دوسری عادت__’’ انجام پر نظر رکھنا ‘‘
قارئین کے پسندیدہ اس سلسلہ وار مضمون میں امریکن رائٹر ’’سٹیفن آرکووے‘‘ کی تحریر Seven Habits of highly efective people کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا جارہا ہے۔ کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے پہلی عادت ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ماہنامہ منہاج القرآن ماہ جنوری، فروری، اپریل اور جون 2011ء کے شماروں میں شائع کیا گیا۔ اسی مضمون کا اگلا حصہ کامیاب لوگوں کی دوسری عادت ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ نذرِ قارئین ہے:
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں انسان کی فطری کمزوریوں میں سے ایک کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولاً.
(الْإِسْرَاء - بَنِيْ إِسْرَآءِيْل ، 17 : 11)
’’اور انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں عجلت پسندی یا جلد بازی کا مادہ پایا جاتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں فوری نتائج چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ اُن کاموں کی طرف لپکتا ہے جہاں کوئی فوری فائدہ یا لذت دکھائی دے رہی ہو، خواہ اُس کا آخری انجام نقصان دہ ہی ہو لیکن اُن کاموں کی طرف آمادہ نہیں ہوتا جہاں کوئی وقتی فائدہ یا مصلحت نظر نہ آ رہی ہو یا بظاہر کوئی نقصان دکھائی دے رہا ہو اگرچہ آخر میں وہاں سے کوئی بہت بڑا فائدہ برآمد ہونا ہو۔ یہ انسان کی عجلت پسندی ہی ہے جو اُسے دنیا کے وقتی ، عارضی، فانی اور ناپائیدار فائدوں کی طرف اُکساتی ہے اور آخرت کے حقیقی نفع کو جو بظاہر دکھائی نہیں دے رہا اُسے نظروں سے اوجھل کر دیتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں انسان کی اس خامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَاo وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىo
(الْأَعْلیٰ ، 87 : 16. 17)
’’ بلکہ تم دنیوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘
دنیا کے مقابلے میں آخرت کے زیادہ بہتر اور زیادہ پائیدار ہونے کا تقاضا تو یہ تھا کہ انسان ہر حال میں دنیا کے فائدوں اور مصلحتوں پر آخرت کے فائدوں اور مصلحتوں کو ترجیح دیتا اور جہاں بھی یہ دونوں ایک دوسرے کے مدِّ مقابل ہوتے تو وہ دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف لپکتا لیکن عام طور پر ہوتا اس کے برعکس ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’ اگر دنیا ختم ہوجانے والا سونا ہوتی اور آخرت باقی رہنے والی مٹی ہوتی تو بھی عقل پر لازم تھا کہ وہ باقی رہنے والی مٹی کو فنا ہوجانے والے سونے پر ترجیح دیتیـــ، لیکن یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ آخرت باقی رہنے والے سونے سے بھی بہتر ہے اور اُس کے مقابلے میں دنیا ختم ہو جانے والی مٹی سے بھی کمتر ہے لیکن انسان اس کے باوجود اس فنا ہو جانے والی مٹی کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہی انسان کی عجلت پسندی ہے۔ دنیا کی رونقیں، فائدے اور لذتیں سامنے دکھائی دیتی اور محسوس ہوتی ہیں جبکہ آخرت کی تمام تر رعنائیاں، آرائشیں اور زیبائشیں پردہ کے پیچھے ہیں جو نہ آنکھوں سے دکھائی دیتی ہیں اور نہ فوراً محسوس ہوتی ہیں۔ گویا دنیا کا معاملہ نقد ہے اور آخرت کا اُدھار، انسان اُدھار کو چھوڑ کر نقد کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات چونکہ اس طرح کی کمیوں اور خامیوں سے منزہ اور مبرّا ہے لہٰذا وہ ہمارے لیے دنیوی زندگی کے عارضی فائدوں اور عیش و عشرت کے مقابلے میں اُخروی زندگی کے دائمی آرام و سکون کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ.
(الْأَنْفَال ، 8 : 67)
’’ تم دنیوی زندگی کا فائدہ چاہتے ہو اور اللہ آخرت کا ارادہ کرتا ہے۔‘‘
شاہراہ حیات پر چلتے ہوئے کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت کے تقاضے ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑے ہوتے ہیں۔ کسی ایک طرف کے مفاد کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ دوسری طرف کے مفاد کو نظر انداز کردیا جائے۔ ایسے تمام مواقع پر ایمان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان آخرت کو دنیا پر ترجیح دے، وہ دنیوی نقصان گوارا کرلے مگر آخرت کانقصان کسی قیمت پر گوارا نہ کرے۔
اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من احب دنياه اضر باخرته ومن احب اخرته اضر بدنياه فاثروا مايبقیٰ علی ما يفنیٰ.
