دم درود اور تعویذات کی شرعی حیثیت
بعض شیطانی قوتیں ہر وقت یہی سوچتی اور منصوبہ بندی کرنے میں مصروف رہتی ہیں کہ اختلافات و تعصبات کی ماری ہوئی اس امت کو کہاں کہاں مذہبی، سیاسی اور مسلکی تنازعات میں الجھانے کے امکانات ہیں۔ چنانچہ وہ مذہب و مسلک کے نام پر اور کبھی سیاست و ثقافت کے نام پر صرف عوام ہی نہیں بلکہ نام نہاد خواص کو بھی گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جھوٹے پروپیگنڈا سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھاتے ہیں۔
دنیا میں موت و حیات اور صحت و بیماری کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ بیماری بھی اﷲ ہی پیدا کرتا ہے اور صحت و شفاء بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ اُسی نے ہمیں دواء و علاج کا حکم دیا ہے اور اُسی نے دواؤں میں اثر رکھا ہے۔ جس طرح دواؤں میں شفاء کا اثر رکھا ہے اسی طرح دُعاء اور دم درود میں بھی شفاء کا اثر رکھا ہے۔ دواؤں اور دعاؤں میں وہ چاہے تو شفاء ہے نہ چاہے تو کچھ نہیں۔ ہر دواء میں ہر وقت ہر ایک کیلئے شفاء ہی ہوتی تو تمام ہسپتالوں سے علاج کے بعد شفایاب ہو کر ہی نکلتے، کسی کی میت گھر نہ پہنچتی۔ یہی حال دم درود اور جھاڑ پھونک کا ہے۔ جیسے صحیح تشخیص کے بعد معیاری دواؤں کے استعمال سے امید کی جاسکتی ہے کہ مریض شفایاب ہو اسی طرح اﷲ تعالیٰ کے نام و کلام سے کسی بیمار کو کسی بھی بیماری سے شفایاب ہونے کے لیے قرآن و حدیث میں موجود پاک کلام سے جھاڑ پھونک یعنی دم کرنے سے مریض کے شفایاب ہونے کی قوی امید کی جا سکتی ہے۔ شفاء دینا، نہ دینا اس کا کام ہے۔ چارہ علاج کرنا ہمارا کام ہے۔ جیسے طبی طریقہ ہائے علاج اختیار کرنے میں کوئی کسی کو طعن و طنز نہیں کرتا تو اﷲ کے نام و کلام سے دم کرنے کے طریقہ علاج پر زبان طعن و تشنیع دراز کیوں کی جائے؟
اچھے بُرے کلمات میں اثر کا کون انکار کر سکتا ہے؟ جَزاکَ اﷲ خَيْرًا، السَّلَامُ عَلَيْکُمْ. بھی کلام ہے جس کے سننے والے اور کہنے والے پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔ لعنتی، خبیث، شیطان بھی کلام ہے جس کے سننے والے پر بُرے اثراث مرتب ہوتے ہیں۔ یونہی کسی بیمار پر کلماتِ طیّبات جن کا معنٰی و مفہوم بھی معلوم ہے اور جن میں کفر و شرک کا مفہوم بھی نہیں پایا جاتا اگر پڑھ کر کسی بیمار کو جھاڑا جائے، پانی یا دودھ وغیرہ پر دم کرکے اُسے استعمال کیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ اس میں کونسا کفر و شرک پایا جاتا ہے؟ یہ تو اﷲ تعالیٰ، ملائکہ اور انبیاء و اولیاء کا طریقہ حقہ ہے۔ پھر اس کے خلاف محاذ آرائی اور مخالفت فی سبیل اﷲ فتنہ و فساد نہیں تو کیا ہے؟ یہ جہالت و تعصب نہیں تو کیا ہے؟ اسے بدعت و شرک کہا جائے توہمیں بتایا جائے کہ پھر توحید و سنت کیا ہے؟ اس مضمون میں اسی کی تشریح و توضیح کی گئی ہے۔
٭ لغوی تحقیق: عربی زبان میں دم درود، جھاڑ اور پھونک کے لئے الرُّقٰی اور اَلرُّقْيَة کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
قال ابن الأثير:الرُّقْيَةُ العُوذة الّتی يُرْقیٰ بها صاحبُ الآفةِکالحُمَّی والصَّرَع وغير ذلک من الآفات، وقد جاء فی بعض الأَحاديث جوازُها و فی بعضِها النَّهْیُ عنها.
