پاکستانی معیشت کو درپیش مسائل (حصہ اوّل)

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

آج پاکستان کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا ثبوت انٹرنیشنل سرویز، ورلڈ بنک اور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹس ہیں جو وہ اس حوالے سے شائع کرتے رہتے ہیں۔ آج ورلڈ بنک کے مطابق پاکستان میں غربت کا تناسب 39.3 فیصد ہے یعنی کم و بیش چالیس فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں۔ 2022ء میں آنے والے سیلاب نے پاکستانی معیشت کو مزید مشکلات کا شکار کردیا۔ جس سے 33 بلین لوگ متاثر ہوئے اور 2 ملین گھر تباہ ہوئے۔ 1700 سے زائد اموات ہوئیں۔ 1.1 ملین لائیو سٹاک پاکستان سے ختم ہوگیا۔ جانوروں کے 25000 شیلٹرز تباہ ہوگئے۔ 13000 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوگئیں۔ 440 پُل ختم ہوگئے۔ 9.4 ملین ایکڑز زرعی زمین جو ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، تباہ ہوگئی۔ اس سبب سے کاٹن نہ ملنے کی وجہ سے انڈسٹری بھی تباہ ہوگئی۔ نتیجتاً اس سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں شرح غربت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

شرح غربت کی پیمائش کے انٹرنیشنل پیمانے

کسی خطہ میں غربت کی شرح کو ماپنے کے دو لیولز ہیں:

1. lower income poverty ratio

2. middle income poverty ratio

شرح غربت کی پیمائش کے پہلے معیار یعنی lower income poverty ratio کے تناظر میں پاکستان میں کم و بیش چالیس فیصد افراد غربت کا شکار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یومیہ تین US ڈالر/ ماہانہ 90 ڈالر اور پاکستانی کرنسی کے حساب سے 25 سے 30 ہزار کے درمیان کماتے ہیں۔ اسی طرح اگر middle income poverty ratio کا جائزہ لیں تو اس میں وہ افراد شامل ہیں جو یومیہ 5.5 US ڈالر یعنی کم و بیش چالیس ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں۔ گویا lower اور middle طبقات جو پاکستان کی آبادی کا 78 فیصد طبقہ ہیں، یہ 40 ہزار یا اس سے بھی کم کماتے ہیں اور پاکستان میں صرف 22 فیصد طبقہ وہ ہے جو چالیس ہزار سے زائد کماتا ہے۔ پاکستان کی اپنی سرکاری سروے رپورٹ جو 2021ء میں جاری ہوئی، اس کے مطابق 13 ڈالر یومیہ کمانے والے افراد تقریباً 22 فیصد ہیں۔

اگر ہم اپنے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنا موازنہ کریں تو یہ منظر نامہ دکھائی دیتا ہے کہ انٹرنیشنل رپورٹس کے مطابق 2006ء سے 2021ء کے درمیان انڈیا میں 415 ملین افراد خطِ غربت سے اوپر آئے ہیں۔ بنگلہ دیش میں 2016ء اور 2017ء کے دوران صرف 24 فیصد افراد خط غربت کے نیچے تھے اور اب خطِ غربت (extreme poverty lines) کے نیچے صرف 12.9 فیصد افراد رہ گئے تھے، اس کے علاوہ باقی سب افراد کو اس بحران سے نکال لیا گیا ہے۔

پاکستان کی مجموعی معاشی صورتحال

غریب سے غریب ملک بھی اپنی بہتری کی طرف گامزن ہے جبکہ بدقسمتی سے پاکستان ہر اگلے سال زیادہ تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہوتا جارہا ہے۔ ذیل میں مختلف شعبوں کے حوالے سے پاکستان کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ درج کیا جارہا ہے:

1۔ بے روزگاری: گزشتہ سال سے بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھتی چلی آرہی ہے اور ہم اس شرح کو کنٹرول کرکے کم نہیں کرسکے۔

2۔ اندرونی و بیرونی قرض: پاکستان کے انددرونی و بیرونی قرضوں کی بات کریں تو مارچ 2022ءتک پاکستان کم و بیش 54 ٹریلین روپے/ 248.7 بلین US ڈالرز کا مقروض ہے۔ یہ قرض پاکستان کے ٹوٹل GDP کا 80%فیصد ہے ۔ ماہرین معیشت اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر ان ریاستوں کو معاشی طور پر ناکام ریاست قرار دیا جاتا ہے جن کے قرض کی شرح ان کی GDP کے 60% تک پہنچ جائے۔

