محبت، رواداری اور فراخی تعلیمات صوفیاء کی روشنی میں

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً.

(البقرة، 2: 208)

’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘

صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی زندگیوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخصیات اپنے اپنے زمانوں اور ادوار میں جمیع مذاہب و مسالک اور مکاتب فکر کے مابین جاری جنگوں کو ختم کرتے رہے اور اس دھرتی میں باہمی محبت، برداشت، رواداری اور بقائے باہمی کا پیغام دیتے ہوئے وسعت و فراخدلی کے چراغ جلاتے رہے۔ انہی ہستیوں کی تعلیمات کے نتیجے میں ان ادوار میں ایسی تہذیب نے جنم لیا کہ جس تہذیب میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے امن، محبت، وسعت، رواداری، آشتی، سلامتی اور بقائے باہمی کا پیغام تھا۔ ان ہستیوں نے دلوں کو جوڑنے کا پیغام دیا۔ ان ہستیوں نے اپنے اپنے ادوار میں اعمالِ صالحہ، اخلاقِ حسنہ اور اپنے اوصاف و کمالات کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ جہاں نفرتیں تھیں وہاں محبتیں سکونت پذیر ہونے لگیں۔۔۔ جہاں دوریاں تھیں وہاں قربتیں بڑھنے لگیں۔۔۔ جہاں لوگ ایک دوسرے سے شدت پسندانہ رویوں سے پیش آتے تھے، وہاںوہ ایک دوسرے کے لیے شیر و شکر بن گئے۔۔۔ جہاں لوگ ایک دوسرے سے مخاصمت اور منافرت کے لہجے میں بات کرتے تھے، وہاں وہ ’’رحماء بینہم‘‘ کے سانچے میں ڈھل گئے۔

جملہ اولیاء، صلحاء اور صوفیاء کرام نے اپنی وسعت و کشائش کے چراغ جلائے اور نفرت و تنگ نظری کے چراغ بجھائے۔ انھوں نے سلامتی اور بھائی چارے کا پیغام ہر طرف ایسا پھیلایا کہ ایک طرف شدت پسندانہ رویے چلتے رہے، تکفیریت پر مبنی بولی چلتی رہی، ا سلام سے خارج کرنے کا طریق رائج رہا مگر یہ اولیاء و صالحین اور ائمہ امت صبرو تحمل اور برداشت کا پہاڑ بن کر اور اپنے پائے استقامت کو متزلزل کیے بغیر سوئے گنبد خضریٰ رواں رہے۔

تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ سیدنا امام اعظم ابوحنیفہؓ کا دور آیا تو انہیں بھی اسی شدت پسندی اور تکفیری رویے کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ جیل میں گئے اور جنازہ بھی وہاں سے اٹھا۔۔۔ سیدنا امام مالک کو بھی اسی رویے کا سامنا کرنا پڑا اور وہ پچیس سال تک اپنے گھر میں پابند ہوکر رہ گئے حتی کہ انھیں ان پچیس سالوں میں مسجد نبوی میں جمعۃ المبارک کی باجماعت نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہ ملی۔۔۔ امام محمد بن ادریس الشافعی کو عراق، یمن اور مصر میں مصائب و آلام درپیش ہوئے مگر ان کے پائے استقامت کو کوئی متزلزل نہ کرسکا۔۔۔ امام احمد بن حنبل بھی انہی رویوں کا شکار ہوئے۔ کوڑے بھی لگائے گئے، پابند سلاسل بھی کیے گئے مگر استقامت کے اس پہاڑ کو کوئی ہلا نہ سکا۔

سیدنا بایزید بسطامی پر بھی کفر کے فتوے لگے۔ انھیں بسطام سے نکالا گیا، انھوں نے سات مرتبہ واپس آنے کی کوشش کی مگر بسطام کی سرزمین ان پر بند کردی گئی مگر وہ بھی پیکر استقامت رہے۔۔۔ سیدنا ذوالنون مصری کو بھی قید کیا گیا، زندیق کہا گیا۔۔۔ حضرت سمنون محب عربی پر کفر کے فتوے لگے۔۔۔ حضرت سہل بن عبداللہ التستری جن کی معرفت کے بغیر کسی تصوف کی کتاب کی تکمیل نہیں ہوسکتی اور جن کے اقوال کے بغیر ولایت کا سفر طے نہیں ہوسکتا، ان پر بھی تستر کی سرزمین بند کردی گئی اور کفر کے فتوے لگے، انھیں بصرہ لایا گیا اور وہیں شہادت ہوئی۔

