ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محمد ظفیر ہاشمی
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذۡهِبَ عَنكُمُ ٱلرِّجۡسَ أَهۡلَ الۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيراً.
(الاحزاب، 33: 33)
’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول ﷺ کے) اَہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے)۔‘‘
مؤدّت ومحبتِ اہلِ بیت، دفاعِ عظمتِ اہل بیت، امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے رتبہ ومنصب، عظمت ورفعت اور سیدہ کائنات سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی محبت اور اُن کی بارگاہ میں عقیدت کے اظہار کا بیان دراصل آقا علیہ السلام کی تکریم، تعظیم، محبت اور وفاداری کا اظہار ہے۔
اہلِ بیت کو ہم جب اہلِ بیتِ اطہار کہتے ہیں، طاہر اور مطہر کہتے ہیں تو یہ لفظ ہمارا وضع کردہ نہیں بلکہ یہ اصطلاح قرآن مجید نے مذکورہ آیتِ کریمہ میں وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً کے الفاظ کی صورت میں دی ہے۔قرآن مجید میں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی شان کے اظہار کا ایک اور مقام آیت مباہلہ ہے۔ جب نصاریٰ کا وفد مدینہ منورہ آیا تو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے آپ ﷺ کو انھیں مباہلہ کا چیلنج دینے کا حکم صادر ہوا کہ اِنہیں مباہلہ کی دعوت دیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: ﴿فَقُلۡ تَعَالَوۡاْ نَدۡعُ أَبۡنَآءَنَا وَأَبۡنَآءَكُمۡ﴾ (آل عمران،3: 61)، دَعَا رَسُوْلُ اللهِ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا، فَقَالَ: اَللَّهُمَّ، هَؤُلَآءِ أَهْلِي.
(أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ، 4: 1871، الرقم: 2404)
جب یہ آیت کریمہ (آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں، پھر ہم مباہلہ (یعنی گڑگڑا کر دعا) کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت بھیجتے ہیں) نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی شیرخدا، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہم السلام کو بلایااور فرمایا: اے اللہ! یہ میری اہل ہیں۔
اس آیت کریمہ میں نَدۡعُ أَبۡنَآءَنَا کےتحت آقا علیہ السلام نے امام حسن و حسین علیہما السلام کو بلایا۔قرآن مجید کی نص نے سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین علیہما السلام کو ابنائے مصطفیٰ ﷺ قرار دیا ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بیٹے اور شہزادے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ کے تحت حضور نبی اکرم ﷺ نے سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو بلایا اور پھر وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ کے تحت جب اپنی جان کو میدان میں لانے کا ذکر آیا تو اپنے ساتھ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو لے لیا۔ پھر اس موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے کثرت میں وحدت کا تصور دیاکہ ان تمام نفوس کے جسم جدا جدا ہیں، مگر اُن کے اندر رتبی قربت موجود ہے۔ اس کے سبب حضور نبی اکرم ﷺ نے اَللَّهُمَّ، هَؤُلَآءِ أَهْلِي (یہ میری اہل ہے) کے الفاظ کے ذریعے کثرت میں وحدت پیدا فرمادی۔
قرآن مجید میں مذکورہ دو مقامات ایسے خاص ہیں کہ جہاں بالتعیین اہل بیت اطہار کی عظمت اور مرتبت کا ذکر ہے۔ پہلی آیت میں اللہ رب العزت نے انھیں اپنے دامن میں محفوظ کرکے وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا کے الفاظ کے ذریعے انھیں محفوظ کردیا اور طہارت عطا کر دی ہے۔ جبکہ دوسری آیت کریمہ (آیتِ مباہلہ) میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ان نفوس کو اپنی جانیں قرار دے کر انھیں اپنے دامن میں لے لیا ہے۔ یعنی اُن پر دامن اُلوہیت بھی سایہ فگن ہے اور دامنِ مصطفویت بھی سایہ فگن ہے۔
- اس موضوع پر میری تصنیف ’’قرابۃ النبی ﷺ ‘‘ کا مطالعہ کریں جس میں قرآن مجید کی وہ جملہ آیات کریمہ جو اہل بیت اطہار کی شان میں نازل ہوئی ہیں، ان کو بیان کیا گیا ہے اور ان کی تفسیر أحادیث نبوی، آثار صحابہ اور تابعین کی روشنی میں کی گئی ہے۔
مدارِ ایمان اور مدارِ کفر کیا ہے؟
اہلِ بیتِ اطہار کے باب میں مدارِ ایمان کیا ہے؟اور مدارِ کفر کیا ہے؟ اس امر کو جاننے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ کئی لوگ یزید اور دشمنانِ اہل بیت کے دفاع میں طرح طرح کی موشگافیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ اس امر کو واضح کرنے کے لیے اہل بیت اطہار، سیدہ فاطمۃ الزہراء، حضرت علی المرتضیٰ اور حسنین کریمین علیہم السلام کے حوالے سے چند احادیث اور ان کی تشریح ذیل میں درج کی جاتی ہے:
(1) سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کی محبت اور مدارِ ایمان
سیدہ کائنات سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی محبت اور انھیں ایذاء دینے کا انجام اور وعید کے حوالے سے کثیر احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں۔ ان سے اہلِ بیتِ اطہار کے باب میں مدارِ ایمان کیا ہے؟ اس امر کی وضاحت ہوجائے گی:
1۔ حضرت مسور بن مخرمہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فاطمۃ بضعۃ منی فمن أغضبها أغضبني.