3۔ مہنگائی: 2023ء میں پاکستان میں general inflation بھی 23 فیصد بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ یعنی جتنی مہنگائی کا قوم آج سامنا کررہی ہے اس میں مزید 23 فیصد اضافے کا امکان ہے۔

۴۔ کرپشن: انٹرنیشنل رپورٹ میں 180 ممالک کی فہرست کے اندر پاکستان کو کرپشن میں 140 واں نمبر دیا گیا ہے۔ یعنی کرپشن کے حوالے سے بھی صرف چالیس ممالک ہم سے زیادہ کرپٹ ہیں اور 139 ممالک کرپشن میں کمی کے حوالے سے ہم سے بہتر ہیں۔

۵۔برآمدات و درآمدات:پاکستان کی برآمدات (exports) 2021ء میں 34.57 بلین تھیں۔برآمدات کے مقابلے میں ہماری درآمدات (imports) بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ 2021ء میں 69 بلین کے قریب سامان Import کیا گیا۔ یعنی سالانہ درآمدات بڑھتی جارہی ہیں اور برآمدات کم ہوتی جارہی ہیں۔ اس کا مطلب ہوا تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے جس کو حل کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

اس کے برعکس بنگلہ دیش کا جائزہ لیں تو گزشتہ چند سالوں سے ہر سال وہ اپنی برآمدات (exports) کو بڑھاتے چلے گئے ہیں۔ یعنی اگر پاکستان کی برآمدات 2021ء میں 34 بلین تھی تو بنگلہ دیش کی 44 بلین تھی۔ اسی طرح انڈین برآمدات کی بات کریں تو 2021ء میں 660 بلین ڈالرز تھی اور پچھلے تین سالوں سے اس میں اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے۔

6۔ بیرونی سرمایہ کاری: پاکستان کی بیرونی سرمایہ کاری کا (foreign investment) پچھلے تین سال سے زوال کا شکار ہے۔ 2020ء میں تقریباً 2 بلین ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری تھی۔ اس کے برعکس انڈیا کی بیرونی سرمایہ کاری 2020ء میں 64 بلین ڈالر کی تھی۔ ہم اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کی سب سے بنیادی وجہ بیرونی سرمایہ کار کو پاکستان میں سرکاری سطح پر سہولیات کا فراہم نہ کیا جانا، کام کرنے کے لیے حد سے زیادہ قانونی پیچیدگیاں اور حکمرانوں کا غیر سنجیدہ طرز عمل ہے۔ ایک انٹرنیشنل سروے رپورٹ جس میں 190 ممالک کا جائزہ لیا گیا کہ وہ ممالک جن میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے یا کم ہورہی ہے تو اس تناظر میں پاکستان کا 108 واں نمبر ہے۔ جب بیرونی سرمایہ کار اور بزنس مین کو پاکستان میں ایسی صورتحال درپیش ہوگی تو وہ کیونکر ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرے گا۔

اس کے برعکس انڈیا میں بیرونی سرمایہ کاری بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ 190 ممالک کے اندر انڈیا کو 63 واں نمبر دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے کاروبار کرنے کے لیے سرکاری سطح پر سہولیات دی ہیں، قانونی پیچیدگیوں کو سرمایہ کار کے لیے کم سے کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ایسی پالیسیز متعارف کرواتے ہیں کہ وہ بیرونی سرمایہ کار کے لیے باعث کشش ہوتی ہیں اور ان کو آسانی فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ سرمایہ بآسانی ایک محفوظ ماحول میں لاکر اس ملک میں خرچ کرسکیں۔

۷۔ تعلیم کی صورتحال:اسی طرح ہمارا شعبہ تعلیم بھی آج زوال کا شکار ہے۔ آج بھی پاکستان کے اندر شرح خواندگی 62 فیصد ہے۔

8۔ صاف پانی کی صورتحال: صاف پانی کے حوالے سے پچھلے چار سالوں سے پاکستان خطرناک بحران کا سامنا کرتا چلا آرہا ہے لیکن ان چار سالوں میں کسی بھی حکومت نے صاف پانی فراہمی میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ جس کی بنا پر زیرو فیصد بھی اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ جبکہ تازہ پانی کے ذخائر بھی ہمارے ہاں لگاتار کم ہورہے ہیں۔

