الفقہ: سانحۂ کربلا اور غمِ حسین علیہ السلام

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: یوم عاشورہ کے روزے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب: یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا افضل ترین عمل ہے کیونکہ احادیث مبارکہ میں اس کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ویسے تو یوم عاشورہ کے روزے کے حوالے سے بہت سی روایات ملتی ہیں، مگر اختصار کی خاطر چند احادیث درج ذیل ہیں:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِیضَةِ صَلَاةُ اللَّیْلِ.

(مسلم، الصحیح، 2: 821، رقم: 1163)

رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مدینہ منورہ میں تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے یہود کو دیکھا کہ عاشورے کا روزہ رکھتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ عرض کی کہ یہ اچھا دن ہے، اس روز اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کا روزہ رکھا۔

قَالَ فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَی مِنْکُمْ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ.

(بخاري، الصحیح، 2: 704، رقم: 1900)

فرمایا کہ تمہاری نسبت موسیٰ علیہ السلام سے میرا تعلق زیادہ ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ نے اس کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا۔

جب حضور نبی اکرم ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس روزے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا: اس دن کی تو یہود اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

فَإِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّی تُوُفِّيَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ.

جب اگلا سال آئے گا تو ہم ان شاء اللہ نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابھی سال آنے نہ پایا تھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا وصال ہوگیا۔

(مسلم، الصحیح، 2: 797، رقم: 1134)

دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کے بارے میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

صُومُوا یَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا الْیَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ یَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ یَوْمًا.

(ابن خزیمہ، الصحیح، 3: 290، رقم: 2095)

عاشورے کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد اس کے ساتھ روزہ رکھو۔

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ عاشورے کے روزے رکھنا سنت رسول ﷺ ہے اور یہود کی مخالفت میں نویں اور دسویں محرم کے روزے ملا کر رکھنا بھی سنت ہے۔

سوال :شہدائے کربلا پر ہر سال ایک متعین تاریخ کو سوگ منانے کا کیا حکم ہے؟

جواب : یہ بات ذہن میں رہے کہ شہدائے کربلا کا ہر سال سوگ نہیں منایا جاتا ہے بلکہ ان کی یاد میں غم کا اظہار کیا جاتا ہے۔ غم کا یہ اظہار رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہما جوکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ اور رسول اللہ ﷺ کی چچی ہیں، ان سے مروی ہے کہ :

ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور (امام حسین علیہ السلام) کو آپ کی گود میں دے کر ذرا دوسری طرف متوجہ ہوگئی اور پھر (مڑ کر آپ کی طرف نظر اٹھائی تو) کیا دیکھتی ہوں کہ:

فَإِذَا عَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُهْرِيقَانِ مِنَ الدُّمُوعِ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مَا لَكَ؟ قَالَ: أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أُمَّتِي سَتَقْتُلُ ابْنِي هَذَا، فَقُلْتُ: هَذَا؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَأَتَانِي بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاءَ.

(حاکم، المستدرک علیٰ الصحیحین، 3: 194، الرقم: 4818)

رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کو کیا ہوا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ابھی میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امت (میں سے ایک جماعت) میرے اس بیٹے کو قتل کر دے گی۔ میں نے پوچھا: کیا اِس بیٹے کو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، مجھے اس قتل گاہ کی زمین میں سے کچھ مٹی دی جو سرخ تھی۔

مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے واقعہ کربلا کی خبر دیتے ہوئے آنسو بہائے، اس لیے آج بھی شہدائے کربلا کی یاد تازہ کی جاتی ہے، ان کی مظلومانہ شہادت پر غمگین ہوا جاتا ہے، آنسو بہائے جاتے ہیں اور ان کی شہادت کے مقاصد کو بیان کیا جاتا ہے جس میں سے کوئی شے بھی غیرشرعی یا ممنوع نہیں ہے۔

