’ضربِ امن‘ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ایک تاریخی اقدام

تنویر احمد خان

انتہاء پسندی و دہشت گردی کے خلاف فکری، شعوری اور عملی محاذ پر ’ضربِ امن‘ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ایک تاریخی اقدام

اکیسویں صدی کی عالمی جنگ میں عالمی اور قومی سطح پر انتہا پسندی کو خطرناک ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ نظریات اور مفادات کے تصادم میں طاقت کے عاملین اشتعال، عدم برداشت اور انتہا پسندی کی فصل کاشت کرکے دہشت گردی کو جنم دے رہے ہیں۔ اسلام مخالف قوتیں اور اسلامی دنیا میں خارجیت کے سرپرست اپنے اپنے مقاصد کے لئے اسلام کے ماتھے پر دہشتگردی کا لیبل چسپاں کرکے اسلام کی فکری بنیاد، حقیقی ساکھ اور امت کے وجود کو برباد کردینے کے درپے ہیں۔ پوری دنیا کو اسلام اور پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے بارے میں گمراہ کیا جارہا ہے۔ خارجیت کے وحشت ناک چہرے کو اسلام کہہ کر نسل نوکو اسلام سے برگشتہ کیا جارہا ہے۔

اِس وقت پوری دنیا کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص دہشت گردی کی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کا عفریت پوری طرح چھایا ہوا ہے جس میں معصوم اور بے گناہ انسان آئے روز اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ دہشت گردی کی یہ لہر دراصل فتنہ خوارِج کا تسلسل ہے۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمت کو اِنتہائی واضح الفاظ میں اِس کی تمام تفصیلات اور جزئیات سے رُوشناس فرمایا۔ ہم سب کو مل کر اِس فتنے کے خلاف متحد اور یکجا ہوکر جد و جہد کرنا ہوگی کیونکہ اِس لعنت کا تدارُک جتنی جلد ممکن ہوسکے، ملک و ملت کے حق میں اُتنا ہی بہتر ہوگا۔ انسانی معاشرے کی سلامتی اور بقا کا اِنحصار اِنتہا پسندی اور دہشت گردی سے کلیتاً چھٹکارا پانے ہی میں مضمر ہے۔

افواج دفاعی محاذوں پر تو ان دہشت گرد خارجیوں کا مقابلہ کرسکتی ہیں مگر فکری محاذوں پر یہ جنگ لڑنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں گلیاں، محلے، شہر حتی کہ ملکوں کے ملک انتہا پسندی کی آگ کی نذر ہو کر نظریاتی اور عملی طور پر خاکستر ہوگئے ہیں۔ فکری اور نظریاتی سطح پر یہ آگ ہر لمحہ پھیلتی ہی جارہی ہے۔ آج یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ اسلام کا حقیقی فہم اور درد رکھنے والے اس سیل بے اماں کے سامنے بند باندھیں۔ آج پاکستان انتہا پسندی، دہشت گردی اور خارجیت کی اس آگ میں جھلس رہا ہے۔ عظیم پاک فوج اس خارجی انتہا پسندی سے جنم لینے والی دہشت گردی سے تو نبرد آزما ہے مگر فکری محاذوں پر افواج نہیں قومیں لڑا کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے قوم بے حسی اور غفلت کی نیند میں غرقاب ہے۔ جب قوم مجموعی طور پر غافل ہو تو وہ چند لوگ جو دل بینا رکھتے ہوں ان کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دہشت گردی و انتہاء پسندی کی فکری و نظریاتی بیخ کنی کے لئے ’’ضربِ عضب‘‘ کے ساتھ ’’ضربِ امن‘‘ کو وقت کی آواز قرار دیا ہے۔ اس ’’ضربِ امن‘‘ کو کامیاب بنانے کے لئے ہر فرد کو اپنے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین پر مسلط اس کڑے وقت میں آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپاہی کی حیثیت سے فکری محاذ پر عملی کردار ادا کرنا ہوگا اور قوم کو خواب غفلت سے جگانے کے لئے میدان عمل میں اترنا ہوگا۔