(بخاری، الصحیح، 3: 1361، الرقم: 3510)
’’فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔ جس نے اُسے ناراض و خفا کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘
اس حدیث مبارک میں ایک بات آقا علیہ السلام نے صریحاً فرمادی کہ اگر کسی نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ناراض کیاتو وہ یہ جان لے کہ اُس نے فاطمہ کو نہیں بلکہ اُس نے مجھے ناراض کیا۔ سیدہ کائنات علیہما السلامکی ناراضگی تاجدارکائنات ﷺ کی ناراضگی ہے۔
2۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
فإنما ابنتي بضعة مني ۔ يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها.
(صحیح مسلم، 4: 1902، الرقم: 2449)
’’میری بیٹی فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔ جو چیز اُس کو پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہےاور جو بات میری فاطمہ کو اذیت و تکلیف دے، وہ مجھے اذیت دیتی ہے۔ ‘‘
پہلی حدیث میں تھا کہ جو فاطمہ کو غضبناک کرے وہمجھے غضبناک کرتا ہے، دوسری حدیث میں فرمایا کہ جو چیز میری فاطمہ کو پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے۔ یعنی جو امر یا واقعہ میری شہزادی فاطمہ علیہما السلام کو تکلیف و اذیت دے دراصل وہ مجھے اذیت و تکلیف دیتا ہے۔
اس موضوع کے ضمن میں عقیدہ کا ایک اہم مسئلہ واضح کرتا چلوں کہ ہمیں یہ تصور واضح ہونا چاہیے کہ جب ایسے کلمات حضور علیہ السلام کسی کے بارے میں ارشاد فرمائیں خواہ وہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں ہوں یا وہ سیدنا فاروق اعظم، سیدنا عثمان غنی، سیدنا علی المرتضیٰ، صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں ہوں یا کسی بھی شخص یا طبقہ یا گھر والوں کے حق میں ہوں تو اس کلام کی معنویت ہوتی ہے۔ وہ کلمات محض بشری جذبات کا ایک اظہار نہیں ہیں۔ یہ ایسا نہیں کہ جیسے ہم لوگ محبت میں اپنی اولاد کےلیے کہتے ہیں، دادا اپنے پوتے پوتیوں کے لیے کہتاہے اور نانا اپنے نواسے اور نواسیوں کے لیے کہتا ہے کہ یہ میری جان ہیں، اِن کو تکلیف نہ دو، جواِنہیں تکلیف دے گا، مجھے دکھ ہوگا۔ جس طرح کا کلام ہم اپنی اولاد، بیٹے، بیٹیوں اور پوتے پوتیوں کے لیے کرتے ہیں، اس کلام کا از روئے شرع کوئی معنیٰ نہیں ہوتا کہ اُس کا کوئی شرعی اطلاق ہو، یا اُس سے کوئی حکم اخذ کیا جائے، یا اُس کی خلاف ورزی کرنے سے از روئے شرع کوئی حکم صادر ہو جائے۔ ہمارے کلام میں یہ چیز نہیں ہوتی بلکہ یہ محض ایک فطری، بشری، انسانی، قلبی جذبات کا اظہار ہوتا ہے اور اولاد کا دل خوش کرنا اور اپنی محبت کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔
لیکن جب آپ ﷺ اس طرح کا کلام کسی کے بارے میں فرماتے ہیں تو آپ ﷺ کا کلام کوئی جذباتی کلام نہیں ہوتا۔ حضور علیہ السلام کی زبان اقدس سے ادا ہونے والے ایسے کلمات کے بارے میں ہم یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ یہ محض ایک انسان اور بشر کے طور پر جذبات ِ محبت کا اظہار ہیں، ان کا کوئی شرعی معنیٰ نہیں ہے، اِس کی خلاف ورزی پر کوئی شرعی حکم لاگو نہیں ہوگا، یہ اُمت پر واجب نہیں۔ یہ بات نہیں ہے۔ اگر ہم یہ سمجھیں اور معاذ اللہ، استغفر اللہ، اللہ کے نبی کے کلام کو جذباتی کلام کہہ دیا تو ہم ایمان سے خارج ہوگئے اور آپ ﷺ سے امتی ہونے کا ہمارا رشتہ و تعلق قطع ہو گیا۔