یاد رکھیں! سوگ مرنے والے کے ورثاء تین دن تک اور اس کی بیوی چار ماہ دس دن تک کرتی ہے، پھر اس کی یاد تازہ کی جاسکتی ہے، اس کی یاد میں غمگین ہونا ممنوع نہیں ہے، اس کو یاد کرکے آنسو بہانے کی بھی ممانعت نہیں، لیکن اس کی بیوی نہ ہر سال عدتِ سوگ مناتی ہے اور نہ باقی ورثاء تین دن کے لیے کام کاج چھوڑ کر گھر بیٹھ کر تعزیت کرتے ہیں۔ تاہم شہدائے کربلا کی داستانِ حریت و عزیمت نہایت المناک ہے۔ شہدائے کربلا کی یاد تازہ کرنے کے لیے اس قدر اہتمام کی انفرادی وجوہات ہیں۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف ’فلسفہ شہادتِ امام حسین‘ ملاحظہ کیجیے۔

سوال : خلفائے ثلاثہ کی اولادیں امام حسینؑ کے ساتھ کربلا میں شریک کیوں نہیں تھیں؟

جواب: خلفائے ثلاثہ کی اولادیں کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ شریک نہیں تھیں۔ اُن کے شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام مدینہ منورہ سے جنگ کیلئے روانہ نہیں ہوئے تھے اور نہ آپ علیہ السلام نے صحابہ کرام یا تابعین کو اپنے ساتھ محاذ پر چلنے کی دعوت دی تھی۔ امام حسین علیہ السلام کسی صورت محاذ آرائی کے ارادے سے مدینہ منورہ سے روانہ نہیں ہوئے تھے۔ آپ علیہ السلام چاہتے تو ہزاروں صحابہ کرام اور تابعین کو ساتھ لے کر نکل سکتے تھے۔ آپ علیہ السلام نے شہرِ مدینہ چھوڑا اور مکہ مکرمہ آئے، پھر ایّامِ حج میں شہرِ مکہ چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس سارے سفر میں آپ نے امن و امان کی کوششیں کیں مگر یزید لعین نے اقتدار کی ہوس میں سانحہ کربلا برپا کیا۔

المختصر یہ کہ امام حسین علیہ السلام نہ ارادۂ جنگ سے نکلے تھے، نہ آپ علیہ السلام نے اہلِ مدینہ کو ساتھ نکلنے کی دعوت دی تھی، اس لیے اکابر صحابہ کرام اور تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے لشکر میں شامل نہیں ہوئے۔

سوال :کیا سیدنا امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد ریاست کے خلاف بغاوت تھی؟

