میں نے آواز جو دی ظلم نہ سہنا لوگو!
سن کے آواز کمیں گاہوں سے ظالم نکلے
فکرِ فردا کے دریچوں کو جو کھولا میں نے
فتوئ کفر لئے جاہل و ’’عالم‘‘ نکلے
کرسیوں کے لئے آپس میں جھگڑنے والے
متحد ہو کے نکل آئے مٹانے مجھ کو
جب بھی ناکام ہوئی تیز ہوا کی سازش
ظلمتیں ٹوٹ پڑیں مجھ پہ، بجھانے مجھ کو
میں شہنشاہِ مدینہ کا گدا ہوں لوگو!
کی نہ دنیا کے کسی شہ کی گدائی میں نے
میں نے چھوڑا نہ یہ پیمانِ وفا کا دامن
اور ڈھونڈا نہ کوئی ہاتھ طلائی میں نے
کتنے انبار لگائے گئے زر کے لیکن
میں نے کردار کی ناموس کا سودا نہ کیا
سر جھکایا نہ کسی جبرو ستم کے آگے
دین کے نام کو، ایمان کو رسوا نہ کیا
اس گراں بارئ ماحول کو دیکھو جس میں!
حبس ہے‘ بھوک ہے‘ پتھر ہیں‘ ستم ہیں‘ غم ہیں
خوں کے طوفان ہیں بپھرے ہوئے قریہ قریہ
خوف کے ابر ہیں‘ آلام ہیں‘ آنکھیں نم ہیں
کب تلک یونہی اندھیروں میں جیو گے آخر
سسکیاں بھرتے ہوئے جینا بھی کیا جینا ہے
قطرہ قطرہ جو پلاتا رہا تم کو اب تک
اب وہی زہر یہاں ظلم کو بھی پینا ہے
سسکیاں گوشہ تنہائی میں بھرنے والو!
یونہی چپ چاپ تو حالات نہیں بدلیں گے
صرف چہروں کے بدلنے سے نظام زر کے
یہ خطرناک تضادات نہیں بدلیں گے
بے حسی چھوڑ کے غیرت کو بنا لو رہبر
اٹھ کے حالات کے زنداں سے بغاوت کردو
ہرمحلے سے محلات کی دیواروں تک
یوں بڑھو اب کہ بپا ایک قیامت کر دو
تم ہی حالات کے فاتح ہو‘ تمہی ہو غالب
ہاں مگر شرط ہے ‘ یہ عزم نہ مرنے دینا
تم سے ٹکرا کے بکھرجائیں گے اک دن پربت
حوصلہ راہِ وفا میں نہ بکھرنے دینا
میرا اعلان ہے ظلمت کے محاسن سن لیں
رات کی کوکھ سے خورشید یہاں پھوٹے گا
جن کی دولت ہیں فقط حرص و ہوس کے سائے
ان کے مذموم مفادات کا بت ٹوٹے گا
بجلیاں کوند کے لپکیں کہ اٹھے اب آندھی
اب قدم جانبِ منزل ہی بڑھیں گے میرے
روشنی ان کا مقدر ہے‘ شبِ تار نہیں
عزم کی رہ پہ جو ہمراہ چلیں گے میرے
راستہ روک نہ پائیں گے بھنور بھی میرا
عشق کی ناؤ پہ اس پار اتر جاؤں گا
قافلہ لے کے بہاروں کا جلو میں اپنے
میں یہاں آگ کے دروں سے گزر جاؤں گا
(محمد انوار المصطفیٰ ہمدمی)