مرتب : محمد یوسف منہاجین، معاون : اظہر الطاف عباسی
اسلام کی حقیقی و آفاقی تعلیمات سے نابلد احباب اپنے قول و کردار سے جہاں اپنے آپ کو دنیا سے الگ تھلگ کر لیتے ہیں وہاں اپنے مخصوص خیالات و تصورات کو ہی اصل اسلام قرار دے کر دینِ اسلام پر اعتراضات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کروانے کا موجب بھی بنتے ہیں۔ موجودہ ملکی صورت حال میں بھی ایک مخصوص طبقہ ’’اپنے اسلام‘‘ کے نظریات و افکار کو ہی حقیقی تعلیمات قرار دے کر طاقت کے بل بوتے پر اسے نافذ کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ اس طبقہ کی تنگ نظری، عالمی حالات و واقعات اور جدید علوم سے بے خبری نے اسلام کی روشن تعلیمات پر اقوام عالم کی نظر میں ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ نیز اس طبقہ کے اعمال و افکار نے اسلام کو انتہا پسند، قدامت پرست اور دہشت گرد قرار دلوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ علاوہ ازیں غیر مسلموں اور عورتوں کے حقوق کی پامالی کے ساتھ ساتھ مختلف طبقات پر بے جا پابندیاں لگا کر ان لوگوں نے اسلام کے جمہوری اور شورائی سیاسی نظام کو بھی اقوام عالم کی نظروں میں ناقابل عمل قرار دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے دو خطابات میں اسلامی سیاسی نظام، جمہوری معاشرے کا قیام اور وسعت ظرف اور نظام جمہوریت اور مشاورت کے اصول کے حوالے سے علمی گفتگو فرمائی۔ شیخ الاسلام کے یہ خطابات اسلام کے سیاسی نظام اور اسلامی وسعت نظر کو نمایاں کرنے اور اسلام پر وارد ہونے والے اعتراضات کا سدِّ باب کرنے کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ ’’جمہوریت اور وسعت ظرفی، اسلامی معاشرے کی اہم خصوصیات‘‘ کے عنوان سے ہونے والا خطاب گذشتہ ماہ شائع ہو چکا۔ موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کے لئے اسی سلسلے کا یہ خصوصی خطاب بھی نذرِ قارئین ہے۔
قرآن حکیم میں بے شمار مقامات پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف مراتب و فضائل کا تذکرہ ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان گنت شانوں میں سے ایک شان آپ کی مطاعِ مطلق حیثیت بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَO فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَنِعْمَةً وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
’’ اور جان لو کہ تم میں رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں، اگر وہ بہت سے کاموں میں تمہارا کہنا مان لیں تو تم بڑی مشکل میں پڑ جاؤ گے لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت عطا فرمائی اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ فرما دیا اور کفر اور نافرمانی اور گناہ سے تمہیں متنفر کر دیا، ایسے ہی لوگ دین کی راہ پر ثابت اور گامزن ہیںo (یہ) اﷲ کے فضل اور (اس کی) نعمت (یعنی تم میں رسولِ اُمّی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور موجودگی) کے باعث ہے، اور اﷲ خوب جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہےo‘‘۔ (الحجرات : 7۔ 8)
سورۃ حجرات میں بیان کئے گئے مضامین ہماری روز مرہ کی سیاسی، سماجی معاشرتی، اخلاقی، تہذیبی، ثقافتی، مذہبی اور روحانی زندگی میں کیا عمل دخل اور اثر رکھتے ہیں اور ہمیں اجتماعی اور انفرادی زندگی کے مختلف گوشوں میں سورۃ حجرات کی اس آیت کے مضامین سے عملاً کیا رہنمائی اور سبق ملتا ہے، ان سے روشناس ہونا از حد ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں اس آیت کریمہ پر ہونے والی سابقہ گفتگو ’’جمہوریت اور وسعت ظرفی‘‘ میں یہ واضح کیا تھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طرح جمہوری معاشرہ تشکیل فرمایا۔ یہ بات اس Relevance کے تحت اہم ہے کہ جس معاشرہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت صرف ایک پولیٹیکل لیڈر، ایک سوشل Reformer، ایک اسلامی تحریک کے قائد، یا صرف Head of the state (سربراہ حکومت) کی ہی نہیں بلکہ آپ کی سب سے اولین پوزیشن اور حیثیت پیغمبر اسلام کی ہے کہ آپ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں۔ پس وہ مقام اور منصب جو نبوت و رسالت کو ایمان اور اسلام کے دائرہ میں حاصل ہے اس کے ہوتے ہوئے معاشرے کو جمہوری بنانا اور نظام کو جمہوری طریقے سے چلانا، بظاہر دو قدرے مختلف باتیں ہیں اور ان کی سمتیں ایک دوسرے سے دور جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دو مختلف سمتوں میں جانے والے دھاروں کو اپنی تعلیم و تربیت، نظام معاشرت اور عقیدہ نبوت و رسالت کی تابعیت کے دائرے میں کس طرح یکجا اور اکٹھا کیا۔
ارشاد فرمایا : دیکھ لو تم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں، جو ہستی جمہوری معاشرہ اور جمہوری نظام تشکیل دے رہی ہے۔ جان لو وہ کوئی عام ہستی، عام قائد یا عام راہبر و راہنما نہیں بلکہ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے اور پھر یہ بھی فرما دیا کہ اگر وہ بحث و مباحثہ اور مشاورت کے دوران تمہاری تجاویز، مشوروں اور باتوں کو اکثر و بیشتر مان لیں تو لَعَنِتُّمْ تم مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔ اگر وہ اپنی بات کی بجائے تمہاری بات مان لیں اور اس پر عمل کرلیں تو تمہارے لئے مشکل پیدا ہوجائے گی۔ عقیدہ رسالت کی تابعیت اور نظام جمہوریت و مشاورت دونوں کے باہم آپس میں ملنے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک نظام کی شکل بنی۔ سورہ حجرات کی ان آیات میں بیان کردہ اس فلاسفی کو سمجھنا مقصود ہے، نیز اس امر کا بھی جائزہ لینا ہے کہ اس سے ہمیں کیا تعلیم ملتی ہے؟
مقامِ رسالت اور مشاورت سے عدمِ احتیاج
یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہمم سے یا اپنی امت سے مشاورت کے محتاج نہیں تھے یعنی مشاورت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم جب روزمرہ امور میں مشاورت کرتے ہیں تو ہماری ضرورت و احتیاج ہوتی ہے۔ ہم میں سے جب کوئی لیڈر اپنی ٹیم، مجلس شوریٰ یا ایگزیکٹو کونسل سے مشاورت کرتا ہے تو وہ اس کی ضرورت اور حاجت ہوتی ہے مگر جب اللہ کا پیغمبر اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام اور امت سے مشاورت کرتے تھے، تو یہ مشاورت ان کی ضرورت اور حاجت نہ تھی۔ یہ عقیدہ اذہان میں بالکل واضح ہونی چاہئے، یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ شاید وہ مشاورت نہ کرتے تو معاذ اللہ غلط فیصلے کر بیٹھتے یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشاورت اس لئے کرتے تھے کہ ساروں کی باتوں کو سن کر سمجھ کر کسی کے اچھے فیصلے پر پہنچ جائیں، نہیں، یہ بات نہیں ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مطاعِ مطلق ہیں
اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطاعِ مطلق بنایا اور جو ہستی ایک صحیح فیصلے کرنے میں اپنی امت اور اپنے ساتھیوں کے فیصلے کی محتاج ہو وہ مطاعِ مطلق نہیں ہو سکتی۔ مطاعِ مطلق اسے کہتے ہیں جس کی اطاعت بغیر کسی شرط کے واجب ہو۔ ۔ ۔ جس کی اطاعت کسی Qualification کے بغیر واجب ہو۔ ۔ ۔ یعنی وہ جو فرما دیں وہ واجب الاطاعت ہو۔ ۔ ۔ اور جو کر دیں وہ واجب الاطاعت ہو۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام یہ ہے کہ آپ مطاعِ مطلق ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقام و منصب اور حیثیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰه.
