجوں یونیورسٹیز کے نصابات میں بھی شامل کریں۔ جدید تعلیمی اداروں سے بھی لوگ انتہا پسند بنتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ اسلام کے خلاف اگر ان کے ذہنوں میں بغاوت یا غلط فہمی آتی ہے تو انہیں پڑھایا جائے کہ اسلام کیا ہے۔ جب اسلام کی پر امن تعلیمات کے متعلق کچھ پڑھایا ہی نہیں جاتا تو قوم کے معماروں سے پرامن اور پیکر رحمت و شفقت ہونے کی کیا توقع کرسکتے ہیں؟ لیڈروں اور حکومتوں نے اس قوم کو، کھیل تماشہ بنا رکھا ہے۔ انہوں نے اس قوم کے ساتھ وہ دھوکہ کیا ہے جو دنیا کی کسی قوم کے ساتھ کسی حکومت اور لیڈر نے نہیں کیا تھا‘‘۔
محترم قارئین! دین اسلام کی تبلیغ کرنے والے بعض نام نہاد علماء عوام کو انتہا پسندانہ عقائد کی جانب راغب کرتے ہیں۔ اپنے علاوہ دوسروں کو کافر، مشرک اور بدعتی سمجھنے کے اس رویے نے دہشت گردی کو پروان چڑھایا۔ منبرو محراب میں براجمان ان ’’علماء‘‘ نے اپنے خود ساختہ اسلام کو بزور طاقت معاشرے پر مسلط کرنا چاہا تو ریاست نے ان کے خلاف نہ کوئی اقدام کیا اور نہ ان ’’علماء‘‘ کی اصلاح کے لئے کاوشیں کی گئیں۔ نتیجتاً انہوں نے اسلام کی تعلیمات امن، محبت کی جگہ تشدد و جارحیت اور مسلمانوں کو ہی اسلام سے خارج کرنے کی روش کو اسلام قرار دے ڈالا اور اپنے سے اختلاف رکھنے والے ہر ایک کو کافر قرار دے کر اس سے لڑنا جہاد قرار دے دیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے بھی امن کی تعلیمات نہ خود پڑھیں اور نہ ہی اُس کا کبھی درس دیا۔
شیخ الاسلام ان مذہبی و تبلیغی رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’آج صورت حال یہ ہے کہ ہم اپنی بات ماننے والوں پر خوش ہوتے ہیں لیکن جو ہماری کسی بات سے اختلاف کرے اسے کافر بنا کر اسلام سے خارج کر دیتے ہیں۔ ہم نے دین میں اپنی اجارہ داریاں بنا رکھی ہیں جس کے پاس کچھ اختیارات ہوں وہ دوسروں کو مسلک سے نکال دیتا ہے۔ جو تھوڑا بڑا ہو، وہ دوسرے کو دائرہ اسلام ہی سے نکال دینے کا اختیار رکھتا ہے۔ ہم نے اسلام کو بازیچہِ اطفال بنا کر سکول کے ہیڈماسٹر کی طرح داخل و خارج کااختیار اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے امت تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے لیکن امت سے نکالنے کا اختیار ہر کس وناکس کے پاس ہے۔ اسی طرح دین اسلام تو اللہ کا ہے، وہ بندوں کے حال کو خود بہتر جانتا ہے لیکن دین کے داخل و خارج کے انچارج بھی آج کے علماء دین بن گئے ہیں (الاّماشاء اللہ) یہ شرک فی التوحید اور شرک فی الرسالت نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ امر کس قدر افسوس ناک ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے مذہبی وارث ا لاّماشاء اللہ، ملت کی پاسبانی کی بجائے دین کی مسندوں پر بیٹھے ہی گویا کافر و مشرک اور ملحد و بے دین کے القابات سے نوازنے کے لیے ہیں۔ دین کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ٹکے ٹکے کے عوض بیچا جاتا ہے۔ شریعت کو اپنی ذاتی استعمال کی چیز سمجھتے ہوئے اپنی پسند وناپسند کے مطابق گھمایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل اول تو علماء سے مانوس ہی بہت کم ہے اور اگر کوئی نوجوان اصلاحِ احوال کے لیے ان کے قریب چلا بھی جاتا ہے تو بجائے اصلاح احوال کے متنفر ہو کر اٹھتا ہے‘‘۔
(شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، لااکراہ فی الدین کا قرآنی فلسفہ، ص 41)