(مجمع الزوائد، باب فی من احب الدنيا، ج 10، ص 249)
’’ جو شخص دنیا سے محبت کرے گا (یعنی دنیا کو آخرت پر ترجیح دے گا) وہ آخرت کا نقصان کرلے گا اور جو شخص آخرت سے محبت کرے گا (یعنی آخرت کو دنیا پر ترجیح دے گا) وہ اپنی دنیا کا نقصان کرلے گا۔ پس تم باقی رہنے والی چیز (یعنی آخرت) کو فنا ہوجانے والی چیز (یعنی دنیا) پر ترجیح دو۔ ــ‘‘
پھر دنیا اور آخرت کا رشتہ ایسا ہے کہ دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزاء۔ جیسا عمل ہم نے اس دارالعمل میں کرنا ہے ویسا ہی بدلہ ہمیں دارالجزاء میں ملنا ہے۔ یہ ایک اٹل قانون ہے جس طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
الدنيا مزرعة الاخرة
(فتح الباری، کتاب الرقاق، ج 11، ص 230)
’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ جو کچھ آج انسان نے بونا ہے وہی کل کو اُسے کاٹنا ہے اگر وہ دنیا میں رہتے ہوئے نیکی کی فصل کاشت کرے گا تو آخرت میں جنت کے سرسبز مرغزاروں کی صورت میں اُسے پالے گا لیکن اگر وہ آج بدی کے کانٹے بیج رہا ہے تو پھر قیامت والے دن جہنم کے شعلے ہی اُس کا انتظار کررہے ہوں گے۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ وہ زندگی فرعون والی گزارنا چاہتاہے اور انجام حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا چاہتا ہے جو کہ ناممکن ہے۔ حضرت واصف علی واصف رحمہ اللہ کے بقول:
’’ فرعون والی زندگی کا انجام بھی فرعون والا ہے اور موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا انجام بھی موسیٰ علیہ السلام والا ہے۔‘‘ چنانچہ کامیاب لوگوں کی دوسری عادت ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ ہے۔
انجام پر نظر رکھنا
اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی کام کو کرنے میں صرف یہ نہ دیکھا جائے کہ وقتی طور پر اُس میں کتنا مزا آرہا ہے یا مشقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بالفاظ دیگر وقتی لذت و راحت یا کلفت و مشقت کوکسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا معیار اور پیمانہ نہ بنایا جائے۔ اس کی بجائے یہ دیکھا جائے کہ اُس کام کا آخری انجام کیا ہوگا؟ اگر کوئی کام اپنے انجام کے اعتبار سے پسندیدہ اور مستحسن ہے تو پھر اُسے لازماً کیا جائے خواہ وقتی طور پر اُس میں نقصان دکھائی دے رہا ہو یا اُس میں لذت اور راحت میسر نہ آرہی ہو یا وہ طبیعت پر ناگوار ہی گزر رہا ہو لیکن اس کے برعکس اگر کسی کام کا آخری انجام ناخوشگوار، ناپسندیدہ اور غیر مستحسن ہے تو اُسے ترک کر دیا جائے اگرچہ عارضی طور پر اُس میں فوری لذت، ذائقہ اور راحت و مسرت محسوس ہو رہی ہو یا بظاہر نفع دکھائی دے رہا ہو۔ اصل دیکھنے والی چیز کسی بھی کام کا آخری نتیجہ ہے کیونکہ
انما العبرة بالخواتيم
’’اعتبار ہمیشہ خاتمے کا ہی ہوتا ہے۔‘‘
قرآنِ مجید میں ایک جگہ پر اہلِ ایمان کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ.
(الْحَشْر ، 59 : 18)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر جان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کل کے لیے کیا بھیج رہی ہے۔‘‘
اسلام دنیا کی ساری زندگی کو ایک دن قرار دیتا ہے اور یہ تلقین کرتا ہے کہ اس ایک دن کے ایک ایک لمحے کو اس طرح گزارا جائے کہ وہ آنے والے کل (یعنی قیامت والے دن) کے لیے خوشگوار نتائج و ثمرات جمع کر رہا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص نے سوال کیا کہ
من اکيس الناس و احزم الناس.
’’لوگوں میں سے سب سے زیادہ عقلمند اور دور اندیش کون ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اکثرهم للموت ذکراََ واکثرهم له استعدادا اولٰيک الا کياس ذهبوا بشرف الدنيا وکرامة الاخره.
