تاریخ عالم کے جریدے میں ایسے لوگ آج تک زندہ و تابندہ ہیں جو حقیقتِ مطلقہ کا سراغ لگانے میں زندگی کو وقف کر دیتے ہیں۔ جو زندگی کو اللہ کی عطا سمجھ کر اس کی رضا و خوشنودی کیلئے بسرکرتے ہیں۔ زندگی ان سے بے وفائی نہیں کرتی بلکہ کائنات کی ہرچیز ان کے تصرف میں ہوتی ہے۔ آج دنیا سپہ سالاروں اور حکمرانوں کو بھول چکی ہے لیکن علمی، فکری اور روحانی محاذ پر داد شجاعت پانے والے فرزندان اسلام آج بھی زندہ ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ، مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو کون نہیں جانتا۔ اسلامی تاریخ پر جتنے ان بوریا نشین ائمہ کے احسانات اور اثرات ہیں کسی اور کے نہیں۔ میدان جنگ میں جہاد بالسیف کی اپنی اہمیت ہے اور فیصلہ کن تبدیلیوں کے لئے سیاسی سطح پر قیادت و سیادت کی ناگزیریت بھی اپنی جگہ مسلم ہے لیکن جنگ اور سیاست کے محاذوں پر رونما ہونے والے تغیرات کو دوام اور استقلال ہمیشہ علم و فکر کی موثر قوت سے نصیب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 12 سو سالہ تاریخ اسلام میں اگرچہ وقفوں وقفوں کے بعد سیاسی زوال آتے رہے لیکن علمی و فکری کاوشوں میں چونکہ ربط اور تسلسل قائم رہا اس لئے وہ زوال پھر عروج میں بدل جاتا رہا۔
یہ عہد ساز لوگ ارتقائے نسل انسانی کی راہیں ہی متعین نہیں کرتے بلکہ ان راہوں پر افکار و نظریات کے چراغ جلا کر ذہنوں کی تہذیب اور روحوں کی تطہیر کا فریضہ بھی نبھاتے ہیں۔ ان کے سیرت و کردار کا مطالعہ فکر و نظر کی ان گنت گرہوں کو کھولتا ہے اور غبار تشکیک میں یقین و ایمان کی چاندنی بن کر اترتا ہے۔ وقت انہی لوگوں کو اپنے عہد کی دانش سے تعبیر کرتا ہے اور یہی لوگ اپنے عہد کی پہچان ہوتے ہیں۔ ان ارباب علم و دانش کے آثار زبان و قلم، حدود وقت کی قید سے ماورا ہوتے ہیں۔ شعور و آگہی کی قندیلیں اور قرطاس و قلم کی مشعلیں ہوائے مخالف کے تھپیڑوں میں بھی روشن رہتی ہیں اور فکر و نظر کی پگڈنڈیوں پر کبھی اندھیروں کو قدم جمانے نہیں دیتیں۔
آج سے 65 سال قبل 19 فروری 1951ء کو مطلع زندگی پر طلوع ہونے والی شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا شمار بھی ایسے عظیم لوگوں میں ہوتا ہے جن پر خود زندگی ناز اور تاریخ فخر کرتی ہے۔ آپ نے بچپن سے شباب تک امت مسلمہ کو زوال و انحطاط کی دلدل سے نکالنے کے لئے علمی، فکری، روحانی اور انقلابی جدوجہد فرمائی، الجھی ہوئی نظری اور فکری گتھیوں کو سلجھایا اور زندگی کے دامن کو عزم و عمل کے موتیوں سے معمور کردیا۔ احیائے اسلام، تجدید دین، ترویج و اقامت اسلام کے مقاصد جلیلہ کے حصول کے لئے عالمگیر سطح پر 65 سالہ سفر زیست میں وہ کچھ کر دکھایا کہ عام انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ بلاشبہ ’’یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ ‘‘
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری محض ایک شخص تک محدود نہیں بلکہ آج وہ ایک عہد کی تاریخ ہیں۔ ایسی تاریخ جس کے 65 سالوں میں سوز و سازِ رومی اور پیچ و تابِ رازی بھی ہیں اور اسلاف کی علم و حکمت کے رنگ بھی ہیں۔ فیوضات ِ غوث الثقلین کی فراوانی کے مظاہر بھی قدم بہ قدم دکھائی دیتے ہیں اور سیدنا طاہر علاؤالدین کی عملی سرپرستی کے ایمان افروز مناظر بھی۔ ان 65 سالوں میں والد گرامی فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کی آہِ سحر گاہی، سیاحت‘ روحانیت اور علم و بصیرت کا عکس بھی ہے اور بزرگانِ دین کی دعاؤں کا ثمر بھی۔ اقبال کا فکر و فلسفہ بھی بہت نمایاں ہے اور قائد اعظم کی بے باک قیادت و سیادت کا رنگ بھی۔ یہ ایک ایسے بطلِ جلیل کی 65 سالہ زندگی کا سفر ہے جس نے دورِ زوال میں امتِ مسلمہ کو دعوتی‘ تنظیمی اور تحریکی نظم میں پروکر ایک زندہ و بیدار قوم کی حیثیت سے جینا سکھا دیا ہے۔ شرق و غرب میں پھیلے مسلمان ایک وحدت کی شکل میں احیائے اسلام کے اس پلیٹ فارم پر امڈتے چلے آرہے ہیں۔
