گذشتہ ماہ ملک پاکستان کی عظیم علمی، مذہبی اور فکری شخصیت ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی جامعہ نعیمیہ میں خود کش دھماکہ میں جام شہادت نوش فرما گئے۔ انا لله وانا اليه راجعون. آپ اہلسنت کی عظیم شخصیت محترم مفتی محمد حسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند تھے تنظیم المدارس کے ناظم اعلیٰ اور عظیم درسگاہ جامعہ نعیمیہ کے مہتمم کی ذمہ داری بھی آپ کے پاس تھی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی، فکری، مذہبی اور فلاحی خدمات کی وجہ سے تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام سے محبت و عقیدت اور خصوصی تعلق رکھتے تھے۔
اس درد ناک سانحہ میں تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’امت مسلمہ ایک عظیم سکالر سے محروم ہوگئی۔ آپ کی شہادت امت مسلمہ کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ دہشت گرد انسانیت کے بدترین دشمن ہیں اور ان کا کوئی مذہب نہیں۔ اسلام انتہا پسندی اور ہر سطح کی دہشت گردی کی پرزور مذمت کرتا ہے ایسے عناصر انسانیت کے قاتل ہیں۔ مزید برآں حضور شیخ الاسلام نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مذہبی، علمی، تحقیقی، دینی اور ملی و قومی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آپ کی شہادت پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ شیخ الاسلام کی ہدایات پر تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام اندرون و بیرون ملک میں تعزیتی ریفرنس اور دعائیہ تقریبات منعقد کی گئیں۔ آپ کے جنازے میں وفد کی صورت میں مرکزی قائدین نے شرکت کی اور لواحقین سے تعزیت کی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے اور اسلام کے فروغ و اشاعت کے لئے بروئے کار لائی ہوئی ان کی کاوشوں کو قبولیت کا شرف نصیب فرمائے۔
تعزیتی ریفرنس
منہاج القرآن علماء کونسل کے زیر اہتمام شہید پاکستان ڈاکٹر مفتی محمد سرفراز نعیمی شہید کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا۔ جس کی صدارت مرکزی امیر تحریک محترم صاحبزادہ فیض الرحمن درانی نے کی، مہمانان خصوصی محترم ڈاکٹر راغب حسین نعیمی (جانشین شہید پاکستان) تھے۔ نقابت کے فرائض محترم علامہ محمد حسین آزاد نے سرانجام دیئے جبکہ استقبالیہ کلمات ناظم منہاج القرآن علماء کونسل محترم علامہ فرحت حسین شاہ نے ادا کئے۔
محترم ڈاکٹر علی اکبر قادری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی اسلاف کی عظمتوں اور رفعتوں کے امین تھے۔ ان کی عظمت کی بنیاد شخصی وجاہت پر نہ تھی بلکہ کردار پر قائم تھی۔ ان کا مشن ناموس رسالت کا تحفظ تھا اور ان کا درد تحفظ و سلامتی پاکستان تھا۔ ان کا مشن اور طرز زندگی ہر حوالے سے بے مثال تھا۔ بعد ازاں محترم ڈاکٹر علی اکبر قادری نے منظوم خراج عقیدت بھی پیش کیا۔
محترم مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی امت کا درد اپنے سینے میں سموئے ہوئے تھے۔ سادگی، سنجیدگی اور وقار کا ایک پیکر تھے۔ وہ اہل سنت کا عظیم سرمایہ تھے۔ ان کی فقیرانہ و درویشانہ شان تھی کہ وہ اپنی ذات کے لئے حفاظتی اقدامات نہ کرتے مگر ہمیں چاہئے تھا کہ ہم ان کے لئے ایسے اقدامات کرتے کیونکہ اپنی حفاظت کرنے کا حکم اللہ نے ہمیں دیا ہے اور یہ چیز توکل کے منافی نہیں ہے۔
محترمہ علامہ خان محمد قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید پاکستان کو جس نے بلایا، جہاں بلایا، جب بلایا، پہنچ گئے، طعنوں کے باوجود محبت کے جال بنتے رہے۔ اہل سنت کے اتحاد اور بیداری کے لئے ہر وقت متفکر رہتے۔ میں منہاج القرآن کی سرزمین کو سلامِ عظمت پیش کرتا ہوں کیونکہ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ اپنے پلیٹ فارم سے اپنے ہی احباب کو اونچا کرنے کے لئے کاوشیں ہوتی ہیں مگر آج منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے شہید پاکستان کی یاد میں اس شاندار تعزیتی ریفرنس کا منعقد کیا جانا نہایت ہی خوش آئند ہے اور یہ اقدام ان شاء اللہ اتحاد اہل سنت کی بنیاد بنے گا۔
محترم غلام قطب الدین فریدی نے مشائخ کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے ملک و ملت کے تحفظ کے لئے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ شہید پاکستان اپنی گفتار، اپنے کردار اور اپنی رفتار ہر لحاظ سے بے مثال تھے۔ ان کے ذہن میں ہر ایک کے لئے صلح کی تجویز موجود ہوتی۔ انہوں نے دنیا کی زندگی سادگی اور محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزاری اور ان کا سفرِ آخرت قابل رشک ہوگیا۔