(مجمع الزوائد، باب ما نهی عن قتله من النسآء، ج 5، ص 317)
’’جو سب سے زیادہ موت کو یاد کرتا ہے اور سب سے زیادہ اُس کے لئے تیاری کرنے والا ہے یہی لوگ سے سب زیادہ عقلمند ہیں۔ یہ لوگ دنیا و آخرت دونوں کی عزت و تکریم پا گئے۔ ‘‘
کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے عادت نمبر 2 ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ کا تقاضا ہے کہ سفرِ زیست کے ہرمرحلے میں انسان کے سامنے اپنی منزل کا واضح تصور موجود ہو کہ وہ اس وقت کہاں کھڑا ہے اور اُسے بالآخر کہاں پہنچنا ہے تاکہ وہ صحیح سمت کا تعین کرکے آگے بڑھ سکے۔ اس طرح اُس کا ہر اُٹھنے والا اگلا قدم اُسے منزل کے قریب سے قریب تر کرتا چلا جائے گا۔ بصورتِ دیگر یہ عین ممکن ہے کہ انسان روز مرہ زندگی کے کاموں اور مصروفیات میں اُلجھ کر رہ جائے اور اپنی دانست میں کامیابی کی سیڑھی پر بڑی محنت سے زینہ بہ زینہ بڑھتا چلا جائے لیکن آخر میں اُسے پتہ چلے کہ سیڑھی غلط دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ اس صورت اس کا سارا سفر بیکار اور رائیگاں چلا جائے گا اور سوائے مایوسی اور پچتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
معمولاتِ زندگی میں اعتدال و توازن
بہت سارے لوگوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ زندگی کے کسی ایک شعبے مثلاً ڈاکٹر، ماہرِ تعلیم، ایکٹر، سیاست دان، کھلاڑی وغیرہ بننے اور اس میں مزید مہارت حاصل کرنے نیز اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ دولت اور شہرت کے حصول کی کوشش میں زندگی کا بیشتر حصہ گزار دیتے ہیں اور آخر میں اُنہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کی اس تمام جدوجہد نے انہیں ان چیزوں کی طرف سے اندھا کردیا تھا جو زندگی میں دراصل کہیں زیادہ اہم تھیں اور اب کہیں کھو چکی ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی حاصل کردہ کامیابیوں کو اندر سے خالی پاتے ہیں اور اُنہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ تمام کامیابیاں اُن چیزوں سے کہیں چھوٹی ہیں جن کی قیمت پر انہیں حاصل کیا گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان اپنے پسندیدہ شعبے میں کامیابی اور مہارت حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ جدوجہد نہ کرے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ انسان زندگی کے کسی ایک گوشے کی طرف اتنا زیادہ نہ جھک جائے کہ دوسرے بہت سارے اہم گوشے نظر انداز ہو جائیں۔ بالفاظ دیگر وہ زندگی کو ایک کُل کے طور پر لے نہ کہ کسی ایک جز کو کُل سمجھ کر اُس کے پیچھے ہی چلتا جائے۔ زندگی کے تقاضوں میں توازن رکھناہی اصل دانشمندی ہے۔
درست سمت اور ترجیحات کا تعین
بامقصد زندگی اسی وقت ممکن ہے اگر ہمیں یہ شعور نصیب ہوجائے کہ ہمارے لیے کیا زیادہ اہم ہے۔ پس اس آگہی کے ساتھ ہم اپنے ہر دن کو گزاریں۔ ہم ویسے ہی رہیں جیسے ہمیں رہنا چاہیے اور وہی کریں کہ جو ہمارے لیے زیادہ اہم ہے۔ اگر سیڑھی صحیح دیوار کے ساتھ نہیں کھڑی تو پھر ہمارا ہر اگلا قدم ہمیں غلط منزل کی طرف ہی بڑھائے گا یا ہم نے غلطی سے بلا سوچے سمجھے اپنی منزل کے 180 ڈگری زاویے کی سمت چلنا شروع کر دیا تو ہمارا ہر اگلا قدم ہمیں منزل کے قریب کرنے کی بجائے دور لے جانے کا باعث بنے گا۔ چاہے ہم نے کتنی ہی کوشش اور کاوش کیوں نہ کی ہو۔ لہٰذا صرف ہمارا چلنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ سمت کا درست ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ تمام اُسی وقت ممکن ہے جب ہم انجام پر نظر رکھیں اور چلنے سے پہلے منزل کا تعین کریں اور پھر اُس کے مطابق صحیح راستے کا انتخاب کر یں۔ اسی صورت میں ہم کامیابی کی منزل سے ہمکنارہوسکتے ہیں۔