محترم قارئین! یہ تبلیغی رویے، فرسودہ نصاب تعلیم اور معاشرے کے جملہ طبقات کی علمی، فکری اور روحانی تربیت نہ ہونے کا شاخسانہ ہے۔ انسانی تربیت کے لئے اچھا لٹریچر، نصاب اور ماحول درکار ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں امن، محبت، شفقت، آسانی، اعتدال، توازن کے حوالے سے نہ تو اچھا ادب تخلیق پاسکا اور نہ ہی ماہرین تعلیم نے فروغ امن کے لئے اچھا نصاب مرتب کیا۔
ہمارے آج کے دینی مدارس کے نصاب کی علمی اور فکری حیثیت پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ لکھتے ہیں:
’’دور ِ زوال سے قبل علماء دین نصاب میں وقت کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق تبدیلی کرتے تھے اور اس طرح اس میں ترمیم ہوتی رہتی تھی۔ جس طرح آج کل پرانے نصاب پر نظرثانی ہو تی ہے، اسی طرح دینی نصاب بھی بدلتا تھا۔ یہ تبدیلی غیر مذہبی علوم میں ہوتی تھی۔ اصل مذہبی علوم قرآن و حدیث، فقہ وغیرہ میں تبدیلی نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح دینی نصاب تقریباً چھ ادوار سے گزرا، ساتواں ایڈیشن علامہ نظام الدین سہالوی (1677-1748ء) نے مرتب کیا جو درس نظامی کے طور پر مشہور ہوا۔ جب دور غلامی آیا تو علماء کے ذہن بھی جمود کے شکار ہوگئے اور انہوں نے درسِ نظامی کو ہی آخری ایڈیشن قرار دیا۔ یہاں علوم کی تدریس کا ارتقاء رک گیا۔ ذہنوں کے مفلوج ہونے سے دینی نصاب بھی مفلوج ہو گیا اور اس سے حالات کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کبھی بھی نظر ثانی نہ کی جاسکی اور غلامی کے جو اثرات دینی نصا ب پر پڑے، انہیں مسلمانوں نے قبول کر لیا۔ آج سے صدیوں پہلے کے شامل نصابِ علوم کو جسے سینکڑوں سال گزر چکے ہیں علماء آج بھی رائج کرنا چاہتے ہیں حالانکہ تقاضائے وقت ہے کہ آج کے سائنسی علوم کو داخل نصاب کیا جائے اور اس کے ذریعے ذہن کی تربیت کرکے اسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ دورِ نو کی ضروریات کے مطابق قرآن و حد یث کی توضیح کرسکیں‘‘۔
( شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، قرآنی فلسفہِ انقلاب، جلد اول، ص 420-421)
محترم قارئین! دورِ نو کی ضروریات کے مطابق مدارس کے نصاب پر نظرثانی نہ کرنے کے نتیجہ میں ان طلبہ کے ذہنی تصورات کی منفی طرز پر تعمیر ہوتی رہی اور وہ اپنے سوا ہر دوسرے کو گمراہ اور معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام خرابیوں کا ذمہ دار سمجھتے رہے۔
شیخ الاسلام ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ کے عنوان سے دیئے جانے والے اپنے مبسوط تاریخی فتویٰ میں لکھتے ہیں:
’’بعض دینی اداروں اور مدارس میں طلباء کو دیگر مسالک کے خلاف نفرت، عدم رواداری اور انتہا پسندی پر مبنی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ میرے نزدیک بدقسمتی سے ہمارے سارے مسالک کسی نہ کسی حد تک اس مہلک مرض میں مبتلاء ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو غیر مسلم اور گمراہ سمجھتے ہوئے معصوم ذہنوں میں نفرتوں کی آبیاری کرتے ہیں۔ نتیجتاً یہ لوگ تنگ نظری اور فکری مغالطوں کا شکار ہو کر اپنے علاوہ سب کو کافر، مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے لگتے ہیں بلکہ بعض انتہا پسند تو اتنے متشدد ہو جاتے ہیں کہ وہ مخالفین کا خون بہانا نہ صرف جائز بلکہ واجب سمجھتے ہیں۔ یہیں سے شدت پسندی اور دہشت گردی پنپنے لگتی ہے جسے ایک دینی فریضہ (جہاد) سمجھ کر اختیار کیا جاتا ہے‘‘۔
