استقامت و ولایت
جامع مسجد گھمگول شریف (برمنگھم UK)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین
منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم کے زیر اہتمام دورہ صحیح البخاری کی عالمی سطح پر بے حد پذیرائی اور کامیابی کے پیشِ نظر اکتوبر 2007ء میں منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم برطانیہ کے زیر اہتمام جامع مسجد گھمگول شریف میں دورہ صحیح مسلم (کتاب الایمان تا کتاب الصلاۃ) کے عنوان سے تین روزہ خصوصی علمی، فکری اور تربیتی پانچ نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ جن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سینکڑوں علماء و مشائخ، طلبہ اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب سے اصول الحدیث، علم الحدیث، امام مسلم کے مقام و مرتبے اور صحیح مسلم کے حوالے سے عقائد، فقہ، تصوف اور دیگر موضوعات پر گفتگو فرمائی۔ دورہ کی پہلی نشست (شائع شدہ مجلہ مئی، جون، جولائی08ء) میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے علمی کلچر کے احیاء کی ضرورت، تاریخِ اصولِ حدیث، علم الحدیث و اصول الحدیث میں امام اعظم کا مقام و مرتبہ، ائمہ حدیث کے ہاں احادیث کی قبولیت و عدم قبولیت کا معیار، بدعت کیا ہے؟ اہلِ بدعت کون ہیں؟ گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقی بدعتی، علمی روایات اور ائمہ کا طرزِ عمل، علمی اختلاف کی حقیقت اور ائمہ کرام کا طرزِ عمل، حقیقتِ اجماع، شیوۂ علم اور دیگر موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ دورہ صحیح مسلم کی دوسری نشست (شائع شدہ مجلہ اگست، ستمبر08ء) میں اصطلاحاتِ حدیث کا قرآن و حدیث سے استدلال و استنباط، حدیث ضعیف پر اعتراضات کا علمی محاکمہ، ضعیف اور موضوع کے اختلاط اور حدیث غیر صحیح کی وضاحت فرمائی۔ دورہ صحیح مسلم کی تیسری نشست (شائع شدہ مجلہ نومبر، دسمبر08، جنوری، مارچ09) میں صحیح، ضعیف اور موضوع کے مدار، دورِ حاضر میں معیار کا پیمانہ، نام نہاد محققین اور ان کا معیار دین، اکابر کے عقیدہ، ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نسبتِ نعلینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق تحقیقی گفتگو فرمائی۔ چوتھی نشست کے اول، دوم اور سوم حصہ (شائع شدہ مجلہ اپریل، مئی، جون09ء) میں اسلاف کے عقیدہ اور ہمارا طرزِ عمل، آثار و اماکن سے برکت کا حصول اور ایمان و حیاء کے حوالے سے پُر مغز تحقیقی گفتگو فرمائی۔ اسی چوتھی نشست کا چوتھا حصہ نذرِ قارئین ہے۔ (مرتب)
کتاب الایمان کی جس حدیث مبارکہ سے ہم استفادہ کرنے جا رہے ہیں، اس حدیث مبارکہ کو امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سفیان بن عبداللہ الثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ امام ابن ابی شیبہ کی کتاب ’’کتاب الادب‘‘ سے ہم نے اپنی سابقہ گفتگو میں ہاتھ پاؤں چومنے کی احادیث کا ذکر کیا تھا۔ آپ امام بخاری و امام مسلم دونوں کے شیخ ہیں۔ امام ابن ابی شیبہ کا عقیدہ اُن کی کتاب الادب سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ’’کتاب الادب‘‘ کا پہلا باب بزرگوں کے ہاتھ اور پاؤں چومنے کے متعلق قائم کیا اور اس کتاب کا آخری باب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت خوانی کے حوالے سے قائم کیا۔ یہ ادب دین ہے۔ اس کتاب کی ابواب بندی سے ہی امام ابن ابی شیبہ کا عقیدہ واضح ہو جاتا ہے، نیز چونکہ آپ امام بخاری و مسلم کے شیخ بھی ہیں لہذا شیخ کے عقیدہ سے تلامذہ امام بخاری و مسلم کا عقیدہ بھی معلوم ہو رہا ہے۔ امام ابن ابی شیبہ دین کے ادب پر کتاب لکھ رہے ہیں اور ابتداء حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہمم، مشائخ اور بزرگوں کے ہاتھ و پاؤں چومنے کے بیان کر رہے ہیں اور کتاب کا اختتام ’’بَابُ رُخْصَتِ فِی الشِعْرِ‘‘ اور ’’بَابُ اِسْتِمَاعُ النَّبِیِ صلی الله عليه وآله وسلم الشِعْرَ وَغَيْرَ ذٰلِکَ‘‘ کے ابواب پر کر رہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو شعر سماعت فرماتے تھے معاذ اللہ، استغفر اللہ کیا وہ غزلیات تھیں۔ ۔ ۔؟ کیا وہ دور جاہلیت کے اشعار تھے (استغفراللہ)۔ ۔ ۔ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دور جاہلیت کے شعر پڑھا کرتے تھے (معاذ اللہ)۔ ۔ ۔، نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت خوانی کیا کرتے تھے۔ ۔ ۔ اللہ کی حمد کے اشعار پڑھا کرتے تھے۔ ۔ ۔ معرفت کے اشعار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پڑھا کرتے تھے۔
اس آخری باب میں امام ابن ابی شیبہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت خوانی کے حوالے سے 68 احادیث مبارکہ کو ذکر کیا ہے۔ ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اور دیگر کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعت خواں تھے۔
میں نے اپنی کتاب ’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ میں تمام کتب حدیث سے تحقیق کے بعد ان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسماء گرامی لکھ دیئے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعت خواں تھے، ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد 34 سے زائد ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم از شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، باب ہشتم، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجزائے تشکیلی)
یہ ائمہ عشاق میں سے تھے، جب ذوق میں آگئے تو 68 احادیث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت خوانی کے حوالے سے اکٹھی کر دیں۔ جان لیں! کوئی امام اس وقت تک امام بن ہی نہیں سکتا جب تک عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکے سینے میں موجزن نہ ہو۔ ۔ ۔ ادب و غلامی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، نسبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فیض قدمین و نعلین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر کسی کو کچھ نہیں ملتا۔
افسوس کہ آج نعت خوانی کو بدعت سمجھا جاتا ہے، اگر نعت خوانی کو بدعت کہا جائے تو امام بخاری و امام مسلم سمیت تمام ائمہ پر بھی بدعتی ہونے کا اطلاق ہوتا ہے۔
محترم قارئین! بدعت کے تصور اور عقیدے کے تصور کو تبدیل کرنا ہوگا ورنہ بڑے بڑے نہیں بچتے، اس لئے کہ سب کا ایک ہی عقیدہ ہے۔ آیئے کتاب الایمان کی احادیث مبارکہ سے کسب فیض کرتے ہیں۔
استقامت
امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت سفیان بن عبداللہ الثقفی سے روایت کرتے ہیں، حضرت سفیان بن عبداللہ الثقفی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا :
قُلْ لِیْ فِی الْاِسْلَامِ قَوْلاً لَا اَسْئَلُ عَنْه اَحَدًا بَعْدَکَ قَالَ قُلْ اٰمَنْتُ بِاللّٰه ثُمَّ اسْتَقِمْ.