جواب: سیدنا امام حسین علیہ السلام نے ایک شرابی، زانی، ظالم، جابر، سفاک اور درندہ صفت حکمران یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا، یعنی اس کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے برائی کے کاموں میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا، لیکن یزید چاہتا تھا کہ اگر نواسہ رسول ﷺ میری بیعت کر لیں تو باقی بہت سے لوگ بھی مجھے حکمران مان لیں گے، یعنی ووٹ دے دیں گے۔ لیکن سیدنا امام حسین علیہ السلام نے اس کے غلط طرز زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے صاف انکار کر دیا لیکن یزید کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کو کہا کہ میں دلیل سے بات کروں گا۔ یزید جھوٹا اور مکار ہونے کی وجہ سے خود تو سامنے نہ آیا لیکن زبردستی بیعت کروانے کا منصوبہ بنا لیا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام اپنی فیملی سمیت مدینۃ الرسول ﷺ چھوڑ کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے، انہیں ڈر تھا کہ مدینہ پاک میں کہیں خون نہ بہے۔ دوسری طرف اس دوران کوفہ والوں نے بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کو دعوت دی کہ ہمارے پاس آ جائیں ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ لیکن آپ علیہ السلام ابھی مکہ میں تھے کہ حج کا مہینہ شروع ہو گیا۔ آٹھ ذوالحجہ کو پھر امام عالی مقام نے سوچا کہ یہاں بھی مسلمان کا اجتماع ہو گا کہیں ایسا نہ ہو کہ ظالم، سفاک یزید کی افواج سے ٹکر ہو جائے اور حرم پاک میں خون کی ندیاں بہہ جائیں، اسی لیے امن کے دامن کو تھامتے ہوئے آپ علیہ السلام نے کوفہ جانے کی غرض سے سفر شروع کر دیا لیکن یزیدی لشکر نے آپ رضی اللہ عنہ کو کربلا کے مقام پر روک لیا اور سات محرم الحرام کو آپ رضی اللہ عنہ پر پانی بند کر دیا اور یزید کی بیعت کرنے پر مجبور کیا گیا، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا حتی کہ دس محرم الحرام کو یزیدی لشکر نے ظلم کے پہاڑ ڈھا دیئے اور آپ رضی اللہ عنہ کو فیملی اور ساتھیوں سمیت شہید کر دیا۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے شروع سے آخر تک صبر اور امن کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ آپ امن کے داعی تھے، آپ نے کہیں بھی ریاست سے بغاوت کا حکم نہیں دیا۔ امت مسلمہ بلکہ غیر مسلم بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے صبر کی مثال قائم کر دی اور امن کا سبق دیا۔ خون خرابے سے بچنے کی غرض سے شہر مدینہ بھی چھوڑ دیا اور مکۃ المکرمہ بھی۔لہذا معلوم ہوا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھایا کہ جس میں ریاست سے بغاوت کا عنصر پایا جاتا ہو۔ بیعت کرنے یعنی ووٹ دینے میں ہر کوئی آزاد ہوتا ہے جس کو مرضی دے۔ ایسا تو خالق کائنات نے نہیں کیا کہ زبردستی کسی سے کوئی کام کروائے۔ اچھائی اور برائی دونوں راستے انسان کے سامنے رکھ دیئے ہیں، جو چاہے اختیار کر سکتا ہے۔ یزید کون ہوتا ہے جو زبردستی نواسہ رسول ﷺ کو بیعت کرنے پر مجبور کرے؟

اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب 'دہشت گردی اور فتنہ خوارج' کا مطالعہ کریں۔

سوال : امام حسین علیہ السلام کے بریدہ سر سے تلاوتِ قرآن جاری ہونے کی روایت کی حقیقت کیا ہے؟

جواب: سرِ امام حسین علیہ السلام کا نیزے پر تلاوت کرنا روایات سے ثابت ہے جبکہ یہ روایات اہل سنت کی معتبر کتابوں میں نقل کی گئی ہیں۔ حوالہ جات کے ساتھ دو روایات درج ذیل ہیں:

1۔ منھال بن عمرو سے روایت ہے کہ اس نے کہا:

أَنَا وَاللهِ رَأَيْتُ رَأْسَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ حِيْنَ حَمْلِ وَأَنَا بِدِمَشْقٍ وَبَيْنَ يَدَيْ الرَّأْسَ رَجُلٌ يَقْرَأُ سُوْرَةَ الْكَهْفِ حَتَّى بَلَغَ قَوْلَهُ تَعَالَى: (أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا) قَالَ فَأَنْطَقَ اللهُ الرَّأْس بِلِسَانِ ذَرَبِ فَقَالَ أَعْجَبُ مِنْ أَصْحَابِ الْكَهْفِ قَتْلِيٌّ وَحَمْلِيٌّ.

خدا کی قسم میں نے حسین بن علی کے سر کو نیزے پر دیکھا ہے اور میں اس وقت دمشق میں تھا۔ وہ سر سورہ کہف کی تلاوت کر رہا تھا حتی کہ باری تعالیٰ کے اس فرمان پر پہنچا: (أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا) وہ کہتا ہے کہ اس آیت کے فوری بعد سر نے واضح اور بلیغ زبان میں کہا کہ اصحاب کہف سے زیادہ عجیب میرا قتل ہونا اور میرے سر کو نیزے پر اٹھانا ہے۔

(ابن عساكر، تاريخ مدينة ودمشق،60: 370) (ابن منظور المصري مختصر تاريخ دمشق،3: 362) (صلاح الدين الصفدي، الوافي بالوفيات، 15: 205) (جلال الدين السيوطی، الخصائص الكبرى، 1: 216) (جلال الدين السيوطی، شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور، 1: 210) (الصالحي الشامی، سبل الهدى والرشاد 11؛ 76) (عبد الرؤوف المناوي، فيض القدير شرح الجامع الصغير، 1: 205)

2۔ ایک اور روایت جس میں سلمہ بن کہیل نے بیان کیا:

رَأَيْتُ رَأْسَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى الْقَنَا وَهُوَ يَقُولُ (فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ).