محترم قارئین! یہ دینی مدارس کے نصاب کی صورتحال تھی، دوسری طرف دنیاوی علوم کے لئے مرتب کئے جانے والے نصاب کی بھی حالت تسلی بخش نہیں۔ اس نصاب میں بھی صرف اور صرف اسی علم سے متعلقہ کتب شامل ہیں جن کا تعلق صرف روزگار کے حصول سے ہے جبکہ طلباء کی اخلاقی، علمی، فکری، دینی اصلاح اور قرآن و حدیث کی تعلیمات سے آگہی کے لئے کوئی جامع نصاب شامل نہیں۔ یہی صورت حال اساتذہ، سرکاری ملازمین، پولیس، فوج، وکلاء، ججز، صحافی اور دیگر طبقات کے حوالے سے بھی ہے کہ ان کے لئے بھی امن، رواداری، برداشت کے حوالے سے کسی بھی قسم کے کورسز اور نصاب مرتب نہیں کئے گئے۔
افسوس کہ حکمرانوں اور مقتدر طبقات نے فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے لئے کوئی ایسا قومی نصاب مرتب نہ کیا جس کے ذریعے جملہ طبقات زندگی کو اسلام کی ان تعلیمات امن و محبت سے روشناس کروایا جاتا اور دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے قوم کے ہر فرد کو علمی و فکری لحاظ سے پختہ بنایا جاتا۔ حکومت کی اس نااہلی، عدم صلاحیت اور سیاسی مفادات پر قومی و ملکی مفادات قربان کرنے کی روش کا نتیجہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے اور ملک کا تقریباً ہر شہر ہر آئے روز دھماکوں کی آوازوں سے گونجتا اور خون میں ڈوبا رہتا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ نہ صرف مرض کی تشخیص کرتے ہیں بلکہ اس کا حل بھی اپنی تقریر و تحریر میں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انتہا پسندی، دہشت گردی اور تنگ نظری کے علاج کے لئے ’’نصاب‘‘ کی تشکیل و اصلاح ان کے نزدیک ناگزیر ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ پھر اپنی منصبی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے درج ذیل طبقات زندگی کے لئے ’’قومی نصاب برائے فروغ امن و انسداد دہشت گردی‘‘ مرتب کیا ہے:
- فوج
- اساتذہ
- ائمہ و خطباء
- طلباء
- وکلاء و ججز
- صحافی
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نصاب کو حکمران فوری طور پر نافذ العمل کریں تاکہ ملک کو دہشت گردی کے اس عفریت سے چھڑایا جاسکے اور صحیح معنوں میں ریاست مدینہ کی طرز پر ایک پرامن فلاحی اسلامی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔
اس ’’قومی نصاب برائے فروغ امن‘‘ کے ابتدائیہ میں محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی (صدر پاکستان عوامی تحریک) اس نصاب کی ضرورت، اہمیت اور غرض و غایت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کی اذیت ناک لہر نے امت مسلمہ کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص بدنام کر رکھا ہے۔دہشت گردوں کی طرف سے مسلح فساد انگیزی، انسانی قتل وغارت گری،دنیابھر کی پر امن انسانی آبادیوںپر خود کش حملے، مساجد، مزارات، تعلیمی اداروں، بازاروں، سرکاری عمارتوں، ٹریڈسنٹروں، دفاعی تربیتی مرکزوں، سفارت خانوں، گاڑیوں اور دیگر پبلک مقامات پر خود کش دھماکوں جیسے انسان دشمن، سفاکانہ اور بہیمانہ اقدامات معمول بن چکے ہیں۔یہ لوگ آئے دن سینکڑوں ہزاروں جانوں کے بے دریغ قتل اور انسانی بربادی کے عمل کو جہادسے منسوب کردیتے ہیں اور یوں پورے اسلامی تصورجہاد کوخلط ملط کرتے رہتے ہیں۔ اس سے نوجوان نسل کے ذہن بالخصوص اور کئی سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن بالعموم پراگندہ اور تشکیک و ابہام کا شکار ہورہے ہیں کیونکہ ایسے اقدامات کرنے والے مسلمانوں میں سے ہی اٹھتے ہیں، اسلامی عبادات ومناسک کی انجام دہی بھی کرتے ہیںاور ان کی ظاہری وضع قطع بھی شریعت کے مطابق ہوتی ہے۔لہذاعام مسلمان ہی نہیںبلکہ بیشتر علماء اور دانش ور بھی ایک مخمصے میں مبتلا ہیںکہ ایسے افراد اور گروہوںکے اس طرز عمل، طریقہ کاراور اقدامات کے بارے میںشرعی احکامات کیا ہیں ؟ بعض مذہبی رہنمائوں کا رویہ بھی عوام الناس کو اس مسئلہ کی حقیقت بارے مزید التباس کا شکار کردیتا ہے۔ اس لئے کہ وہ ’’مذہبی رہنما‘‘ دہشت گردی و انتہا پسندی کی کھلم کھلا مذمت ومخالفت کی بجائے موضوع کو خلط مبحث کے ذریعہ الجھا دیتے ہیں۔