’’ہم رسول بھیجتے ہی اس لئے ہیں کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘۔ (النسآء : 64)
پھر اس سے بھی بڑھ کر وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰه
’’جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرلی اس نے اللہ کی اطاعت کرلی‘‘۔ (النسآء : 110)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اللہ نے اپنی اطاعت قرار دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر کو اللہ نے اپنا امر قرار دیا۔ جس ہستی کا مقام اس حد تک Unchallengeable, Unconditional Unqualified، Submission اور فرمانبرداری Obedience کا درجہ رکھتا ہو۔ ۔ ۔ مطلقاً واجب الاطاعت ہو۔ ۔ ۔ وہ ہستی اپنا فیصلہ کرنے میں اپنے ساتھیوں، اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہمم اور اپنے لوگوں کی محتاج نہیں ہو سکتی۔
عدمِ احتیاج کے باوجود نظامِ مشاورت کا قیام
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام کے حامل ہونے کی وجہ سے مشاوت کے محتاج نہیں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر نظام مشاورت اور نظام جمہوریت کیوں قائم فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہمم کو معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر حکم، وحی الہٰی ہے۔ خواہ وہ وحی جلی کی صورت میں ہو تو اسے قرآن کہہ دیں یا وہ وحی خفی ہو، قلبی و روحانی رہنمائی کی صورت ہو تو وہ حدیث و سنت کہلائے گی مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر حکم اور ہر عمل ایک Divine sanction کی حیثیت رکھتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر حکم و عمل کی حیثیت Devine کی ہے، فائنل ہے اور امر الہٰی کے درجے میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم، حکم الہٰی ہے۔ پس ایسی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف لوگوں کو Communicate کر دیتے پیغام پہنچا دیتے، جو ماجرہ پیش آتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیتے ایسے کرو۔ ۔ ۔ جنگ کا کوئی معاملہ آتا، حکم دے دیتے یہ کرو۔ ۔ ۔ کوئی مہم آتی تو حکم فرما دیتے کہ ایسے کرو یا اس طرف جاؤ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر حکم فرما سکتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر موقع پر لوگوں سے مشاورت کی۔ حاجت اور ضرورت نہ ہونے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنی ہمہ جہت مشاورت اور ہمہ جہت جمہوری نظام کو کیوں قائم فرمایا؟
نظامِ مشاورت اور قیادت کی تیاری
امت کی تربیت اور لیڈر شپ Development کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نظام جمہوریت و مشاورت عطا فرمایا۔ جس کو مجلس شوریٰ میں بٹھاتے اور مشورے کرتے تھے یہ بات نہیں تھی کہ ان کی عقل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برابر ہوگئی تھی۔ ۔ ۔ معاذ اللہ نہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھتے اور نہ یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہمم سمجھتے تھے اگر کوئی یہ سمجھتا تو کافر ہو جاتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہمم کو یہ پتہ تھا کہ مشورہ لینے کی محتاجی نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو لیں تو مشورہ لینا ہماری محتاجی ہے، ہم جب مشورہ کرتے ہیں تو ہماری ضرورت ہے، ایماندارانہ ضرورت ہے مگر جب اللہ کا پیغمبر مشورہ کرتا ہے تو بغیر ضرورت و حاجت کے کرتا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشورہ کرنے کا مقصود لیڈر شپ Development تھا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن سے مختلف امور میں مشورہ کریں گے تو گویا وہ معاملہ پر فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہوں گے اور اُن کا کسی فیصلہ سازی میں شریک ہونا اُن کی صلاحیتوں کو نکھارتا اور عملی تربیت فراہم کرتا ہے۔ پس مشاورت اور جمہوریت کا پہلا مقصد لیڈر شپ Development ہے۔
لیڈر شپ ڈویلپمنٹ کا ایک Process ہے کہ جب آپ انہیں معاملات کے فیصلے میں Involve کریں گے، براہ راست ان سے Discuss کریں گے، ان کی رائے لیں گے اور رائے دیں گے تو گویا وہ فیصلہ کرنے کے امر میں شریک ہوں گے۔ نتیجتاً اس دوران کوتاہیاں بھی کریں گے۔ ۔ ۔ درست فیصلے بھی کریں گے۔ ۔ ۔ مگر اس Process میں عملی شامل ہوکر وہ آہستہ آہستہ اچھے فیصلے کرنے کے قابل ہوتے چلے جائیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم تھا کہ ایک Stage آئے گی کہ جب میں ان میں ظاہراً موجود نہیں ہوں گا اور سارے فیصلے انہی کو کرنے ہوں گے۔ لہذا انہیں اس مقام تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ میں انہیں فیصلے کرنے کے عمل میں شریک کروں اور یہ دیکھیں کہ ایک معاملہ کو کس کس جہت سے دیکھا جاتا ہے۔ ۔ ۔ کس کس گوشے پر غور کیا جاتا ہے۔ ۔ ۔ اور کن کن پہلوؤں پر سوچ و بچار کی جاتی ہے۔ ۔ ۔ اس سے ان کی بصیرت میں اضافہ ہوگا۔