پس جب حضور علیہ السلام ایسا کلمہ ارشاد فرماتے ہیں تو اُس کی تابعداری اور خلاف ورزی دونوں کا ایک شرعی معنیٰ، شرعی حکم، شرعی وجوب اور شرعی اثر ہوتا ہے۔ جب یہ نکتہ ذہن میں رہے گا، تو ایک طرف اہلِ بیتِ اطہار کی عظمت و شان اور ان کے مقام و مرتبہ کا حقیقی فہم نصیب ہوگا تو دوسری طرف یزید اور دشمنانِ اہلِ بیتِ اطہار کے حوالے سے کفرو لعن کے تعین کے بارے میں بھی کوئی التباس و شائبہ باقی نہ رہے گا۔
3۔ سیدہ کائنات علیہما السلام کے حوالے سے ایک اور مقام پر حضور علیہ السلام نے فرمایا:
فاطمة بضعة مني يقبضني ما يقبضها ويبسطني ما يبسطها.
(حاکم، المستدرک، 3: 72، 4747)
’’فاطمہ میری جان کا حصہ ہے، جو شے اُس کو پریشان کر دے، وہ مجھے پر یشان کرتی ہےاور جو چیز اُسے خوش کرے، وہ مجھے خوشی مہیا کرتی ہے۔‘‘
4۔ ایک اور مقام پر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
فاطمة بضعة مني يغيظني ما يغيظها وينشطني ما ينشطها.
(تفسیر ابن کثیر، 3: 257)
فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔ جو چیز اُسے غصہ دلا دے،وہ مجھے غصہ دلاتی ہےاور جو کام اُسے خوش کردے، وہ کام مجھے خوش کر دیتا ہے۔
مذکورہ احادیث پر ائمہ حدیث کی تصریحات
امام نوویؒ نے شرح مسلم، علامہ عینیؒ نے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری اور دیگر ائمہ حدیث نے شروحات میں یہ امر واضح کیا ہے کہ ان احادیث میں مذکور ایذاء سے کیا مراد ہے؟ ذیل میں اس باب میں چند ائمہ کی تصریحات درج کی جاتی ہیں:
(1) امام نوویؒ
امام نوویؒ فرماتے ہیں:
بكل حال وعلى كل وجه وإن تولد ذلك الإيذاء مما كان أصله مباحا.
(شرح نووی، صحیح مسلم، 16: 3، الرقم: 2449)
یہ ایذاء جس کی طرف آقا علیہ السلام نے اشارہ فرمایا ہے ہر حال میں اور ہر وجہ اور ہر سبب سے ہے۔ خواہ وہ ایذاء کسی ایسے فعل سے ہی پیدا کیوں نہ ہوئی ہو جو فعل اصل میں جائز اور مباح تھا اور شرعاًگناہ کا کام نہیں تھا۔ مگر کسی وجہ سے اُس فعل نے سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا کو تکلیف دے دی، پریشان کر دیا یا ناراض کر دیا اور انھیں دکھ دے دیا۔ سو اُس کام سے بھی حضور علیہ السلام کو اذیت ہوگی۔
گویا اس تفریق کے بغیر کہ وہ تمام اُمور جو اصلاً ناجائز ہیں یا اصلاً جائز ہیں، ہر وہ فعل جس سے سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کو تکلیف پہنچے تو اُس سے مصطفیٰ ﷺ کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔
(2) ابن حجر عسقلانیؒ
حافظ ابن حجر عسقلانی اُسی حدیث کے تحت فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں:
وقد جزم بأنه يؤذيه ما يؤذي فاطمة. فكل من وقع منه في حق فاطمة شيء فتأذت به فهو يؤذي النبي بشهادة هذا الخبر الصحيح.