اس تناظرمیں اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردگرو ہ اپنے مکروہ منصوبوں کو اسلام کے تصور جہاد سے نتھی کرتے ہیں۔۔۔شریعت اسلامی کے نفاذکی بات کرتے ہیں۔۔۔ اعلائے کلمتہ اللہ کا نعرہ لگاتے ہیں۔۔۔ خلافت اسلامی کی بحالی بھی اپنا مطمع نظر گردانتے ہیں۔۔۔ اور اسلامی اصطلاحات وفقہی تصورات کے ذریعے اپنے عمل کی بنیاد ثابت کرتے ہیں۔ قرآنی آیات، احادیث نبوی اور فقہی عبارات کے حوالہ جات استعمال کرتے ہوئے سادہ لوح اور اسلامی مصادر سے نا آشنا مسلمانوںاور بالخصوص نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں۔
اب جبکہ افواج پاکستان نے ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر رکھا ہے اور سانحہ پشاور کے بعد پوری قوم نے دہشت گردوں کے صفایا کا عزم مصمم کر لیا ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ عملی طور پردہشت گردی کرنے والے عناصرکی سرکوبی کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دہشت گردی کے فکر ونظریہ کے خلاف بھی قوم کے ہر طبقہ کو تیار کیا جائے۔انتہا پسندی کے معاشرے سے خاتمہ کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں تاکہ دہشت گردوںکی فکری ونظریاتی نرسریوں کابھی ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجائے۔ مزید برآںانتہاپسندانہ افکارونظریات کے خلاف مدلل مواد ہر طبقہ زندگی کو اس کی ضروریات کے مطابق فراہم کردیا جائے تاکہ معاشرے سے اس تنگ نظری و انتہاپسندی کا بھی خاتمہ ہوسکے جہاں سے اس دہشت گردی کو بنیاد حاصل ہوتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گذشتہ تیس سال سے انتہاپسندی، تنگ نظری اور فرقہ واریت کے خلاف علمی وفکری میدانوںمیں جدوجہدکی ہے۔ 2008ء میں آپ نے دہشتگردی و انتہا پسندی کے خلاف تاریخی فتوی دیا جو کہ 2010ء سے کتابی شکل میں دستیاب ہے۔ اس تاریخی فتوی کاانگریزی، عربی، ہندی، سمیت دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ انتہا پسندانہ تصورات و نظریات کے خلاف اور اسلام کے محبت، امن، رواداری اور عدم تشدد کی تعلیمات پر مبنی شیخ الاسلام کی 100 کے قریب کتب منظرعام پر آچکی ہیں۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ اس علمی ذخیرہ کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف طبقات زندگی کے لئے مختلف دورانیے کے کورسز تیار کئے جائیں، تاکہ ان کورسز کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد کو عملی طور پر اتنا تیار کردیا جائے کہ وہ کسی بھی سطح پر انتہا پسندانہ نظریات وتصورات سے نہ صرف خود محفوظ رہیں بلکہ اپنے حلقہ میں اسلام کے امن، محبت اور برداشت پر مبنی افکار و کردارکو عام کرسکیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری نے اس اہم ضرورت کی کفالت کرتے ہوئے ’’ قومی نصاب برائے فروغِ امن‘‘ ترتیب دیا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ اس سلیبس سے پاکستان کے تمام ادارے اور طبقات فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کورسز کا وسیع پیمانے پر اہتمام کریں گے تاکہ ہم معاشرے سے انتہاپسندی اور تنگ نظری کے عفریت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرسکیں اور ہمارا معاشرہ صحیح اسلامی تعلیمات کے مطابق امن وسلامتی، تحمل وبرداشت،رواداری اور ہم آہنگی کا گہوارہ بن سکے‘‘۔