9۔ ماحولیاتی آلودگی: ہمارے ہاں صنعتوں اور فیکٹریوں کے فاضل مادوں (industrial waste) کو recycle کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ آج بھی اس کو کسی زیریں علاقے کی زمین کو بلند کرنے کے لیے اس کے اندر دبا (Dump) دیا جاتا ہے جو کہ آلودگی کے اندر اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ہر سال لاہور دنیا کے آلودہ شہروں میں اسی وجہ سے شمار ہوتا ہے۔ جب اس waste کو زمین کے اندر Dump کردیا جاتا ہے تو بعد ازاں اس سے گیسز پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں اتنی آلودگی پیدا ہوتی ہے کہ جتنا کئی بلین ڈیزل کے چلنے سے آلودگی پیدا ہوتی ہے۔

گلوبل وارمنگ کو دیکھا جائے تو یہاں جنگلات اور درختوں کی کمی ہے۔ ہم زرعی زمین کو تباہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ حالانکہ پوری دنیا میں پالیسیز ہوتی ہیں کہ یہ یہ گرین ایریاز ہیں، یہاں رہائشی کالونیز نہیں بناسکتے، یہاں ہاؤسنگ سوسائٹیز نہیں بناسکتے۔ اسی طرح انڈسٹریل ایریاز کو بھی حد بندی کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسی کوئی پالیسی نہیں، جہاں جس کا دل چاہتا ہے کنسٹرکشن کرتا ہے۔ اس کی وجہ کرپشن بھی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ پاکستان گلوبل وارمنگ کا بدترین شکار ہورہا ہے۔

سیلاب کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو کئی انٹرنیشنل رپورٹس کے مطابق اگلے چند سالوں میں حالیہ سیلاب سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن سیلاب پاکستان میں آئیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جنگلات ختم کردیئے ہیں اور ہر جگہ پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنادی ہیں۔

1۔ متفرق شعبہ جات کی صورتحال: NRI (Network rediness report) میں مختلف ممالک کی کارکردگی کا موازنہ کرنے کے لیے چار بنیادی عوامل کا جائزہ لیا جاتا ہے:

1. Technology

2. Peoples

3. Governance of that state

4. General impact of policies

ان چار پہلوؤں سے کسی بھی ملک کی کارکردگی کا یہ رپورٹ تجزیہ کرتی ہے۔ اس کے مطابق 131 ممالک میں پاکستان کو ان تمام مذکورہ شعبہ جات میں 89 واں نمبر دیا گیا ہے۔ یعنی 88 ممالک اور اقوام ان تمام پہلوؤں میں ہم سے بہتر ہیں اور ہم آخر کے چالیس ممالک میں آتے ہیں۔

آج سے دس سال پہلے جب ہم انٹرنیشنل ڈیٹا کا جائزہ لیتے تھے تو اس وقت پاکستان کا ڈیٹا ساؤتھ ایشین ممالک، مڈل ایسٹ ممالک اور گلف ممالک کی فہرست میں نظر آیا کرتا تھا۔ آج جب ہم اس ڈیٹا کو دیکھتے ہیں تو وہ افریقی ممالک کی فہرست میں ملتا ہے۔

11۔ زر مبادلہ کے ذخائر: اس وقت انٹرنیشنل رپورٹس کے مطابق پاکستان ڈیفالٹ لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہے، جسے ڈیفالٹ ہونے کا رسک ہے۔ حالیہ جنوری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا زر مبادلہ 4.3 بلین ڈالرز تک پہنچ چکا تھا۔ IMF کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو مزید 7 بلین ڈالرز کی شدید ضرورت ہے۔ اگر ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا ہے تو پھر اگلے تین سال کے اندر پاکستان کو 75 بلین ڈالرز کی ادائیگی کرنا ہے یعنی سالانہ 25 بلین ڈالرز پاکستان کو ادا کرنے ہیں۔ UAE، سعودی عرب اور چائنہ سے ملنے والے قرض پر حکومت شور مچاتی ہے کہ پاکستان کو بہت بڑا ریلیف مل گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سارے وعدے (Commitment) ورلڈ پراجیکٹ ہے۔ یہ پاکستان کی regular operational expences کی repayment ہے۔ اس کے ذریعے ہمیں کوئی سپورٹ میسر نہیں ہے۔ گویا پاکستان کے اوپر خطرہ جوں کا توں موجود ہے۔