رب کائنات کا یہ فرمان وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِيْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰه دراصل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کو بچانے کے لئے ہے۔ جب مشاورت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو بلائیں اور بٹھائیں گے کہ یہ معاملہ درپیش ہے۔ ۔ ۔ بتاؤ تمہاری اس میں کیا رائے ہے۔ ۔ ۔ تو کہیں اس دوران ان کے اذہان میں یہ خیال نہ آجائے کہ شاید ہماری سوچ، عقل، شعور بھی اب انہی کے برابر ہوگئی ہے کیونکہ یہ ہم سے پوچھ رہے ہیں۔ اگر یہ سوچ آج کے کسی کارکن کی، اپنے قائد کے بارے میں آجائے تو اس صورت میں وہ کافر تو نہیں ہو جائے گا کیونکہ یہاں رشتہ ایمان کا نہیں ہے اور پیغمبر اور امت کا رشتہ نہیں ہے۔ لیکن اگر بشری تقاضے کے تحت یہ سوچ معاذ اللہ، صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کے ذہن میں آجاتی تو اس سوچ کے آتے ہی وہ کافر ہو جاتا۔
لہذا وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِيْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰه کا معنی یہ کے کہ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے پر ان کی مجلس شوریٰ اور ایگزیکٹو کونسل میں آکر بیٹھنے والو۔ ۔ ۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس مشاورت میں بیٹھنے والو۔ ۔ ۔ Close door meeting میں معاملات Discuss کرنے والو۔ ۔ ۔ شریک مشورہ ہونے والو۔ ۔ ۔ شریک بحث ہونے والو۔ ۔ ۔ معاملہ فہمی اور غور و خوض کے Process اور تبادلہ خیال کے Process میں شریک ہونے والو۔ ۔ ۔ یاد رکھنا رائے بھی دو، Discuss بھی کرو، مشاورت میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لو، مگر کسی Stage پر ہمسری کا خیال نہ لانا۔ ۔ ۔ خبردار جو تم سے مشورہ کر رہے ہیں وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ۔ ۔ ان کے پاس ہدایت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ۔ ۔ وہ جو تم سے مشورہ کر رہے ہیں یہ ان کی محتاجی نہیں بلکہ یہ تمہاری محتاجی ہے۔ ۔ ۔ تاکہ تمہیں تربیت مل جائے اور تمہارے اندر قائدانہ صلاحیتیں پیدا ہوں۔ ۔ ۔ مشاورت کا یہ عمل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسندِ خلافت پر بٹھانے کے لئے ہے۔ ۔ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عملِ مشاورت عمر رضی اللہ عنہ کو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بنانے کے لئے ہے۔ ۔ ۔ یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بنانے کے لئے اور خلیفۃ المسلمین کے مسند پر بیٹھنے کے قابل بنانے کے لئے اس Process میں شریک فرما رہے ہیں۔ ۔ ۔ اور اسی طرح یہ عمل حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جامع القرآن کا منصب عطا کرنے اور خلیفۃ المسلمین کی مسند پر بٹھانے کے لئے۔ ۔ ۔ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ المسلمین کے منصب پر بیٹھنے کے قابل بنانے کے لئے اس Process سے گزار رہے ہیں۔ پس وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِيْکُمْ رَسُوْل اللّٰه سے مراد عمل مشاورت کے ذریعے تمہارے اندر قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشاورت کے محتاج نہیں تھے۔ ان کو براہ راست اللہ کی راہنمائی نصیب تھی، جمہوری پراسس، مشاورت کا پراسس، انسانیت کا پراسس اس لئے جاری کیا تاکہ تربیت ملے اور یہ لوگ اچھے لیڈر بنیں اور وقت آنے پر اچھا فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ پس یہ تربیت کا ایک پروسس تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشاورت کا یہ طریقہ تھا کہ جب مجلس شروع ہوتی تو کوئی معاملہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے رکھ دیتے، مشاورت کے لئے معاملہ سمجھا دیتے اور انہیں فرماتے کہ اس پر بحث کریں۔ باری باری سارے صحابہ رضی اللہ عنہم اپنی رائے دیتے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخر پر اپنی رائے عطا فرماتے۔ اس چیز کو آئمہ اور محدثین نے بیان کیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ لینے والا کسی شخص کو نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ مشورہ لینے والے تھے۔