(عسقلانی، فتح الباری، 9: 329، الرقم: 4932)
یہ چیز قطعی طور پر آقا علیہ السلام نے فرما دی یعنی اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ہر وہ شے جو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت اور تکلیف دیتی ہے، وہ حضور علیہ السلام کو اذیت پہنچاتی ہے۔ لہذا ہر وہ شخص جس نے کوئی ایسا کام کیا یا ایسا کلمہ کہا کہ اُس سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت پہنچی، یا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شان میں بے توقیری ہوئی تو اُس شخص کے اس فعل سے براہ راست رسول اکرم ﷺ کو اذیت پہنچی یعنی اُس نے حضور علیہ السلام کو اذیت پہنچائی۔ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ اِ س قاعدہ اور کلیہ پر گواہ ہے۔
امام عسقلانی مزید فرماتے ہیں کہ:
ولا شيء أعظم في إدخال الأذى عليها من قتل ولدها ولهذا عرف بالاستقراء معاجلة من تعاطى ذلك بالعقوبة في الدنيا ولعذاب الآخرة أشد.
(عسقلانی، فتح الباری، 9: 329، الرقم: 4932)
یعنی یہ تو چھوٹی چھوٹی چیزوں کی بات تھی، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت دینے کا اِ س سے بڑا اور کون سا عمل ہے کہ اُن کے لخت جگر امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا اور شہادت امام حسین علیہ السلام سے جو اذیت حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو پہنچی، اِتنی بڑی اذیت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اور حضور علیہ السلام کو نہیں پہنچ سکتی۔ اِس حقیقت کو جان لیا گیا ہے کہ جو کوئی بھی اِس کا مرتکب ہوا۔(اور امام حسین اور اُن کے ساتھیوں کو شہید کیا) اُس نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو اذیت دی، اُس نے جانِ مصطفیٰ ﷺ کو اذیت دی۔ اُسے جلد اِس دنیا میں بھی سزا ملی اور آخرت کا عذاب یقیناً اُس کے لیے شدید تر ہے۔
(3) علامہ مناویؒ
فیض القدیر از علامہ مناوی میں ہے کہ:
استدل به السهيلي على أن من سبها كفر.
(مناوی، فیض القدیر، 4: 424)
جس نے اُن کواذیت دی، اُن کی بے توقیری، بے حرمتی اور گستاخی کی، اُن کو سب و شتم کیا، وہ کافر ہے۔ اِ س پر علامہ مناوی، امام السہیلی کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں کہ:
ومعلوم أن أولادها بضعة منها. فيكونون بواسطتها بضعة منه
اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد ان کی جان کا حصہ ہے۔ پس یہ اولاد (حسنین کریمین علیہما السلام) بھی حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے واسطہ سے بضعة رسول ﷺ ہوگئے۔ اب وہ ساری أحادیث جو آقا علیہ السلام نے بیان فرمائیں، ان کا اطلاق براہ راست حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے واسطے سے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو اذیت دینے والوں پر بھی ہو گیا۔
وہ اپنے اِس کلیہ کو ثابت کرنے کےلیے یہاں حضور علیہ السلام کی حدیث بیان کرتے ہیں، یعنی حدیث کی شرح کو حدیث رسول سے ثابت کرتے ہیں:
رأت أم الفضل في النوم أن بضعة منه وضعت في حجرها أولها فقال رسول الله بأن تلد فاطمة غلاما فيوضع في حجرها.