فروغ امن کی اس فکری اور عملی جدوجہد ’’ضربِ امن‘‘ کو ہم ان شاءاللہ پاکستان کے ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر قریہ پہنچائیں گے۔ ہماری یہ مہم تحریک کی دعوت کے فروغ، کارکنان کے تحرک، نظریاتی تربیت اور عوام الناس کی فکری رہنمائی میں غیر معمولی کردار ادا کرے گی۔

مقاصد

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اس منفرد اور نہایت اہمیت کی حامل ’’ضربِ امن‘‘ مہم کے درج ذیل مقاصد ہیں:

  1. قیام امن کیلئے اجتماعی کردار
  2. اسلام کے تشخص اور تعلیمات کا فروغ
  3. دہشت گردی کے خلاف عملی کردار
  4. براہ راست رابطہ عوام مہم اور فروغِ دعوت
  5. کارکنان کو دعوتی عمل میں شریک کرکے متحرک کرنا
  6. تنظیمی جمود کا خاتمہ
  7. کارکنان کی نظریاتی تربیت کا حصول
  8. عوام الناس کی فکری رہنمائی

قرار داد امن (Peace Resolution)

اِس وقت اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے فتنہ سے چھٹکارا پانے کے لیے تمام اَمن پسند قوتوں کو متحد ہوکر مربوط منصوبہ بندی کے ساتھ میدانِ عمل میں اُترنا ہوگا۔ یہ پوری دنیا کے تمام انسانوں کی مشترکہ ضرورت ہے۔ ان حالات میں جب دنیا دہشت گردی کے گرداب میں بے سمت بھٹک رہی تھی اس وقت قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایسے اقدامات کئے جن کی نظیر ماضی میں ملنا ناممکن ہے۔ آپ نے ایک طرف 2009ء میں قوم کی فکری رہنمائی کے لئے دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے خلاف تاریخی ’’فتویٰ‘‘ پوری دنیا کے سامنے پیش کیا اور دوسری طرف تشکیک اور سکوت کے ماحول میں حریت فکر کے لئے ’’امن نصاب‘‘ کا عظیم کارنامہ بھی سرانجام دیا۔ فروغِ امن اور دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خلاف فکری و نظریاتی محاذ پر حال ہی میں قائد انقلاب نے پاکستان کے ہر فرد کی فکری رہنمائی کے لئے درج ذیل ’’قرار داد امن‘‘ ترتیب دی ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ملک کے ہر مردو زن تک یہ قرار داد لے کر جائیں اور انہیں اس پیغام امن کا ہمنوا بنائیں۔