آج معیشت کے حوالے سے ہم کئی پھندوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہم جس wishes سرکل کے اندر trap ہوچکے ہیں، چاہے وہ IMF کا ہو، چاہے وہ Intrest based loans ہوں، ہم نے قرضوں کے اوپر اپنی معیشت کو استوار کرلیا ہے، اب اس سےنکلنے کا امکان بہت کم ہے۔ سوائے اس کے کہ پاکستان اپنی بہت ساری چیزیں فروخت پر لگادے۔ اس کے بغیر پاکستان کا اس موجودہ صورتحال سے عملی طور پر نکلنا مشکل ہے۔ ان حالات میں انسان اچھی خواہشات تو کرسکتا ہے لیکن حقیقی بات کی جائے تو کوئی اور آپشن نظر نہیں آتے۔

اسلامک اکنامکس اینڈ فنانس کا بنیادی قاعدہ

اکنامکس کا ایک بنیادی قانون رسد (supply) اور طلب (demand) ہے۔ اگرقیمت بڑھتی ہے تو طلب (demand) کم ہوجاتی ہے اور خودبخود قیمتیں ایڈجسٹمنٹ کی طرف جاتی ہیں۔ کیونکہ کسی چیز کی طلب کم ہوجائے تو ایڈجسٹمنٹ کے لیے ٹیرف (قیمتیں) نیچے کرنے پڑیں گے۔ ہمارے ہاں یہ کیوں نہیں ہورہا؟ اس لیے کہ Intrest based banks کی سپلائی موجودہ ہے۔ سپلائیر بھی زیادہ intrest کے اوپر فنانسنگ لے لیتا ہے اور صارف (Consumer) بھی زیادہ intrest کے اوپر فنانس کرتا ہے۔ یہ وہ intrest based economy کا wishes circle ہے کہ جب قیمت بڑھتی ہے تو صارف (consumar) کو طلب (demand) کم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے، وہ اور فنانس کی طرف دوڑتا ہے اور اپنی ضرورت کو refinance کرتا ہے اور زیادہ intrest کے اوپر پیسہ اٹھاتا ہے۔ اسی طرح سپلائر بھی اپنے خام مال کی خریداری کے لیے پھر فنانس کی طرف دوڑ پڑتا ہے اور high intrest rate کے اوپر وہ اپنی ضرورت کو فنانس کرتا ہے۔ اس طرح یہ نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے۔ اور پوری دنیا اس جال میں پھنسی ہوئی ہے۔

اس کے برعکس جب ہم اسلامک اکنامکس اینڈ فنانس اور intrest free اکانومی کی بات کرتے ہیں تو وہ ایسی فنانسنگ سے اجتناب کا درس دیتی ہے جو آپ کی ضرورت سے زائد ہو۔ یعنی اسلام بنیادی طور پر یہ تعلیم مہیا کرتا ہے کہ ہم قرض کی طرف انتہائی ناگزیر حالت میں جائیں کہ جب ہماری بقا (survival) بھی ممکن نہ ہو۔ یعنی ایسے اخراجات کو اسلام سپورٹ نہیں کرتا جو مکمل فنانس کے اوپر منحصر ہوں اور اس سے ہماری پوری معیشت فنانس کے گرد گھومنے لگ جائے۔ اسی وجہ سے جب ہم اسلامک بنک کو دیکھتے ہیں تو جو پراڈکٹ اسلامک بنکس کی طرف سے متعارف کی جاتی ہیں، یہ صرف فنانس Orianted نہیں ہوتیں کہ پیسے کے عوض پیسہ معاشرے میں گردش کرے اور اس کے اندر Intrest کا بزنس چل رہا ہو۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے قیمتیں اب تک کنٹرول میں نہیں آرہیں اور آئندہ بھی اس کا امکان کم پایا جاتا ہے یہاں تک کہ کوئی گورنمنٹ اپنی پالیسیز اس حوالے سے متعارف کرائے۔

جب ہم اسلامک اکنامکس کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد معیشت کے حوالے سے حضور نبی اکرمﷺ کی تعلیمات ہیں۔ اسلامک اکنامکس سے مراد کوئی ایسی پروڈکٹ نہیں ہے جسے ہاتھ میں پکڑ لیں اور کہیں یہ اسلامک اکنامکس ہے بلکہ یہ ایک نظامِ حیات اور ایک life styleکا نام ہے۔ یہ ٹولز (tools)اور ٹیکنیکس (techniques) کا نام نہیں ہے۔ ہمارے بہت سارے اسلامک بنکنگ اینڈ فنانس سے تعلق رکھنے والے بنکس کچھ ٹولز، ٹیکنیکس اور پروڈکٹس متعارف کرانے کے بعد سمجھتے ہیں کہ شاید انہوں نے اسلامک اکنامکس اختیار کرلی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔

اسلامک اکنامکس ایک سوچ اور نظریے کے بدلنے کا نام ہے۔ ہماری کاروباری زندگی کے بدلنے کا نام ہے۔۔۔ ہم کاروبار کیسے کرتے ہیں، اس نظام کا نام ہے۔۔۔ اس میں ہمارا thinking process تبدیل ہوجاتا ہے۔۔۔ اپنے ملازمین (emplyees) کے ساتھ dealing تبدیل ہوجاتی ہے۔۔۔ خریدار کے ساتھ رویہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ اسلامک اکنامکس کا نظام ہمارے thinking process سے آگے بڑھتا ہے کہ ہمارا سوچنے کا انداز اور معاشرے میں ہمارے اخراجات کا مزاج بدل جائے۔

مثال کے طور پر جب ہم سرمایہ دارانہ نظام (capitalism)کی بات کرتے ہیں یا ماڈرن اکنامکس کی بات کرتے ہیں تو اس کی تعریف کا مکمل تصور محدود وسائل (limited resources) اور لامحدود خواہشات (unlimited desires) کے گرد گھومتا ہے کہ کیونکہ انسان لامحدود خواہشات کا مجموعہ ہے، اس کی خواہشات کی کوئی حد نہیں لیکن معاشرے کے اندر وسائل محدود ہیں تو اکنامکس اس بات کو سمجھاتی ہے کہ اپنی نہ ختم ہونے والی خواہشات اور محدود وسائل کے درمیان تعلق کیسے قائم کرنا ہے؟ یہ modern and contemporary اکنامکس کی زبان ہے۔ جبکہ اسلامک اکنامکس کی زبان سوچ کا انداز بدل دیتی ہے ۔ اسلامک اکنامکس کی تعریف یہ ہے کہ یہ ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ اپنی لامحدود خواہشات کو محدود کیسے کرنا ہے۔۔۔؟ جب انسان مسلسل اپنی خواہشات کو محدود کرتا چلا جائے گا تو خود بخود معاشرے کے اندر موجود وسائل اس کے لیے لامحدود ہوجائیں گے۔ اگر اس نظام اور قانون کا حکومتوں اور ممالک کی سطح پر بھی اطلاق ہوجائے یعنی اخراجات کے حوالے سے فضول خرچی اور بے جا خرچ کنٹرول ہوجائے تو ممالک اور حکومتیں اپنے معاشی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ آج سے پچاس یا پچیس سال پہلے یا نوے کی دہائی میں پاکستان میں بھی اگر حکومتیں فضول خرچی، بے جا خرچ اور خواہشات کو کنٹرول کرتیں تو شاید پاکستان کے وسائل بھی لامحدود ہوجاتے۔

اسلامی تعلیمات ہمیں صرف مذہبی شعائر اور عبادات کے امور پر ہی رہنمائی نہیں دیتیں بلکہ یہ ہمارے کل نظام حیات کو محیط ہیں۔ اس باب میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم کسی سے اپنا اسلام سمجھ رہے ہیں اور سیکھ رہے ہیں۔۔۔؟ اگر ہم اسلام ایسے شخص سے سیکھتے ہیں کہ جو تالاب کی مچھلی ہے تو اس نے تو صرف و نحو کی گردانوں سے باہر کچھ دین سیکھا ہی نہیں تو وہ ہمیں کوئی نظام اسلام کی روشنی میں نہیں سمجھا سکتا۔ لیکن اگر ہم کسی ایسے شخص کے پاس جاتے ہیں جو نظامِ معیشت بھی سمجھتا ہے، نظامِ سیاست کو بھی سمجھتا ہے، نظامِ معاشرت کو بھی سمجھتا ہے اورآقاe کی تعلیمات پر بھی گہری نظر رکھتا ہے تو وہ اہمیں بہتر انداز میں ہمارےmodern life style کے لیے جو موزوں ہے، وہ نظام اسلام کی روشنی میں سمجھا اور سکھا سکتا ہے۔

اسلامی نظامِ معیشت کے بنیادی اجزاء

آیئے! اب اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ اسلامی نظامِ معیشت کے بنیادی اجزاء کے بارے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں:

1۔ اسلامی نظام معیشت کا آغاز درحقیقت نیت سے ہوتا ہے۔ آقا علیہ السلام  نے ارشاد فرمایا:

إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.

