حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اِنّ الايمان لَيَخْلُقُ فِیْ جوفِ اَحَدِکُمْ کَمَا يَخْلُقُ الثّوْبُ الْخَلِقُ فَاسْئَلُوا اللّٰهَ اَنْ يُّجَدِّدَ الايْمَانَ فِیْ قُلُوْبِکُمْ.
(مستدرک، حاکم، رقم: 1313)
’’تم میں سے کسی کے پیٹ میں ایمان اسی طرح پرانا ہوجاتا ہے جیسے پرانا کپڑا میلا ہوجاتا ہے۔ پس تم اللہ سے سوال کیا کرو کہ وہ تمہارے دلوں میں ایمان کو از سر نو تازہ کردے‘‘۔
شرح و وضاحت
اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ جس میں آئندہ زمانے میں وقوع پذیر ہونے والی اور بھی بہت سی باتوں کا ذکر ہے جنہیں سن کر انسان کا دل دہل جاتا ہے۔
فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
يدرس الاسلام کما يدرس وشی الثوب لا يدری ما صيام ولا صدقة فی ليلة فلا ببقی فی الارض منه آية.
(مستدرک، حاکم، رقم : 8636، ابن ماجه، باب ذهاب القرآن : 293)
’’اسلام پرانا ہوجائے گا، جس طرح کپڑے کا رنگ اڑ جاتا ہے اور اس کے نقش و نگار ماند پڑ جاتے ہیں۔ کسی کو یاد نہیں رہے گا: روزے کیا ہیں؟ صدقہ کس چیز کا نام ہے، قربانی کیا ہے، کتاب اللہ پر ایک رات ایسی بھی آئے گی کہ زمین پر ایک آیت بھی نہیں رہے گی (یعنی سب احکام اٹھالئے جائیں گے)‘‘۔
لوگوں کی خود فراموشی کا یہ حال ہوگا کہ کلمہ طیبہ تک بھول جائیں گے اپنی اولاد کو بتایا کریں گے کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو دیکھا تھا کہ وہ لا الہ الا اللہ پڑھا کرتے تھے، اب ہم بھی پڑھ لیتے ہیں۔
امت پر رحمت
یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے پایاں رحمت ہے کہ امت کو وقت سے پہلے ہی بتادیا کہ مستقبل بعید میں ایسا وقت بھی آسکتا ہے جس میں امت کی بے حسی اور خود فراموشی کا یہ عالم ہوجائے گا کہ وہ خود کو بھی بھول جائے گی اور اسے یہ تک یاد نہ رہے گا کہ وہ ایک عالمگیر دین کی پیروکار ہے۔ یہ بدقسمتی کی انتہاء ہوگی کہ وہ امت جسے بہترین امت کا لقب دیا گیا ہے وہ پستی کی اس انتہاء تک پہنچ جائے کہ اسے اپنے دین کا بنیادی کلمہ بھی یاد نہ رہے۔
زمانہ نبوت سے دوری کا اثر
یہ ایک ہوش ربا حقیقت ہے کہ انسان زمانہ نبوت سے جتنا دور ہو وہ اتنا ہی بہت سی برکتوں سے محروم ہوجاتا ہے، سورہ الحدید کی آیت ہے۔
وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ.
(الْحَدِيْد، 57 : 16)
’’اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر مدّت دراز گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے‘‘۔
یعنی زمانہ نبوت سے دوری دل کی سختی اور محرومی کا باعث بنتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو آگاہ فرما دیا کہ اپنے دین و ایمان کو بچا کر رکھیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین سے دوری اختیار نہ کرلیں بلکہ اس کی تجدید کرتے رہیں اور اس کو پرانے کپڑے کی طرح بوسیدہ نہ ہونے دیں۔
امت کے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کرم فرمایا کہ مستقبل میں پیش آنے والی اس اندو ہناک بلکہ عبرتناک صورت حال سے نہ صرف آگاہ فرمایا بلکہ تجدید کا طریقہ بھی بتا دیا۔ اس حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں فرمایا:
جد دوا ايمانکم قيل يارسول الله کيف نجدد ايماننا؟ قال: اکثروا من قول لا اله الا لله.