زندگی کی کسوٹی۔۔۔ آخرت
کامیاب لوگوں کی اس دوسری خصوصی عادت کا زندگی کے مختلف حالات اور منازل پر اطلاق ہوتا ہے لیکن ’’ انجام پر نظر رکھنا ‘‘ کابنیادی اور بہترین استعمال یہ ہے کہ ہمارے سامنے زندگی کا اخیر رہے اور اسی معیار کومدِ نظر رکھتے ہوئے ہم زندگی کی ہر چیز کو پرکھیں۔ زندگی کے ہر پہلو میں ہماری جملہ حرکات و سکنات اور روّیہ جات کی پرکھ تمام تر زندگی کے حوالے سے ہونی چاہیے۔ اسی صورت میں ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ زندگی کے ہر دن میں ہم جو کچھ بھی کریں گے وہ زندگی کوبامعنی بنانے کے ساتھ ساتھ اُس کے معیار کو اعلیٰ سے اعلیٰ بناتا چلا جائے گا اور زندگی کے دامن کو حقیقی خوشیوں، مسرتوں اور راحتوں سے بھرتا چلا جائے گا۔
ایسا چلن چلو کہ دنیا مثال دے
مصنف کتاب (سٹیفن آرکووے) نے اس تصور کو واضح کرنے کے لیے قارئین کو ایک خوبصورت تجربے سے گزرنے کے لئے کہا ہے۔ قارئین سے کہا گیا ہے کہ
’’وہ تصور کریں کہ اُن کے مرنے کے بعد اُن کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد کیا گیا ہے۔ جس میں سامعین کی بہت بڑی تعداد ہے۔ مقررین کی تعداد چار ہے۔ جن میں سے ایک مرنے والے کا قریبی عزیز مثلاً بھائی یا بیٹا ہے۔ دوسرا اُس کا کوئی قریبی دوست ہے۔ تیسرا اُس کے شعبے کا قریب ترین ساتھی ہے اور چوتھا اُس رفاہی ادارے کا کوئی اہم رکن ہے جس کو وہ چندہ وغیرہ دیتا رہا ہے۔ اب متوفی سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ مقررین سے اپنے بارے میں کس قسم کے خیالات سننا چاہتا ہے‘‘؟
مصنف کہنا یہ چاہتا ہے کہ جو کچھ ہم دنیا والوں سے چاہتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد وہ ہمیں ان الفاظ میں یاد رکھیں تو وہی کچھ آج ہم بننا شروع کر دیں اور اُسی رویے اور برتاؤ کو اپنا لیں۔ اسی صورت میں ہماری یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے، کیونکہ ہمارا ہر طرزِ عمل ہمارے اردگرد کے لوگوں کی آنکھوں اور کانوں سے گزر کر اُ ن کے دل و دماغ میں ہماری تصویر بناتا چلا جاتا ہے۔ اب یہ ناممکن ہے کہ دوسروں کے ساتھ ہمارا رویہ ناپسندیدہ اور نامعقول ہو اور لوگ ہماری غیر موجودگی میں بھی ہمارے متعلق اچھے خیالات کا اظہار کر سکیں۔
اسی طرح ہم اپنی اولادوں کو ذہین و فطین، مؤدب اور دیگر اچھی صفات سے آراستہ و پیراستہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اپنی ذمہ داری کا بھرپور احساس کرتے ہوئے اُنہیں وہ ماحول فراہم کرنا ہوگا اور اُن کی تربیت کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا تا کہ اُن میں ہماری مطلوبہ صفات پیدا ہو سکیں۔ اگر ہم اس حوالے سے لا پرواہی کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتے تو پھر اس بات کا قوی امکان ہے کہ اولاد کے حوالے سے ہماری خواہشات کا آئینہ چکنا چور ہوجائے اور اس کے برعکس اُن کے کردار میں وہ ناپسندیدہ اوصاف پیدا ہوجائیں جن سے ہم اُن کو بچانا چاہتے تھے۔
اعمال و نتائج باہم لازم و ملزوم
ہمیں اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اعمال اور اُن کے نتائج اسی طرح لازم و ملزوم ہیں جس طرح سورج کے ساتھ حرارت اور روشنی لازم و ملزوم ہیں۔ ہم اعمال کے ارتکاب میں تو آزاد ہیں لیکن اُن کے نتائج سے بچنے میں آزاد نہیں ہیں۔ جس طرح کے اعمال کریں گے اُسی طرح کے نتائج بھی ہمیں بھگتنا پڑیں گے۔ بالفاظِ دیگر جو کچھ بوئیں گے وہی کاٹنا بھی پڑے گا۔
