سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ جامع الصفات شخصیت

محمد اِقبال چشتی

حضور نبی اکرم ﷺ خالقِ کائنات کی طرف سے دینِ متین لے کر اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔ اس دینِ متین کے بنیادی خصائل میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ جن لوگوں نے آپ ﷺ کی زندگی میں آپ کی دعوت کو قبول کیااور اسلام کی تائید و نصرت میں آپ ﷺ کے معاون بنے؛ تاریخِ اسلامی میں ان جلیل القدر شخصیات کو صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)کے لقب سے معنون کیا جاتا ہے۔ یہ وہ عظیم المنزلت اور عظیم المرتبت شخصیات ہیں جن کو اللہ رب العزت نے ’’رضی اللہ عنہم‘‘ کے خطاب سے نواز کر اپنی رضامندی کی سندسے نوازا۔ ان میں سے ایک شخصیت تیسرے خلیفہ راشد، جود و سخا کے پیکر، شرم و حیاء کی تصویر، زہد و تقوی کے امین سیدنا عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ ہیں۔

اللہ رب العزت نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو معتد بہ اَوصافِ حمیدہ اور اعلی اخلاق سے نوازا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ سیرت و کردار کے اعتبار سے مثالی شخصیت تھے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا وہ درسگاہ پیغمبر اور حضور نبی اکرم ﷺ کے فیض یافتہ تھے۔ یوں تو سارے یارانِ نبی ﷺ زہد و تقوی کے حامل تھےلیکن اس حوالے سے آپ رضی اللہ عنہ اپنی مثال آپ تھے۔

آپ رضی اللہ عنہ کا نام عثمان اور کنیت ابو عبداللہ تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد محترم کا نام عفان تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا پیشہ تجارت تھا۔ امانت و دیانت سے کام لینے کی وجہ سے آپ ایک مال دار تاجر تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا خاندان قریش میں شرافت، سیادت اور نسب کے اعتبار سے ممتاز تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار جنابِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ جب حضور نبی اکرم رضی اللہ عنہ نے دعوت اسلامیہ کا آغاز کیا تو آپ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک چونتیس سال تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار اُن اَفراد میں ہوتا ہے جو کہ لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے۔ آپ راویِ حدیث، کاتب وحی، عظیم مجتہد اور علم و فضل میں منفرد و یگانہ مقام رکھنے والی شخصیت کے مالک تھے۔

بارگاہِ رسالت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں عظیم مرتبہ و منزلت رکھتے تھے۔ اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ رضی اللہ عنہ کے عقد مبارک میں دیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کا اس بات سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک جنازہ لایا گیا کہ آپ ﷺ اس پر نماز پڑھیں مگر آپ ﷺ نے اس پر نماز نہیں پڑھی۔ عرض کیا گیا:

’’یا رسول اللہ ﷺ ہم نے آپ کو کسی کی نمازِ جنازہ چھوڑتے نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ عثمان سے بغض رکھتا تھا تو اللہ نے بھی اس سے بغض رکھا ہے۔‘‘

(ترمذی، السنن، 5: 630، الرقم: 3709)

ایک اور روایت میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ بدر والے دن کھڑے ہوئے اور فرمایا:

’’بے شک عثمان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کام میں مصروف ہے اور بے شک میں اس کی بیعت کرتا ہوں اور حضور نبی اکرم ﷺ نے مال غنیمت میں سے بھی آپ رضی اللہ عنہ کا حصہ مقرر کیا اور آپ رضی اللہ عنہ کے علاوہ جو کوئی اس دن غائب تھا اس کے لئے حصہ مقرر نہیں کیا۔‘‘

(ابوداود، السنن، 3: 74، الرقم: 2726)

پیکرِ شرم و حیاء

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شخصیت جامع القرآن ہونے کے ساتھ کامل الحیاء والایمان بھی ہے۔ آپ کی ذاتِ گرامی کی ایک ممتاز و منفرد صفت ’’حیاء‘‘ ہے۔ اس صفت کی تصدیق زبانِ نبوی سے کی گئی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ جہاں پانی تھا اور (ٹانگیں پانی میں ہونے کے باعث) آپ ﷺ کے دونوں گھٹنوں سے یا ایک گھٹنے سے کپڑا ہٹا ہو ا تھا، پس جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ ﷺ نے اسے ڈھانپ لیا۔ (بخاری، الصحیح، 3: 1351، الرقم: 3492)

ایک اور مقام پرحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے۔ (ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء، 1: 56)

ایک اور روایت میں حضرت بدر بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یوم الدار کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا: کیا تم اس شخص سے حیاء نہیں کرتے جس سے ملائکہ بھی حیاء کرتے ہیں۔ ہم نے کہا: وہ کون ہے؟ راوی نے کہا: میں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس تھا جب عثمان میرے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: یہ شخص شہید ہے، اس کی قوم اس کو قتل کرے گی اور ہم ملائکہ اس سے حیاء کرتے ہیں۔ بدر (راوی) کہتے ہیں کہ پھر ہم نے آپ رضی اللہ عنہ سے لوگوں کے ایک گروہ کو دور کیا۔

ذو النورین کی وجہ تسمیہ

قبولِ اسلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہم کی شادی آپ سے کی۔ اور پھر ان کے انتقال کے بعد انھوں نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہم کی شادی آپ رضی اللہ عنہ سے کی۔ یوں آپ کو وہ اعزاز حاصل ہوا جو پوری اولاد آدم میں کسی کو حاصل نہیں ہوا کہ کسی نبی کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے اس کے نکاح میں آئی ہوں۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حضورنبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ أَوْحَی إِلَيَّ أَنْ أُزَوِّجَ کَرِیْمَتِي مِنْ عُثْمَانَ.