(مناوی، فیض القدیر، 4: 424)
حضرت أم الفضل نے خواب دیکھا کہ حضور علیہ السلام کے جسم کا ٹکڑا کٹ کر میری گود میں گر گیا ہے۔ اُنہوں نے اپنا یہ خواب آقا علیہ السلام سے عرض کیا تو حضور علیہ السلام نے اُس خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ فاطمہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا، وہ بیٹا آپ کی گود میں رکھا جائے گا۔
اب کوئی اگر یہ کہے کہ یہ خواب تھا، اس کی تعبیر مختلف ہوسکتی ہے، اس سے خاص استدلال کرنا کیسے جائز ہوا؟ تو اس امر کی بھی وضاحت ایک حدیث مبارک سے کردیتا ہوں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
من رانی فی النوم فقد راءَ الحق
جس نے خواب میں مجھے دیکھا، اُس نے حق کو دیکھا۔
ایک عام مومن جب خواب میں حضور علیہ السلام کودیکھتا ہے تو وہ حق دیکھتا ہےمگر ہوتایہ ہے کہ عام مومن کے اس خواب کی تعبیر مطلوب ہوتی ہے اور وہ کسی معبر کے پاس تعبیر کے لیے جاتا ہے مگریہاں خواب حضرت أم فضل سلام اللہ علیہا دیکھ رہی ہیں اور تعبیر آقا علیہ السلام خود ارشاد فرما رہے ہیں۔ اس لیے یہ قول حق ہوگیا کہ آقا علیہ السلام نے اپنے شہزادے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو براہ راست اپنے جسم کا ٹکڑا قرار دیا۔ وہ سیدہ فاطمۃ الزہرا کا بضعة بھی ہوئےاور بضعة الرسول ﷺ بھی ہوئے۔ گویا حسنین کریمین علیہما السلام بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح حضور علیہ السلام کے جسم کے حصے قرار پائے۔
(2) حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی محبت اور مدارِ ایمان
سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کی عظمت و شان کے بیان کے ذیل میں مدارِ ایمان کو سمجھ لینے کے بعد اب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کا مطالعہ کرتے ہیں کہ ان کی محبت کس طرح مدارِ ایمان ہے اور ان سے بغض کس طرح بندے کو ایمان سے محروم کردیتا ہے؟ ذیل میں اس سلسلہ میں چند احادیث اور ان کی وضاحت درج کی جاتی ہے:
1۔ حضرت زر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
والذي فلق الحبة وبرأ النسمة إنه لعهد النبي الأمي إلي أن لا يحبني إلا مؤمن ولا يبغضني إلا منافق.
(صحیح مسلم، 1: 86، الرقم: 78)
اُس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور اُس سے اناج اور نباتات اُگائے۔ اُس ذات کی قسم جس نے جانداروں کو پیدا کیا۔ آقا علیہ السلام نے میرے ساتھ عہد اور وعدہ کیا کہ مجھ سے سوائے مومن کے کوئی اورمحبت نہیں کرےگا اور سوائے منافق کے مجھ سے کوئی اور بُغض نہیں کرے گا۔
یعنی حضور نبی اکرم ﷺ نے واضح فرمادیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت کی توفیق صرف مومن کو ہو گی اور ان کے ساتھ بُغض صرف منافق ہی کرے گا۔
2۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ.
(أخرجه الترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ، 5: 643، الرقم: 3736)
میرے ساتھ حضور علیہ السلام نے یہ وعدہ فرمایا کہ علی تمہارے ساتھ سوائے مومن کےکوئی محبت نہیں کرے گا اور تمہارے ساتھ سوائے منافق کے کوئی بُغض نہیں رکھے گا۔
3۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
إن كنا لنعرف المنافقين نحن معشر الأنصار ببغضهم علي بن ابي طالب.
(تاریخ مدینۃ دمشق، 4: 285)
ہم انصاری صحابہ کے پاس ایک پیمانہ تھا کہ اگر ہم نے پہچاننا ہوتا کہ منافق کون ہے؟تو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بغض سے منافق کی پہچان ہو جاتی تھی۔
مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول تھا کہ وہ منافق کو اِسی طریقےسے پہچانتے تھے کہ اگر اُس کے اندر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا بُغض ہے تو وہ سمجھ لیتے کہ یہ شخص منافق ہے اور اگر کسی کے اندر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی محبت ہوتی تو وہ سمجھ لیتے کہ یہ شخص مومن ہے۔
آقا علیہ السلام نے یہ کلمہ کبھی کسی اور کے لیے ارشاد نہیں فرمایا۔ آقا علیہ السلام اور صحابہ کرام نے ایمان کا جو پیمانہ دیا وہ حُبِ علی ہے اور منافقت کا جو پیمانہ دیا، وہ بغضِ علی ہے۔ اب مجھے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید ہمارے دور میں حضور نبی اکرم ﷺ کا دیا ہوا پیمانہ لوگ بدل رہے ہیں۔ حضور علیہ السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حُبِ علی کو ایمان کا پیمانہ اور بُغضِ علی کو نفاق کا پیمانہ قرار دے رہے ہیں جبکہ ہم نے اُس پیمانے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو نکال دیا ہے اور یہ پیمانہ دیگر بزرگوں کے لیے مقرر کر رہے ہیں۔ یہ حق ہمیں نہیں پہنچتا۔ ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کرنی ہےتو صحابہ کرام، اہل بیت اطہار، سلف صالحین اور تاریخ اہل ایمان پر قائم رہنا ہو گا۔ ہمیں نہیں چاہیے کہ ہم سمتیں بدلیں اور نئے پیمانے مقرر کریں۔
4۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے ایک اور فرمان سے بھی ایمان کا پیمانہ واضح ہوجاتا ہے کہ عمران بن حصین روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
إن عليا مني وأنا منه وهو ولي كل مؤمن بعدي.