مثلاً ہماری مرضی ہے کہ ہم ایک بلڈنگ کی دسویں منزل سے چھلانگ لگا دیں یا چلتی ہوئی ٹرین کے آگے کود جائیں یا جلتی ہوئی آگ میں ہاتھ ڈال دیں مگر ہر صورتِ حال میں اُس سے وابستہ جو نتائج ہیں اُن کا سامنا ہمیں کرنا ہی ہو گا۔
جب اعمال اور اُن کے اثرات اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں تو پھر ہمیں جان لینا چاہیے کہ اچھے نتائج کے حصول کے لیے ہمیں لازماً اچھے کام بھی کرنا پڑیں گے اور بُرے نتائج سے بچنے کے لیے ہمیں لازماً بُرے کاموں سے بچنا پڑے گا۔ لہٰذا اس اُصول کی روشنی میں ہمیں دقتِ نظر سے خوب غور و فکر کے ساتھ اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ ہم زندگی سے کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیا بننا چاہتے ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔ نیز زندگی کو کس انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ بعد ازاں اس تعین کے مطابق ایک لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا اور ثابت قدمی اور استقامت سے اُس پر چلنا ہوگا۔ بالفاظِ دیگر زندگی کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرنے کے لیے زندگی کا نصب العین متعین کرنا اور اُس کے لیے ایک نقشہ بنانا ضروری ہے۔
بے مقصدیت کے نقصانات
اگر زندگی میں عمل کی راہوں کو متعین نہ کیا اور نتائج سے بے نیاز ہوکر زندگی کو ترجیحات کے بغیر ہی گزارتے چلے گئے تو مندرجہ ذیل دو نقصانات ہو سکتے ہیں:
1۔ زندگی بے کار، غیر ضروری، ادنیٰ اورپست ترین کاموں میں گزر جائے گی، کیونکہ ہمارے دل و دماغ میں ہر وقت خواہشات، تمناؤں، آرزوؤں، خواہشوں، چاہتوں، حسرتوں اور ارمانوں کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔ بقول غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
انسان کے من میں پیدا ہونے والی ساری خواہشات نہ تو اچھی ہوتی ہیں اور نہ ہی ہر خواہش کی تکمیل کی جا سکتی ہے۔ اب اگر انسان کے سامنے زندگی کا کوئی واضح تصور نہیں ہوگا تو وہ خواہشات کی ان تتلیوں کے پیچھے اندھا دھند بھاگنا شروع کردے گا اور نتیجۃً زندگی کو فضول، لغو اور بے کار کاموں میں گزارتے ہوئے ضائع کر دے گا۔ اپنے آپ کو انسانیت کے بلند ترین مقام سے نیچے گرا کر حیوانیت کی سطح پر لے آئے گا اور اُن کمالات کو پانے سے محروم رہ جائے گا جن کو پانے کی صلاحیت اور استعداد اللہ تعالیٰ نے اُس کے اندر رکھی ہوئی تھی۔
2۔ دوسرا نقصان یہ ہوسکتا ہے کہ زندگی ماحول اور معاشرے کے بنائے ہوئے سانچوں میں ڈھل جائے۔ ہر انسان جس ماحول میں رہ رہا ہوتا ہے اُس میں بے شمار اچھی، بُری رسمیں اور رواج کار فرما ہوتے ہیں۔ بہت سی حدود و قیود اور خود ساختہ ضابطے بنے ہوتے ہیں۔ معاشرے کا دباؤ ہر شخص کو مجبور کرتا ہے کہ وہ انہی ضابطوں میں ڈھلتا چلا جائے اور معاشرہ جس رو میں بہہ رہا ہے اُسی میں ہر فرد بہنے لگے۔ لیکن یہ بات شرفِ انسانیت کے منافی ہے اور عظمت کے معیارات پر بھی پوری نہیں اُترتی۔
قرآن وحدیث ایک فرد کو اس طرح کی اندھی تقلید سے منع کرتے ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ.
(الْأَنْعَام ، 6 : 116)
’’اور اگر تو نے زمین میں رہنے والے اکثر لوگوں کی پیروی کی تو یہ تجھے گمراہ کردیں گے۔‘‘
دوسرے مقام پر اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا
اِنْ يَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّن
’’وہ نہیں پیروی کرتے ہیں مگر اپنے گمان کی۔‘‘
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ.
(الْكَهْف ، 18 : 28)
’’اور ایسے شخص کی پیروی مت کر جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔‘‘
اسی سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
لا طاعة لمخلوق فی معصية الخالق.