(حاکم، مستدرک، رقم: 7657)
اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہا کرو پوچھا گیا: یارسول اللہ! ہم اپنے ایمان کی کیسے تجدید کیا کریں فرمایا: ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کثرت سے پڑھا کرو۔
کلمہ طیبہ کی فیض رسانی
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث کا بقیہ حصہ یہ ہے کہ حاضرین حضرت حذیفہ کی زبان سے یہ ہوش ربا تفصیلات سن کر دنگ رہ گئے اور اپنی تسلی کے لئے سوال کیا:
فَمَا تُغْنِیْ عَنْهُمْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّه لَا يَدْرُوْنَ ماصيامٌ وَلا صدقةٌ وَلَانُسُکٌ.
’’جب انہیں دیگر ارکان اسلام، حج و صیام، قربانی اور صدقات کا پتہ نہیں رہے گا تو صرف کلمہ طیبہ، لا الہ الا اللہ کا پڑھنا کیا فائدہ دے گا؟‘‘۔
حاضرین نے یہ سوال تین بار دہرایا۔ حضرت حذیفہ نے انہیں بتایا: اس کلمہ طیبہ کو معمولی مت سمجھو، تنجيهم من النار تنجيهم من النار. وہ انہیں آگ سے نجات دے گا، آگ سے نجات دے گا، آگ سے نجات دے گا۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ یہ سلطنت الہٰیہ کا بنیادی آئین ہے، جس کا اس پر ایمان نہیں، اسکا کچھ بھی مقبول نہیں اور جو اسے دل و جاں سے تسلیم کرتا ہے، وہ ناجی ہے آتش دوزخ سے نجات پاجائے گا۔
معیار صرف اخلاص ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کوئی دل کی گہرائیوں سے اس کلمہ کو پڑھے اور دل کی گہرائیوں سے پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھے اور ان کے قریب بھی نہ جائے۔
اَنْ تَحْجُزَه عَمّا حَرّمَ اللّٰه عَلَيْهِ.
(طبرانی، فی الکبير)
اس حدیث سے مستفاد ہوتاہے کہ دنیا میں آفات و حوادث دین و ایمان کی شفاف سطح پر جو گرد و غبار کی تہہ جما دیتے اور ہوا و ہوس کا گند مند بھر دیتے ہیں، کلمہ طیبہ اس گندگی سے دل کو پاک کر دیتا ہے، اس لئے کلمہ طیبہ کی کثرت کا حکم دیا ہے تاکہ ایمان کی تجدید کا سامان ہوتا رہے۔
بہت سے حقائق کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلمہ طیبہ کی یہ اہمیت روز ازل ہی سے قائم ہے اور کائنات ارضی و سماوی میں ایک حقیقت ثابتہ کی حیثیت سے نافذ العمل ہے۔
محبوب ترین کلمہ
1۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے دربار میں عرض کی:
عَلِّمْنِیْ شَيْئًا اَذکُرُکُ بَه؟
’’یا اللہ! مجھے ایسے ذکر و دعاء سے سرفراز فرما، جس کے ساتھ میں تجھے یاد کروں‘‘۔
اللہ پاک کا حکم ہوا: لا الہ الا اللہ پڑھا کرو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
يَاربِّ کُلُّ عِبادکَ يَقُوْل هَذا.
’’یہ تو تیرے سب بندے ہی پڑھتے ہیں۔
اللہ پاک کا پھر حکم ہوا۔
لاالہ الا اللہ ہی پڑھو۔ لاڈلے پیغمبر نے عرض کی: اِنّما اريد شَيْئًا تَخُصُّنِیْ بِه. میں ایسا خاص ذکر چاہتا ہوں جو صرف میں ہی کروں۔
اللہ پاک کی طرف سے القاء کیا گیا: اے موسیٰ!
لو ان السموات السبع والارضين السبع فی کفة ولا اله الا الله فی کفة مالت بهم لا اله الا لله.