(صحيح مسلم، کتاب الايمان، باب جامع الاوصاف الاسلام، ج 1، ص 65، رقم : 38)
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اسلام میں کوئی ایک ایسی بات بتا دیں کہ آپ کے بعد زندگی بھر کسی سے کچھ نہ پوچھوں۔ ۔ ۔ کچھ پوچھنے کی حاجت نہ رہے‘‘۔
اس سوال پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو جواب دیا، وہ جواب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک سارے تصوف و سلوک، طریقت اور اہل اللہ کے مشرب کی بنیاد ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
قُلْ اٰمَنْتُ بِاللّٰه ثُمَّ اسْتَقِمْ.
’’کہہ دو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر پختگی سے قائم رہو‘‘۔
اولیاء کا مقام و مرتبہ اور استقامت
اس حدیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ایمان لانے کا حکم کہ ’’ایمان لاؤ‘‘ سے مراد عقیدہ ہے، ۔ ۔ ۔ ثُمَّ اسْتَقِمْ ’’پھر استقامت اختیار کرو‘‘ سے مراد تصوف و سلوک ہے۔ اولیاء اللہ کا بلند مرتبہ نہ ہی خوارق عادات و کرامات کی وجہ سے ہے اور نہ ہی کسی اور سبب سے ہے بلکہ استقامت کی وجہ سے ہے۔ اولیاء اللہ اگر بلند مرتبوں کے حامل ہیں تو وہ کسی چھومنتر کی وجہ سے نہیں ہے۔ چھومنتر والا تصوف تو آج پیسے کے لئے نکلا ہے حتی کہ کرامات بھی اولیاء اللہ کے بلند رتبے کا سبب نہیں ہیں۔ ولایت و عظمت اور تقرب الی اللہ کا اگر کوئی سبب ہے تو وہ صرف استقامت ہے۔ جس نے جو مرتبہ پایا اس نے استقامت کی وجہ سے پایا۔
استقامت کا مطلب یہ ہے کہ پھر دل بھی جم جائے۔ ۔ ۔ عقیدہ ایسا رکھو کہ پھر جم جاؤ۔ ۔ ۔ خواہشات کی آندھیاں چلیں مگر دل صحرا میں خشک پتے کی طرح نفسانی خواہشات کی آندھیوں میں اڑتا نہ پھرے۔ ۔ ۔ مشکلات، توہمات، نفسانی خواہشات اور ماحول میں کسی بھی قسم کی آندھی چلے ان حالات میں اگر دل ڈگمگاتا رہے تو پھر تم اسلام لائے ہو، ایمان ابھی دل میں نہیں اترا۔
استقامت ہی تصوف ہے
اگر دل جم جائے۔ ۔ ۔ دل کا تعلق بِاللہ، دل کی معرفت بِاللہ، دل کی سیرِالی اللہ، دل میں محبت لِلّٰہ ہو۔ ۔ ۔ دل کا تعلق اللہ سے جڑ جائے، دل اللہ کی طرف دھیان میں گم ہوجائے، اللہ کی طرف محویت، اللہ کی ذات اور اس کے توکل میں فنائیت نصیب ہوجائے۔ ۔ ۔
ثم استقم
کے حکم کے مطابق چاہے دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے مگر دل اللہ سے یوں جم جائے کہ پھر ہٹ نہ سکے تو یہ تصوف ہے۔ ۔ ۔ ایسا جمے کہ ہٹ نہ سکے۔ ۔ ۔ کوئی خواہش دل کے حال کو بدل نہ سکے۔ ۔ ۔ کوئی خوف و خطر دل کے حال کو متغیر نہ کر سکے۔ ۔ ۔ کوئی طلب، رغبت، حرص، ہوا و ہوس دل کے حال کو اللہ سے توڑ نہ سکے۔ ۔ ۔ فقر و فاقہ آجائے، دل پھر بھی غنی رہے۔ ۔ ۔ بہت مال مل جائے دل پھر بھی غنی رہے۔ ۔ ۔ صحت، سلامتی، تندرستی مل جائے دل پھر بھی شاکر رہے۔ ۔ ۔ اور ساری عمر بیماری میں بھی گزر جائے دل پھر بھی شاکر رہے، اس استقامت کا نام تصوف ہے۔ اصل تصوف یہی ہے، اس کے علاوہ جو کچھ کوئی کرتا ہے وہ چھومنتری تصوف ہے یا مال و دولتی تصوف ہے، وہ پیسے کا تصوف ہے، کاروباری تصوف ہے، وہ تجارتی تصوف ہے، اولیاء اللہ کا تصوف نہیں ہے۔