(صحیح ابن حبان، 15: 373، الرقم: 6929)
’’علی مجھے سے اور میں علی سے ہوں اور میرے بعد ہر مومن کا ولی علی ہے۔‘‘
یہ بات ذہن نشین رہے کہ میں یہ احادیث شیعہ کتب سے بیان نہیں کررہا بلکہ اہل سنت کی کتب سے بیان کررہا ہوں۔ یہ وہ أحادیث صحیحہ ہیں جن پر ہمارے عقیدے کا مدار تھا اور ہےاور رہنا چاہیے۔ وہ پیمانہ جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مقرر کیا اور اُنہوں نے آقا علیہ السلام سے لیا، ہمیشہ ہمارا پیمانہ بھی وہی ہونا چاہیے۔میں اہل سنت علماء کرام، سلفی علماءکرام، دیو بند مکتب فکر کے علماءکرام، بریلوی مکتب فکر سےتعلق رکھنے والے علماء کرام اور دیگر علماء و مفکرین، اساتذہ، مبلغین، واعظین اور طلبہ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں اور ان کے شعور کے کان کھولنا چاہتاہوں کہ ہم کیا تھےاور ہمیں کیا ہونا چاہیے تھا مگر ہم رفتہ رفتہ کیا ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔؟ ہماری فکر میں اہل بیت اطہار علیہم السلام کے حوالے سے یہ تبدیلی کیوں آرہی ہے۔۔۔؟ افسوس کہ ہم میں سے اگر کوئی حبِ علی کا نام لے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو شیعہ اور رافضی ہو گیا ہے۔ حبِ علی، حبِ فاطمہ، حبِ حسنین کریمین علیہم السلام کا نام لے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو اہلِ سنت سے خارج ہوگیا ہے۔۔۔ سوال یہ ہے کہ اہلِ سنت اوراسلام میں داخل کرنے اور خارج کرنے کی اتھارٹی انھیں کس نے دی ہے۔۔۔؟ اہل سنت اور اسلام میں بندہ داخل و خارج صرف کلامِ مصطفیٰ ﷺ سے ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ اُسی پیمانہ اور معیار پر ہوگا جو پیمانہ اور معیار مصطفیٰ ﷺ، قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔
مذکورہ حدیث مبارک میں بھی حضور نبی اکرم ﷺ نے ایمان و اسلام کا ایک پیمانہ دیا ہے کہ ہر مومن کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی ولایت علی کے ساتھ رکھے۔ یہاں اس امر کو بھی واضح کردوں کہ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی اور کے ساتھ محبت وولایت نہ ہو۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اُن کے قدموں اور جُوڑوں کی خاک ہمارے سر کا تاج ہے، وہ ہمارا ایمان ہیں۔ میں تو سیدنا صدیق اکبر، حضرت فاروق اعظم، حضرت عثمان غنی، علی شیر خدا رضوان اللہ علیہم اجمعین کے در کا گداہوں۔ حتی کہ وہ صحابی جنہیں فقط ایک دفعہ ہی آقا علیہ السلام کی صحبت ملی اور ایمان پر وفات ہوئی، ابدال، نجباء، نقباء، غوث اور قطب بھی آقا علیہ السلام کے اس صحابی کے رتبے کے برابر نہیں ہوسکتے۔ یہ مسئلہ اپنی جگہ اٹل ہے۔ خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین حق ہیں اور اُن کی ترتیبِ خلافت حق ہے۔ مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کا عنوان بنا کر حبِ اہل بیت علیہم السلام کو دلوں سے نکالنا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عزت و حرمت کا عنوان بنا کر مؤدّتِ اہل بیت علیہم السلام کو دلوں سے نکالنا اور حبِ اہل بیت کے ذکر کرنے کو رافضیت قرار دے دینا، یہ اِتنا بڑا فتنہ اور گمراہی ہے کہ یہ ہمارے ایمان کو جلا رہا ہے۔
5۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث مبارک میں ایمان و اسلام کے اس پیمانہ کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
أحبوا الله لما يغذوكم من نعمه وأحبوني بحب الله وأحبوا أهل بيتي لحبي.