’’اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسرے پلڑے میں لا الہ الا اللہ رکھ دیا جائے تو یہ دوسرا پلڑا بھاری ہوجائے گا‘‘۔
بتانا مقصود تھا کہ ذکرِ لا الہ الا للہ کو ہلکا اور معمولی نہ سمجھو، اس کا حیرت انگیز وزن بندوں پر اس روز آشکار ہوگا، جب وہ میدان حشر میں میزان پر حاضر ہوں گے اور وہ وقت آجائے گا جب ان کے اعمال تولے جائیں گے۔
بھاری کلمہ
ایک شخص کا اعمال نامہ ساری مخلوق کے سامنے کھولا جائے گا، یہ ننانویں دفتر ہوں گے جو اس کے سامنے پھیلا دیئے جائیں گے۔ ان دفتروں کی تعداد اور ضخامت دیکھ کر اس کے ہوش اڑ جائیں گے اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوگا:
اَتُنْکِرُ مِنْ هذا شيئًا؟ اَظَلَمَکَ کَتَبْتِی الْحَافِظُوْنَ؟
’’تم پر جو فرد جرم عائد کی گئی ہے، کیا تم اس کا انکار کرتے ہو، میرے فرشتوں نے تم پر کوئی ظلم کیا ہے؟ اگر کوئی عذر ہے تو اپنے دفاع میں پیش کرو‘‘۔
بندہ عرض کرے گا: میرے مولیٰ! میں ان تمام جرائم کو تسلیم کرتا ہوں واقعی میں نے ان گناہوں کا ارتکاب کیا ہے، تیرے فرشتوں نے اپنی طرف سے کوئی بات نہیں لکھی۔
اپنے گناہوں کی تعداد اور لمبی چوڑی فہرست دیکھ کر اس بندے پر مایوسی کا عالم طاری ہوجائے گا اور ہر طرف تاریکی ہی تاریکی نظر آنے لگے گی، اس ناامیدی کی حالت میں اللہ کی رحمت اس کی دست گیری فرمائے گی: اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بتایا جائے گا کہ
بَلٰی ان لَکَ عِنْدَنَا حَسَنَةً فَاِنَّه لَاظُلْمَ عَلَيْک اليومَ.
’’ہاں، تیری ایک بہت بڑی نیکی ہمارے پاس محفوظ ہے، بے شک آج کے دن تیرے اوپر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا‘‘۔
میزان پر حاضر ہو، تاکہ تیری عظیم الشان نیکی سے تجھے آگاہ کیا جائے۔ چنانچہ اس کے سامنے ایک دستاویز نکالی جائے گی جس پر لکھا ہوگا: اَشْهَدُ انْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ واشْهَدُ اَنّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَرَسُوْلُه۔
بندہ اپنے گناہوں کے دفتروں کے مقابلے میں صرف کلمہ طیبہ کو دیکھ کر عرض کرے گا: میرے گناہوں کے انبار کے سامنے بھلا، اس کلمے کی کیا حیثیت ہے؟ اسے بتایا جائے گا:
دنیا جہان کی کوئی چیز اس پاکیزہ کلمے سے زیادہ وزنی نہیں چنانچہ ایسا ہی ہوگا، جب ایک پلڑے میں تمام گناہوں کے انبار اور دوسرے پلڑے میں صرف کلمہ طیبہ رکھا جائے گا تو کلمہ طیبہ کا وزن بڑھ جائے گا اور گناہوں کا پلڑا ہلکا ہوجائے گا۔ بندے کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہے گی۔
اسے خوشخبری دی جائے گی کہ وہ کامیاب ہوگیا ہے اور اللہ پاک نے کلمہ طیبہ کی برکت سے اس کے تمام گناہ معاف کردیئے ہیں۔
2۔ کلمہ طیبہ کی اعجازی شان کی مظہر، شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بھی ہے جس میں انہوں نے ایک بڑے ایمان افروز واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ ہم اپنے دلنشین و حسین نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ اچانک مہربان و کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روئے سخن حاضرین کی طرف کرکے پوچھا: تم میں کوئی بیگانہ تو نہیں؟ مقصد تھا کیا سب اہل محبت ہی ہیں؟ دیوانگان عشق نے دست بستہ عرض کی: سب زلف محبوب کے اسیر اور حسن کے جلوؤں کے فدائی ہی ہیں اس مجلس خاص میں کوئی بیگانہ اور اجنبی نہیں۔
غریب نواز آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان افروز فردوسی خوشیاں عطا کرنے کے لئے فرمایا: ایسا ہے تو پھر دروازے بند کردو۔ اس کے بعد حکم دیا: تم سب اپنے اپنے ہاتھ اٹھالو اور پڑھو لا الہ الا اللہ ہم نے ہاتھ اٹھا کر یہ ورد کرنا شروع کردیا۔ اس کے بعد آقائے کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی بارگاہ میں دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے:
اللهم انک بعثتنی بهذه الکلمة وامرتنی بها ووعدتنی عليها الجنة وانت لا تخلف الميعاد.