  1. اِسلام محبت اور عدمِ تشدد کا دین ہے۔ یہ تمام اَقوام اور معاشروں کو اَمن اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے اور تمام بنی نوع اِنسان کے لیے باہمی اُخوت و محبت، تعظیم و تکریم اور باہمی عدل و اِنصاف کی تلقین کرتا ہے۔
  2. اِسلام خدمتِ اِنسانیت کا دین ہے۔ اس میں تمام اِنسانیت کی محبت اور خدمت کو لازمی قرار دیتے ہوئے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِسلام کی تعلیماتِ خدمت و محبت کو خوب فروغ دیا جائے۔
  3. ہم کسی بھی عنوان سے ہونے والی اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کی صراحتاً مذمت اور مخالفت کرتے ہیں اور اسے کلیتاً مسترد کرتے ہیں۔
  4. تمام انسان برابر ہیں اور ہمیں سب کے ساتھ باہمی عزت و اِحترام، برداشت، بُردباری، عدل و اِنصاف اور رواداری کا رویہ اپنانا چاہیے کیونکہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق کسی گورے کو کالے پر یا کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔
  5. ہم ہر طرح کی نسل پرستی اور علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصب کی واشگاف الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور معاشرتی مساوات اور سماجی اِنصاف کے لیے بھرپور جد و جہد کا عہد کرتے ہیں۔
  6. اِنسدادِ دہشت گردی کے لیے حکومتِ پاکستان کی طرف سے دیے گئے قومی ایکشن پلان (NAP) کی تمام شقیں نافذ العمل کی جائیں اور فوری طور پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اِجلاس میں اِنسدادِ دہشت گردی کی قومی پالیسی تشکیل دے کر اِبہام سے پاک قانون سازی کی جائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ نیز دہشت گردی اور فتنہ خوارِج کے خاتمے تک آپریشن ’ضربِ عضب‘ کو جاری رکھا جائے۔
  7. دہشت گردوں کی حمایت میں بیان دینے اور اُنہیں کسی بھی طرح کی معاونت، تحفظ یا سہولت فراہم کرنے کو ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیتے ہوئے سخت سے سخت سزا مقرر کی جائے۔
  8. دہشت گردی کی جڑیں اِنتہا پسندی، فرقہ واریت اور تکفیریت میں چھپی ہوئی ہیں۔ مسلمانوں کے باہم کفر کے فتووں کے اِجرا پر قانوناً پابندی عائد کی جائے اور اس کے لیے کڑی سزا مقرر کی جائے۔
  9. دہشت گردی کی عدالتوں کے جج صاحبان کو دہشت گردوں کے خوف سے بے نیاز ہوکر اُسی جرات اور بے باکی سے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ جات سنانے چاہییں جس بے خوفی کا مظاہرہ وہ دیگر ملزمان کے خلاف فیصلہ جات کرتے وقت کرتے ہیں۔ سالوں یا مہینوں کی بجائے دنوں میں دہشت گردوں کو سزا دی جائے اور ان فیصلہ جات پر فوری عمل درآمد کرایا جائے۔
  10. فوجی عدالتوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو فوری طور پر ختم کیا جائے تاکہ وہ تیزی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ جات کرکے اِنسانیت کے قاتلوں کو جلد اَز جلد کیفرِ کردار تک پہنچا سکیں۔
  11. مذہبی مدارس کے نظام اور نصاب میں اِصلاحات کو یقینی بنایا جائے اور ان مدارس کے نصاب کے لیے متفقہ قومی مانیٹرنگ سیل (National Monitoring Cell) تشکیل دیا جائے جو تمام مدارس کے نصابات میں سے اِنتہا پسندانہ اَفکار کی نشان دہی کرنے اور اسے نکالنے کا ذمہ دار ہو۔ تمام مدارس اِس سیل سے اپنا نصاب review کروانے کے ذمہ دار ہوں اور منظور شدہ نصاب کے علاوہ کسی بھی دوسرے نصاب کے پڑھانے پر پابندی عائد ہو۔
  12. دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے فوری طور پر ’ضربِ عِلم‘ کا اِعلان کیا جائے اور ڈاکٹر طاہر القادری کا تیار کردہ ’فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب (Islamic Curriculum on Peace and Counter-Terrorism)‘ تعلیمی اداروں اور مدارس میں متعارف کرایا جائے۔
  13. حکومتی سطح پر ایک ایسا فورم تشکیل دیا جائے جو دینی مدارس، تنظیمات اور جماعتوں کو آنے والی بیرونی فنڈنگ کا بغور جائزہ لے۔ ان دینی مدارس، تنظیمات اور جماعتوں کو بیرونی ممالک سے مسلکی، جماعتی، تنظیمی یا اداراتی بنیادوں پر براہِ راست فنڈنگ پر پابندی عائد کی جائے۔ مغربی ممالک سے وظائف (scholarships) کی مد میں آنے والی اِمداد کی طرز پر اِسلامی ممالک سے آنے والی اِمداد کے لیے بھی قومی سطح پر ایک pool تشکیل دیا جائے جہاں سے مساوی طور پر فنڈز تقسیم ہوں۔