میں علی الاعلان پوری دنیا کو بتا رہا ہوں کہ چھومنتری، کاروباری اور تجارتی تصوف، حقیقت میں تصوف و سلوک و معرفت نہیں ہے، اس کا الزام اہل سنت پر نہ لگایا جائے یہ اہل طمع لوگوں کے قصے ہیں، یہ اہل حرص و ہوا ہیں۔ ایسے لوگ ہر طرف ہوتے ہیں، اگر بریلوی لوگ تعویذ سے پیسے کماتے ہیں تو دیو بندی لوگ بھی تعویذ سے پیسے کمارے ہیں اور یہ دھندہ کر رہے ہیں۔ اہل حدیث علماء بھی تعویذ پیسے کا دھندہ کر رہے ہیں، گویا مال و دولت کا حرص ہی ہے۔ ہندؤں سے لے کر مسلمانوں تک ایسے بے شمار احباب مل جاتے ہیں جو پیسے لیتے ہیں اور تعویذ و دم کرتے ہیں۔ اگر کوئی پیسے نہ لیتا تھا تو وہ صرف اولیاء اللہ و صوفیاء تھے۔ ولی لینے والا نہیں ہوتا بلکہ ولی دینے والا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ صوفی وہ ہے جس کا ہاتھ الیدالسفلی نہ ہو بلکہ جس کا ہاتھ الیدالعلیاء ہو۔ ۔ ۔ جس کا ہاتھ نیچے نہ ہو بلکہ اوپر ہو۔ پس اسی لئے تصوف میں کہا جاتا ہے کہ اَلْاِسْتِقَامَةُ فَوْقَ الْکَرَامة. ’’استقامت کرامت سے اوپر ہے‘‘۔
دل بدست آور کہ حج اکبر است
اگر دل جم جائے اور اپنی جگہ سے نہ ہٹے تو اس کو استقامت کہتے ہیں، اسی کو مولانا روم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ
دل بدست آور کہ حج اکبر است
از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است
کعبہ گم گاہِ خلیل آزر است
دل گزر گاہِ جلیلِ اکبر است
اس شعر کے کئی معانی ہیں :
1۔ غمزدوں کی دلجوئی کرنا
ایک معنی تو یہ ہے کہ کسی غریب کا دل تھام، ٹوٹے دل کی دلجوئی کر کہ ٹوٹے ہوئے دل کی دلجوئی کرنا اور اُسے خوشی اور زندگی کی راحت دے دینا اور مایوسی سے نکال دینا حج اکبر ہے۔
حضور غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکشوفات میں فرماتے ہیں (یہ بات موسیٰ علیہ السلام کے الہامات میں بھی ہے) کہ میں نے عرض کیا : باری تعالیٰ اگر تجھے پانا ہو اور تجھ سے ملنا ہو تو تُو کہاں ملتا ہے۔ ۔ ۔؟ اللہ تعالیٰ نے حضور غوث الاعظم کو الہام و القاء کیا کہ میں ٹوٹے دلوں میں ملتا ہوں، ٹوٹے دلوں سے پیار کیا کرو میں مل جاؤں گا۔
پھر میں نے عرض کیا : باری تعالیٰ اگر تیری دعوت کرنے کو جی چاہے تو کیاں کریں۔ ۔ ۔؟ اللہ رب العزت نے فرمایا : بھوکوں کو کھانا کھلا، اُن کو کھانا کھلانا دراصل میری دعوت کرنا ہے۔ یہ مجازی الفاظ ہیں، جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے خیرات لیتا ہوں۔ ۔ ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے‘‘ ہے کوئی مجھے قرض دینے والا‘‘ (البقرہ : 245)