(ترمذی، السنن، 5: 664، الرقم: 3789)
یعنی اللہ سے محبت کرو، جوتمہیں نعمتوں سےنوازتا ہے۔ مجھ سے محبت کرو کہ میری محبت اللہ کی محبت ہے، میری محبت سے اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔ اور میری اہل بیت سے محبت کرو، میری محبت کی خاطر، میری اہل بیت سے محبت کرو گے تو میں تم سےمحبت کروں گااور تم میری محبت تک پہنچ جاؤ گے۔
اس فرمان میں آقا علیہ السلام سے محبت کا راستہ اہل بیتِ اطہار علیہم السلام کی محبت کوقرار دیا گیا ہے۔ یہ پیمانے جو آقا علیہ السلام نے عطا کیے، اگر آج وہ پیمانے بوجوہ بدلنے لگ جائیں، یا اُن پیمانوں میں کچھ گردوغبار اور ا بہام داخل کردیں، لوگوں میں مغالطے پیدا کر دیں، اُس پر بحث شروع کردیں اور خود تاویلات کرکے اسے اپنے مسلک اہل سنت سے دھکیلنے کا ذریعہ بنانے لگ جائیں تو یہ بڑی زیادتی ہوگی۔ ہمیں اسلاف کے طریق سے قطعاً ہٹنا نہیں چاہیے۔
(3) حسنینِ کریمین علیہم السلام کی محبت مدارِ ایمان
سیدہ کائنات اور سیدنا علی المرتضیٰ علیہما السلام کی محبت کے اجر اور ان سے بغض کے انجام کا احادیث مبارکہ کی روشنی میں مطالعہ کرنے کے بعد آیئے اب اس امر کا جائزہ لیں کہ حسنینِ کریمین علیہما السلام کی محبت کس طرح مدارِ ایمان ہے۔۔۔؟ اور ان سے بغض و عناد اور انھیں تکلیف و ایذاء پہنچانا کس طرح بندے کو ایمان کی دولت سے محروم کردیتا ہے۔۔۔؟ اس سلسلہ میں چند احادیث درج کی جاتی ہیں:
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
من أحب الحسن والحسين فقد أحبني ومن أبغضهما فقد أبغضني.
(ابن ماجہ، السنن، 1: 51، الرقم: 143)
’’جس نے میرے حسن اور حسین سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نےاُن سے بُغض رکھا، اُس نے مجھے سے بُغض رکھا۔‘‘
2۔ حسنین کریمن کی محبت کو پیمانۂ ایمان اور دخول جنت کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ حضرت علی المر تضیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
أن رسول الله أخذ بيد حسن وحسين فقال من أحبني وأحب هذين وأباهما وأمهما كان معي في درجتي يوم القيامة.
(ترمذی، السنن، 5: 641، الرقم: 3733)
آقا علیہ السلام نے دونوں شہزادوں حسن اور حسین کے ہاتھ پکڑ لیے اور فرمایا کہ جس نےمجھ سے محبت کی اور جس نےاِن دونوں سےمحبت کی اور اِن دونوں کے باپ سے محبت کی اور اِن دونوں کی ماں سےمحبت کی، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہی جنت میں ہوگا۔ میں اُسے اپنی منزل میں ٹھہراؤں گا۔
3۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
الحسن والحسين ابناي من أحبهما أحبني ومن أحبني أحبه الله ومن أحبه الله أدخله الجنة ومن أبغضهما أبغضني ومن أبغضني أبغضه الله ومن أبغضه الله أدخله النار.
(حاکم، المستدرک، 3: 181، الرقم: 4776)
’’حسن اور حسین دونوں میرے بیٹے ہیں، جس نے اِن سے محبت کی، وہ مجھ سے محبت کرتا ہےاور جو مجھ سے محبت کرتا ہے، اللہ اُس سے محبت کرتا ہےاورجس سے اللہ محبت کرے، اُس کو جنت میں داخل کرے گا۔ جو اِن دونوں سے بُغض رکھے، وہ مجھ سے بُغض رکھتا ہے اور جو مجھ سے بُغض رکھتا ہے، اللہ اُ س سے بُغض رکھے گا اور جس سے اللہ نے بُغض رکھا، وہ دوزخ میں جائے گا۔‘‘
4۔ ایک اور روایت میں ہے کہ:
ومن أحبه الله أدخله جنات النعيم ومن أبغضهما أو بغى عليهما أبغضته ومن أبغضته أبغضه الله ومن أبغضه الله أدخله عذاب جهنم وله عذاب مقيم.