  14. فرقہ واریت، اِنتہا پسندی، تکفیریت اور دہشت گردی کے فروغ کا سبب بننے والے لٹریچر کی اِشاعت اور تقسیم پر کلیتاً پابندی عائد کی جائے۔
  15. جملہ مذاہب کے بانیان اور پیغمبرانِ کرام علیہم السلام کی گستاخی کو کسی طور پر آزادیِ اِظہار قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ تمام مذاہب کی تعلیمات اور جملہ عالمی قوانین کی رُو سے یہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے اِنسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
  16. غربت، معاشی ناہمواری، بے روزگاری اور ظلم و اِستحصال جیسے عناصر اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے فروغ میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے مؤثر اور فوری اِقدامات کیے جائیں اور وہاں اچھی تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں۔
  17. اِنتہا پسندانہ نظریات و اَفکار رکھنے والی تنظیموں اور جماعتوں پر مکمل پابندی لگائی جائے اور اُنہیں نام بدل کر بھی کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اِنتہا پسندی کو فروغ دینے والے لیڈرز اور شخصیات کو ban کیا جائے اور اُنہیں کسی بھی طرح کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اِس سلسلے میں خصوصی قانون سازی کی جائے اور خلاف ورزی پر دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں۔
  18. حضور رسول مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخِ اِنسانی کے سب سے بڑے پیامبرِ اَمن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اَمن کو ترجیح دی اور اسے ہی فروغ دیا اور حتی الامکان جنگ سے اِحتراز برتا کیونکہ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں رہی۔ ہم دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کے تمام سفاکانہ اِقدامات کے خاتمے اور پیغمبر اَمن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیماتِ اَمن کو عام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
  19. اِسلام میں جہاد اکبر کی تمام اَقسام پر اِنفرادی سطح پر زور دیا گیا ہے جب کہ جہاد بالقتال (lawful war) صرف ریاستی سطح پر تمام مطلوبہ شرائط کی تکمیل کے بعد ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اِنفرادی یا جماعتی سطح پر حربی کارروائیوں کی قطعی طور پر اِجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جہاد کے نام پر فساد بپا کرنے والے عناصر کو سختی سے کچلا جائے کیونکہ دین اِسلام کو بدنام کرنے والے کسی رِعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
  20. قرآن و سنت میں تمام غیر مسلموں کے ساتھ پُراَمن بقاے باہمی کی واضح تعلیمات موجود ہیں۔ لہٰذا ہم غیر مسلموں کے خلاف ہر طرح کے ظلم و زیادتی کی پُرزور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت تمام اَقلیتوں کے تحفظ کے لیے مؤثر نظام وضع کرے تاکہ کمزور طبقات کے معاشی، سیاسی، سماجی اور قانونی اِستحصال کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔
  21. ہم دنیا کی تمام حکومتوں سے بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ نفرت، تشدد، مذہبی عدم رواداری اور قومیت پرستی کے خلاف اپنی اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کریں۔
  22. نیز یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ہر طرح کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ہر سطح پر سرپرستی کا کلیتاً خاتمہ کیا جائے۔
  23. عالمی قوانین اور رویوں میں امتیازات ختم کرکے مساوات کو رائج کیا جائے۔
  24. ہم اِس قراردادِ اَمن کی تمام شقوں کے فوری نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں اور ان پر سختی سے کاربند رہنے کا عہد کرتے ہیں اور اَمن و محبت کے اِس عالم گیر مشن کا حصہ بننے کا اِعلان کرتے ہیں۔