ابن اثیرالجوزی نے کہا’’رُقْیَۃُ‘‘ سے مراد وہ دُعا ہے جس سے مصیبت زدہ کو جھاڑا جائے۔ مثلاً بخار، بے ہوشی اور اس طرح کی دوسری آفات۔ بعض احادیث میں اس کاجوازاوربعض میںممانعت آئی ہے۔
فمنَ الجوازقوله: استَرْقُوالَها فاِنَّ بها النَّظْرَة، أی اطْلبُوالها من يَرْقِيها.
’’جوازکی ایک مثال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کایہ فرمان ہے: اسے جھاڑ پھونک کرو اس عورت کو نظر بد لگ گئی ہے، مطلب یہ کہ اس کے لئے کوئی جھاڑ پُھونک کرنیوالا تلاش کرو‘‘
ممانعت کی ایک مثال یہ ہے: لايَسْتَرْقُون ولايَکْتَوُون. ’’نیک لوگ نہ جھاڑ پھونک کریں نہ داغیں‘‘
احادیث کے مابین مطابقت
جھاڑ، پھونک اور دم درود کی تائید اور مخالفت میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ دونوں اطراف کی ان احادیث کے مطابین مطابقت یوں کی جاسکتی ہے کہ
وہ جھاڑپھونک مکروہ ہے:
(1) جوعربی زبان میں نہ ہو۔
(2) اﷲ تعالیٰ کے مقدس ناموں سے، اسکی صفات اور کلام سے نہ ہو، اس کی نازل کردہ کتابوں میں نہ ہو۔
3۔ عقیدہ یہ رکھا جائے کہ دم درود لازمی فائدہ دے گا اور اسی پر توکل کر لیا جائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان پاک کا یہی مطلب ہے: ماتوکّل من استرقیٰ. ’’جس نے جھاڑپھونک کیااس نے توکل نہیں کیا‘‘۔
اس کے علاوہ جو جھاڑ پھونک ہے وہ مکروہ نہیں۔ کالتعوّذبالقرآن وأَسمآء اﷲتعالٰی والرَُّقَی المَرْوِيَّةِ۔
’’جیسے قرآن کریم اور اﷲ تعالیٰ کے اسمائے مقدسہ، اس کی صفات، اس کی نازل کی گئی کتابوں میں موجود کلام اور جو دم جھاڑ حدیث پاک میں مروی ہے۔‘‘
اسی لیے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی سے جنہوں نے قرآن کریم سے جھاڑ پھونک کی تھی اور اس پر اجرت بھی لی تھی، فرمایا:
مَنْ أخَذ برُقْية باطِلٍ فقد أَخَذْت بِرُقْية حَقٍّ
’’وہ لوگ بھی تو ہیں جو باطل جھاڑ پھونک پر اجرت لیتے ہیں، تم نے تو برحق دم کر کے اجرت لی‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان جو حدیث جابر میں ہے وہ بھی اس دم درود اور اس میں استعمال ہونے والے کلمات کی وضاحت کررہا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اعْرِضُوْهَا عَلَیَّ فعرَضْنا ها فقال لابأس بها اِنما هی مواثِيقُ. کأَنّه خاف أَن يقع فيها شيی ممّاکانوا يتلفظون به ويعتقدونه من الشرک فی الجاهلية وما کان بغير اللسان العربی ممّا لايعرف له ترجمته ولا يمکن الوقوف عليه فلا يجوز استعماله.
’’وہ دم جھاڑمیرے سامنے لاؤ! ہم نے پیش کردیافرمایاکوئی حرج نہیںیہ تووعدے معائدے ہیں۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈر تھا کہ کہیں دم میں کوئی ایسا حرف نہ ہو جسے وہ بولاکرتے۔ جس شرک کا دورِ جاہلیت میںعقیدہ رکھتے تھے، یاجوعربی زبان میںنہ ہو، جس کاترجمہ نہ آئے اورنہ اس کامفہوم تک پہنچناممکن ہو۔ پس ایسادم جائزنہیں۔
سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھی بعض اوقات کئی احباب دم، درود، تعویذات کو چند ایک مقاصد تک محدود کرنے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ’’نظر بد اور بخار کے علاوہ کسی اورمقصدکیلئے دم درود نہیں‘‘۔
اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اس دم سے بڑھ کرکوئی دم بہتر اور نفع دینے والا نہیں اورحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سے زائد صحابہ کرام کو جھاڑ پھونک کا حکم دیا اور ایک بڑی جماعت کے بارے میں سنا کہ وہ جھاڑ پھونک کرتے تھے اورآپ نے ان پر انکار نہیں فرمایا۔ (لسان العرب، 5 : 294)
احادیث مقدسہ کی روشنی میں
1۔ حضرت ابوھریرہ رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ما أنزل اﷲ دآء اِلَّاأنزلَ له شفاء.
