خدائے مہرباں سے روشنی کا سلسلہ مانگو
چراغِ آرزو اپنی ہتھیلی پر سجا، مانگو
خدائے مہرباں سے روشنی کا سلسلہ مانگو
انہی کی سیرت اطہر سے روشن مکتبِ جاں ہے
دکانِ شیشہ گر سے تم کتابِ ارتقاء مانگو
لگاکر ان کو سینے سے قیامت تک یہ زندہ ہیں
مدینے کے گلی کوچوں سے ان کے نقشِ پا مانگو
کسی زادِ سفر کی بھی ضرورت ہی نہیں رہتی
دعاؤں میں ہمیشہ تم پرو بال ہما، مانگو
خدا کے گھر کا دروازہ مقفل ہونہیں سکتا
نبی (ص) کے عشق کے، دل کھول کر، ارض و سماء، مانگو
سنائے گی تمہیں احوال، طیبہ کی بہاروں کے
مدینے سے جو لوٹی ہے، وہی بادِ صبا مانگو
مہاجن پی گئے پانی میرے کھیتوں کے حصے کا
مدینے کے افق پر جھومتی کالی گھٹا مانگو
ہوئے ہیں خودکشی پر آج آمادہ میرے بچے
وطن کی سرزمین سے تیرگی کا انخلاء مانگو
یہ وہ دولت ہے جو دونوں جہاں میں کام آتی ہے
اگر کچھ مانگنا ہی ہے تو عشقِ مصطفی (ص) مانگو
وسیلہ دے کے نعلینِ نبی (ص) کا آج بھی شب بھر
زمین پر سانس لینے کے لئے تازہ ہوا مانگو
سماعت پر گرے ہیں اس قدر پتھر حوادث کے
بنو نجار کے خوش بخت بچوں کی صدا، مانگو
تسلسل سب کی سانسوں کا بکھرنا ہی ہے جب آخر
مدینے کے مقامِ مغفرت ہی میں قضا، مانگو
مدینے کے خس و خاشاک کی پرنور بارش میں
خدائے روز و شب سے اپنی بخشش کی رداء مانگو
خدا توفیق دے تو چوم لو ہر ایک پتھر کو
جھکاکر سر، بچشمِ نم، شبِ غارِ حرا مانگو
تصور میں رہے وہ سنگ باری شہرِ طائف کی
پسِ زنداں، سرِ مقتل، خدا سے حوصلہ، مانگو
عطا کرتے چلو لفظوں کو خلعت نورونکہت کی
سرِ بازارِ مدحت خوش کلامی کی ادا مانگو
ثناء گوئی شہِ کون و مکاں (ص) کی فرض ہے ہم پر
لحد میں نورونکہت کا درودی قافلہ، مانگو
یہ سودا ہر حوالے سے بڑا انمول سودا ہے
نبی (ص) سے تم خدا مانگو، خدا سے مصطفی (ص) مانگو
رسولِ عالمیں (ص) کی سیرتِ دلکش کے صدقے میں
وہی جودوسخا، صدق و صفا، صبر و رضا، مانگو
بہت بیمار ہیں، بے حال ہیں، شام و سحر میرے
نئے شمس و قمر مانگو، ضیاء مانگو، شفاء مانگو
ابھی اولادِ آدم پر بہت سے قرض باقی ہیں
خدا کی ہر کسی مخلوق کا، لوگو! بھلا، مانگو
مدینے کی ہواؤں سے تعارف ہو نہیں پایا
ریاض، عشقِ پیمبر (ص) کی خدا سے انتہاء، مانگو
{محترم ریاض حسین چودھری کے نئے نعتیہ مجموعہ ’’آبروئے ما‘‘ سے انتخاب}