دستخطی مہم (Signature Compaign)

ہمیں درج بالا ’’قرار داد امن‘‘ کو ملک کے ہر گھر، ہر ادارے، ہر دکان، ہر کالج اور ہر دروازے تک لے کر جانا ہے۔ ہر فرد کے سامنے قرار داد امن کے تمام نکات واضح کئے جائیں گے۔ مکمل فکری ہم آہنگی پیدا کرنے کے بعد ہر فرد سے Signature Book پر قرار داد کی حمایت میں دستخط لئے جائیں گے۔

’’ضربِ امن‘‘ کا اعلان شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عالمی میلاد کانفرنس دسمبر2015ء میں کرچکے ہیں۔ ملکی سطح پر اس کا باقاعدہ آغاز فروری2016ء سے بھرپور انداز سے کردیا گیا ہے۔

کارگرِ امن (Peace Worker)

’’ضربِ امن‘‘ مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے جو افراد اس کا حصہ بنیں گے وہ ’’پیس ورکر‘‘ کہلائیں گے۔ ان کی ذمہ داریاں حسب ذیل ہوں گی:

  1. پیس ورکر وہ بنیادی سپاہی ہے جو یہ ساری فکری جنگ لڑے گا۔ ہر ضلعی/ تحصیلی/ علاقائی/ ادارہ جاتی تنظیم اپنے تمام متحرک، پر اعتماد اور پختہ کارکنان کو پیس ایمبیسیڈرز کے طور پر رجسٹرڈ کرکے اس مہم پر عملدرآمد کے لئے دی گئی ہدایات کے مطابق ان سے نتائج لینے کی ذمہ دار ہوگی۔
  2. ایک پیس ورکر1000 افراد سے دستخط لینے کا پابند ہوگا۔
  3. ایک پیس ورکر اپنے ساتھ 2 مزید رضا کاران کا تقرر کرنے کا پابند ہوگا۔ ان رضاکاران کو Peace Voulenteers کہا جائے گا۔
  4. تنہا ایک شخص کی بجائے یہ 3 رکنی Peace Team مل کر لوگوں کے پاس جائے گی۔
  5. نصف ہدف کے حصول کے بعد بنیادی ’’پیس ورکر‘‘ اپنے ساتھ کام کرنے والے دونوں Peace Voulenteers کو پیس ورکرز کی سطح پر Promote دے گا۔
  6. تمام 2 نئے پیس ورکرز اپنے ساتھ دو دو Peace Voulenteers مقرر کرکے کام کرنا شروع کردیں گے۔ بنیادی Peace Worker نئے بننے والے دونوں پیس ورکرز کی ٹیمیں بنوانے، ان کے Follow up اور نتائج کے حصول کا ذمہ دار ہوگا۔

دعوتی مرحلہ

ضرب امن مہم میں درج ذیل طریق کے مطابق دعوتی اور تشہیری مرحلہ کو آگے بڑھایا جائے گا:

  1. جب Peace Team قرارداد امن پر دستخط کے لئے عوام کے پاس جائے گی تو تین طرح کے طبقات سے واسطہ پڑے گا۔ مخالف، نیوٹرل، موافق۔
  • مخالفین سے کسی بھی مباحثے سے اجتناب کرتے ہوئے پیغام دے کر آگے بڑھ جائیں گے۔
  • نیوٹرل اور موافق افراد کے سامنے قرار داد کے پیغام کو اچھے انداز سے پیش کرکے Signature Book پر دستخط لئے جائیں گے۔
  • نیوٹرل افراد پر محنت کرکے انہیں موافق بنانے کی کوشش کی جائے گی اور ایسے افراد جن کے جھکاؤ کے مثبت امکانات نظر آئیں گے، انہیں دستخطی کتاب پر Priority Mark کرلیا جائے گا۔
  1. بعد ازاں موافق افراد کو زیادہ سے زیادہ توجہ دے کر رفیق بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
  2. دستخطی مہم کی تکمیل کے بعد Signature Book سے تمام ایسے نیوٹرل افراد جنہیں Mark کیا گیا ہوگا اور تمام موافق افراد کی علیحدہ فہرستیں بنا کر انہی ٹیموں کے ذریعے انہیں تحریک میں باقاعدہ شمولیت تک زیر رابطہ رکھا جائے گا اورتمام موافق افراد کو تحریک کا رفیق بنانے کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔
  3. Peace Team تربیتی کتابچہ کا Study Circle کرنے کی پابند ہوگی۔
  4. ہر شہر میں مقامی سطح پر مختلف ایام میں اس مہم کی میڈیا لانچنگ کی تقاریب منعقد ہوں گی۔
  5. جس علاقے میں دستخطی مہم شروع کی جائے گی اس سے قبل وہاں مرکز کی طرف سے اس مہم کی تشہیر کے لئے تیار کردہ پوسٹرز چسپاں کئے جائیں گے۔
  6. علاوہ ازیں تنظیمات مقامی سطح پر تشہیر کے ہر ممکن ذرائع اختیار کرنے کی پابند ہوں گی۔
  7. سوشل میڈیا پر ضرب امن مہم کو بھرپور انداز سے پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ’’قرار دادِ امن‘‘ پر Electronic Signature کی مہم بھی ساتھ ہی شروع کردی جائے گی۔ اس کے علاوہ قرار داد امن کے مندرجات اور مختلف شقوں کو سوشل میڈیا پر علیحدہ سے بھی لانچ کیا جائے گا۔