دورِ جدید میں ریاست انفرادی یا شخصی اقتدار کا نام نہیں بلکہ عوام اور مملکت کے ان اداروں پر مشتمل ہوتی ہے جو اس ریاست کے جملہ اندرونی اور بیرونی امور کے نگہبان اور ذمہ دار ہوتے ہیں۔ گویا ریاستی ادارے وہ بنیادی ستون ہیں جن پر پورا ریاستی ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے اور ان کو گزند پہنچانا ریاستی وجود کو تہ و بالا کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو روزِ اول سے ہی نہ صرف گوناں گوں مسائل کی زد میں رہے بلکہ یہاں اداروں اور روایات کو استحکام بھی میسر نہ آ سکا۔ اگر آج ہم قومی سطح پر مسائل کا جائزہ لیں تو ہمارے اکثر و بیشتر مسائل کی اساس اداراتی عدم استحکام اور قومی سطح پر صحت مند روایات کا موجود نہ ہونا ہے۔
آج دہشت گردی، امن عامہ کی بدترین صورتحال، معاشی عدم استحکام اور عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو در پیش چیلنجز کے پیش نظر اربابِ بست و کشاد کو سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کے مستقل، دیرپا اور قابل عمل حل تلاش کرنے کے لیے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ طرز عمل قومی سطح پر قابل افسوس ہے کہ آج جبکہ وطن عزیز مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ہم میں سے اکثر مسائل کو حل کرنے یا ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کی بجائے ریاستی اداروں کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں احتساب اور ریاستی اداروں کی اصلاح کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ اس فضا میں ہماری نظر اصلاحات کے عمل، طریق کار کی پیچیدگی اور اس میں حائل مشکالات پر نہیں ہے۔ اگر ہم واقعی ریاستی سطح پر اداروں کی اصلاح چاہتے ہیں تو اس کے لیے نعرہ بازی، سیاسی بیان بازی اور عوامی مقامات پر گفتگو سے زیادہ ضروری پالیسی کی سطح پر اقدامات کرنا ہے۔ بحیثیت قوم اگر ہم جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلے کریں گے تو قومی مفاد کے تحفظ اور منصوبہ بندی کی تشکیل کے عمل میں منطقی غور و فکر کی بجائے جذبات کے تحت فیصلے کریں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلی کئی دہائیوں کے دوران ہماری نا اہلیوں کے باعث آج عوام ایسے مسائل کی دلدل میں پھنس چکے ہیں جس کا چند برس پیشتر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ صرف معاشی صورت حال کا ہی جائزہ لیں، تو ایک اندازے کے مطابق 18 ملین پاکستانیوں سے زیادہ کی یومیہ آمدن 100 روپے سے بھی کم ہے اور 60 فیصد پاکستانی بدترین غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یعنی وہ بنیادی انسانی ضروریات، خوراک، صاف پانی، صحت، چھت اور تعلیم تک سے محروم ہیں۔ دوسری طرف اگر عوام کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے حکومتی اقدامات کو دیکھیں تو 12 - 2011ء کے بجٹ میں صدر اور وزیراعظم کے بیرونی دورہ جات کے لیے 5.5 ملین روپے فی دن کے حساب سے رکھے گئے ہیں۔ اگر ہمارے صدر اور وزیراعظم ایک ماہ کے لئے بیرون ملک کے دورہ جات ملتوی کردیں تو اس رقم سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 72 ملین افراد میں سے 2 ملین لوگوں کو دو وقت کا کھانا فراہم کیا جاسکتا ہے۔
ایبٹ آباد اور پی این ایس کراچی کے واقعے کے بعد اور کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں ایک نوجوان کے قتل نے سکیورٹی اداروں کی حیثیت اور فرائض میں کوتاہی کو عوام میں مزید نمایاں کر دیا ہے۔ چند افراد کی نااہلیت اور فرائض سے غفلت اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے اداروں کا وجود ہدف تنقید بن رہا ہے۔ قومی سطح پر ہمیں اپنے اداروں کو ایسے افراد سے پاک کرنا ہوگا جو ہمارے اداروں کی ساکھ، نیک نامی اور اہلیت کے لیے بدنامی کا باعث ہوں۔
تحریک منہاج القرآن کا منہجِ عمل پہلے دن سے اعتدال توازن پر مبنی رہا ہے۔ قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ہمیشہ دینی، اعتقادی، مذہبی، مسلکی اور سیاسی سطح پر اعتدال کی روشنی کا پرچار کیا ہے۔ آج ہمیں قومی سطح پر اعتدال پر مبنی روش اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں جذباتی انداز اور قوم کے سامنے موہوم خیالات و مقاصد پیش کرنے کی روش کو ترک کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان کے سٹریٹیجک مسائل کا حل دنیا کے ساتھ پروقار تعلقات کو لے کر چلنے میں ہے نہ کہ تنہائی پسندی میں۔ ہمیں اس امر کا ادراک ہونا چاہئے کہ ہمیں مفادات اور مقاصد کے مابین توازن قائم کر کے زمینی حقائق کا سامنا کرنا ہو گا۔ سول ملٹری تعلقات، عدلیہ کا کردار، میڈیا کی سول سوسائٹی کے لیے ناگزیریت اور حق اظہارِ رائے کا احترام، عوام کے جان و مال کا تحفظ وہ مسائل ہیں جن کا حل افراط و تفریط کی روش سے نکل کر اصلاح، احتساب اور تعمیر نو کے عمل سے ہی ممکن ہے۔ ہم قومی سطح پر اعتدال کی روش کو اختیار کر کے ہی قومی تعمیر اور عالمی سطح پر ملی وقار کی بحالی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
ڈاکٹرطاہر حمید تنولی