اسی طرح حضرت جنید بغدادی، حضرت فضیل بلخی، حضرت شیخ ابوبکر شبلی، حضرت غوث ابومدین المغربی، حضرت تاج الدین سبکی اور حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن العربی پر بھی کفر کے فتوے لگے۔۔۔ شیخ ابوالحسن شازلی پر بھی کفر کے فتوے لگے، انہیں بے گھر کردیا گیا اور جب بھی وہ اپنے وطن واپس آنے کی کوشش کرتے تو پتھراؤ کیا جاتا، مصر جاتے تو پتھراؤ کیا جاتا۔ الغرض جہاں پناہ لینا چاہتے، وہاں ان پر پتھراؤ کیا جاتا۔ یہاں تک کہ انھوں نے پوری زندگی سمندر میں ایک کشتی میں گزار دی اور حزب البحر بھی اسی کشتی میں انھوں نے تحریر فرمائی، جو آج اولیاء و صالحین اور سلوک و تصوف کی راہ پر چلنےو الوں کا وظیفہ ہے۔

آج کے دور میں بھی اہل اللہ پر فتوے لگنے کا معمول ہے مگر ان حالات میں اہل اللہ کا معمول اور مشرب ایک ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ گنبد خضریٰ پر ہوتی ہے اور دل خدا سے پیوست ہوتا ہے۔ ان فتاویٰ اور لعن و طعن پر توجہ دینا تو دور کی بات، یہ چیزیں ان کے دل پر معمولی سی بھی اثر انداز نہیں ہوتیں۔ یہی وہ صوفیاء و اولیاء اور کاملین تھے کہ جن کی خانقاہوں سے انسانیت کو فیض ملا، لوگوں کو فسق و فجور کی ظلمتوں سے نجات ملی اور انسانیت کو آقا علیہ السلام کے اسوہ اور قدوہ مبارکہ سے پیوست کیا گیا۔ آج انہی کے دروازوں پر لوگ فیض کی خیرات لینے کے لیے جاتے ہیں۔

ان اولیاء پر ہونے والے مصائب و آلام اور ان پر لگنے والے فتاویٰ کا جائزہ لیں تو واضح نظر آتا ہے کہ ان سب کے باوجود ان کی زبانیں صرف وہی کہہ سکتی تھیں جو آقا علیہ السلام کی بارگاہ سے انہیں اجازت تھی۔۔۔ ان کا وجود وہی کرسکتا تھا جو اللہ کی بارگاہ سے انہیں اجازت تھی۔۔۔ اور ان کے قلم سے وہی لکھا جاسکتا تھا جو حقیقی سلوک و تصوف کی راہ تھی۔ آج اگر ہم سفرِ روحانیت پر گامزن ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ان اولیاء و صوفیاء کی تعلیمات پر غور کرنا ہوگا کہ انھوں نے کن امور کو تصوف و روحانیت کے لیے ناگزیر قرار دیا۔

روحانیت کے تین وسائط

روحانیت کے سفر کے تین ذرائع اور واسطے ہوتے ہیں:

1۔ شریعت

2۔ طریقت

3۔ حقیقت

  • شریعت زندگی میں اعتدال کا نام ہے۔
  • طریقت اپنے نفس سے انفصال کا نام ہے۔
  • حقیقت اپنے محبوب سے اتصال کا نام ہے۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہیں گے کہ شریعت راہ حق پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔۔۔ طریقت خود سے جدا ہونے کا نام ہے۔۔۔ اور حقیقت واصلِ خدا ہوجانے کا نام ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ سلوک و تصوف کی راہ کے مسافر ہوجاتے ہیں، اہلِ تصوف و معرفت سے جڑ جاتے ہیں اور اصحاب کہف کے کتے کی طرح ان کی چوکھٹ پر استقامت کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں تو انہیں یہاں سے ملتا کیا ہے؟

