اس کرہ ارض پر اب تک کوئی انقلاب بنیادی فکر کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہوا۔ انقلاب کسی بھی قسم کا ہو سیکولر، صنعتی یا دینی، اس کی اساس بہرحال کسی گہرے تفکر پر مبنی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سے تفکر کی خصوصیت سے صرف انسان کو نوازا ہے۔ انبیاء کرام بھی مفکرینِ حق ہوتے ہوئے حقیقی انقلاب برپا کرتے رہے۔ ہر انسان اپنی قوتِ فکر اور علمی استعداد، مسلسل محنت، مطالعہ، ذہانت و فطانت اور خداداد صلاحیتوں کے مطابق اپنے حلقہ اثر میں تبدیلیاں لاتا ہے اور جس کا حلقہ اثر جتنا بڑا ہوتا ہے وہ اتنا ہی موثر کام کرکے تبدیلی کی کوشش کرتا ہے۔
ظہورِ اسلام سے پہلے بھی بہت سے فلاسفہ، دانشور، حکیم اور مفکرین پیدا ہوئے۔ فلاسفہ یونان میں یوکلڈ، فیثاغورث، افلاطون، سقراط، ارسطو، ارشمیدس اور جالینوس قابل ذکر ہیں۔ ان کے افکار نے ہزاروں برس انسانی تہذیبوں پر حکمرانی کی۔ ارسطو کے تصور سے سکندرِ اعظم فاتح عالم بنا، سقراط نے افلاطون کی تربیت کی۔ موجودہ دو تین صدیوں میں نطشے کے سپر مین کے تصور سے جرمنی زندہ ہوا۔ اسی طرح انقلابِ فرانس کی بنیاد بھی ہم عصر مفکرین بنے۔ برطانیہ کا صنعتی انقلاب بھی مفکرین نے برپا کیا۔ روس کا معاشی اور سماجی انقلاب اولاً ہیگل نے بپاکیا۔ اسی تصور کو لے کر کارل مارکس آگے بڑھا اورلینن سمیت فریڈرک سرگرمِ عمل ہوا۔ ان کے تتبع میں چین میں ماؤزے تنگ نے انقلاب برپا کر دیا۔ دنیا بھر کی سوشلسٹ تنظیمیں اسی طرح وجود میں آئیں۔
اسی طرح ہم اسلامی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں کثرت کے ساتھ انقلابی مفکرین، مجتھدین اور مصلحین کے نام ملیں گے جنہوں نے عہدِ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، خلفائے راشدین رضوان اللہ علیم اجمعین اورآ ئمہ اہل بیتِ اطہار کے طرزِ فکر کو آگے بڑھایا۔ سید الشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ دین کی حرمت پر کسی مستبد، ظالم اور منافق حکمران وقت سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے سروں کی فصل کٹوانے کی جو رسمِ وفا رقم کر گئے اسے ہر دور کے اہلِ حق نے خوب نبھایا۔
یہ اسلام کی فطرت اور قدرت کا نظام ہے کہ اسلام کی احیائی کاوشیں نظریاتی اور جغرافیائی دونوں محاذوں پر بیک وقت جاری و ساری رہیں۔ اسلامی اور غیر اسلامی تہذیبوں، قوموں اور نظریات کا تصادم ایک فطری عمل ہے۔ اس لئے ہر دور میں اسلام کا دفاع کرنے والے مسلم مفکرین نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر میدان میں آتے رہے۔
ہمارا دور اس مزاحمتی دور کا تسلسل ہے جس کا آغاز عثمانی خلافت کے زوال کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ پورے عالم اسلام میں مزاحمتی ردِعمل ایک فطری تھا۔ اس رد عمل کے دو رُخ تھے، ایک جہادی اور عسکری جبکہ دوسرا دعوتی و تربیتی اور فکری۔ یہ ایک تحقیق طلب تاریخی موضوع ہے کہ ان دونوں قسم کی کاوشوں نے عالم اسلام کو کیا فوائد اور کیا نقصانات دیئے۔ تاہم ہمارے دور فتن میں بھی ’’احیائے اسلام‘‘ کے نام پر دونوں قسم کے گروہ اپنے اپنے دائروں میں مصروفِ کار ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک فریق نے انتہاء پسندی کے ہاتھوں مجبور ہوکر دہشت گردی کا راستہ اپنالیا ہے اور پوری دنیا میں اسلام کی پرامن تعلیمات پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اس کی تازہ مثالیں طالبان، القاعدہ اور داعش ہے۔