(مصنف ابن ابی شيبه، ج 6، رقم : 33717)
’’خالق کی ناراضگی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔‘‘
حضرت واصف علی واصف رحمہ اللہ کے بقول
’’دنیا کے عظیم راہنما وقت کے دیے ہوئے معیار سے بہت بلند ہوتے ہیں۔‘‘
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’سوچنے والوں کی دنیا، دنیا والوں سے الگ ہوتی ہے۔‘‘
چنانچہ ماحول اور معاشرہ ہر کسی کو اپنے رنگ میں رنگنا اور اپنی ڈگر پر چلانا چاہتا ہے۔ صرف وہی شخص اس کے اثرات سے بچ سکتا ہے جس نے انجام پر نظر رکھی اور اس تصور کو اپنے من میں اُتارتے ہوئے خوب غوروفکر سے زندگی کے مقاصد کو متعین کر لیا ہو اور اُس کے لیے ایک واضح لائحہ عمل تشکیل دے لیا ہو۔ نیز جو اپنی جملہ حرکات و سکنات اور اعمال و افعال میں انجام کو ذہن میں رکھ کر شروع کرنے کی عادت اپنا چکا ہو، اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ وہ ہر معاملے میں زمانے کی روش کے خلاف چلے گا۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ مروجہ رسوم و رواج کا دقتِ نظر اور باریک بینی سے جائزہ لے گا اور جو کچھ حق و صداقت اُن میں دکھائی دے گا جو قرآن و حدیث کے دئیے ہوئے معیارات کے مطابق ہو اور زندگی کے حقیقی مقاصد سے ہم آہنگ ہو تو اُس کو اختیار کرلے گا اور جو اس معیار پر پورا نہیں اُترے گا اُس کو چھوڑ دے گا۔
تخلیق کے دو پہلو
کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں دوسری عادت"انجام پر نظر رکھنا"کی بنیاد اس اُصول پر ہے کہ تمام چیزیں دوبار تخلیق کی جاتی ہیں:
- ہر چیز پہلے ذہنی سطح پر معرض وجود میں آتی ہے۔
- بعد ازاں طبعی سطح پر وجود میں آتی ہے۔
گویا کسی بھی چیز کا وجود پہلے ہمارے تخیل میں تشکیل پاتاہے اور اُس کے بعد ہی وہ چیز عملی سطح پر وجود پذیر ہوتی ہے۔ اس قانون کی مثالیں جابجا دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثلا ً
- جب ہم ایک گھر تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو تعمیر کا آغاز کرنے سے پہلے اُس کا ایک مکمل نقشہ ہمارے ذہن میں بن چکا ہوتا ہے بلکہ اکثر و بیشتر صورتوں میں اُسے کاغذ پر بھی منتقل کیا جا چکا ہوتا ہے اور پھر ہی اُس کی تعمیر کے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے۔
- اسی طرح کسی بھی سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ہمارے ذہن میں منزل کا ایک واضح نقشہ موجود ہوتا ہے کہ ہمیں کہاں پہنچنا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اُس منزل تک پہنچنے کے تمام مراحل بھی پہلے تخیل یا ذہن کی سطح پر ہی ترتیب پاتے ہیں اور پھر ہی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔
- یونہی کسی تحریر کو لکھنے سے پہلے موضوع یا عنوان کا تعین اوراُس کے خدوخال تخیل کی سطح پر نمودار ہوتے ہیں اور پھر وہ تحریر کا لبادہ پہنتے چلے جاتے ہیں۔
دنیا کے اندر آج تک جتنی بھی ایجادات اور ترقیاں ہوئی ہیں۔ بغیر کسی استثنیٰ کے اُن سب کا پہلا نقشہ موجدوں کے ذہن میں بنا اور پھر دوسرے درجے میں جا کر عملی شکل میں معرض وجود میں آئیں۔
ذہنی منصوبہ بندی کی اہمیت
سطورِ بالا سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں کسی بھی کام کو خوش اُسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پہلے ذہنی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور پھر اُس پر عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنی اچھی منصوبہ بندی ہو گی اُتنا ہی بہتر طریقے سے وہ کام سرانجام پائے گا۔
ترکھانوں کے ہاں ایک اصول رائج ہے کہ "دو مرتبہ ناپو اور ایک مرتبہ کاٹو" اس کا مطلب یہی ہے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اچھی طرح سوچ بچار سے لائحہ عمل بنالیا جائے تاکہ بے خبری میں غلط قدم اُٹھا کر بجائے فائدہ کے اُلٹا نقصان نہ کر لیا جائے۔
اس طرح فوجیوں کو ایک اصول سکھایا جاتا ہے"Maintenance of Aim" (ہدف کو برقرار رکھنا) یعنی چلتے ہوئے ہر قدم پر منزل کا واضح تصور ذہن میں رکھنا تاکہ بے دھیانی میں قدم غلط سمت میں نہ اٹھنے لگیں اور انسان منزل کے قریب ہونے کی بجائے مزید دور نہ ہوتا جائے۔ حضور علیہ السلام نے قبیلہ عبدالقیس کے سربراہ سے فرمایا!