میں نے حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے سر کو نیزے پر دیکھا ہے وہ یہ آیت پڑھ رہا تھا (فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ).

(ابن عساكر، تاريخ مدينة ودمشق، 22: 117)

امام حسین علیہ السلام کے سر انور سے قرآن مجید کی تلاوت جاری ہونا محال نہیں ہے۔ مولانا محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمة اللہ علیہ یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

در حقیقت بات یِہی ہے کیونکہ اَصحابِ کَہف پر کافِروں نے ظلم کیا تھا اور حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السلام کو ان کے نانا جان ﷺ کی اُمّت نے مہمان بنا کر بلایا، پھر بیوفائی سے پانی تک بند کر دیا! اٰل و اَصحاب علیہم الرضوان کو حضرتِ امامِ پاک علیہ السلام کے سامنے شہید کیا۔ پھر خود حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السلام کو شہید کیا، اہلبیتِ کِرام علیہم الرضوان کو اَسیر بنایا، سرِ مبارک کو شہر شہر پھرایا۔ اَصحابِ کہف سالہا سال کی طویل نیند کے بعد بولے یہ ضَرور عجیب ہے مگر سرِ انور کا تنِ مبارک سے جدا ہونے کے بعد کلام فرمانا عجیب تر ہے۔

(مراد آبادی، سوانحِ کربلا، ص: 118)

سوال: یزید کے بارے میں امام اعظم کا موقف کیا تھا؟

جواب: حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اہلِ بیت اطہار علیہم السلام سے بےپناہ محبت کرتے تھے۔ محبتِ آلِ رسول ﷺ کے سبب آپ کو بنوامیہ کے حکمرانوں اور عمّال نے قید و بند کی صعوبتوں سے گزرا اور آپ پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ یہاں تک کہ جیل میں ہی آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ آپ کے بارے میں یہ گمان قطعی غلط ہے کہ آپ نے یزید کے معاملے میں خاموشی اختیار کرنے کا کہا ہے۔ کسی مستند کتاب میں امام اعظم کا ایسا کوئی مؤقف نہیں ملتا۔

آپ نے اموی بادشاہت کی مخالفت کی، ان سے جنگ کرنے کو چالیس نفلی حجوں سے زیادہ ثواب والی عبادت قرار دیا، شورشوں میں آلِ فاطمہ کا ساتھ دیا تو آلِ فاطمہ کے قاتلِ اعظم پر خاموشی کیسے اختیار کرسکتے ہیں؟ عظیم مؤرخ ابن خلکان اپنی کتاب تاریخ ابن خلکان المعروف وفيات الأعيان میں بیان کرتے ہیں:

وَسُئِلَ الْكِيَّا أَيْضًا عَنْ يَزِيْدِ بْنِ مَعَاوِيَةَ فَقَالَ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ مِنَ الصَّحَابَةِ لِأَنَّهُ وُلِدَ فِيْ أَيَّامِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه وَأَمَّا قَوْلُ السَّلَفِ فَفِيْهِ لِأَحَمَدَ قَوْلَانِ تَلْوِيْحٌ وَتَصْرِيْحٌ وَلِمَالِكِ قَوْلَانِ تَلْوِيْحٌ وَتَصْرِيْحٌ وَلِأَبِيْ حَنِيْفَةَ قَوْلَانِ تَلْوِيْحٌ وَتَصْرِيْحٌ وَلَنَا قَوْلٌ وَاحِدٌ التَّصْرِيْحُ دُوْنَ التَّلْوِيْحِ وَكَيْفَ لَا يَكُوْنُ كَذَلِكَ وَهُوَ الْلَاعِبُ بِالنَّرْدِ وَالْمُتَصَيِّدُ بِالْفَهُوْدِ وَمُدْمِنُ الْخَمْرِ وَشِعْرُهُ فِيْ الْخَمْرِ مَعْلُوْمٌ.