حدیث مبارکہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ ۔ ۔ بھوکا تھا، کھانا نہیں کھلایا۔ ۔ ۔ پیاسا تھا، پانی نہیں پلایا۔ ۔ ۔ بندہ کہے گا : باری تعالیٰ تو ان چیزوں سے پاک ہے، اللہ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو اگر اس کی عیادت کو چلا جاتا تو اسے میں اپنی عیادت سمجھتا۔ ۔ ۔ بھوکے کو کھانا کھلانا گویا مجھ کو کھانا کھلانا تھا۔
(صحيح مسلم، کتاب البر، باب فضل عيادة المريض، ج 4، ص : 1990، رقم : 2569)
2۔ اہلُ اللہ سے وابستہ ہونا
’’دل بدست آور کہ حج اکبر است‘‘ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر اپنا دل طاقتور نہیں تو کسی مضبوط استقامت والے دل کو تھام لے، کسی صاحب دل کو تھام لے، کسی دل والے کے ساتھ لگ جا، ان اہل اللہ کے ساتھ اپنا قلبی و روحانی تعلق استوار کرنا حج اکبر ہے۔ حضرت خواجہ اجمیر فرماتے ہیں :
دلا بحلقہ رندانِ بزمِ عشق در آ
کہ جزۂ شرابِ بقا دھند ترا
اگر بقا طلبی اولت فنا باید
تافنا نہ شوی راہ نمی بری بہ بقا
’’جو شراب عشق الہٰی کے جام پی پی کر مست بیٹھے ہیں، اے دل ان کے حلقے میں آ، تاکہ تجھے بھی شراب بقاء کا ایک گھونٹ مل جائے، اور اگر باقی بننا چاہتے ہو تو بقا اس وقت تک نہیں ملتی جب تک فنا کی وادی سے نہ گزرو گے۔
اسرار الاولیاء میں حضور بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
کچھ تو وہ ہیں جو شراب عشق کا ایک جام پی کر مست و بے خود ہوجاتے ہیں اور کچھ وہ بھی ہیں کہ عشق الہٰی کے سمندروں کے سمندر پی جاتے ہیں اور خبر نہیں ہونے دیتے۔ بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات کہی اور رو پڑے، معلوم نہیں کہ ان کا دھیان کن کن لوگوں کی طرف چلا گیا۔
پس فناء کی وادی سے گزر کر جن کو بقاء ملتی ہے وہ صاحبان استقامت ہوتے ہیں۔ لہذا کسی صاحب دل کے ساتھ لگ جا، ان کی بزم اور مجلس میں بیٹھ۔ دین، اہل دل کی مجلس و صحبت سے ملتا ہے۔ ۔ ۔ دین، اہل زر سے نہیں ملتا۔
علماء کی خوش نصیبی
میں دنیا بھر کے علماء کو یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ کئی لوگوں کو اللہ نے دنیا اور مال و دولت کے لئے چن لیا مگر آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کو اللہ نے اپنی، اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے دین کی نوکری کے لئے چن لیا ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لئے چن لیا، بہت اقل لوگوں کے سوا ان کا آخرت میں حصہ کم ہے۔ جن کو دنیا میں حصہ زیادہ دے دیا، ان کا آخرت میں حصہ کم ہے اور جن کو دین کے لئے چن لیا انہیں دنیا کا حصہ کم دیا۔ ۔ ۔ کبھی مل گیا، کبھی نہ ملا۔ ۔ ۔ کبھی مسجدوں کے حجروں میں رہ رہے ہیں۔ ۔ ۔ کبھی تھوڑا مل گیا کبھی زیادہ مل گیا۔ ۔ ۔ کبھی تکلیف کا سامنا اور کبھی اہل دنیا کی طرح راحت، سہولتیں نہ ملیں۔ ۔ ۔ پس اگر دنیا کا حصہ کم ملا ہے اور یہ لوگ اللہ کے دین کی نوکری میں اخلاص کے ساتھ ہیں، اور دنیا کا حصہ کم ملا ہے۔ اللہ کی عزت کی قسم، تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین کی قسم مبارک ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخرت میں بڑا حصہ رکھا ہے۔ پس دنیا میں کم حصہ ملنے پر شاکی نہ ہوا کریں۔ ۔ ۔ متذبذب نہ ہوا کریں۔ ۔ ۔ لوگوں کے مال و دولت کو دیکھ کر گلہ و شکوہ نہ کیا کریں۔ ۔ ۔ اسی سے روکا جا رہا ہے، اس لئے کہ جو دنیا کا کثیر حصہ لئے بیٹھا ہے وہ آخرت کا حصہ گنوائے بیٹھا ہے۔ سب سے بڑا بدنصیب شخص وہ ہے جو آخرت کے بدلے دنیا کما رہا ہے۔ جن کو اللہ نے اپنے اور اپنے دین کی نوکری کے لئے چنا ان جیسا سلطان کوئی نہیں ہے، ان جیسا حکمران کوئی نہیں ہے، ان جیسا صاحب عزت کوئی نہیں ہے اس لئے کہ ان کے سر پر اللہ نے دین کی عزت کا تاج رکھا ہے اور اپنے دین کی خدمت کی نوکری عطا کی ہے، پس علماء اس کی لاج رکھا کریں۔
اولیاء اللہ فرماتے ہیں کہ بدترین عالم وہ ہے جو امراء اور سلاطین کے دروازے پر سائل بن کر پایا جائے اور سب سے بہترین حاکم وہ ہے جو اللہ والے علماء کے دروازے پر پایا جائے۔ اہل اللہ، اولیاء، صوفیاء، علماء اور درویشوں کی یہ شان نہیں کہ منگتے بن کر سلاطین وقت کے دروازوں پر جا بیٹھیں اور ان کے ٹکڑوں کو مانگیں۔ ۔ ۔ علماء اور درویشوں کی شان یہ ہے کہ صرف خدا اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ٹکڑوں پر پلیں۔ علماء و صلحاء اپنے کردار میں استغناء، توکل، زُہد، ورع، بے نیازی پیدا کریں، سجدوں میں نور پیدا کریں، اپنے قلب میں استقامت کی وہ کیفیت پیدا کریں کہ سلاطین خود چل کر ان کے دروازوں پر آئیں۔
3۔ اپنے دل کو قابو میں رکھنا
’’دل بدست آور کہ حج اکبر است‘‘ کے پہلے معنی کے مطابق دل سے مراد ٹوٹا ہوا دل تھا۔ ۔ ۔ دوسرے معنی کی رو سے دل سے مراد کسی کامل کا دل تھا اور تیسرے معنی میں دل سے مراد اپنا دل ہے کہ اے بندے اپنے دل کو تھام لے۔ یہ دل جو ہوا و ہوس میں اڑتا پھرتا ہے، اس کو تھام لے۔ اس کو قابو کرلے اسے باغی نہ ہونے دے اور اس پر کنٹرول حاصل کر لے۔
پس مسلم شریف کی اس زیر بحث حدیث میں ’’ثم اسْتَقِمْ‘‘ میں انہی امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ جملہ محدثین کی اس حدیث کے تحت کئے جانے والی شروح کا خلاصہ بھی یہی ہے، بات کرنے اور لکھنے کا انداز اپنا اپنا ہے مگر تمام کی باتوں کا لب لباب اور بنیادی نکتہ یہی ہے۔ صوفیاء نے بھی یہی کہا ہے کہ استقامت، ایک ہزار کرامات سے بھی بلند ہے۔ (جاری ہے)