تاریخ اسلام میں نظامِ حکومت کے باب میں عہدِ رسالتمآب ﷺ کے بعد جو عہدِ حکومت تمام زمانوں میں دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے طرزِ حکمرانی کے اعتبار سے چمکتا اور دمکتا رہا ہے اور جس کے طرزِ حکومت کو آج بھی ہر حکمرانِ وقت اپنے لیے ایک مثال سمجھتا ہے، وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عہد ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں اسلام کے نظامِ حکومت کی ایک منظم، مربوط اور فعال داغ بیل ڈالی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی اعلیٰ طرزِ حکمرانی کے ذریعے ہی اپنی سلطنت کو اس حد تک وسعت دی کہ قیصر و کسریٰ کی وسیع سلطنتیں بھی اسلامی ریاست کا حصہ بن گئیں۔ ذیل میں آپ رضی اللہ عنہ کے طرزِ حکمرانی کے بنیادی خدوخال کی وضاحت کی جاتی ہے:
1۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی حکمرانی کا جمہوری انداز
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا طرزِ حکمرانی شخصی نہیں بلکہ جمہوری تھا۔ حکمرانی کا جمہوری انداز ہی تعلیماتِ اسلام کے موافق ہے۔ شخصی حکمرانی میں عوام کی رائے شامل نہیں ہوتی ہے اور ایک شخص ہی تمام تر معاملات میں کل اختیارات اور تمام قضایا اور فیصلہ جات کا مالک ہوتا ہے۔ جبکہ جمہوری حکمرانی میں ہر ہر مسئلے پر عوام کی رائے پر فیصلہ کیا جاتا ہے اور حکمرانوں کے ذاتی اختیارات نہیں رہتے بلکہ اجتماعی رائے کے مطابق حکومت کی جاتی ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام فیصلہ جات کو جمہوری انداز میں کیا ہے اور جب بھی کسی مسئلے کے لیے کسی رائے کی ضرورت ہوتی تھی تو آپ رضی اللہ عنہ ’’الصلوۃ جامع‘‘ کے الفاظ کے ذریعے ایک اعلان کراتے تھے جس کے مطابق لوگ مسجد نبوی میں جمع ہوجاتے تھے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ دو رکعت نماز نفل ادا کرتے تھے اور اس کے بعد اپنا مدعا اور مقصد لوگوں کے سامنے بیان کرتے۔ آپ رضی اللہ عنہ معمولی اور روزمرہ کے فیصلے اسی مجلس میں کیا کرتے تھے۔ اس کی درج ذیل مثالیں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں:
1۔ جب عراق اور شام فتح ہوئے تو بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مشورہ دیا کہ تمام مفتوحہ علاقے فوج کو بطورِ جاگیر دے دیئے جائیں اور اس حوالے سے بہت بڑی مجلس منعقد ہوئی۔ مہاجرین اور انصار میں سے دس دس بڑے سردار مشورے کے لیے بلائے گئے۔ ان سے مشاورت کرتے ہوئے فرمایا کہ:
فانی واحد کاحدکم ولست ارید ان یتبعوا ھذا الذی ھوای.
(قاضی ابو یوسف، کتاب الخراج، ص: 14)
’’میں بھی تم میں سے ایک فرد ہوں اور میں نہیں چاہتا کوئی صرف میری وجہ سے میری رائے کی پیروی کرے۔‘‘
2۔ اسی طرح 21 ہجری میں نہاوند کے معرکے کے لیے یہ مسئلہ درپیش ہوا کہ خلیفۂ وقت بھی بنفسِ نفیس اس معرکے میں شریک ہوں یا نہ ہوں؟ اس مسئلے پر مجلس شوریٰ منعقد ہوئی۔ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت طلحہ بن عبداللہؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے باری باری اپنی رائے دی کہ آپ کا خود جنگ پر جانا مناسب نہیں۔ پھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر اس موقف کی تائید میں تقریر کی۔ کثرت رائے سے یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ موقع جنگ پر نہ جائیں۔ (کنزالعمال، مصنف ابن ابی شیبہ، 3: 139)
3۔ اسی طرح فوج کی تنخواہوں، عمال کے تقر راور غیر قوموں کو تجارت کی آزادی اور ان سے محصول کی وصولی کے لیے عام فیصلہ جات بھی اسی طرح مجلس شوریٰ کے ذریعے کیے گئے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اندازِ حکمرانی سراسر جمہوری تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کی ساری بنیاد ہی جمہوریت پر تھی اور یہی جمہوریت خلافت کی اصطلاح میں مشاورت تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اسلامی طرز حکمرانی اور خلافت کی اساس بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لاخلافۃ الا عن مشورۃ.