اِن فيک لخصلتن يحبهما الله الحلم والاناة
(صحيح مسلم، باب الامر بالايمان، ج 1، ص 48، رقم 18)
’’ تمہارے اندر دو خصلتں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں ایک حلم (غصہ سے مغلوب نہ ہونا) اور دوسرے جلدی نہ کرنا (بلکہ ہر کام کو سوچ سمجھ کروقار اور شائستگی سے سرانجام دینا)‘‘۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا !
السمت الحسن والتودة والاقتصاد جزء من اربع وعشرين جزء ا من نبوة.
(سنن ترمذی، باب ماجآء فی التانی والعجلة، رقم : 2010)
’’اچھی سیرت اور اطمینان و وقار سے اپنے کام سرانجام دینے کی عادت نبوت کے 24 حصوں میں سے ایک حصہ ہے‘‘۔
ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الاناة من الله والعجلة من الشيطان.
(سنن ترمذی، باب ماجآء فی الرفق، رقم : 2012)
’’شائستگی اور متانت سے اپنے کاموں کو سرانجام دینا اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کی طرف سے ہے‘‘
مطلب یہ ہے کہ غوروفکر اور سوچ و بچار کے بعد سرانجام دئیے جانے والے کاموں میں دانشِ رحمانی شامل ہوتی ہے جبکہ اس کے برعکس جو کام بھی بلا سوچے سمجھے اور انجام پر غور کئے بغیر جلد بازی میں کئے جاتے ہیں اُن میں شیطانی عمل کی آمیزش شامل ہوجاتی ہے۔
عادت نمبر 1 اور 2 کا باہمی تعلق
ذیل میں کامیاب لوگوں کی پہلی دو عادات ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘ اور ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ کے مابین پائے جانے والے تعلق کو واضح کرتے ہیں۔
- عادت نمبر 1 نے بتایا کہ آ پ اپنی گاڑی کے ڈرائیور ہیں نہ کہ مسافر۔۔۔ جب کہ عادت نمبر 2 کہتی ہے کہ فیصلہ کریں آپ نے کہاں جانا ہے اور اُس جگہ کا نقشہ کھینچیں۔
- عادت نمبر 1 نے بتایا کہ آپ تخلیق کار ہیں۔۔۔ عادت نمبر 2 کہتی ہے کہ اپنی پہلی تخلیق خود کریں۔
- عادت نمبر 1 نے بتایا کہ آپ پروگرامر ہیں۔۔۔ عادت نمبر 2 کا مطالبہ ہے کہ اپنا پروگرام خود بنائیں۔
ہمارا طرز عمل اور ذمہ داری کا تقاضا
یہاں عام لوگ یہ غلطی کرجاتے ہیں کہ روزمرہ کی زندگی کے عام معمولات میں وہ تخلیق کے پہلے گوشے یا پہلو (یعنی ذہنی تخلیق) کو بالعموم شعوری طور پر یا سوچ سمجھ کر نہیں کرتے اور بلا سوچے سمجھے جو بات ذہن میں آجائے اُس پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہیں سے انسانی زندگی کی بیشتر محرومیوں اور گمراہیوں کا آغاز ہوتا ہے ۔ علاوہ ازیں انسان کی رائے کو ایک خاص شکل دینے میں اُس کے اردگرد کا ماحول ، معاشرتی رسوم و رواج، دوست احباب، والدین کی تربیت اور سکول و کالج کی تعلیم وغیرہ جیسے عوامل بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نتیجتاً انسانی شخصیت ایک خاص سانچے میں ڈھلتی جاتی ہے۔ انسان دوسروں کے لکھے ہوئے سکرپٹ پر اداکاری کرتے ہوئے ہی اپنی قیمتی اور انمول زندگی کو ضائع کرتا چلا جاتا ہے اور اپنے مخصوص جوہر کو دریافت کرنے اور اُسے بروئے کار لانے نیز اپنے اُس کردار کو بھرپور طریقے سے سرانجام دینے میں ناکام رہتا ہے جو دنیا کی اس سٹیج پر قدرت کی طرف سے اُس کے لیے ودیعت کیا گیا تھا۔