اس کے برعکس جن لوگوں نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو اجاگر کرتے ہوئے پرامن بقائے باہمی کے راستے کو اپنایا ہے ان میں ہمارے عہد کا ایک بڑا نام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے محنتِ شاقہ، وسیع مطالعہ، فعال قوتِ متخیلہ اور درد مندانہ تدبر و تفکر سے اپنا جہان تخلیق کیا ہے جس کی بنیاد قرآنِ حکیم ہے۔ اسی لئے اس کا نام منہاج القرآن رکھا گیا ہے۔ انہوں نے ایک نہایت مثبت، قابلِ عمل، شفاف، مدلل اورامتِ محمدیہ کو حیاتِ نو دینے والا منہج استوار کیا ہے۔ اس میں تاریخ کا بے حد گہرا مطالعہ اور تفرقات کا مکمل جائزہ، فروعات و توہمات کا ازالہ اور امتِ واحدہ کی تشکیل کا راستہ بہت نمایاں ہے۔ شیخ الاسلام نے صرف روحِ قرآنی سے ہی مکمل استفادہ نہیں کیا بلکہ ذخیرہ احادیث اور رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے بھی مجتہدانہ انداز میں استنباط کیا ہے۔ تاریخِ اسلام اور تاریخ ِ عالم کے مزاج کو بھی سمجھا ہے اور غیر مسلم فلاسفہ و مفکرین کے تعمیری کاموں کا بھی گہری نظر سے جائزہ لیا ہے۔
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
انقلابِ روس اور چین کے بعددنیا بھرمیں سرگرمِ عمل سوشلسٹ تنظیموں کے اثر و نفوذ کو روکنے کے لئے یورپ میں مزاحمتی تنظیمیں پیدا ہوئیں۔ جنگِ عظیم دوم برپا ہوئی اور بعد ازاں سوشلسٹ اور سرمایہ دار ممالک و اقوام میں سرد جنگ کا ایک سلسلہ چل نکلا جو روس کے ٹوٹنے کے بعد ایک نئی شکل اختیار کرگیا۔ بعد ازاں نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر دنیا کو نئے خطرات سے دوچار کردیا گیا۔ آج اسلام مخالف قوتوں کی اسلام دشمنی آئے روز نت نئے فتنوں کو جنم دیتی رہتی ہے۔ فی زمانہ دین اسلام کی پرامن تعلیمات کو متنازعہ بناکر تخریبی رنگ میں پیش کیا جارہا ہے۔ اس لئے آج اسلام کے چہرے سے دہشت گردی کے دھبے کو صاف کرنا دین کا سب سے بڑا دفاعی کام ہے۔
ہمیں فخر ہے کہ اس پر آشوب صورتحال میں عالمی امن کے علمبردار شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے صحیح روشن اسلامی فکر کو اقوام ِعالم کے سامنے دورِ ملوکیت کی گرد سے صاف کرکے پیش کیا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ عالمِ اسلام میں جب تک فکری وحدت اور اسکی روشنی میں اجتماعی عمل کی تحریک بیدار نہیں ہوتی وہ پسماندہ، مضمحل اور بے منزل ہی رہیگا۔ عصرِ حاضر کے تقاضے اتنے خوفناک ہیں کہ اگر سنجیدگی سے ٹھوس قدم اٹھا کر جادہ پیمائی نہ کی گئی تو خاکم بدہن عالمِ اسلام کے وجود کو لاحق خطرات کا تصور بھی رونگھٹے کھڑے کردینے والا ہے۔ امت ِمسلمہ کی بقاء و ارتقاء کا یہ نازک دور ہی دراصل شیخ الاسلام کے فکرو عمل کا بڑا امتحان بھی ہے اور میدان بھی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری جدید علوم سے بہرہ ور جید عالم ِدین، ماہرِ قانون، مفسر، مقرر، مایہ ناز مصنف، قابلِ فخر معلم، کامیاب ایڈمنسٹریٹر، سیاست دان اور سب سے بڑھ کر عدیم النظیر مفکر، محقق، مجتہدانہ صلاحیتوں سے آراستہ ہمہ پہلو نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ انہوں نے عالمی سیاست اور مادرِ وطن میں کھیلے جانے والے سیاسی کھیل کا مطالعہ اور جائزہ قرآنی بصیرت اور روحانی عرفان کی بنیاد پر کیا ہے۔ انسانی تاریخ کی تقریباً تمام موثر تحریکوں سے کماحقہ استفادہ کیا ہے۔ ماضی و حال کے انسانی معاشروں پر انکی نظر گہری ہے۔ گزشتہ دو تین صدیوں کی تاریخ پر نہایت مدبرانہ نگاہ رکھتے ہیں۔ ان کے پاس دلائل و براہین اور شواہد کا بے پناہ ذخیرہ ہے اور شماریات، اقتصادیات، سیاسیات، تعلیمات اورجملہ انتظامی، آئینی اور عدالتی امور پر ایک اتھارٹی ہیں۔
شیخ الاسلام نے اپنے مشن کی آبیاری خونِ جگر سے کی ہے۔ ’’تحریکِ منہاج القرآن‘‘ کا قیام ایک بہت عظیم کارنامہ ہے جسے انہوں نے ’’نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز‘‘ کی مصداق کمال قائدانہ مہارت سے پروان چڑھایا ہے۔ یہی فکری‘ دینی اور سیاسی ہمہ جہت کارنامہ انہیں بحیثیت قائدِ انقلاب مارکس‘ لینن اور ماؤزے تنگ سے ممتاز مقام عطاکرتا ہے۔ شیخ الاسلام کی فکری، عملی، تعلیمی، ادبی، ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے اس قدر روشن واضح مدلل، ہمہ گیر فکر اور فعال و موثر قیادت یقینا خصوصی عطائے ربانی ہے۔ انہوں نے اپنی حکمت و دانائی، تدبر و تحمل، معاملہ فہمی سے بین الفرق رقابت و مخالفت کے طوفانوں کا منہ موڑ دیا اور نامساعد حالات میں انقلاب کے مشن کو کامیاب کرنے کیلئے منزل کی طرف اپنا رستہ بنایا ہے۔
جمود شکن شخصیت
دینی حلقوں میں یہ پہلی آواز ہے جس نے پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لئے حقیقت شناس قدم اٹھایا۔ دینی حلقوں کو مروجہ سیاست کے آداب سے آگاہ کیا۔ کوتاہ مسلکی اور تنگ نظر گھٹی ہوئی دینی فضا کو وسیع المشربی، وسعتِ نظر اور عملی کارکردگی سے روشناس کیا۔ منبر ومحراب کو تعصب ا ور بغض و عناد سے پاک کرکے عالمگیر دلنوازی کا سلیقہ عطا کیا۔ یہ حیرت انگیز مشاہدہ ہے کہ تمام مکاتبِ فکر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ ان کے وسیع المشرب اسلوب ِدین کی تقلید بھی کرتے ہیں۔
بعض مذہبی مسالک نے عصبیت‘ جاہلیت اور تنگ نظری کی بناء پر پاکستانی قوم کو مسلسل فسق و فجور میں مبتلا کر رکھا ہے۔ شیخ الاسلام ان نادان دوستوں کے لئے بہترین نمونہ عمل ہیں۔ انہوں نے پوری قوم کو باور کروا دیا ہے کہ کوئی بھی سلیم الطبع دینی ادارہ یا شخصیت اس انارکی کو برداشت نہیں کرتا اور اسکا انجام بغداد و غرناطہ جیسی تباہی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ یہ امر ہر ذی شعور کے لئے باعث اطمینان ہے کہ آج سے دو تین عشرے قبل ہمارے ملک میں فرقہ واریت کی جو تلخیاں موجود تھیں ان میں واضح کمی آئی ہے۔ اس خوشگوار تبدیلی کے دیگر اسباب میں سے ایک شیخ الاسلام کی عملی کاوشیں بھی ہیں۔ انہوں نے پہلے دن سے بتانِ رنگ و خون کو توڑ کر ملت کے اجتماعی وجود کی بات کی ہے۔