(مصنف ابن ابی شیبہ، 3: 139)
’’خلافت کا طرز حکومت صرف اور صرف مشاورت پر منحصر ہے۔‘‘
- مجلس شوریٰ کے علاوہ ایک مجلس حکومتی معاملات کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لینے کے لیے مسجد نبوی ﷺ میں منعقد ہوتی تھی۔ اس میں اہل الرائے صحابہ کرامؓ شریک ہوتے تھے اور نظامِ خلافت کے ماتحت علاقوں سے آنے والی خبروں کا جائزہ لیا جاتا تھا اور اس حوالے سے اجتماعی رائے پر مبنی اقدامات اٹھائے جاتے تھے۔
اس کی ایک مثال کوفہ، بصرہ اور شام میں خراج وصول کرنے کے لیے عمال کا تقرر ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تینوں صوبوں میں اپنے احکام ارسال کیے کہ وہاں کے لوگ اپنی اجتماعی مرضی اور رائے کے مطابق اپنی پسند کے لوگوں کے نام بھیجیں جو ان کے نزدیک زیادہ دیانتدار اور قابل ہوں۔ چنانچہ ان علاقوں سے جو نام بھیجے گئے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان ہی لوگوں کو ان علاقوں کا حاکم مقرر کیا۔ (ابو یوسف، کتاب الخراج، ص: 64)
اسی طرح یہی اجتماعی رائے اگر کسی عامل کے خلاف ہوجاتی اور اس کا جرم ثابت ہوجاتا تو آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کی اس جمہوری رائے کے احترام میں اس عامل کو اس کی ذمہ داریوں سے معزول کردیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیائے اسلام کے عظیم اورنامور فاتح حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جو بہت رتبے اور مرتبے کے صحابی رسول تھے اور نوشیروانی پائے تخت کے فاتح تھے، حضرت عمر فاروقؓ نے ان کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تھا لیکن جب کثرت کے ساتھ لوگوں کی ان کے خلاف شکایات موصول ہوئیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فوراً ان کو گورنر شپ سے معزول کردیا۔ (کتاب الخراج، ص: 64)
2۔ جمہوری طرزِ حکمرانی کے راہنما اصول
جمہوری طرز حکمرانی کا یہ اصول بھی اسلامی نظامِ حکومت کا طرۂ امتیاز رہا ہے کہ ہر شخص کو اپنے حقوق اور فرائض کا مکمل شعور تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حکومت میں ہر شخص کو اظہارِ رائے کی نہایت آزادی حاصل تھی۔ لوگ اعلانیہ اپنے جمہوری حقوق کا اظہار کرتے تھے اور کوئی بھی سرکاری اہلکار اور عامل ان کے حقوق کو سلب نہیں کرسکتا تھا۔ (الفاروق، ص: 168)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے جمہوری طرزِ حکمرانی کو سب سے زیادہ اپنی ذات پر نافذ کیا ہو اتھا۔ جب ایک حاکم خود جمہوری سوچ کا مالک ہو تو نتیجتاً ہر جگہ جمہوری روایات کی پاسداری نظر آتی ہے۔ جمہوری طرزِ حکمرانی کے اصول یہ ہیں کہ
1۔ حاکمِ وقت عام لوگوں کے ساتھ عام حقوق میں برابری اور مساوات رکھنے والا ہو۔
2۔ وہ عام لوگوں کی طرح قانون کی پابندی کرے اور قانون کی پابندی سے خود کو مستثنیٰ نہ بنائے۔
3۔ ریاست کی آمدنی اپنی ذات پر بے جا صرف نہ کرے۔
4۔ عام معاشرت میں اس کی حاکمانہ حیثیت کو ملحوظ نہ رکھا جائے۔
5۔ اس کے اختیارات محدود ہوں اور وہ مطلق العنان ہرگز نہ ہو۔
