اس وقت مجھے اُس شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا ہے جس کی برقپاش درخشانی سے حکمرانوں کے ایوان لرزاں براندام ہے۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری کے فسوں سازبت کانپ رہے ہیں۔ طلسم کا ریء جمہوریت کے پیکران سمین بدن، اخگرزیر پا اور آتش در پیر ہن بن چکے ہیں۔ بدعقیدہ موسموں کے رکھوالے ٹوٹے ہوئے خشک پتوں کی طرح پاؤں پاؤںچیخ رہے ہیں۔ یہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری ہیں جن کی راتیں چالیس سال سے بنامِ رکوع و سجود ہیں اور دن چارہ سازبیکساں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقشِ کف پاکی توصیف کے سنہری حروف آسماں کی بیکراں چھاتی پرثبت کرنے میں گزر رہے ہیں۔ اسی مدح رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے اللہ تعالی نے انہیں پیغمبرانہ فیضان سے سرفراز فرمایا ہے۔ انہیں مبداء فیاض نے انابتِ آدم علیہ السلام سے بھی حصہ دیا ہے اور سفارتِ نوح سے بھی۔ برکت ِسلامتی قلب خلیل سے بھی نوازا ہے اور ایثار اسماعیل سے بھی۔ صحبتِ طہارت ِ فکر لوط علیہ السلام بھی بخشی ہے اور صبر ایوب علیہ السلام بھی۔ جوئے انکسارِ یونس علیہ السلام سے بھی آشنا کیا ہے اور استقامتِ صالح سے بھی۔ گرمئ ثبات ہود علیہ السلام بھی عطا کی ہے اور اوصافِ تربیت شعیب علیہ السلام بھی۔ جلال ضربِ کلیم علیہ السلام بھی دیا ہے اور جمال حلمِ ہارون علیہ السلام بھی۔ کمال علم ِ ذکریا علیہ السلام بھی یہاں موجودہے اورصدقِ فراست یحییٰ بھی۔ یہ معجزنما شخصیت فیوضِ رافت و رحمت ِعیسیٰ کی بھی حامل ہے۔ فرمانِ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی مثل ہونگے۔
مجھے قسم ہے مدنیہ کی کھجوروں میں اترتی ہوئی زرتار شعاعوں کی کہ یہی چاندشمعِ بزمِ
ہدایت کے نور سے نہلایا گیا ہے
یہی چاند۔۔۔
مجھے قسم ہے لبِ فُرات گرتے ہوئے خونِ خانوادہ ِ رسول کی کہ یہی چراغ رسمِ شبیری
دھرانے کیلئے چُن لیا گیا ہے
یہی چراغ۔۔۔
مجھے قسم ہے کنارِ آب دجلہ پایہء تختِ تاجدار اولیاء کی کہ یہی سفینہ ولایت کے سمندروں
میں منزلوں کا ہمرکاب ہے
یہی سفینہ۔۔۔
مجھے قسم ہے اُس فقیرِ عجم کی جو فقہ کا سب سے بڑا بادشاہ ہے کہ یہی آسمانِ علم
و قلم کا درخشندہ ستارہ ہے
یہی ستارہ۔۔۔
اسے مجذوب کی بڑ جانیے یا ایک شاعر کا خیال مگرلوحِ وقت پر میرا قلم یہی لکھ رہاہے کہ
چادرِ فاطمہ تجھ پہ سایہ فگن
مہرباں تجھ پہ دونوں حسین وحسن
تجھ میں اندازِ مولا علی موجزن
دانشِ دل نشیں طاہر القادری
قادری جیسا اسمِ گرامی تجھے
شیخ الاسلام کی نیک نامی تجھے
غوث اعظم کی بخشے غلامی تجھے
تجھ سے تجدیدِ دیں طاہرالقادری
تُو سحر کا امیں طاہرالقادری
آفریں آفریں طاہر القادری
تیرے سر پہ امامت کی دستار ہے
ہاتھ میں ہے قلم یعنی تلوار ہے
تیرے لہجے میں خالد کی للکار ہے
طبلِ علم القیں طاہر القادری
تجھ سے تاریخ ِانساں درخشاں ہوئی
تیرے فکر و عمل سے نمایاں ہوئی
تیری روشن نظر سے فروزاں ہوئی
دیس کی سرزمین طاہرالقادری
تُو سحر کا امیں طاہرالقادری
آفریں آفریں طاہر القادری
تُو نے بدلی ہے قسمت مری قوم کی
تجھ سے دنیا میں عزت مری قوم کی
تُو سراپا حمیت مری قوم کی
تجھ سا کوئی نہیں طاہر القادری
تجھ سے مظلوم کو حق کی طاقت ملی
تجھ سے لاکھوں کروڑوں کوعزت ملی
تجھ سے راتوں کو صبحِ ہدایت ملی
دکھ جہاں تُو وہیں طاہرالقادری
تُو سحر کا امیں طاہرالقادری
آفریں آفریں طاہر القادری