(بخاری، الصحیح، 1: 3، الرقم: 1)

’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘

اسلامی معیشت (اکنامکس) کے ٹولز و ٹیکنیکس بہت بعد میں آتے ہیں، سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ انسان کی نیت کیا ہےاور وہ چاہتا کیا ہے۔۔۔؟ کیا وہ قانون کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے یا وہ حقیقی طور پر اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہے۔۔۔؟ اگر تو اس طرح کا طرزِ عمل یا سوچ ہو کہ فتویٰ بھی نہ لگے اور اسلام کے دائرے میں بھی رہے اور پھر اپنی خواہشات بھی پوری کرلے، تو یہ اسلامک اکنامکس نہیں ہے۔

جیسے ہم زکوٰۃ کے ساتھ کرتے ہیں کہ جب سال بعد زکوۃ دینے کا وقت آتا ہے تو فوری مفتیان کرام کے پاس دوڑتے ہیں کہ کوئی ایسا طریقہ بتادیں کہ مال پر کم پیسہ دینا پڑے۔اگر سوچ اسلامی معیشت اور آقا علیہ السلام  کی تعلیمات کے تابع ہے تو پھر انسان یہ نہیں کہے گا کہ مجھے پیسہ بچانا ہے بلکہ وہ جاکر کہے گا کہ مجھے کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میں اپنے مال کے ذریعے آقا علیہ السلام  کی غریب امت کی زیادہ خدمت کرسکوں اور اپنے معاشرے میں غربت کو بہتر انداز میں دور کرسکوں۔ اس لیے اسلامک اکنامکس کا مطالعہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنی نیت کا جائزہ لیں کہ کیا سوچ کارفرما ہے جس کے نتیجے میں ہم اسلامی معیشت کو اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

2۔ معیشت کے حوالے سے اسلام کی مزید تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام کاروبار سے نہیں روکتا، نہ قرآن مجید کی تعلیمات کاروبار سے روکتی ہیں اور نہ ہی حضور نبی اکرمﷺ کی تعلیمات کاروبار سے روکتی ہیں بلکہ اسلام نے کاروبار کے لیے نظام وضع کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.

(الجمعۃ، 62: 9)

’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔‘‘

گویا ہمیں کاروبار کے لیے رغبت دلائی جارہی ہے۔ یہ بھی اسلامی تعلیمات کا ایک رخ ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اس سوچ کی حوصلہ شکنی بھی کی جارہی ہے کہ نماز پڑھنے کے بعد مساجد اور مزارات میں بے جا گھنٹوں مت بیٹھے رہیں بلکہ اپنے بچوں کی روزی کے لیے تگ و دو کریں۔ اس لیے فرمایا کہ جب اللہ کے حضور فرض عبادات کے لیے حاضر ہوں تو فارغ ہوکر فوری رزق تلاش کرنے کے لیے زمین میں پھیل جایا کریں۔ایک اور مقام پر فرمایا:

لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ.

(البقرة، 2: 198)

’’ اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں اگر تم (زمانہء حج میں تجارت کے ذریعے) اپنے رب کا فضل (بھی) تلاش کرو۔‘‘

اب حج سے بڑی اللہ تعالیٰ کی کون سی عبادت ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم حج کے دوران بھی تجارت کرو تو کوئی گناہ کا کام نہیں ہے۔یہ اسلام کی وہ اعلیٰ سوچ ہے جو کاروبار اور تجارت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

3۔ اسلام ہمیں اس بات کا بھی پابند بناتا ہے کہ تجارت سے مال تو کماؤ مگر کسی کا مال ناجائز طریقے سے غصب نہ کیا کرو، یا لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر intrest کے ذریعے پیسے سے پیسہ نہ کمایا کرو بلکہ تجارت اور کاروبار کرو جس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہواور لوگوں کو روزگار میسر آئے۔ اپنے پیسے کو intrest کے ذریعے بڑھاتے چلے جانے سے کسی کو روزگار مل رہا ہے اور نہ کوئی انڈسٹری لگ رہی ہے اور نہ ہی ملکی معیشت میں کوئی بہتری آرہی ہے۔ یہ اسلامی معیشت کی وہ بنیادی بات (core point) ہے کہ اسلامی معیشت intrest پر پیسہ دینے کی بجائے تجارت پر زور دیتی ہے کیونکہ تجارت سے بے روزگار لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے اور ملکی معیشت کو فائدہ پہنچتا ہے۔

(جاری ہے)