شیخ الاسلام کا منشور مبنی بر احکامِ قرآن اور عمل مبنی بر سیرتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ وہ بین المسالک ہم آہنگی کے ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی کے بھی زبردست موید ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کاوشیں مشرق و مغرب کے درمیان ایک متوازن پل کا کام کررہی ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے دینی، سیاسی اور معاشرتی نظریات بے حد واضح، روشن اور ہمہ گیر ہیں۔ آپ وسیع المشرب، حوصلہ مند، متقی، محب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم و اصحاب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم و آلِ محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، دشمنِ فرقہ پرستی اور نقیبِ مواخات و مساواتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ان کے پیغام میں بے حد تاثیر، دلربائی، دل نشینی اور بے پناہ قوتِ دلیل و برہان ہے۔ شیخ الاسلام نے دانشِ انقلابِ مصطفوی کے پسِ منظر میں اقوام ِعالم، اقوام ِ متحدہ، بشمول امریکہ سپر پاورز اور ترقی یافتہ اقوام کا گہری نظر سے تجزیہ کیا ہے۔ وہ 56 اسلامی ممالک کی علیحدہ دولتِ مشترکہ اور انجمن متحدہ کے بھی داعی ہیں۔ وہ عالمی مسائل میں ویٹو پاور عالمِ اسلام کو دینا چاہتے ہیں اس سے بڑا خیر خواہِ امت اور کون ہوگا۔ مذہبی جماعتوں اور شخصیات کے درمیان موجود جمود، تعصب اور تنگ نظری کی دیواروں کو گراتے ہوئے انہوں نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تاریخی کاوشیں بروئے کار لائیں تاکہ مذہبی قیادت اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے۔
شیخ الاسلام تحفظِ معاش و مساوات رزق اورمعاشرتی عدل و انصاف کی شکل میں اور سرمایہ دارانہ نظام کی خباثتوں کے انسداد کی صورت میں دینِ اسلام کا مکمل احیاء چاہتے ہیں۔ اسلام کا نظام عزت ِنفس کا محافظ اور معاشرے میں رحمت و رافت کاضامن ہے۔ ان کا فرمانا آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ
’’فرقہ واریت اور شے ہے اور مسلکی وابستگی اور شے، مسلمانوں کا مختلف ممالک اور فقہی مکاتبِ فکر سے وابستہ رہنا ہرگز فرقہ واریت نہیں اور نہ ہی مسلکی تشخصات کا برقرار رہنا فرقہ واریت ہے۔ فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے ذریعے امتِ مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا بلاشک و شبہ فساد فی الارض ہے۔ سنی، بریلوی، دیوبندی، وہابی، شیعہ اور اہلِ حدیث ہونے کی نسبتیں زمین سے پیدا ہوتی ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی نسبت آسمانی ہے اور امتِ مسلمہ کو صرف اسلام کی آسمانی نسبت پر ہی اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ تمام مکاتبِ فکر ایک ہی منبع یعنی قرآن و سنت اور اسلامی فقہ کی جزئیات ہیں۔ تمام مسالک کے پیروکار اپنے اپنے مسلک میں رہتے ہوئے دوسرے مسلک کی روایات اور عقائد کو کھلے دل سے برداشت کریں‘‘۔
کئی شاہوں سے نبرد آزما
شیخ الاسلام نے ایک بے حد وسیع اور ہمہ گیر اسلامی سوشل آرڈر کی تشریح و تعبیر پیش کی ہے جو جدید ترین دور کے تمام عوامی اور عمرانی تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے اور عالمِ اسلام بالخصوص پاکستان کو کامیاب مستقبل سے بھی ہمکنار کرسکتی ہے۔ آپ کے ہاں مسلکی تفریق کی گنجائش نہیں اور نہ ہی رنگ و نسل اور زبان و علاقے کی بنیاد پر گروہ بندیوںکا شائبہ ہوتا ہے۔ تاہم اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو مشکل ترین حالات کا سامنا ہے کیونکہ یہاں نام نہاد پروگریسو جماعتیں عوام کو غلط، گمراہ کن اور الجھے ہوئے افکار دے رہی ہیں۔ مذہبی جماعتیں پاکستان میں جدید پروگریسو تصورات سے ناآشنا اور انا اور مسالک میں گرفتار ہیں۔ وہ کوئی عوامی تحریک دینے کے قابل ہی نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی پروگریسو تصور بنایا ہے۔