ہمیں جان لینا چاہیے کہ زندگی جیسی گرانقدر دولت صرف اور صرف ایک بار ملتی ہے۔ پھر موت زندگی کا اختتام نہیں ہے بلکہ حیات جاودانی کا دیباچہ ہے جس کے اچھے یا بُرے ہونے کا دارومدار مکمل طور پر اس بات پر ہے کہ ہم نے اس چند روزہ زندگی کو کیسے گزارا۔ لہذا صورت حال کی حساسیت (Sensitivity) اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم شاہراہ حیات پر آنکھیں کھول کر چلیں اور پھونک پھونک کر قدم رکھیں۔ اس مقصد کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم قرآن و حدیث کی تعلیمات سے راہنمائی لیتے ہوئے، اپنے حالات اور ماحول کے تقاضوں اور مجبوریوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نیز اپنے ذوق، رجحان و مزاج اور اپنی منفرد خصوصیات کی گہری معرفت حاصل کرتے ہوئے خوب غوروفکر کر کے زندگی کا ایک لائحہ عمل ترتیب دیں۔ زندگی گذارنے کے کچھ راہنما اصول اور ضابطے مقرر کریں ۔ جن کی بنیاد ابدی سچائیوں پر ہو اور جو فطرت کے اُصولوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوں۔ پھر اُن اصولوں کو دل و دماغ میں نقش کر لیں اور زندگی کے ہر دن کے ہر لمحے میں اپنی جملہ حرکات و سکنات، تمام فیصلہ جات اور عملی اقدامات میں اُن کو حتی الوسع ملحوظ خاطر رکھیں۔
یہ گویا ہمارے لیے زندگی کا آئین ہوگا جس کی روشنی میں ہم زندگی کے معاملات کو بہتر انداز سے چلانے کے قابل ہو جائیں گے اور ادھر اُدھر بھٹکنے سے بچ جائیں گے۔ بالکُل اسی طرح جیسے ایک مہذب ملک کو چلانے کے لیے ایک آئین ضروری ہوتا ہے اور اُس کے تمام معاملات اُسی کی روشنی میں طے کیے جاتے ہیں۔ اس آئین کی موجودگی میں ایک طرف تو ہم اپنے اندر اُٹھنے والی ناجائز خواہشات کے منہ زور ریلے میں بے بس تنکوں کی مانند بہنے سے بچ جائیں گے اور دوسری طرف ماحول اور معاشرے کے لکھے ہوئے سکرپٹ پر اداکاری کرنے سے بچ جائیں گے۔ ہمارا ہر قدم ہمارے طے شدہ اُصولوں اور اعلیٰ اقدار کا ترجمان ہو گا۔ نتیجتاً زندگی کا معیار بہتر سے بہتر ہوتا چلا جائے گا اور زندگی کا دامن سچی خوشیوں، دائمی مسرتوں اور ابدی راحتوں سے بھرتا چلا جائے گا۔ نہ صرف یہ کہ ہماری دنیوی زندگی خوشگوار ہوتی چلی جائے گی بلکہ اس زندگی کے اختتام پر جو ابدی زندگی آنے والی ہے اُس میں بھی ہم کامیاب اور سرخرو ہو سکیں گے۔ یہی کامیاب لوگوں کی خصوصی عادت ’’انجام پر نظر رکھنے‘‘ کا منتہائے مقصود ہے۔
شہر اعتکاف 2011ء
تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام ’’شہر اعتکاف‘‘ کا انعقاد تحریک کی پہچان ہے اور حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اعتکاف کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پچھلے سال سیلاب کی وجہ سے اعتکاف کا انعقاد نہ ہوسکا اور اس سے پچھلے سال کم جگہ کی دستیابی کی وجہ سے اعتکاف کو محدود کرنا پڑا۔ اس سال چونکہ الحمدللہ تمام انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں۔ لہذا گزشتہ سالوں کی نسبت کئی زیادہ معتکفین کے لئے اعتکاف گاہ میں گنجائش موجود ہوگی۔ جملہ تنظیمات، رفقاء اور کارکنان اعتکاف کو کامیاب بنانے کے لئے بھرپور محنت کریں۔
ایڈوانس بکنگ: 15 جولائی سے 15 اگست2011ء رجسٹریشن فیس: 1200 روپے
بکنگ پہلے آیئے پہلے پایئے کی بنیاد پر ہوگی۔ اعتکاف گاہ میں گنجائش کے مطابق ہی بکنگ کی جائے گی۔ اس کے بعد بکنگ بند کردی جائے گی۔
رابطہ: محمد جواد حامد (ناظم اجتماعات و مہمات) تحریک منہاج القرآن
0313.333.4244365, 042.35163843, 042.111.140.140