نشیب و فراز ہر قوم میں آتے ہیں لیکن زندہ اور بیدار قومیں ان سے سبق سیکھتی ہیں اور آئندہ کے لئے منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس وقت جو بے شمار مسائل ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک حساس اور خطرناک ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں حل کرنے کی مخلصانہ اور حکیمانہ کاوش نہیں کی گئی۔ اس کا بڑا سبب یہ رہا کہ لاکھوں قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آنے والے اس نو زائدہ ملک کو بانی قیادت کے زیر سایہ پنپنے کا زیادہ موقع نہیں مل سکا۔ قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ بصیرت، ذہانت اور محنت و عزم کی بدولت طوفانوں سے اس کشتیِ ملت کو نکالنے میں کامیاب رہے مگر ان کے بعد اس ملک کے نگہبان (الا ماشاء اللہ) بالعموم اسے نوچنے اور لوٹنے میں جُت گئے۔ سول اور ملٹری افسر شاہی نے شہیدوں کی امانت اس نظریاتی اسلامی مملکت کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر استعمال کیا بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پاکستان کے وسائل اور قومی سرمائے کو افسر شاہی نے مال غنیمت کے طور پر اڑایا۔ سکندر مرزا سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک درجنوں نام ہیں جن میں صدور مملکت، وزرائے اعظم، فوجی سپہ سالاروں، عدالت عالیہ کے ججوں، وفاقی سیکرٹریوں اور وفاقی و صوبائی وزیروں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ سب ہی اس حمام میں ننگے ہیں۔ دنیا میں بیسیوں مثالیں ایسی موجود ہیں جہاں قومیں بیمار اور زوال پذیر تھیں، ان کی قومی قیادت نے ہمت و جرات کی تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ ترقی کے زینے چڑھتی چلی گئیں۔ آپ چین، سنگا پور، کوریا اور یورپی ممالک کی تاریخ میں یہ شواہد بکثرت دیکھ سکتے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں بھارت سمیت ملائشیا اور ایران کو ہی دیکھ لیں جہاں قومی ادارے دن بہ دن مضبوط ہو رہے ہیں۔ جمہوریت مستحکم ہو چکی ہے۔ قوم کا اعتماد بڑھ رہا ہے اور بے شمار مقامی مسائل کی موجودگی میں بھی یہ ممالک شاندار ترقی کی دوڑ میں اقوام عالم کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
قومی تعمیر اور حب الوطنی کے جذبات اپنی جگہ اہم سہی لیکن عوام الناس کی اکثریت روز مرہ کے مسائل اور ذہنی پریشانیوں میں بری طرح گھر چکے ہیں۔ ہماری قیادت نے بطور قوم زندہ رہنے کے تقاضوں کو یا تو سمجھا نہیں یا پھر شعوری کوشش کے ساتھ ان کو نظر انداز کیا ہے۔ ساٹھ سال کے بعد صوبائیت، لسانیت اور قومیت کے بت کھڑے کر کے ان کی پوجا ہو رہی ہے۔ رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی شناخت کہاں نہیں؟ دنیا کے ہر خطے میں یہ طبقات اور اختلافات ایک حد تک موجود ہیں مگر ایسا کہیں نہیں دیکھا گیا کہ ایک زبان بولنے یا مخصوص ثقافتی پہچان رکھنے والے گروہ الگ سیاسی پارٹی بنا کر پورے ملک کو یرغمال بنانے کی کوشش کریں۔ ذاتی یا گروہی شناخت کو اس قدر اہمیت دی جائے کہ وہ ملک سے علیحدگی کی تحریک بن جائے۔ کسی کا ذاتی عقیدہ اور نقطہ نظر اس قدر ناگزیر ہو جائے کہ اس سے اصولی اختلافات رکھنے والوں کے گلے کاٹ کاٹ کر انہیں سرِ عام چوراہوں پر لٹکا دیا جائے، یہ سب کچھ تعجب انگیز ہے لیکن کس قدر ہے کہ یہ سب اس اکیسویں صدی میں ہمارے ہاں ’’وافر مقدار‘‘ میں موجود ہے۔ حالانکہ ہم سب لوگ جس بڑی اور مضبوط شناخت میں پروئے ہوئے ہیں وہ ہمارا دین اسلام ہے۔ وہ دین، جس میں ایک خدا، ایک رسول ایک قرآن اور ایک کعبہ ہے۔ یہ چاراکائیاں اہم مراکز محبت اور اعتقادی وحدت کے طور پر کسی بھی قوم کے جسد ملی کو متحد رکھنے کے لئے کافی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے مخالفین ان جیسی مضبوط اکائیوں میں کوئی ایک بھی نہیں رکھتے۔ لیکن وہ قومی جذبے کے تحت اجتماعیت سے جڑے ہوئے ہیں اور اسی میں ان کی عزت اور وقار ہے۔ ایک ہم پاکستانی ہیں اندرون ملک ہوں تو بھی اور اگر بیرون ملک ہوں تو بھی ان مقدس دینی، روحانی اور ملی وحدتوں کی چادر اوڑھنے کی بجائے صوبائی ضلعی اور نسلی قسم کی شناختیں ہمیں زیادہ عزیز ہیں۔ جب ہم ایک دوسرے کے لئے خود محترم نہیں توہمارا ملک اور قوم دوسرے ممالک اور اقوام کے لئے کیوں قابل احترام ہوں گے؟
پاکستان کو قدرت نے ہر نعمت سے سرفراز کر رکھا ہے۔ افرادی قوت سے لے کر معدنی دولت تک۔ شاداب فصلوں سے لے کر گھنے خوبصورت جنگلات تک، نہروں دریاؤں اور چشموں سے لے کر خوبصورت موسموں تک کراچی اور گوادر کے ساحلی سمندری مقامات سے لے کر گلگت، بلتستان اور کارگل کی فلک بوس رفعتوں تک ترقی یافتہ ملک اور مثالی معاشرہ قائم کرنے کی تمام بنیادی ضرورتیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ قوم کے اندر تعمیری جذبات کی کمی بھی نہیں۔ شعور اور احساس بھی موجود ہے لیکن اس مظلوم عوام نے قائدین اور حکومتی افسر شاہی سے لگاتار محرومیاں سمیٹی ہیں۔ ایک طبقہ وسائل پر قابض چلا آ رہا ہے۔ وسائل کی مساوی تقسیم نہیں ہو سکی۔ قومی تعمیر کے لئے فوج کے علاوہ قومی ادارے موجود نہیں۔ ان محرومیوں کا بت تراش کر وفاق پاکستان کو توڑنے والے ہاتھ بھی متحرک ہو چکے ہیں۔
پریشانی ضرور ہے لیکن مایوسی کی گنجائش نہیں کیونکہ تحریک پاکستان کے وقت اس سے زیادہ مسائل تھے۔ بس امید کے چراغ روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی جنوں، فرقہ پرستی اور منافرت (جس کی ایک شکل پاکستانی طالبان اختیار کر چکے ہیں) اس ملک کے لئے سب سے زیادہ خطرناک چیز ہے۔ ملک دشمن قوتیں اسی چیز کو ہوا دے رہے ہیں۔ اسی لئے مالا کنڈ، سوات اور وزیرستان وغیرہ میں فوجی آپریشن ہو رہا ہے لیکن اس آپریشن کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچانا اور بے گھر لوگوں کو آباد کرنا بہت ضروری ہے ورنہ بے گھری ایک اور بغاوت کو جنم دے گی۔ بلوچستان ہمارا بڑا صوبہ ہے۔ معدنی وسائل سے مالا مال ہے لیکن وہاں کے محروم المعیشت طبقات کے مسائل حل کئے بغیر انہیں کس منہ سے حب الوطنی کی تلقین کی جا سکتی ہے۔ موجودہ حکومت سابق ڈکٹیٹر کی امریکہ نواز پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کی موجودہ قیادت بھی عوامی تائید اور حمایت سے محروم ہے۔ عوام مسائل میں پس رہے ہیں اور وزیروں مشیروں کا لشکر کرپشن میں لگا ہوا ہے۔ ملک قرضوں پر چل رہا ہے اور ملک کا سرمایہ بیرون ملک بینکوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ ہمارے سب مسائل کی جڑ دیانتدار، غیور اور مخلص قیادت کا فقدان ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کوچۂ عشق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہماری دینی، سیاسی اور عسکری قیادت کو دشمنان دین وطن کی سازشوں کے مقابلے میں اتحاد اور دانشمندی کی نعمت سے نوازے۔