انقلابات کی تاریخ میں انقلابِ ایران گذشتہ صدی کی ایک واضح مثال ہے جہاں بیک وقت مذہبی اور سیاسی رکارٹوں کا بند توڑ کر انقلاب کی داغ بیل رکھی مگر لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایران میں ایک شاہِ ایران تھا جس کے خلاف کئی نسلوں سے ایرانی قوم متحد ہورہی تھی۔ یہاں ہزاروں ’’ شاہ‘‘ ہیں جو ہر علاقے میں اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے ہر قیمت پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ قدم قدم پر وڈیرے، سرمایہ دار‘ خرقہ سالوس میں لپٹے ہوئے نام نہاد روحانی خانوادے (الا ماشاء اللہ)‘ فرقہ پرست مولوی حضرات اور سب سے بڑھ کر ظالمانہ نظام کی محافظ بیوروکریسی، یہ سب انقلاب کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
علاوہ ازیں ہمارے ہاں کئی مسالک ہیں جن کے درمیان بعد المشرقین ہے۔ پھر ہر مسلک کے اندر کئی کئی گروہ ہیں۔ اجتماعی قیادت کا تصور ہی نہیں۔ ان حالات میں شیخ الاسلام نے مصطفوی انقلاب کا نعرہ مستانہ لگایا ہے تو یہ ان کی ہمت اور کمال جرات و بہادری ہے۔ بدقسمتی کی بات دیکھئے کہ خود علمائے دین اور وہ بھی ان کے ہم مسلک مصلحت بین علماء و مشائخ ان کے آفاقی انقلابی پروگرام سے گریز پا ہیں۔ پیرانِ عظام جو نامور اسلاف اور معروف سلسلہ ہائے تصوف و طریقت کے نمائندہ ہیں ان کی اکثریت جاہ و منصب‘ مال و دولت اور قیادت و سیاست کے بڑے بڑے بتوں کی پجاری بن چکی ہے۔
شیخ الاسلام نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان میں سے ہر ایک طبقے کے دروازے پر دستک دی ہے۔ ہر معتبر عالم، دینی قائد اور روحانی خانوادے کے سجادہ نشین کو ساتھ لے کر چلنے کی متعدد بار کوشش کر چکے ہیں مگر ہر بار ان لوگوں کے اپنے ذاتی مفادات آڑے آتے رہے اور شیخ الاسلام کو حق پر سمجھتے ہوئے بھی ان لوگوں نے مصلحت پرستی سے ہی کام لیا۔
لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ شیخ الاسلام کی انقلابی کاوشوں کی بدولت عوام خود باشعور ہورہے ہیں‘ انہیں حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے‘ ملکی اور بین الاقوامی حالات کی سنگینی قوم کو ہر روز انقلاب کی منزل کے قریب کر رہی ہے‘ غفلت کی چادر تان کر سونے والے عوام وخواص نے انگڑائی لینا شروع کر دی ہے اور ہمیں امید ہے کہ
شب گریزاں ہوگی آخر جلوئہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
شیخ الاسلام نے اس ضمن میں ذہانت و تدبر‘ گہرے فکر اور وسیع النظری کو شعار بنا یا ہے۔ انکی صفوں میں ہر مسلک اور ہر معتدل فرقے کو جگہ مل سکتی ہے بشرطیکہ وہ عالمی اخوتِ اسلام اور اسلام کے حقیقی انقلابی اور معاشی نظام سے شناسا ہو۔ شیخ الاسلام حسینی عزم و استقامت کی راہ پسند کرتے ہیں۔ وہ ایسی مصالحت اور پالیسی کو پسند نہیں کرتے جسے عرفِ عام میں پاکستان کی سیاست کہا جاتا ہے۔ وہ سچائی، نظریاتی پختگی اور عملِ پیہم پر ایمان رکھتے ہیں۔
قلندرانہ عزائم
