اداریہ: معاشی بحران کا حل سودی نظامِ معیشت سے نجات میں ہے

چیف ایڈیٹر: نوراللہ صدیقی

پاکستان کے عوام گزشتہ ایک سال سے مالی بحران کا شکار ہیں۔ اقتصادی بحران کی وجہ سے ریاست اور عام شہری دونوں دباؤ میں ہیں۔ اقتصادی بحران کا آغاز کووڈ19کی وبا سے ہوا۔ دنیا بھر کے ممالک اور عوام اس وبا سے جانی و مالی اعتبار سے بری طرح متاثر ہوئے۔ لاکھوں لوگ جاں بحق ہوئے اور ٹریلین ڈالرز کی تجارت کو نقصان پہنچا۔ پاکستان بھی اس وبا کی زد میں رہا، لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں جس سے عام آدمی اور قومی معیشت کو نقصان پہنچا۔ کورونا وائرس کی وبا کے بعد پاکستان کو سیاسی عدم استحکام نے گھیر لیا۔ کم و بیش ایک سال سے پاکستان عدمِ استحکام کی لپیٹ میں ہےاور اس دوران ملکی معیشت پر مزید دباؤ آیا۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہت زیادہ گر چکی ہے چونکہ پاکستان کی معیشت کا انحصار زیادہ تر امپورٹ پر ہے، اس لئے ڈالر کی کمی نے اقتصادی بحران کو ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرے سے گہرا کیا اور عام آدمی کی قوتِ خرید اور آمدن میں ایک خلیج حائل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔

معیشت کا اتار چڑھاؤ ایک ایسا مضمون ہے جس کی تباہی کو کسی ایک شخصیت، فیصلے یا عرصۂ حکومت کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ اگرچہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے تاہم معیشت ایک مسلسل عمل ہے جس کا تعلق پالیسیوں کے تسلسل کے ساتھ ہے۔بدقسمتی سے پاکستان معاشی پالیسیوں کے تسلسل سے محروم رہا ہے ۔ ہم بطورِ قوم ایک فعال اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ زرعی پالیسی نہیں بنا سکے، آبی ذخائر تعمیر نہیں کر سکے،دستیاب پانی کے حوالے سے واٹر مینجمنٹ نہیں کر سکے، آئی ٹی سیکٹر کے اندر ہونے والی جدید تحقیقات کے ساتھ نہیں چلے، اپنی 60 فیصد سے زائد یوتھ کو عصری تعلیمی، تحقیقی اور تکنیکی عالمی رجحانات سے ہم آہنگ نہیں کرسکے، انرجی کے متبادل سستے ذرائع پر تسلسل کے ساتھ کام نہیں کر سکے، سمال انڈسٹری کے فروغ کے ضمن میں کوئی جامع پالیسی نہیں بنا اور چلا سکے، خسارے میں چلنے والے گورنمنٹ کے اداروں کا خسارہ کم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھا سکے، اس کے ساتھ ساتھ معاشی معاملات میں شفافیت کا کلچر پروان نہیں چڑھا سکے اور سودی نظامِ معیشت سے نجات کے لئے بھی کوئی لائحہ عمل اور فکر اختیار نہیں کر سکے اور پھر سیاسی عدمِ استحکام نے ان سارے عوامل پر جلتی پر تیل گرانے کا کام کیا ہے۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ سودی نظامِ معیشت دنیا بھر میں ایک ناکام معاشی نظام کے طور پر سامنے آیا ہے۔ سودی نظامِ معیشت نے جماعت کے بجائے افراد کی دولت میں اضافہ کیا اور افراد کی دولت اب اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جماعت یعنی عوام کی اکثریت غربت اور فاقوں کی دہلیز پر آگئی ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد روزانہ بھوکے سوتے ہیں، کروڑوں افراد کے پاس چھت نہیں ہے۔ پاکستان جیسے غریب اور پسماندہ ممالک کی صورت حال کہیں زیادہ تشویشناک ہوتی چلی جارہی ہے۔ اگر ذمہ داران چاہتے ہیں کہ وہ معاشی بحران سے باہر نکل سکیں اور معیشت کو بہتر کر سکیں اور عام آدمی کی حالت زار میں تبدیلی لا سکیں تو پھر انہیں سب سے پہلے سودی نظامِ معیشت سےنجات حاصل کرنا ہو گی۔ سورہ البقرہ میں اللہ رب العزت نے واضح طور پر فرمایا ہے: ’’اور اللہ سود کو مٹاتا ہے ( یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کر دیتا) اور صدقات کو بڑھاتا ہے ( یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے) اور اللہ کسی بھی ناسپاس، نافرمان کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ اسی طرح سورہ آل عمران میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! دو گنا اور چو گنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘ سورہ البقرہ میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود سے باقی رہ گیا ہے، چھوڑ دو اگرتم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہو، پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ پر خبردار ہو جاؤ اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے اصل مال (جائز )ہے، نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث رسول ﷺ میں بھی سود کی حرمت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا گناہ میں یہ سب برابر ہیں‘‘۔ اسی طرح ایک جگہ پر ارشاد نبوی ﷺ ہے: ’’سود کے ستر(۷۰)جز ہیں، سب سے کم درجہ کے جز کا گناہ اس قدر ہے جیسے آدمی اپنی ماں سے زنا کرے‘‘۔قرآن مجید کے احکامات اور حضور نبی اکرم ﷺ کے فرامین کے مطابق سودی نظامِ معیشت اللہ کے ساتھ کھلی جنگ کرنے کا نظام ہے، سود میں بربادی ہے، بے برکتی ہے، تباہی ہے، بدامنی ہے، استحصال ہے، ظلم و جور ہے اور سودی نظامِ معیشت کے ساتھ چلنے والے اللہ کے رحم اور اس کی برکات سے مطلقاً نہ صرف محروم رہتے ہیں بلکہ اللہ کے غیظ و غضب کا نشانہ بنتے ہیں۔ لہٰذا اللہ رب العزت نے اور حضور نبی اکرم ﷺ نے اُمت کو یہ راستہ دکھایا ہے کہ سچے دل سے تائب ہو جائیں، جس دن اخلاص کے ساتھ توبہ ہو جائے گی تو خیر و برکت اور کشادگی کے دروازے کھلنا شروع ہو جائیں گے۔

