حمد باری تعالیٰ
سب نام اچھے جتنے ہیں ذاتِ خدا کے ہیں
اوصاف سب حمیدہ اُسی کبریا کے ہیں
’’انعام پانے والوں کی دکھلادے رہ ہمیں‘‘
سکھلائے اس نے حرف یہ ہم کو دعا کے ہیں
الحمد سے والناس تک اس کا کلام ہے
اس کا کلام ہی تو ملوک الکلام ہے
باقی ہے زندہ تا ابد وہ ذاتِ لا یزال
سب کچھ فنا ہے بس اُسے حاصل دوام ہے
حی و قیوم ذات اُسی کی قدیم ہے
وہ خالقِ جہاں ہی خبیرو علیم ہے
اس کی نوازشات کا ہے سلسلہ دراز
ذات اس کی سب کریموں سے بڑھ کر کریم ہے
سرچشمہ ہدایتِ ازلی ہے اس کی ذات
ہر جادہ کی منزل ہے وہ، منزل نما ہے وہ
اس کا پتا نہ مل سکے عقل و شعور سے
ادراک کی حدوں سے وراء الوراء ہے وہ
اللہ آسمانوں زمینوں کا نور ہے
کوئی بشر نہ اس کی حقیقت کو پاسکے
وسعت کہاں آفاق کی پہنائیوں میں ہے
مومن کا دل ہی ہے کہ وہ جس میں سما سکے
{ضیاء نیر}
سلامٌ علیکَ، سلامٌ علیکَ
زرِ ناروا کے پجاری بہت ہیں
قطاروں کے اندر بھکاری بہت ہیں
درندہ نما یہ شکاری بہت ہیں
کہ جبرِ مسلسل مقدر ہے اپن
سلامٌ علیکَ، سلامٌ علیکَ
سلامٌ علیکَ، سلامٌ علیکَ
غضب، رُت بدلنے پہ آتی نہیں ہے
خزاں صحنِ گلشن سے جاتی نہیں ہے
ہوا پھول کوئی کھلاتی نہیں ہے
عمل ہر کسی کا بھی ہے بے نتیجہ
سلامٌ علیکَ، سلامٌ علیکَ
سلامٌ علیکَ، سلامٌ علیکَ
نہ اخلاق کوئی نہ کردار کوئی
نہیں گلفشاں اب چمن زار کوئی
وطن میں نہیں آج بیدار کوئی
مسلط ہے شامِ الم کا اندھیر
سلامٌ علیکَ، سلامٌ علیکَ
سلامٌ علیکَ، سلامٌ علیکَ
حضور آپ ہیں نور ارض و سما کے
حضور آپ مونس ہیں ہر بے نوا کے
حضور آپ سردار ہیں انبیاء کے
کبھی جگمگائے غلاموں کی کٹی
سلامٌ علیکَ، سلامٌ علیکَ
سلامٌ علیکَ، سلامٌ علیکَ
{ریاض حسین چودھری}