(بخاری، الصحيح، 5 : 2151، کتاب الطب، رقم : 5354)
’’اﷲ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کے لیے شفاء نہ اتاری ہو۔‘‘
2۔ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لِکُلِّ دائٍ دوائٌ، فاذا اُصِيْبَ دوائٌ برَأ باذن اﷲ عزوجل.
(مسلم، الصحيح، 4 : 1729، رقم : 2204)
’’ہر بیماری کیلیے دواء ہے جب دواء بیماری کو پہنچتی ہے، بیماری اﷲ عزوجل کے حکم سے ٹھیک ہوجاتی ہے۔‘‘
3۔ حضرت انس رضی اﷲعنہ سے روایت ہے:
رخَّصَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فِی الرُّقْيَةَ مِنَ العين وَالحُمَةِ والنَّمْلة.
(مسلم، الصحيح، 4 : 1725، رقم : 2196)
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین چیزوں کیلیے جھاڑ پھونک کی اجازت دی (1)نظر بد (2) بچھو وغیرہ کے کاٹے پر (3) پھوڑے پھنسی کیلئے۔‘‘
4۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہاسے روایت ہے:
أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم کان يأمرها أن تسترقی من العين.
(بخاری، الصحيح، 5 : 2166، رقم : 5406)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا) کو نظر بد سے بچنے کیلیے جھاڑ پھونک کا حکم دیا کرتے تھے۔‘‘
5۔ سیدہ ام سلمہ رضی اﷲ عنھاسے روایت ہے:
انَّ النّبیّ صلی الله عليه وآله وسلم رَأی فی بيتها جاريةً فی وَجْهِهَا سَفْعَة ًفقال اِسْتَرْقُوْا لها فانّ بها النظرة.
(بخاری، الصحيح، 5 : 2167، رقم : 5407)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے گھر ایک لڑکی دیکھی جس کا چہرہ زرد تھا۔ فرمایا: اسے جھاڑ پھونک کرو، اسے نظر لگ گئی ہے۔‘‘
6۔ حضرت جابررضی اﷲعنہ سے روایت ہے:
نهٰی رسُولُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم عنِ الرُّقی، فجاء آل عمرو بن حزم الی رسول صلی الله عليه وآله وسلم، فقالو ايا رسول اﷲ اِنّه کانت عندنا رقيةً نرقی بها من العقرب وانک نهيت عن الرقی قال فَعَرضُوْهَا عليه فقال ما أری بأسا من استطاع منکم أنْ يّنفعَ اُخاه فَلْيَنْفَعْهُ.
(مسلم، الصحيح، 4 : 1726، رقم : 2199)
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا، عمرو بن حزم کے خاندان والوں نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی یا رسول اﷲ! ہمارے پاس ایک دم (ورد) تھا، جس سے ہم بچھو کے کاٹے کو جھاڑتے تھے اور آپ نے جھاڑ پھونک سے منع فرما دیا ہے۔ ان لوگوں نے وہ ورد وظیفہ سرکار کے سامنے پیش کیا۔ فرمایا مجھے تو اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی، تم میں جو کوئی اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے تو اسے ضرور نفع پہنچائے۔‘‘
7۔ عوف بن مالک الاشجعی سے روایت ہے: ہم لوگ دور جاہلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے۔ ہم نے عرض کی یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا اس کے بارے میں کیاخیال ہے؟ فرمایا:
اِعْرِضُوْاعَلَیَّ رُقاکم، لَابأسَ بالرُّقیٰ مالَمْ يکُنْ فِيْهِ شِرکٌ.
(مسلم، الصحيح، 4 : 1727، رقم : 2200)
’’اپنا جھاڑ پھونک مجھ پر پیش کرو (پھر فرمایا) جب تک شرک نہ ہو جھاڑ پھونک میں حرج نہیں۔‘‘
8. عن الشفاء بنت عبداﷲ قالت دخل علٰی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وأنا عند حفصة فقال ليالا تُعَلِّميْنَ هٰذه رقية النملة کماعَلَّمْتِيها الکتابة.