یاد رکھیں! جو ان اولیاء و صوفیاء کے در پر آجائیں تو انہیں اخلاق کی عمدگی ملتی ہے۔۔۔ انہیں حوصلوں کی بلندی ملتی ہے۔۔۔ انہیں ارادوں کی پختگی ملتی ہے۔۔۔انہیں معاملات کی درستگی اور مایوسیوں سے نجات ملتی ہے۔۔۔ ان کے اعمال کو طہارت، احوال کو عظمت اور مقامات کو سکونت ملتی ہے۔۔۔ جو تصوف کا لباس پہن لے اس کی زندگی کا حال و مقال یعنی بولنے کا رنگ اور ڈھنگ بدل جاتا ہے۔۔۔ اس کا سلیقہ اور برتاؤ بدل جاتا ہے۔ حتی کہ اگر انہیں دیکھیں تو ان پر اولیاء و صالحین کا رنگ چڑھا ہوا نظر آتا ہے۔

صوفیاء و اولیاء کے محاسن و اخلاق

سیدنا ابوالقاسم القشیریؒ جو سیدنا داتا علی ہجویری کے مشائخ و اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، انھوں نے صوفیاء کے کچھ کمالات و محاسن کا ذکر کیا ہے کہ تصوف مکمل ہوہی نہیں سکتا جب تک سلوک کی راہ کا مسافر اپنی طبیعت، مزاج اور اپنی تربیت میں درج ذیل آٹھ خصلتیں پیدا نہ کرلے:

(1) السخ

تصوف کی پہلی خصلت کا نام ’’السخا‘‘ ہے۔ کوئی بندہ راہِ سلوک کا مسافر ہوہی نہیں سکتا جب تک اپنی طبیعت میں سخاوت اور فیاضی پیدا نہ کرے۔ یہ سخا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت اور عادت تھی۔اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ.

(البقرة، 2: 3)

’’او رجو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں۔‘‘

سخی اور لجپال وہ ہوتے ہیں کہ جو کچھ اللہ انہیں دیتا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بات بڑی توجہ طلب ہے کہ ینفقون سے مراد صرف یہ نہیں کہ اللہ نے مال دیا تو خرچ کردیا۔ نہیں بلکہ دل کی بھی فیاضی ہوتی ہے۔۔۔ مزاج اور اخلاق کی بھی سخاوت ہوتی ہے۔۔۔ علم کی بھی فیاضی اور سخاوت ہوتی ہے کہ جسے علم دیا، وہ علم خرچ کرے۔۔۔ جسے اخلاق دیا، وہ اخلاق خرچ کرے۔۔۔ جسے میانہ روی دی، وہ میانہ روی خرچ کرے۔۔۔ جسے افضل و اعلیٰ رتبہ دیا، وہ اپنی افضلیت اور اعلیٰ مرتبت کو خرچ کرے۔۔۔ جس کو تفقہ و فہم دیا، وہ اپنا فہم خرچ کرے۔۔۔ جس کو ولی بنایا، وہ ولایت کے رنگ تقسیم کرے۔۔۔ جسے عارف بنایا، وہ عرفان تقسیم کرے۔۔۔ جسے غوث الوقت بنایا، وہ غوثیت کے رنگ تقسیم کرے۔۔۔ جسے معلم بنایا، وہ تعلیم کے رنگ بانٹے۔۔۔ جسے محقق بنایا، وہ تحقیق کا فیض عام کرے۔۔۔ اور جسے مجدد بنایا، وہ تجدید میں سب کو شریک کرے۔

(2) الرض

تصوف کی دوسری خصلت ’’الرضا‘‘ ہے کہ بندہ اللہ سے راضی ہوجائے اور اللہ اس سے راضی ہوجائے۔ رضا حضرت ایوب علیہ السلام کی خصلت اور عادت تھی۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

یٰٓـاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً.

(الفجر، 89: 27، 28)

’’ اے اطمینان پا جانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔‘‘

یہ لوگ پیکر رضا ہوتے ہیں ۔ رضا کا مطلب یہ نہیں کہ آج مل گیا تو راضی ہوگئے اور کل کو اس نے واپس لے لیا تو ناراض ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عطا کروں تو تب بھی تیرا دل راضی ہو اور جب لے لوں تو تب بھی تو مجھ سے راضی ہو۔ اس لیے کہ تیری رضا کا تعلق میرے ساتھ ہے، اسبابِ دنیا سے نہیں۔

(3) الصبر

تصوف کی تیسری خصلت ’’الصبر‘‘ ہے۔ یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی عادت تھی۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ.