امام شافعی رضی اللہ عنہ، امام حسن بصری رضی اللہ عنہ اور بہت سے آئمہ اور بزرگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مشاورت کا ذکر کرتے ہوئے ساتھ یہ بھی کہا حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشورہ سے مستثنیٰ تھے، مشورے کی حاجت اور ضرورت نہیں تھی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منشاء و مقصد یہ تھا کہ بعد میں آنے والے حاکموں کے لئے اپنی سنت چھوڑ جائیں، انہیں تربیت عطا کر جائیں۔
معاملات حکومت چلانے کا مصطفوی طریق
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاملاتِ ریاست و حکومت چلانے کا طریقہ کار کیا تھا، آیئے اس کے چند گوشوں کی طرف ایک نظر ڈالتے ہیں۔
1. ہم Active ذمہ داریوں اور معاملات کی انجام دہی کے لئے اکثر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوجوانوں کو Involve کرتے۔ جو قبیلہ اسلام قبول کرتا اس میں سے ذہین، پڑھے لکھے اور لائق جوانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چن لیتے اور ان کو ان Units کا سردار مقرر کر دیتے، اپنی مجالس میں اس وقت کے اصول و ضوابط کے مطابق ان کی ٹریننگ فرماتے۔
2. ہر محلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اسمبلی بنائی تھی جسے آج کل ہماری اصطلاح میں اسمبلی ہاؤس/ پارلیمنٹ ہاؤس کہہ سکتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوکل اسمبلی کے لئے ہر محلے میں ایک جگہ مخصوص کی جس کو ثقیفہ کہتے تھے۔ ہر وارڈ کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی ایک نمائندہ تنظیم بنائی تھی جو دس دس آدمیوں پر مشتمل تھی اور ان کے اوپر ایک سربراہ ہوتا جس کو اریف کہتے تھے، آج کی اصطلاح میں اسے کونسلر کہہ سکتے ہیں۔ یہ نظام آگے پوری سلطنت میں پھیلادیا تھا۔ پھر دس دس اریفوں کا سربراہ یا چیف کونسلر، نقیب کہلاتا تھا۔ تمام نقیبوں پر مشتمل گورنر کی Cabnet (کابینہ) ہوتی تھی۔ آپ ان کو جدید اصطلاح میں صوبائی کابینہProvincial Cabnet کہہ دیں یا Provincial اسمبلی کہہ لیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس طرح لوکل باڈیز کا ایک سسٹم وجود میں آجاتا اور grass root level تک لوگوں کو نمائندگی کا حق حاصل تھا۔
3. اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نیشنل اسمبلی بھی بنا رکھی تھی اور یہ اسمبلی صفہ کے مقام پر معاملات انجام دیتی۔ گھر کے سامنے ایک چبوترا تھا جس پر ایک سائبان ڈال رکھا تھا۔ ایک وقت میں وہ سائبان تعلیم و تعلم کے لئے جامعہ کا کردار ادا کرتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاتے، لیکچرز دیتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سماع کرتے، اس وقت صفّہ چبوترہ، یونیورسٹی اور جامعہ کی شکل اختیار کر جاتا۔ ۔ ۔ رات کے اوقات ہوتے تو جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روحانی تربیت کے لئے آتے تھے ان کے لئے وہ صفہ خانقاہ بن جاتی۔ تصوف کا مرکز، خانقاہ اور تربیت گاہ بن جاتی۔ ۔ ۔ کئی لوگ مستقل طور پہ رہتے۔ ۔ ۔ کئی آتے جاتے رہتے۔ ۔ ۔ کئی ڈے سکالرز ہوتے اور کئی Boarders ہوتے۔ ۔ ۔ کئی Permanent طویل عرصہ کے لئے گھر بار چھوڑ کر رہتے۔ ۔ ۔ جو اس تربیت گاہ اور خانقاہ میں رہتے وہ روزے رکھتے اور راتوں کو قیام کرتے اور جب جہاد کا اعلان ہوتا تو جہاد پر چلے جاتے۔ ۔ ۔ جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر لے آتے اور بیچ کر گزارہ کرتے۔ الغرض اسی طرح ایک جامع و ہمہ گیر فوجی زندگی، صوفیانہ و روحانی زندگی اور تعلیمی زندگی گزارتے۔ گویا تربیت یافتہ کارکنوں کی ایک جماعت ’’صفہ‘‘ میں مقیم تھی۔
صلاحیتوں کے مطابق تفویضِ امور
اس تربیت گاہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرپرستی میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو مختلف امور میں (Specialization) اور تخصصّ بھی کرایا جاتا۔ جن کو شریکِ مشاورت کرنا ہوتا ان کو مختلف امور میں مہارت تامہ دلوانے کا اہتمام کیا جاتا۔ جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
1۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا چیف سیکرٹری مقرر کیا تھا جن کے ذمے تمام معاہدات اور Documents کا لکھوانا، خطوط کا بھیجنا، کھولنا، ڈاک بھیجنا اور مختلف Confidentials، Dealings، Contexts وغیرہ سارے ان کے ذمے ہوتے تھے کیونکہ وہ لکھنے پڑھنے کے امور کے انچارج اور چیف سیکرٹری تھے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو فارسی، یونانی، حبشی اور عبرانی زبان سکھانے کا اہتمام فرمایا۔ گویا ان کو Multi Linguistic Expert بنایا۔ وہ تمام زبانیں اس لئے آپ کو سکھائیں تاکہ جس قبیلے کو خط و کتابت کرنی ہوتی، Documents، Contects، یا کوئی Aggreements یا کوئی Treaty تیار کرنا ہو تو وہ اسی زبان میں کریں۔