(طبرانی، المعجم الکبیر، 3: 50، الرقم: 2655)
جو شخص اِن دونوں شہزادوں حسن اورحسین کے ساتھ محبت کرے، اللہ اسے جنات النعیم میں داخل کرے گا اور جو ان دونوں سے بُغض رکھے یااِن پر زیادتی کرےیا اِن پر حملہ آور ہو،یا اِن کے خلاف بغاوت کرے، اِ ن کے خلاف اُٹھے، میں اُس کے ساتھ بُغض رکھوں گا اور جس کے ساتھ میں نے بُغض رکھا، اُس کے ساتھ اللہ نے بُغض رکھا اور جس کے ساتھ اللہ نے بُغض رکھا تو وہ اسے عذاب جہنم میں داخل کرے گا۔
اسلاف اور ائمہ تاریخ اسلام کی جمیع کتب، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین کے اقوال، ائمہ عقیدہ، ائمہ أحادیث، ائمہ فقہ کی کتب اس امر کو واضح بیان کرتی ہیں کہ یزید نے سرعام امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ساتھ بُغض کا اظہار کیا۔ اس کے بغض کی اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اس نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کروانے کے بعد بھی آپ علیہ السلام کی بے توقیری اور بے تکریمی کی حد کردی۔ کربلا میں جوجو مظالم اور قیامتیں برپا کیں و ہ ایک طرف مگر جب سرانور اُس کے سامنے دربار میں لایا گیا تواُس نے اپنی چھڑی امام حسین علیہ السلام کے لبوں پر ماری اور کہا کہ آج میں نے اپنے ان آباؤاجداد کا بدلہ لے لیا، جو غزوۂ بدر میں مارے گئے تھے۔ حسین کو قتل کرکے میں نےآج اپنے مرے ہوئے آباؤ اجداد کا بدلہ لے لیا ہے۔ غور کریں کہ اس کے اس کلام کے بعد کیا اب بھی اس کا ایمان رہ جاتا ہے؟
اس کلام میں اس نے خود اعلان کردیا کہ وہ کون ہے اور وہ اپنا تعلق اور نسبت کن کے ساتھ منسلک کررہا ہے۔۔۔؟ جبکہ آقا علیہ السلام نے ایمان کا پیمانہ یہ دیا کہ جس نےمیرے حسنین علیہما السلام سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اُن سے بُغض کیا، اس نے مجھ سےبُغض کیا۔ جو آقا علیہ السلام سے بُغض رکھے،کیا وہ کبھی مومن ہوسکتاہے۔۔۔؟ نہیں بلکہ وہ سب سے بڑا کافر ہے۔ اُس کے لیے کوئی اور حکم نہیں ہے۔
مذکورہ تمام احادیث کا مطالعہ اس امر کو واضح کرتا ہے اور اس بات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ یزید پر کفر اورلعن کا حکم کیوں ہے۔۔۔؟اس پر اس اقدامِ قتل پر صرف فسق وفجور کا حکم کیوں نہیں۔۔۔؟ یزید پر لعن اور کفر کے حوالے سے اس امر کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ اس مسئلہ کی بنیاد کیا ہے۔۔۔؟ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں اس اصول اور حکم کا اطلاق نہیں ہوگا کہ اگر کسی نے مسلمان کو قتل کیا تووہ گناہ گار اور فاسق و فاجر ہوگا۔ نہیں، اِس مسئلےکی یہ بنیاد ہی نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ کی بنیاد اذیتِ رسول ﷺ ہے اور جان مصطفیٰ ﷺ کو اذیت دینا ہے۔ لہذا اسی سبب سے اذیت دینے والے کافر قرار پاتے ہیں۔جب یہ بات سمجھ آجائے کہ بالعموم اہلِ بیتِ اطہار کے ساتھ اور بالخصوص امام حسین علیہ السلام کے ساتھ یزید بغض رکھتا تھا اور اسی سبب اس نے اس خانوادہ کو اذیت و تکلیف پہنچائی تو یہ امر بھی احادیث صحیحہ کی روشنی میں متحقق ہے کہ جب کسی نے ان پاک نفوس کو تکلیف پہنچائی یا بغض رکھا تو اس کا ایمان کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہتا کیونکہ ان کو ایذاء و تکلیف پہنچانا حضور نبی اکرم ﷺ کو تکلیف پہنچانا ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کو تکلیف پہنچانا صریحاً کفر ہے۔
(جاری ہے)