الکیّا سے بھی یزید بن معاویہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یزید صحابی نہیں تھا کیونکہ وہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ایام خلافت میں پیدا ہوا تھا۔ رہاسلف کا قول اس پر لعنت کے بارے میں تو امام احمد رحمہ اللہ کے اس بارے میں دو قول ہیں: ایک میں اس کے ملعون ہونے کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے میں اس کی تصریح ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے بھی دو قول ہیں: ایک میں اس پر لعنت کا اشارہ اور دوسرے میں تصریح ہے۔ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بھی اس کے بارے میں دو قول ہیں: ایک میں اس پر لعنت کا اشارہ ہے اور دوسرے میں یزید پر لعنت کی تصریح ہے اور ہمارا تو بس ایک ہی قول ہے، جس میں اس پر لعنت کی تصریح ہے، اشارہ کنایہ کی بات نہیں۔ اور وہ کیوں ملعون نہ ہو گا حالانکہ وہ نرد کھیلتا تھا، چیتوں سے کھیلا کرتا تھا۔ شراب کا رسیا تھا، شراب کے بارے میں اس کے اشعار سب کو معلوم ہیں۔ (ابن خلكان، وفيات الأعيان الزمان، 3: 287)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دیگر آئمہ اہلِ سنت کی طرح امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی یزید پر لعنت کے قائل تھے اور اسے مستحقِ لعنت گردانتے تھے۔

مزید تفصیل کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتاب ’’ القول المتین فی امر یزیداللعین‘‘(یزید کے کفر اور اس پر لعنت کا مسئلہ؟) کا مطالعہ کریں۔

سوال: کیا کسی کو فرعون اور یزید کہنا درست ہے؟

جواب: فرعون اور یزید جو شخصیات کے نام تھے، مگر ان کی ذہنیت اور نظامِ حکومت کی وجہ اب وہ اس ذہنیت اور نظام کے استعارے بن چکے ہیں۔ یزید کی سوچ اور اس کا نظام یزیدیت کہلاتا ہے، جبکہ فرعون کی ذہنیت اور نظامِ حکومت کو فرعونیت کہا جا تا ہے۔ یہ دونوں سوچیں اور نظام چونکہ ظلم، زیادتی، کرپشن، لوٹ مار، قتل وغارت، دہشت گردی اور غنڈہ گردی پر مبنی ہیں، تو جو شخص بھی ایسی سوچ رکھتا ہو یا ایسے نظام کو تقویت دے، وہ فرعونی اور یزیدی کہلاتا ہے۔ ان لوگوں کو یہ نام دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فرعون یا یزید ہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اسی رویہ کے مالک ہیں جو فرعون یا یزید کا تھا۔

اسلامی ریاست میں اگر کوئی ایسا شخص اقتدار پر قابض ہوجائے، تو ضروری ہے کہ اس کا اصل ظالمانہ چہرہ دنیا کے سامنے لایا جائے تاکہ لوگ اس کو اقتدار سے نکال باہر کریں۔ قرآنِ مجید نے بھی یہی اصول سکھایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

لاَّ يُحِبُّ اللهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللهُ سَمِيعًا عَلِيمًا.

(النساء، 4: 148)

اللہ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔

درج بالا آیت سے یہ اصول اخذ ہوا کہ جب ظالم لوگ اقتدار پر قابض ہو جائیں تو ان کے ظلم کو روکنا، ان کے خلاف احتجاج کرنا اور انہیں مروجہ طریقوں کے ذریعے اقتدار سے ہٹانا ضروری ہے۔اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے۔ اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول بھی وضع کرتا ہے، جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہنمائی کرتے ہیں۔ اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام کے نقائص ومفاسد سے کلیتاً پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے، وہیں معاملات، معاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں، اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت بھی ہے۔