غور کریں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گلوبلائزیشن کا تصور کس طرح شروع فرمایا۔ اگر ایک ہی زبان پر اصرار کرتے کہ جس نے بات کرنی ہے تو ہماری زبان میں ہی کر لے یا اس کا ترجمہ کر لے، لیکن چونکہ اسلام کی وسعت اور گلوبلائزیشن کو بھی نمایاں کرنا تھا اس لئے وہ زبانیں بھی سکھائیں۔ بعد ازاں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے تحت مزید کاتب اور سیکرٹریز بھی رکھے۔ سیکرٹریز میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی تھے اور یہ سب نوجوان تھے۔
2۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جوان تھے ان کو کمانڈر/ سپہ سالار بنایا اور بڑی بڑی اہم مہمات پر بھیجا۔
3۔ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کو جب جنگ خیبر کے موقع پر عَلم عطا فرمایا تو ان کی عمر تقریباً پچیس برس تھی۔
اسی طرح کسی کو گورنر Appoint کیا اور کسی کو چیف جسٹس بنا کر بھیجا۔
4۔ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو گورنر بنا کر بھیجا۔
5۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ چیف جسٹس بھی بنا کر بھیجا۔ اور اسی طرح آپ کو ایک مرتبہ ڈائریکٹر جنرل برائے ایجوکیشن بنا کر بھی بھیجا۔ امام طبری تاریخ میں لکھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری یہ تھی وہ ایک ایک شہر، ایک ایک ضلع اور ایک ایک گاؤں جا کر سکولوں اور تعلیمی مراکز کی خود نگرانی کرتے اور رپورٹ لیتے تھے اور تعلیم کے نظام کو Look after کرتے تھے۔ اس طرح آپ نے اس نظام کو مستحکم کیا۔
الغرض جس کے اندر جو صلاحیتیں تھیں اس کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے Develope کیا تاکہ یہ بہتر مشاورت میں کارآمد ہو، اور آگے بہتر ذمہ داریاں اٹھا سکیں۔
6۔ زید بن ثابت Mathematics (ریاضی) میں اچھے تھے ان کو Mathematics کے متعلقہ امور کی ذمہ داری تفویض کی۔ ۔ ۔ کسی کو ریاضی میں، فقہ میں، تجوید میں، قانون میں، کسی کو غزوات میں، کسی کو فوج میں اور کسی کو دیگر معاملات میں ان کی اہلیت کے مطابق ذمہ داریاں سونپیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ، یہ سب صحابہ ہجرت کے وقت جوان تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مبنی لیڈر شپ تیار کی۔ کارکنوں سے شروع کر کے لیڈر بننے تک ایک وقت لگا پھر وہ وقت کے خلفاء بنے اور اہم نوعیت کی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ابھی نو عمر ہی تھے کہ ان کو بھی اس وقت ان کاموں میں Involve کر دیا، ان کی تربیت فرمائی اور پھر وہ اپنے وقت کے امام بنے۔
7۔ اسی طرح اگر کسی میں Sports کی صلاحیتیں دیکھی تو اس کو Sports میں منتخب کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھیلوں کے مقابلے خود کروائے۔ نیزہ بازی، گھڑ دوڑ اور دوڑوں کے مقابلے کروائے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ کو انعام دیتے۔ ہر ایک شعبے میں لوگوں کی صلاحیتوں کو Develope کیا، مواقع دیئے اور ان کو معاملے میں شریک کیا۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری صلاحیتوں کو Develope بھی کر رہے ہیں تاکہ Personality Development بھی ہو اور لیڈر شپ Development بھی ہو۔ پھر جمہوری نظام کو فروغ دینے کے لئے تمہیں شریک مشاورت کر کے ایک Training Process میں بھی گذار رہے ہیں۔ مگر کبھی یہ سمجھ نہ لینا کہ پیغمبر ہماری رائے کا محتاج ہے یا ہماری عقل و شعور پیغمبر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برابر ہوگئی ہے۔ رائے مختلف تو ہو سکتی ہے مگر یہ نہ سمجھ لینا کہ ہم برابر ہوگئے ہیں۔ اس حالت کو روکنے کے لئے اور ایمان سے محرومی اور کفر کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لئے فرمایا واعلمو ان فيکم رسول الله کہ جو تم سے بیٹھ کر مشورے فرما رہے ہیں، یہ تمہارے مشوروں کے محتاج عام انسان یا لیڈر نہیں بلکہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ان کے پاس تو اللہ کی ہدایت ہے، یہ تمہارے مشوروں کے محتاج نہیں ہیں۔ یہ تمہاری بہتری اور اصلاح کے لئے، ایک سسٹم کو مستحکم کرنے کے لئے اور آئندہ امت کو سنت عطا کرنے کے لئے تم سے مشاورت فرما رہے ہیں۔
مصطفوی حکمت و بصیرت
فرمایا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود تم سے مشاورت کریں اور کسی عام آراء و تجاویز کو طلب کریں تو اس کی حکمت کو وہ خود بہتر جانتے ہیں۔ بصیرت ان کی سب سے بلند ہے۔ ۔ ۔ فراست ان کی سب سے وسیع ہے۔ ۔ ۔ تمہاری کثرت رائے دیکھ کر۔ ۔ ۔ تمہاری آراء او تمہاری Discussion سن کر اگر خود اپنی رائے سے دستبردار ہو جائیں اور تمہاری کثرت رائے پر فیصلہ خود فرما دیں تو یہ بھی ان کی حکمت، ان کا امر ہے اور ان کا حکم ہے۔ اس میں برکت ہوگی اور اگر وہ خود نہ کریں۔
لَوْ يُطِيْعُکُمْ فِیْ کَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ.