(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 512، الرقم: 837)

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ میں اپنی صاحبزادی کی شادی عثمان سے کروں۔‘‘

ایک اور روایت میں حضرت اُمّ عیاش رضی اللہ عنہم بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

مَا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ أُمَّ کَلْثُوْمٍ إِلَّا بِوَحْيٍ مِنَ السَّمَاءِ.

(طبرانی، المعجم الکبیر، 25: 92، الرقم: 236)

’’میں نے عثمان کی شادی اپنی صاحبزادی اُم کلثوم سے نہیں کی مگر فقط وحی الٰہی کی بنا پر۔‘‘

ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ اپنی دوسری صاحبزادی کی قبر پر کھڑے ہوئے جو حضرت عثمان کے نکاح میں تھیں اور فرمایا:

ألَا أَبَا أَیِّمٍ، أَلاَ أَخَا أَیِّمٍ، تَزَوَّجَهَا عُثْمَانُ؟ فَلَوْکُنَّ عَشْرًا لَزَوَّجْتُهُنَّ عُثْمَانَ وَمَا زَوَّجْتُهُ إِلَّا بِوَحْيٍ مِنَ السَّمَاءِ، وَأَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ لَقِيَ عُثْمَانَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ یَا عُثْمَانُ، هَذَا جِبْرَائِیْلُ یُخْبِرُنِي أَنَّ اللهَ قَدْ زَوَّجَکَ أُمَّ کُلْثُوْمٍ عَلَی مِثْلِ صِدَاقِ رُقَیَّۃَ، وَ عَلَی مِثْلِ صُحْبَتِھَا.

(طبرانی، المعجم الکبیر، 22: 436، الرقم: 1063)

’’خبردار اے کنواری لڑکی کے باپ! اور خبر دار اے کنواری لڑکی کے بھائی! اس (میری بیٹی) کے ساتھ عثمان نے شادی کی اور اگر میری دس بیٹیاں ہوتیں تو میں ان کی بھی شادی یکے بعد دیگرے عثمان کے ساتھ کردیتا اور (ان کے ساتھ ) عثمان کی شادی وحیِ الٰہی کے مطابق کی اور بے شک حضورنبی اکرم ﷺ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مسجد کے دروازے کے نزدیک ملے اور فرمایا: اے عثمان یہ جبریل امین ہیں۔ جو مجھے یہ بتانے آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری شادی ام کلثوم کے ساتھ اس کی بہن رقیہ (حضور نبی اکرم ﷺ کی پہلی صاحبزادی) کے مہر کے بدلہ میں کر دی ہے۔‘‘

ان تمام امتیازات کے ساتھ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ اُن عظیم المرتبت ہستیوں میں سے تھے جن کی شہادت کی خبر رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبان گوہر فشاں سے پہلے ہی ارشاد فرما دی تھی۔ امام ترمذی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فتنہ کا ذکر کیا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا: اس میں یہ مظلوماً شہید ہو گا۔‘‘

امام حاکم کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے۔ جب وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قریب ہوئے تو حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے عثمان! تمہیں شہید کیا جائے گا درآنحالیکہ تم سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہے ہو گے اور تمہارا خون اس آیت:

فَسَیَکْفِیْکَهُمُ اللهُ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ.

پر گرے گا اور قیامت کے روز تم ہر ستائے ہوئے پر حاکم بنا کر اٹھائے جاؤ گے اور تمہارے اس مقام و مرتبہ پر مشرق و مغرب والے رشک کریں گے اور تم ربیعہ اور مضر کے لوگوں کے برابر لوگوں کی شفاعت کرو گے۔ (حاکم، المستدرک، 3: 110، الرقم: 4555)

پیکرِ زہد و تقویٰ

حضرت عثمانِ غنی ذو النورین رضی اللہ عنہ جامع الصفات ہونے کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اندر خیرِ کثیر اور زہد و تقوی کی وہ مثالیں موجود تھیں جو رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس زہد و تقویٰ کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ پر ہمہ وقت اللہ رب العزت کی خشیت طاری رہتی۔ آپ رضی اللہ عنہ ہر وقت خوف باری تعالیٰ سے لرزاں رہتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ رضی اللہ عنہ کے پاس قبر کا ذکر کیا جاتا تو آپ رضی اللہ عنہ زار و قطار رونے لگ جاتے۔