محترم پیر خلیل الرحمن چشتی نے کہا کہ ان کی یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے جو اعلیٰ و ارفع مقام و مرتبہ انہیں دیا ہے اس کو دیکھ کر ہر ایک کا دل چاہتا ہے کہ وہ بھی اس راہ کا مسافر بنے اور اسی طریق پر زندگی گزارے۔ شہید پاکستان نے مفتی پاکستان مفتی محمد حسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی جانشینی کا حق ادا کیا۔ ان کی روح ہم سے تقاضا کر رہی ہے کہ اہل سنت اکٹھے ہو جائیں اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں احیائے اسلام، اقامت دین اور اصلاح احوال پر مبنی مصطفوی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
محترم شیخ زاہد فیاض نے کہا کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ منہاج القرآن کے رفقاء و کارکنان ایک بزرگ شخصیت کی شفقتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ منہاج القرآن کا مرکز نعیمی صاحب کا ہی مرکز تھا اور ہے، ان کی شہادت سے امت مسلمہ کے بالعموم اور اہل سنت کے بالخصوص اتحاد کا راستہ ہموار ہوگا۔ ہم جامعہ نعیمیہ اور محترم ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کو اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔
محترم ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے اپنے والد گرامی شہید پاکستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی سیرت اور نظریات و افکار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ میں منہاج القرآن کے مرکز پر شہید پاکستان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کے انعقاد پر تحریک کے جملہ قائدین کا شکر گزار ہوں۔ شہید پاکستان کی زندگی کا ہر گوشہ میں ہمیں اسلاف کی سیرت کا عکس نظر آتا ہے۔ آپ ہر معاملے میں شہرت اور جاہ و منصب کے بغیر کام سرانجام دیتے۔ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وطن سے محبت کا اظہار ان کی دو نمایاں خوبیاں تھیں۔ سادگی، متانت اور وقار ان کی سرشت میں داخل تھا۔ کسی پروٹوکول یا کسی جاہ و منصب کی کبھی طلب نہ رہی۔
پروگرام کے اختتام پر صدر مجلس محترم صاحبزادہ فیض الرحمن درانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شہید پاکستان کا عمل ان کے علم کے تابع تھا، جو کچھ انہوں نے حاصل کیا وہ عمل سے کیا۔ وہ واسطہ رسالت کے ذریعے عملی اور حقیقی توحید کا پرچار کرنے والے تھے۔ لوگ توحید کی بات تو کرتے ہیں مگر ان کا عمل، عملی توحید کے منافی ہوتا ہے۔ مگر نعیمی صاحب نے واسطہ رسالت کے ذریعے عملی و حقیقی توحید کو فروغ دیا۔ ان کی شہادت سے یوں محسوس ہوا کہ بہت بڑا سرمایہ لٹ گیا۔ ان کی زندگی کے کئی پہلو قابل تقلید ہیں۔ پروگرام میں محترم مفتی صفدر علی قادری (چیف آرگنائزر جمیعت العلمائے پاکستان فضل کریم گروپ)، محترم نو بہار شاہ، محترم علی غضنفر کراروی، محترم علامہ اقتدار حسین اشرفی، محترم علامہ محمد علی نقشبندی، محترم پیر صاحبزادہ علی احمد صابر (آستانہ عالیہ خواجہ بہاؤالدین، جڑانوالہ) نے خصوصی شرکت کی اور خطابات کئے۔ پروگرام کا اختتام ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کے ایصال ثواب کے لئے کی گئی فاتحہ خوانی اور خصوصی دعا سے ہوا۔
شہیدِ پاکستان ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی یاد میں منظوم نذرانۂ عقیدت
وہ اسیرِ ناموسِ رسالت (ص) بھی ہے
غیرتِ دین کا نقشِ کہن سرفراز
ابن زھراء کے جذبوں کا امین بھی
بو بکر و عمر کی کرن سرفراز
سفرِ آخر ترا، عظمتوں کا نشاں
مرحبا! عاشقِ ذو المنن سرفراز
سادگی اسکی اسلاف کا عکس تھا
عجز میں اولیاء کی چلن سرفراز
تو مفتی، مدرس، قلم کار بھی
تجھ پہ نازاں تھا ہر فکر و فن سرفراز
اہلسنت کا حامی تھا، ہمدرد تھا
اہلِ روحانّیت کی پھَبَن سرفراز
تھا اہلِ محبت میں شیر و شکر
اہلِ ’’ظلمت‘‘ میں لیکن چُھبَن سرفراز
ھم سے بچھڑا مگر وہ امر ہوگیا
بن کے خوشبو کرن تا کرن سرفراز
میرے طاہر کی سی تیری نغمہ گری
جیشِ عشاق کا اِک رُکَن سرفراز
زندگی بھر ترا مشن جاری رہا
محبت، مروّت، اَمَنْ سرفراز
ہو مبارک عروسِ شہادت تجھے
ہو جنت زمیں کا بطن سرفراز
تیری نسلوں میں جاری یہ خوشبو رہے
عِلم کے لہلہائیں چمن سرفراز
مرے مولا! تو آسانیاں کر عطا
ہے ’’راغب‘‘ کی منزل کٹھن سرفراز
ترے خوں سے نکھرا یہ دانش کدہ
’’نعیمیہ‘‘ کا بنا، بانکپن سرفراز
خوں کے قطرے ترے پھول بن کر کھلے
ملک و ملت کا بن کر حسن سرفراز
میں شاعر نہیں، ہے یہ فیضِ نظر
ڈھل گیا شعر میں یہ سخن سرفراز
ہوں مبارک تجھے منزلیں قُرب کی
اب تو محشر میں ہوگا مِلن سرفراز
(ڈاکٹر علی اکبر قادری الازھری)