اگر تم چاہو ہماری اکثریت کی رائے مانی جائے۔ ۔ ۔ تم خواہش کرو، مطالبہ کرو، دباؤ ڈالو کہ ہماری رائے مانی جائے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رائے چھوڑ دیں تو تب قرآن نے فرمایا اگر وہ تمہاری کثرتِ رائے مان کر، اپنی بات چھوڑ کے تمہاری مان لیں مگر اس فیصلے کے بعد جو کچھ تم پر بیتے گا تم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ ۔ ۔ تم مشکل میں پھنس جاؤ گے کیونکہ جو کچھ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ دیکھ رہی ہے وہ تمہاری نگاہیں نہیں دیکھتیں۔ ۔ ۔ کچھ باتیں وہ ہیں جو مشاورت کے اندر آرہی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پردے سے پار اور اِس حد سے پار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ دیکھ رہی ہے۔ ۔ ۔ ان کی نگاہِ فراست، نگاہ حکمت، نگاہ بصیرت، نگاہ نبوت اور نگاہِ رسالت کچھ اور چیزیں دیکھ رہی ہے جن کا ادراک تمہیں نہیں ہے۔ ۔ ۔ لہذا انہی کا حکم مانو، اگر وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو تمہیں ایسی مشکلیں پیش آئیں کہ پھر تم بچ نہ سکو۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کی وفاداری
ساتھ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کردارکی توثیق فرما دی۔ چونکہ صحابہ ہمہ وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رہنے والے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے اور اُن کے دلوں کے اندر ایمان کی محبت موجود تھی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا صحابیو! تم وفادار نکلے، تم نے اس جمہوری مشاورت کا غلط معنی نہیں لیا۔ ۔ ۔ اس مشاورت کا حق دینے کو تم نے غلط نہیں سمجھا۔ ۔ ۔ تم اپنے مقام کو اپنے مقام پر رکھتے رہے۔ ۔ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشورہ مانگا تم نے مشورہ دے دیا اور فائنل حکم جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو ایمان سمجھ کر اپنے دل کے ساتھ اسے قبول کرلیا۔
وَلٰکِنَّ اﷲَ حَبَّبَ اِلَيْکُمُ الْاِيْمَانَ.
اے صحابیو! تمہیں اللہ نے وہ دل عطا کیا ہے کہ ایمان کو تمہارے دل میں محبوب کر دیا اور تمہارے دلوں کو ایمان کی محبت عطا کر دی‘‘۔
’’وَ زَيَّنَه فِیْ قُلُوْبِکُمْ ‘‘ اور اس نے ایمان کو تمہارے دلوں کی زینت بنادیا۔ ۔ ۔ اس نے ایمان کو تمہارے دلوں میں جمادیا۔ ۔ ۔ مزین کردیا لہذا جب وہ تم سے رائے مانگتے ہیں، تم رائے بھی دیتے ہو۔ ۔ ۔ جب مشورہ طلب فرماتے ہیں تو تم مشورہ بھی دیتے ہو۔ ۔ ۔ جب Discussions کے لئے فرماتے ہیں Discuss بھی کرتے ہو۔ ۔ ۔ اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری رائے کے مطابق فیصلہ فرما دیں تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہو۔ ۔ ۔ اور اگر اس سے مختلف فیصلہ فرما دیں تو تب بھی تمہارا دل شادباد ہو جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ایمان کا درجہ رکھتا ہے اور تم اس کو دلوں کی زینت بنا لیتے ہو۔
اطاعت و جمہوریت کا حسین امتزاج
وَ کَرَّهَ اِلَيْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ اور اللہ نے تمہارے دلوں کو کفر سے بچا لیا۔ ۔ ۔ کفر، فسق اور نافرمانی سے تمہارے دلوں کو بے زار کر دیا۔ ۔ ۔ یعنی اگر تم اپنی کثرت رائے پہ اڑے رہو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ماننے میں پس و پیش کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امر دل و جان سے تسلیم کرنے میں گھبراہٹ یا ہچکچاہٹ محسوس کرو تو فرمایا پھر تم نافرمانی کی طرف گئے، فسق کی طرف گئے اور بالآخر کفرکی طرف گئے۔ ۔ ۔ یہ تم پر اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے تمہارے دلوں کو کفر سے بچا لیا، نافرمانی سے بچا لیا، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جتنی تمہیں اجازت دی، تم نے کھل کر رائے دے دی اور جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم آگیا تو تم نے ایمان سمجھ کے قبول کرلیا۔ پس یہی وہ رشتہ ہے جو تابعیت کا بھی حق ادا کرتا ہے اور جمہوریت کا بھی حق ادا کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا :
أُولٰئِکَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ. . .
یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت والے ہیں، رشد والے ہیں۔
فَضْلاً مِّنَ اﷲِ جس کسی کو ایسا دل اور ایسا دماغ نصیب ہوجائے تو یہ اللہ کا فضل اور اس کی نعمت ہے۔
پس یہ حدود کو Cross نہ کرنا ہے، جو حدود ہیں ان کے اندر رہ کر اپنا حق ادا کرنا اور جو حق آپ کو نہیں اس کے لینے کی ضد نہ کرنا، جس کے دل کو اتنا عدل اور سلامتی نصیب ہو جائے۔ فَضْلاً مِّنَ اﷲِ وَ نِعْمَةً یہ اس پر اللہ کا فضل اور اس کی نعمت ہے۔
امت کے لئے راہنمائی
یہ رشتہ پیغمبر اور اس کی امت کا تھا لیکن جب Down Wards آجاتے ہیں اور اپنے حالات و واقعات کو دیکھتے ہیں تو صاف ظاہر ہے یہاں ایمان اور کفر کا رشتہ نہیں۔ ایک قائد اور کارکن کے درمیان محبت و ادب اور سر تسلیم خم کرنے کا رشتہ تو ہے۔ ۔ ۔ مشاورت، بحث، تجاویز و آراء دینے کا تو رشتہ ہے مگر اختلاف کی صورت میں نہ کفر ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ اور ماننے کی صورت میں نہ شرعاً ایمان ہے۔ ۔ ۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقام و منصب سے سوسائٹی پر جو اثرات و نتائج مرتب ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ جمہوری کلچر، ہر فیصلہ پر تبادلہ خیال، اہم فیصلہ میں جمہوری طریقہ، مشاورت کا طریقہ، تبادلہ خیال، Exchange of views، غور و خوض اور اجتماعی سوچ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ پس قائدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری کرے اور کارکن، پیروکاروں کے لئے یہ سبق ہے کہ وہ سنت صحابہ پوری کریں۔
علی سبیل تنزل ایمان اور کفر کا رشتہ تو نہیں مگر نیچے اتر کو جب مشورہ لیا جائے تو ایمانداری کے ساتھ مشورہ دیں، بحث میں حصہ لیں، اپنی رائے دیں، دلائل دیں، سوچ و بچار کریں اور جتنی حد ہو اپنا حق ادا کریں۔ اس کے بعد جب فیصلہ ہو جائے تو اس طرح کھلے دل سے تسلیم کریں جس طرح تسلیم کرنے کا حق ہوتا ہے تاکہ بعد ازاں پراگندگی ذہنوں میں رہے اور نہ ہی باہر پھیلے۔ پس یہ طریقہ کار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت کے ذریعے عطا فرمایا۔ اس سے تحریکیں اپنی Integrity کو بھی قائم رکھیں اور جمہوریت کو بھی قائم رکھیں۔ جمہوریت بھی برقرار رہے اور اس کے اندر یکجہتی اور پختگی Internal Integrity بھی برقرار رہے۔ اب یہ قائد کی ذمہ داری ہے کہ وہ رائے لے کر اور اکثریتی رائے کو دیکھ کر کتنا وزن دیتا ہے اور کتنا نہیں اگر وہ آمریت مسلط کرے گا تو وہ قیادت کا حقدار نہیں۔
کبھی اکثریت کی رائے میں بہتری ہوتی ہے اور اکثر اوقات اسی کو ہی اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن کبھی اکثریت کی نگاہوں سے اس معاملہ کا دوسرا پہلو پنہاں رہ جاتا ہے۔ اس موقع پر قائد اپنی حکمت و بصیرت سے معاملہ کا دوسرا پہلو کارکنان کے سامنے بیان کرکے فیصلہ لے سکتا ہے لیکن جس طرح فیصلہ ہوجائے اس فیصلہ کی پیروی اس انداز کے ساتھ ہونی چاہئے کہ ذہن میں اور دل و دماغ میں کسی قسم کا شک و شبہ اور تشکیک کی کیفیت برقرار نہ رہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو اللہ رب العزت نے عطا فرمائی۔ امت کے لئے ہر شے کی تعلیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان موجود رشتے سے ہوتی ہے اور پھر ہم یعنی امت اپنے حال کے مطابق اس کی Reflection اور اثرات سے اپنا نظام وضع کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر کرم فرمائے، ہمارے ایمان کو استحکام اور بقاء نصیب کرے اور ہمیں ایک بہتر ایمانی اور قرآنی کلچر عطا فرمائے۔ آمین۔