علامہ ابن ابی الدنیا اپنی کتاب ’’الورع‘‘ میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زہد و تقوی کے متعلق ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنر حضرت ابو موسی اشعری کو خط لکھا کہ جب میرا خط آپ کو ملے تو لوگوں کو ان کے وظائف اور عطیات دے کر باقی مال زیاد کے ہمراہ لے کر آجانا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور میں انہیں ایک ایسا ہی خط لکھا اور پھر زیاد اپنے ہمراہ باقی مال لایا اور ان کے سامنے رکھ دیا۔ اتنے میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا بیٹا آیا اور کوئی چیز اپنے لیے اٹھا کر لے گیا۔ یہ دیکھ کر زیاد رونے لگے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیوں روتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر اسی طرح مال لے کر آیا اور ان کے سامنے رکھ دیا۔ ان کا بیٹا جو کمسن تھا، آیا اور اس نے ایک درہم اٹھا لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غلاموں کو حکم دے کر اس سے وہ درہم لے لیا اور بچہ رونے لگ گیا۔ آج آپ کا بیٹا یہ چیزیں اٹھا کر لے گیا لیکن کسی نے اُسے منع نہیں کیا۔ یہ سن کر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت عمر اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کو اس مال سے اللہ کی رضا کے لیے دور رکھتے تھے اور میں اپنے گھروالوں اور رشتہ داروں کو اللہ تعالی کی رضا کے حصول کے لیے ہی مال دیتا ہوں۔ (ابن ابی الدنیا، الورع: ص 126، رقم: 230)

علامہ ابن ابی الدنیا ایک اور مقام پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زہد کے متعلق اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا: آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح (سخت مزاج، اور سخت احتیاط والے) کیوں نہیں بن جاتے؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:مجھ میں یہ استطاعت نہیں کہ میں لقمان حکیم جیسا بن جاؤں۔ (ابن ابی الدنیا، الورع: ص 126، رقم: 231)

یہاں آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زہد و تقوی کو لقمان حکیم کے تقوی سے تشبیہ دی ہےکیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نرم مزاج، غرباء و مساکین کے خیر خواہ، فیاض و جواد اور لوگوں کی خیر خواہی کرنے والی شخصیت کے مالک تھے۔

پیکرِ سخاوت

زہد و تقوی کی ایک بنیادی شکل راہِ خدا میں خرچ کرنا اور مخلوقِ خدا کے ساتھ بہترین رویہ اختیار کرنا بھی ہے۔ حضرت عثمانِ غنی ذو النورین رضی اللہ عنہ میں راہِ خدا میں سخاوت کرنا جیسی مثالیں غایت درجہ میں پائی جاتی ہیں۔

حضرت بشیر اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو انہیں پانی کی قلت محسوس ہوئی اور قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی کے پاس ایک چشمہ تھا جسے رومہ کہا جاتا تھا اور وہ اس چشمہ کے پانی کا ایک قربہ ایک مد کے بدلے میں بیچتا تھا۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے یہ چشمہ جنت کے چشمہ کے بدلے میں بیچ دو تو وہ آدمی کہنے لگا: یا رسول اللہ ! میرے اور میرے عیال کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چشمہ نہیں ہے، اس لئے میں ایسا نہیں کرسکتا۔ سو یہ خبر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس آدمی سے وہ چشمہ پینتیس ہزار دینار کا خرید لیا اور حضورنبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:

یارسول اللہ ! اگر میں اس چشمہ کو خرید لوں تو کیا آپ مجھے بھی اس کے بدلہ میں جنت میں چشمہ عطا فرمائیں گے جس طرح اس آدمی کو آپ نے فرمایا تھا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں (عطا کروں گا) تو اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! وہ چشمہ میں نے خرید کر مسلمانوں کے نام کر دیا ہے۔‘‘

(طبرانی، المعجم الکبیر، 2: 41، الرقم: 126)

اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار لے کر حضورنبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب جیش عسرہ کی روانگی کا سامان ہورہا تھا۔ آپ نے اس رقم کو حضور نبی اکرم ﷺ کی گود میں ڈال دیا۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت حضورنبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ ان دیناروں کو اپنی گود میں دست مبارک سے الٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے عثمان آج کے بعد جو کچھ بھی کرے گا، اسے کوئی بھی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا۔ آپ ﷺ نے یہ جملہ دوبار فرمایا۔‘‘ (ترمذی، السنن، 5: 626، الرقم: 3701)

سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ حقیقت میں جامع الصفات ہیں اور آپ کی شخصیت امتِ مسلمہ کو راہنمائی فراہم کرتی نظر آتی ہے۔ آپ کی زندگی کا جس جہت سے بھی مطالعہ کیا جائے، وہی جہت امت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ کی زندگی ہمیں عزم واستقلال اور صبر و تحمل کا درس دیتی نظر آتی ہے۔ خالقِ کائنات ہمیں آپ رضی اللہ عنہ کی سیرتِ طیبہ سے استفادہ واستفاضہ کرنے کی توفیق دے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