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے پاس ایک بہت بڑا نظریہ اسلام کی صحیح تفسیر و توجیہہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکمت مومن کی میراث ہے۔ آپ بنیادی طور پر ایک مفکرہیں۔ صرف مفکر ہی نہیں بلکہ آپ نے ایک عظیم ترین فکر یعنی اسلام کی صحیح تعبیر و تفسیر اور قابلِ عمل صورت بھی پیش کی ہے۔ اس ضمن میں انکا منشور قابل ِعمل اور ہر صاحبِ علم کے لئے قابلِ توجہ ہے۔ وہ 20کروڑ عوام کو عدل و انصاف اور ان کے معاشی و معاشرتی حقوق کو مکمل تقاضوں کے مطابق دینا چاہتے ہیں۔ 14 صدیوں کے دورِ ملوکیت نے اسلام کے اصل خدوخال کو چھپا دیا ہے۔ جاگیرداری، سرمایہ داری اور استحصالی نظام نے مسلمان عوام کی عقل و فکر کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ گرد کو صاف کرکے صحیح اور برحق تصویر پیش کرنا کوئی کھیل نہیں اور یہی مشکل کام اس وقت شیخ الاسلام کر رہے ہیں۔ انقلاباتِ زمانہ کا مطالعہ کیا جائے تو ان انقلابات کے بانیوں کا میدان صرف جہانبانی تھا جبکہ شیخ الاسلام کا جہاد جہاں بینی اور پھر جہانبانی ہے۔
آپ کا کام تاریخ کے دیگر قائدین انقلاب کے کام سے مشکل ہے۔ یہاں خو د اپنا فکری محاذ قائم کرنا‘ ہم فکر ساتھی تیار کرنا اور رنگا رنگ عقائد کے ساتھ نظریاتی جنگ کرنا بھی ضروری ہے۔ ہتھیاروں کی جنگ آسان ہوتی ہے، فکری اور نظریاتی جنگ پیچیدہ اور لمبی ہوتی ہے۔ پاکستان کے اس خطہ میں بد نصیبی سے صوبائی، گروہی، لسانی، مسلکی، برادری اور دیگر مناقشات بذاتِ خود ایک بڑا مرحلہ ہے جسے طے کرنا پہاڑی سلسلے کاٹ کر جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ الجھے ہوئے فکر و نظر کو سلجھانا، نیا حق پرستانہ اور شفاف نظریہ حیات متعارف کروانا‘ فروعاتی مسائل کو حل کرنا اور پھر ایک انقلابِ نو پیدا کرنا رسمِ ہفت خواں کا سفر ہے۔ بحمدللہ کہ شیخ الاسلام اس عظیم جہاد میں سرخرو رہے ہیں اور قافلہ فکر و نظر کی رہبری فرما رہے ہیں۔
ہمہ جہت شخصیت
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا مکتبہ فکر کم از کم اسلامی دنیا کو ایک پروگریسو، تعمیری اور مستقبل ساز اساس مہیا کرسکتا ہے۔ انکا فکری لائحہ عمل بڑا مربوط اورہمہ گیر ہے۔ اس میں وحدتِ اسلامیہ کا ہر پہلو شامل ہے۔ قرآنی معاشیات کا پورا سامان موجود ہے، سوشلسٹ بلاک کے اسلامی تفکر پر مبنی تمام تعمیری خیالات و لائحہ عمل بھی ان کے سامنے ہیں۔ وہ کارل مارکس‘ لینن اور ماؤزے تنگ کے متفقہ انسانیت نواز اصولوں کو برتنے کے قابل بھی بناسکتے ہیں۔ وہ بطور سائنس سوشلزم کی تمام حدود و قیود سے آگاہ ہیں اور ان کو اسلامی دانش و براھین سے تازہ تر اور پائندہ ترصورت عطا کرسکتے ہیں۔ اس معرفت اور خود آگاہی کی بدولت وہ تاریخ کے دھارے کو بدلنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ دنیا کو ایک صاف و شفاف اور پختہ تر فکر پر مبنی نظام کی ضرورت ہے اور دامن ِقرآن وا سلام میں سب کچھ موجود ہے۔
درحقیقت شیخ الاسلام نے نہایت مشکل کام میں ہاتھ ڈالاہے۔ توہم زدہ امت کو روشن راہ دکھا نا کوئی آسان کام نہیں۔ فرقہ واریت اور باہمی محبت و یکجہتی کی کمی نے عالمِ اسلام کو منتشر کر کے رکھ دیا ہے۔ تقلید و اجتہاد میں افراط و تفریط پیدا ہوچکی ہے۔ محض تقلید، خالص جمود اور انحراف تباہی ہے۔ تصوف کو بھی صاف و شفاف اور قابلِ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کے انقلابی مشن میں قائدانہ صلاحیتوں کی تربیت اور جو ش و جذبہ بھی شامل ہے۔ اتحادِ امت، وسیع دین کا وسیع تصور، معاشی استحکام، 10نکاتی انقلابی ایجنڈا، طبقاتی نفی، عادلانہ معاشی نظام‘ اسلام کا تصور ِمعیشت، فکری و نظریاتی خالصیت‘ تقویٰ وطہارت‘ فقرو استغناء، صدق و اخلاص‘ حبِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت کی محبت جیسی خوبیاں شیخ الاسلام کو عالمی اسلامی مفکرین کی صف میں اہم مقام عطا کرتی ہیں۔
عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر انقلاب کی بنیاد ہے اور آپ کی زندگی ہر ہر قدم پر اس کی زندہ مثال ہے۔ حقیقی حیات قرآن کے زندہ فکر میں مضمر ہے اور آپ کی انقلابی فکر کا مصدر بھی قرآن ہی ہے۔ جتنے بھی انقلابات زمانہ آئے انہوں نے اپنے اپنے علاقے کے لئے کام کیا مگر شیخ الاسلام نے تمام امت کیلئے احیاء و انقلاب کا بیٹرا اٹھایا ہے۔ کسی کی جنگ صرف شہنشاہ سے تھی اور کوئی صرف سرمایہ داروں سے نبرد آزما تھا مگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی جنگ ہر اسلام دشمن، استحصالی قوت اور فرقہ پرست عناصر سے ہے۔
روس اور چین کے انقلاب نے ابتداء سے کامیابی کے وقت تک ایک لمبا سیاسی سفر کیا جس میں معاشی اور سیاسی عوامل شامل تھے مگر یہ تحریک فکری، مذہبی اور انقلابی نہ تھی بعد میں اسے انقلاب کا نام دیا گیا جبکہ تحریکِ منہاج القرآن غیر مصالحانہ انقلابی جدوجہدکا نام ہے جو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکی زندگی، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے محاربات، علی شیر خدا کی جہادی کاوشیں او ر حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانی کا فکری و عملی تسلسل ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ قائدِ تحریک دہشت گردی، خون خرابے‘ غارتگری اور مسلح جنگ کا سہارا لینے کے بجائے عقلِ سلیم، دلیل و علم‘ دانش و برہان اور محبت کی زبان میں بات کر رہے ہیں۔ وہ جدید سائنسی علوم کے شناور بھی ہیں اور علم بالوحی سے بھی ان کا رشتہ مستحکم ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ہی شخص اتنے سارے علوم اور شعبہ ہائے حیات میں متخصص ہے اور ان کی بے شمار کتب دنیا کے ہر موضوع پر قابلِ فخر علمی سرمایہ ہیں۔
عالمِ اسلام میں ابھی تک کسی جاندار تحریک کے آثار نہیں ہیں۔ عالمِ عرب سویا ہوا ہے۔ عرب ممالک سمیت پاکستان، افغانستان، ملائیشیااور انڈونیشیاء اندرونی خلفشار میں مبتلاہیں۔ OIC کے سامنے کوئی واضح لائحہ عمل نہیں‘ قیادت کا فقدان ہے۔ سیاست چند طالع آزماؤں کے گھر کی لونڈی ہے۔ ہمارے ہاں نام نہاد قیادت اور قوم پر مسلط حکمرانوں نے قومی دولت پر ڈاکے ڈالے اور ایک ایسا بددیانت استبدادی نظام رائج کیا ہے کہ ملک کی سلامتی خطرے میں ہے۔ ان معروضی حالات میں ملک و قوم کو بالخصوص ایک بیدار مغز، بیدار فکر اور ہمہ وقت با عمل رہنے والی قیادت کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری تنہاموجودہ وقت کی فکر انگیز اور عمل افزاء آوازہیں۔ اگر وہ پاکستان کے مطلع سیاست پر کامیابی سے اثر انداز ہو جائیں تو حالات کو سنبھال سکتے ہیں۔ پھر یہ فکر و انقلاب عالمِ اسلام میں بھی اپنے مثبت اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ وقت ضرور لگے گا مگر اس کے علاوہ چارہ کار اور کوئی نظر نہیں آتا۔