’’اقتصادیات اسلام (تشکیلِ جدید)‘‘ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کی ایک انتہائی فکر انگیز اور معاشی بحالی کے پیمانوں پر مشتمل قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ یہ کتاب معاشی ماہرین اور پالیسی ساز اداروں اور شخصیات کو ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ ایک مسلمان ملک کے اندر کس قسم کی اقتصادی اور معاشی سرگرمیوں اور پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظام معیشت محض عقیدے یا ثواب دارین کا عمل نہیں ہے بلکہ اس کے اندر انسانیت کی فلاح و بہبود اور بقا چھپی ہوئی ہے۔ قرآن مجید میں انسانی فلاح و بہبود اور بقا کے جتنے امور اور تعلیمات زیر بحث آئی ہیں، ان کا تعلق انسانی معاشرہ کی فلاح و بہبود سے ہے۔ شیخ الاسلام’’اقتصادیات اسلام (تشکیلِ جدید)‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب معیشت بگڑتی ہے تو صرف غربت ہی نہیں بڑھتی بلکہ سوسائٹی کا پورا تانا بانا ہل کر رہ جاتا ہے۔تباہ حال معیشت والے ممالک میں معاشرتی برائیاں بھی اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ ایسے ملکوں کو جوا،شراب، منشیات، اخلاق سوز رقص، گانے، مخرب الاخلاق فلموں جیسی برائیاں گھیر لیتی ہیں۔ ایسے تباہ حال معاشروں میں قحبہ گری و عصمت فروشی، چوری، راہ زنی، لوٹ مار، کرپشن، دھوکہ دہی، ارتکاز دولت، گداگری جیسی برائیاں عام ہو جاتی ہیں اور سوسائٹی کا اجتماعی اخلاقی نظم تہس نہس ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لئے اسلام نے معیشت کی سمت کو درست رکھنے کے لئے راہنما اصول دئیے ہیں،جن میں سب سے بڑا اصول سودی نظامِ معیشت سے بچنا ہے۔

اسلام نے جہاں معیشت کی بہتری اور استحکام کے لئے اصول وضع کئے ہیں، وہاں افراد اور اقوام کے لئے بھی کچھ اقتصادی اخلاقی اصول متعین کئے ہیں۔ اسلام نے یہ باور کروایا ہے کہ دولت کا قانونی حصول جہاں ضروری ہے وہاں دولت کا ناجائز استعمال بھی گناہ ہے۔ اسلام نے سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، سادہ خوراک کھانے، اسراف سے بچنے، نمود نمائش سے بچنے، پر تعیش لائف سٹائل سے بچنے کا حکم دیا ہےاور ہر معاملے میں اعتدال کی روش اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہم دولت کمانے اور دولت خرچ کرنے کے معاملے میں الوہی قوانین کو پس پشت ڈال چکے ہیں اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اللہ رب العزت نے بارشوں کو حصولِ رزق کا ذریعہ قرار دیا، بارشیں ہورہی ہیں، اللہ رب العزت نے پہاڑوں، جنگلات، باغات کو خوشحالی کا ذریعہ قرار دیا، یہ سب موجود ہے مگر خوشحالی موجود نہیں ہے جس کی سب سے بڑی وجہ اللہ اور ا سکے رسول ﷺ کے احکامات اور تعلیمات کے برعکس زندگی گزارنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ بالخصوص پاکستان کے عوام کو معاشی بحران سے نجات دے اور ہمیں اقتصادی اور تجارتی معاملات میں قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