’’یااللہ! اس پاک کلمہ کی تعلیم و ترویج کے لئے تو نے مجھے اس دنیا میں بھیجا اور اس پر بہشت بریں کا وعدہ فرمایا، اس میں کوئی شک نہیں کہ تیر اوعدہ سچا ہے تو جو وعدہ فرمائے اس کے خلاف نہیں فرماتا‘‘۔
کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غلاموں کو خوشخبری دی۔
ابشروا فان الله قد غفرلکم.
(مسند احمد، 4 : 124)
’’کلمہ پڑھنے والو! خوشیاں مناؤ پس بے شک اللہ نے تم کو بخش دیا ہے‘‘۔
کلمہ طیبہ کی فضیلت و برکت اور غیر معمولی شان و شوکت سے اس لئے آگاہ فرمایا کہ امت کسی دور اور زندگی کے کسی حصے میں بھی اس کے ورد و وظیفہ سے غافل نہ رہے کیونکہ کفر و شرک اور گناہوں کی تاریکیوں سے نکالنے اور ایمان کی حفاظت اور تجدید کرنے والا یہی کلمہ ہے ماضی میں بھی یہی کام آیا ہے اور مستقبل میں بھی یہی کام آئے گا۔ اس لئے اس کلمہ طیبہ کی ہمہ گیر فتوحات و برکات سے پہلے ہی آگاہ فرما دیا کہ اس کے فسانے عجیب اور زمانے غریب ہیں، اس نے ماضی میں بھی تاریک دلوں کو منور کیا ہے اور مستقبل میں بھی نور بخشے گا۔ جب لوگ اس حد تک بے راہ رو اور گمراہ ہوجائیں گے کہ اپنے روشن دین کے تقاضوں کو بھی بھول جائیں گے انہیں بنیادی ارکان اسلام تک یاد نہ رہیں گے، آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبردار فرمایا کہ اس نازک دور میں خود کو سنبھال کر رکھیں دین سے قریب تر رہیں اور اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہیں اسے بوسیدہ اور پرانا نہ ہونے دیں اس کا طریقہ یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ کی کثرت کریں۔ یہ وہ کلمہ ہے جس نے پہلے بھی ایمان بخشا ہے اور آئندہ بھی ایمان کی تجدید اور حفاظت کرے گا اور اس کا یہ فیض ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا: لا الہ الا اللہ ایسا محبوب و مقبول کلمہ ہے جو اللہ کی بارگاہ میں کسی حجاب اور رکاوٹ کے بغیر پہنچ جاتا ہے:
لَيْسَ لَهَا دُوْنَ اللّٰهِ حِجَابٌ. (ترمذی)
اور پڑھنے والا اس کے ثواب سے جھولیاں بھرلیتا ہے۔
شرط صرف اتنی ہے کہ قلب و جگر کی گہرائیوں کے ساتھ اس کو پڑھا جائے چنانچہ جس نے اس محبت کے ساتھ اس کو پڑھا کہ اس کی روح مخلص ہے، دل اس کا مصدق ہے اور زبان