گفتار و کردار میں اللہ کی برہان اور اسلام کے پیغام امن و سلامتی کے علمبردار شیخ الاسلام نے سپین، قرطبہ اور غرناطہ کے ساحلوں سے لیکر امریکہ، کینیڈ ا، آسٹریلیا اور مشرق بعید تک عشق و محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نغمات بکھیرے ہیں۔ یہ 65 سال اگرچہ ایک کامیاب و کامران اور مثالی زندگی کا سفر ہے لیکن وہ خود کو اب بھی منزلِ انقلاب کا ایسا مسافر سمجھتے ہیں جس کے سامنے ابھی عشق کے بے شمار امتحان آنے ہیں۔ حالات جتنے بھی کم کوش کیوں نہ ہوں ان کے سفر میں جوش و جذبہ، امید اور تحرک روز افزوں رہتا ہے۔ وہ اپنوں کی کوتاہ اندیشیوں اور غیروں کی سفاکیوں کو خاطر میں لائے بغیر امتِ مرحومہ کے غم میں غرق ہو کر قدم قدم پر محبت و انقلاب کے جہاں آباد کرنے میں مصروف ہیں۔
علمی و فکری کاوشیں ہر عہد میں جاری رہیں اور اجتہادی کاوشوں سے ہر مسئلے کا نہ صرف حل تلاش کیا جاتا رہا بلکہ ہر چیلنج کا بروقت تدارک بھی ہوتا رہا۔ اجتہاد اسلام کی وہ قوت محرکہ ہے جس کے بل بوتے پر اسلامی تعلیمات ہر عہد کے متغیر احوال میں انسانیت کی درست سمت میں راہنمائی کرتی رہی ہے اور قیامت تک کرتی رہے گی۔ آج بھی اسلام کی فکری و نظریاتی سرحدیں ہمہ وقت باطل کے مسلسل حملوں کی زد میں ہیں اور اس محاذ پر جہاد کے لئے مکمل استعداد کی ضرورت ہے۔ نظریاتی حملوں کا تدارک ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ اس جہاد میں تو علم و فکر سے لیس اللہ تعالیٰ کے منتخب بندے ہی کام آتے ہیں جو معروضی حالات میں ممکنہ تدابیر سے کام لے کر باطل کے سامنے بند باندھ سکیں۔ خالق کون و مکان کی حکمت لایزال کا کرشمہ ہے کہ اس نے ہر دور کی طرح آج بھی اپنے دین کی حفاظت کے لئے اپنے خاص بندوں کو متعین فرمایا ہوا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک طرف عبادات و معاملات سے لے کر عقائد و نظریات تک فرقہ پرستانہ ماحول میں معتدل، معیاری تربیت اور مثبت رہنمائی کا فریضہ نبھارہے ہیں اور دوسری طرف زوال آشنا امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے لئے مختلف جہتوں پر مصروف جہاد ہیں۔ عہد جدید میں قوت و اقتدار کے بدلتے ہوئے معیاروں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام کے سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سماجی نظامہائے زندگی کی ترتیب و تشکیل کے ساتھ ساتھ ان کی عملی افادیت کے اظہار کے لئے وہ ایک صالح اسلامی معاشرے کے قیام کی خاطر مصروف جدوجہد ہیں۔ صاف ظاہر ہے یہ کوئی آسان راستہ نہیں بلکہ یہ عزیمت کا وہ راستہ ہے جس کے لئے قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کرنا پڑتی ہے۔
آپ اسلام کو درپیش چیلنجز کو بھانپتے ہوئے پوری حکمت و بصیرت کے ساتھ حق کا چراغ لے کر نہ صرف خود آگے بڑھ رہے ہیں بلکہ ایک قافلہ عشق و انقلاب کی قیادت بھی کررہے ہیں۔ آپ نے تشکیک اضطراب کے اس دور پر فتن میں لاکھوں قلوب و اذہان کو ایمان اور یقین کی دولت لازوال سے سرفراز کیا۔ لاہور سے تاخاک یورپ و امریکہ اسلامیان عالم کو انہوں نے ایک ولولہ تازہ دیا ہے۔ مغربی تہذیب کی چکاچوند میں لت پت نوجوانوں کو سوئے حرم چلنے کی خو عطا کی ہے۔ ان کی زبان و قلم نے اسلامی نظام علم و عمل کے وہ چراغ روشن کردیئے ہیں جو آئندہ صدیوں میں بھی تاریک راستوں پر روشنی بکھیرتے رہیں گے۔