(البقرة، 2: 153)

’’یقینا الله صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔‘‘

ان صابرین کے ساتھ خدا ہوتا ہے جو ہر حال میں صبر کا پہاڑ بنے احکاماتِ الہٰیہ کی تعمیل اور خدمتِ خلق میں مصروف رہتے ہیں۔

(4) الاشارہ

تصوف کی چوتھی خصلت ’’الاشارہ‘‘ ہے۔ اللہ کے رموز اور اسرار کے کچھ اشارے ہوتے ہیں جو سمجھنے والوں کو سمجھائے جاتے ہیں۔ یہ سیدنا زکریا علیہ السلام کی عادت تھی۔ جب سلوک کی راہ پر چلنے والے لباسِ رضا پہن لیں تو صبر ملتا ہے اور پھر رموز و اسرار کی وادی کے اشارات ملتے ہیں۔

(5) خلوۃ

تصوف کی پانچویں خصلت ’’خلوت نشینی‘‘ ہے۔ صوفیاء اسرار و رموز اور اشارات سے آگہی کے بعد پھر خلوت نشینی کی زندگی گزارتے ہیں۔

(6) خرقہ

جب خلوت نشینی میں اللہ سے راز و نیاز کریں اور اسے منانے والے بن جائیں تو اللہ رب العزت ان کو اونی لباس پہنادیتا ہے۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی عادت تھی۔ اس سے مراد لباسِ تقویٰ و طہارت ہے کہ پھر یہ لوگ تقویٰ و طہارت کے کمال پر نظر آتے ہیں۔ جس طرح اونی لباس پہن کر ان کا ظاہر دنیا سے بے نیاز نظر آتا ہے، اسی طرح ان کا باطن بھی تقویٰ و ورع کے رنگ میں رنگا ہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ.

(الاعراف، 7: 26)

’’ اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے۔‘‘

(7) والسیاح

تصوف کی ساتویں خصلت سیاحت کی ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عادت تھی۔ فرمایا:

فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ.

(آل عمران، 3: 137)

’’سو تم زمین میں چلا پھرا کرو اور دیکھا کرو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔‘‘

(8) فقر

تصوف کی آخری اور آٹھویں خصلت فقر ہے اور یہ عادت حضور نبی اکرم ﷺ کی تھی۔ یعنی جو فقر کا لباس پہن لے وہ حضور علیہ السلام کا ہوجاتا ہے۔اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَی اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ.

(فاطر، 35: 15)

’’ اے لوگو! تم سب الله کے محتاج ہو اور الله ہی بے نیاز، سزاوارِ حمد و ثنا ہے۔‘‘

آقا علیہ السلام نے فرمایا:

فان الفقر اسرع الی من یحبنی.

(الترمذی، السنن، باب ماجاء فی فضل الفقر، 4: 576، الرقم: 2350)

مجھے فقر سے محبت ہے اور جو مجھ سے محبت کرے، سمجھ لو جلد از جلد فقر اسی کا لباس ہوگا۔ (الرسالۃ القشیریۃ، ص: 168)

ولی اللہ کی علامات

حضرت عبداللہ السلمی سے پوچھا گیا کہ بتایئے کہ ہم اولیاء کو کیسے پہچانیں گے؟ اللہ کے ولی کی علامات کیا ہیں؟ آپ فرماتے ہیں:

1۔ بلطافۃ اللسان: وہ زبان کے بڑے لطیف ہوتے ہیں۔

2۔ وحسن الخلق: اخلاق کے بڑے حسین ہوتے ہیں۔

3۔ وبشاشۃ الوجہ: ان کے چہرے بڑے ہشاش بشاش نظر آتے ہیں۔ انہیں دیکھیں تو لگتا ہے کہ ایسا حسین و جمیل چہرہ کسی کا نہیں۔

4۔ وسخاوت النفس: وہ اپنے نفس کے بڑے سخی اور لجپال ہوتے ہیں۔

5۔ قلت الاعتراض: بہت کم کسی پر اعتراض کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