(أبو داؤد، السنن، 4 : 11، رقم : 3887)
’’سیدہ شفاء بنت عبداﷲ سے روایت ہے میں ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنھا کے پاس تھی، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ فرمایا: شفاء! بی بی حفصہ کو پھوڑے پھنسی کا دم کیوں نہیں سکھاتیں؟جیسے تم نے اسے لکھناسکھایا۔‘‘
9۔ حضرت عثمان بن عبداﷲبن موھب سے مروی ہے:
’’میرے گھر والوں نے ایک پیالے میں پانی ڈال کر مجھے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت بھیجا۔ آپ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک موجود تھا۔ جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا کوئی شخص بیمار ہو جاتا تو وہ اپنا برتن سیدہ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں بھیج دیتا اور وہ اس بال مبارک کو اس پانی میں ڈبو دیتی تھیں، میں نے پیالے میں جھانک کر دیکھا تو مجھے اس میں کچھ سرخ بال نظر آئے۔‘‘
(بخاری، الصحيح، 5 : 2210، رقم : 5557)
10۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے:
أنّ النّبیّ صلی الله عليه وآله وسلم کانَ ينفث علٰی نفسه فی المرض الّذی مات فيه بالْمُعَوِذاّتِ. فلمّا ثقَل کُنْتُ أنفث عليه بهنّ واَمْسَحُ بيد نفسه لبرکتها فسألت الزّهری کيف ينفث؟ قال کانَ يَنْفِثُ علٰی يديه ثم يَمْسَح بهما وجهه.
(بخاری، الصحيح 5 : 2165، رقم : 5403)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مرض موت میں معوّذات (سورہ فلق اور سورہ الناس) پڑھ کر اپنے اوپر دم فرماتے تھے۔ جب کمزور ہوگئے تو وہی کلمات پڑھ کر میں دم کرتی تھی اورمیں حصول برکت کیلیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک چُھوتی۔ معمر کہتے ہیں میں نے امام زہری رحمہ اﷲ سے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اوپر کیسے دم کرتے تھے؟ انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مبارک ہاتھوں پر دم کر کے چہرہ اقدس پر مل لیتے تھے۔
امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے صحیح بخاری میں ’’الرُّقیٰ بفاتحة الکتاب‘‘ ’’فاتحہ سے دم کرنا‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ ایک باب قائم کیا ہے۔
11۔ ابوسعیدخدری رضی اﷲعنہ سے روایت ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ کرام کا قبائل عرب میں سے ایک قبیلہ پرگزر ہوا۔ انہوں نے ان صحابہ کرام کی مہمان نوازی نہ کی۔ اسی اثناء میں ان لوگوں کے سردار کو سانپ یا بچھّو کا ڈنگ لگا۔ بستی والوں نے کہا تمہارے پاس کوئی دواء یا دم کرنے والا ہے؟ صحابہ کرام نے کہا جی ہاں۔ تم نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی (کھانا نہیں کھلایا) ہم (بھی) دم نہیں کریں گے جب تک بکریوں کا پورا ریوڑ ہمیں نہ دو۔ اب ان لوگوں نے بکریوں کا ریوڑ ان حضرات کو دیا تو فجعل يقرأُبأم القرآن حضرت ابو سعید خُدری رضی اﷲ عنہ نے سورہ فاتحہ پڑھ کر دم، جھاڑ شروع کر دیا۔ لعاب دہن جمع کر کے زخم پر لگاتے جاتے۔ وہ شخص ٹھیک ہوگیا۔ بکریوں کا ریوڑ ان کے سپرد کرنے لگے تو صحابہ کرام کہا ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھے بغیر نہیں لیں گے۔
فسألوه فضحک وقال مأادرٰک أنها رُقْيَةٌ خذوها و اضربو الی بِسَهْمٍ.
(بخاری، الصحيح، 5 : 2166، رقم : 5404)
پھر سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا آپ ہنس پڑے۔ فرمایا: تجھے کیسے پتہ چل گیا کہ یہ دم ہے؟ لو! اور میرا حصہ مجھے دو!
ابن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت میں اتنا اضافہ ہے:
فقال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم انّ أحقّ ما أخذتم عليه أجرا کتاب اﷲ.
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک جس چیز پر تم اجرت لینے کے زیادہ حقدار ہو، وہ اﷲ کی کتاب ہے۔‘‘
یعنی لوگ جادو! شرکیات، شیطانی ٹونے ٹوٹکے اور جھاڑ پھونک کے ذریعہ پیسہ کماتے ہیں جو باطل اور شیطنت ہے۔ تم نے تو ستھرا سودا کیا۔ قرآن کریم سے دم کیا اور اس پر اُجرت لی، جو سیدھا راستہ ہے۔ (جاری ہے)