6۔ وقبول الاعتزار: کوئی ان کی بارگاہ میں عذر پیش کردے تو بغیر تامل کے وہ عذر قبول کرتے ہیں۔

7۔ وکمال شفقۃ عامۃ الخلق: اللہ کی مخلوق پر کمال شفقت کا پیکر بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ (تفسیر روح البیان، پارہ نمبر11، 12، ص: 327)

اگر ہم مذکورہ علامات کی روشنی میں حضور سیدنا داتا علی ہجویری سے ماقبل اولیاء سے لے کر حضور قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤ الدین تک اولیاء و صوفیاء کے احوال کا مشاہدہ کریں تو سخاوت اور فیاضی کے ایسے چشمے کھلے ہیں کہ سیکڑوں سال گزر جانے کے باوجود یہ چشمے جاری و ساری ہیں۔ ان روحانی چشموں کے جاری رہنے کا راز کیا ہے؟ آیئے! اس کا جواب قرآن مجید میں مذکور ایک قصہ سے اخذ کرتے ہیں کہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم ان کے پاس آئی اور عرض کیا کہ اے موسیٰ علیہ السلام ! ہم پیاسے ہیں، اللہ کی بارگاہ سے پانی طلب کیجئے۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگی:

وَاِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْناً قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللهِ وَلاَ تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ.

(البقرة، 2: 60)

’’ اور (وہ وقت بھی یا دکرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا: اپنا عصا اس پتھر پر مارو، پھر اس (پتھر) سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے، واقعتاً ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا، (ہم نے فرمایا:) الله کے (عطا کردہ) رزق میں سے کھاؤ اور پیو لیکن زمین میں فساد انگیزی نہ کرتے پھرو۔‘‘

وہ بارہ قبیلے تھے چنانچہ ہر قبیلے کو پینے کے لیے اپنا مشرب مل گیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ دیکھنے میں مارنے والا یعنی موسیٰؑ بھی ایک تھے، پتھر بھی ایک تھا اور عصا بھی ایک تھا مگر ایک وحدت سے کثرت کا عالم دیکھیں کہ ایک ضرب سے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ وحدت سے کثرت کو فیض مل رہا ہے اور وحدت سے وسعت جنم لے رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ والے ہوتے ہی وہ ہیں کہ جب ضرب لگادیں تو پوری امت کو سیراب کرتے چلے جاتے ہیں۔

پھر اللہ رب العزت نے فرمایا: کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللهِ (البقرة، 2: 60) یعنی جب تک میرے نبی سے جڑے رہو گے، ان سے متمسک رہو گے، فساد پیدا نہیں کرو گے، ظلم نہیں کرو گے، فسق و فجور میں نہیں پڑو گے، تعلیماتِ نبوی ﷺ پر عمل پیرا رہوگے، اس در پر جھکے رہو گے تو تمھیں میرا فیض، رزق، کرم، فضل اور میرے نبی کی خیرات ملے گی۔ اولیاء کرام اور ائمہ کا فیض اس لیے مسلسل جاری ہے کہ وہ نبی ﷺ کی ذات سے متمسک ہوگئے اور عدمِ اطاعت کی طرف مائل نہیں ہوئے تھے۔ امام اعظمؒ کی بارگاہ میں جائیں تو ان کا فیضِ علم رک نہیں رہا۔۔۔امام شافعی کی بارگاہ میں جائیں تو امام شافعیؒ کی فقہیت کا فیض رک نہیں رہا۔۔۔ امام احمد بن حنبلؒ کی بارگاہ میں جائیں تو ان کا ایسا فیض جاری ہوا کہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔۔۔ امام مالکؒ کی بارگاہ میں جائیں تو ایسا فیض ہے کہ جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔۔۔ حضور داتا علی ہجویریؒ سے فیض کا ایسا چشمہ جاری ہوا ہے کہ جو تھم نہیں رہا۔۔۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے فیض کا ایسا چشمہ جاری ہوا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔۔۔ حضور غوث الوریٰؒ کا ایسا چشمہ جاری ہوا ہے کہ اس غوثیت کے چشمے سے کوئی پیاسا رہ نہیں سکتا۔

اولیاء کرام پیکر وسعت و سخاوت تھے

اولیاء کرام پیکرِ توسع اور پیکر فیاضی و سخاوت تھے۔ امام شافعی کو دیکھیں تو امام شیبانی کے شاگرد بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔۔۔ امام احمد بن حنبل کو دیکھیں تو وہ امام شافعی کے شاگرد ہیں۔۔۔ امام اعظم کو دیکھیں تو وہ سیدنا محمد الباقر کے فیض یافتہ نظر آرہے ہیں اور فرماتے ہیں:

لو السنتان لھلک النعمان.

(الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ، ج: 1، ص: 264)

اگر یہ دو سال نہ ملتے تو نعمان بن ثابت ہلاک ہوجاتا۔

آئمہ کے ہاں فراخی اور توسع کے چند واقعات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:

1۔ حضرت قاضی ابوالعاصم عامریؒ حنفی عالم تھے اور علامہ کفالؒ شافعی عالم تھے۔ حنفی عالم، شافعی عالم سے ملنے کے لیے ان کی مسجد میں گئے جیسے ہی وہاں پہنچے تو نماز مغرب کی اذان ہوگئی۔ شافعی عالم علامہ کفال نے اپنے موذن سے کہا کہ تم شافعی طریق پر اذان دیتے ہو، آج حنفی عالم آرہے ہیں، اس لیے حنفی طریق پر اذان دے دو۔ اس نے اسی طرح کیا اور جب جماعت کا وقت ہوا تو شافعی عالم نے حنفی عالم کے لیے مصلیٰ چھوڑ دیا اور جب وہ مصلیٰ پر تشریف لے گئے تو انھوں نے حنفی طریق کی بجائے شافعی طریق پر نماز پڑھائی۔

2۔ سیدنا امام احمد بن حنبلؒ، امام شافعیؒ کے شاگرد تھے۔ وہ بھی اپنی فقہ کے امام اور یہ بھی اپنی فقہ کے امام تھے مگر ادب اور وسعت کا عالم یہ تھا کہ حضرت یحیٰ بن معین نے حضرت امام احمد بن حنبل کے بیٹے سے ایک دفعہ کہا: اے بیٹے! اپنے بابا جان سے کہنا کہ میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ نوجوان شافعی کے گھوڑوں کی رکاب تھامے ہوئے تھے۔ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، بیٹے نے اپنے والد سے یہ بات عرض کردی۔ حضرت امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ اے بیٹے اگر پھر تمہیں یحیٰ بن معین ملیں تو انہیں کہو:

ان اردت ان تتفقه فتعال فخذ برکابه الآخر.

(الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الائمۃ الفقہاء، ج: 1، ص: 75)

اگر تم فقیہ وقت بننا چاہتے ہو تو امام شافعی کے گھوڑے کی دوسری رکاب ابھی خالی ہے، آکر پکڑ لو، امام وقت بن جاؤ گے۔

3۔ امام شافعیؒ، سیدنا امام اعظمؒ کی قبر انور میں حاضر ہوئے تو فجر کی نماز کے وقت قنوتِ نازلہ جو آپ کے مذہب میں سنت موکدہ کا درجہ رکھتی ہے، اسے ترک کردیا اور آمین بالجہر بھی ترک کردی۔ جب نماز ختم ہوئی تو شاگرد کہنے لگے کہ حضرت آپ بھول گئے؟ فرمایا: اخالفہ وانا فی حضرتہ.

میں امام اعظمؒ کو سلام کرنے آیا ہوں، جن کو سلام کرنے آیا ہوں، اس کی فقہ کی مخالفت کرتا پھروں، میرا ادب، تعظیم اور توسع اس امر کی اجازت نہیں دیتا۔

ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں ان اولیاء کی طرح کا توسع اور وسعت اپنے مزاج، رویے اور اخلاق و کردار میں پیدا کرنا ہوگی۔ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اسی توسع و سخاوت کو اپنے رفقاء و کارکنان میں پیدا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ہمارا مشرب امن، سکون، علم، عزت، سلامتی اور عاشقی ہے۔ ہمارا مشرب دلوں کو جدا کرنا نہیں بلکہ دلوں کو جوڑنے کا ہے۔ اسی چراغ کو جلاتے چلے جائیں، یہی اسلام کی حقیقی تعلیمات اور منہاج القرآن کا پیغام ہے۔