6۔ ہر شخص کو اس پر تنقید کا بنیادی جمہوری حق حاصل ہو۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سارے جمہوری ضابطے اور اصول اپنی ذات پر لاگو کیے ہوئے تھے۔ وہ اپنے طرزِ حکمرانی میں اس قدر جمہوری رویے کے حامل تھے کہ آج بڑی سے بڑی اور نامور جمہوریت اورجمہوری حکمرانوں میں ایسے جمہوری حقوق کی مثالیں ناپید نظر آتی ہیں۔
1۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جہاں لوگوں کو ان کے جمہوری حقوق کے بارے میں آگاہ فرماتے، وہاں وہ اپنی ذات کو بحیثیتِ حاکم اپنی ذمہ داریوں کی یاد دہانی بھی کراتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’مجھے تمہارے بیت المال (قومی خزانے) میں اس قدر حق ہے جتنا یتیم کے مربی کو یتیم کے مال میں حق ہے۔ اگر میں دولت مند ہوں گا تو تمہارے قومی خزانے سے کچھ نہ لوں گا اور اگر ضرورت مند ہوں گا تو اور لوگوں کی طرح دستور کے موافق کھانے کے لیے کچھ لے لوں گا۔ اے لوگو! میرے اوپر تم لوگوں کے متعدد حقوق ہیں جن کا تم مجھ سے مواخذہ کرسکتے ہو۔ تم سے خراج اور مالِ غنیمت و ملکی ٹیکس بے جا طور پر جمع نہ کروں اور ان کو بے جا طور پر خرچ نہ کروں۔ میں تمہارے روزینے و تنخواہیں بڑھا دوں اور ملکی سرحدیں و دفاع مضبوط و محفوظ رکھوں اور تمہاری زندگیوں کو خطرات میں نہ ڈالوں۔‘‘
(ابو یوسف کتاب الخراج، ص: 60)
جمہوریت کا یہ نقشہ اور جمہوری حاکم کا یہ رویہ آج اسلام کے ماننے والوں کو اپنے اپنے وطن اور اپنے اپنے خطے میں درکار ہے۔
2۔ ایک موقع پر کسی عام شہری نے امیرالمومنینj کو ٹوک دیا اور انتہائی سخت اور ترش الفاظ کہتے ہوئے یوں مخاطب ہوا:
اتق اللہ یا عمر.
(کتاب الخراج، ص: 67)
’’اے عمر اللہ سے ڈرو۔‘‘
وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے اسے روکا کہ ایسا نہ کہو۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، اسے کہنے دو۔ اگر یہ لوگ نہیں کہیں گے تو انہوں نے اپنا حقِ امانت پورا نہیں کیا اور اگر ہم نہ مانیں توہم نے اپنے فرض کو نہیں نبھایا۔ (الفاروق، ص: 169)
3۔ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ عظیم منتظم
حکومت کے نظام اور اس کے نسق و انتظام کی خوبی و حسن اور ترقی کی دلیل یہ ہے کہ تمام شعبہ جات ترقی کریں اور سب ایک دوسرے سے ممتاز اور منفرد بھی ہوں۔ ذیل میں آپ رضی اللہ عنہ کے طرزِ حکمرانی میں سے انتظام و انصرام کے چند نمایاں پہلو ذکر کیے جاتے ہیں:
1۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلام میں وہ پہلے حکمران ہیں جنھوں نے اپنے زیر سلطنت علاقوں کو صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا۔ ہر علاقے کی موزوں اورمناسب حدود کا تعین کیا۔ آپ نے اپنی ماتحت سلطنت کو آٹھ صوبوں میں تقسیم کیا۔ جن میں مکہ، مدینہ، شام، جزیرہ، بصرہ، کوفہ، مصر اور فلسطین شامل تھے۔ یہ انتظام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے 20 ہجری میں کیا تھا۔ بعد ازاں سلطنت کی وسعت کے ساتھ مزید صوبوںفارس، خوزستان اورکرمان وغیرہ کا بھی اضافہ ہوا۔ ہر صوبے کے 10 سے پندرہ اضلاع تھے۔ صوبے کا بڑا افسر گورنر و عامل ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ کاتب، میر منشی، کاتب دیوان فوج کا میر منشی، صاحب الخراج (کلکٹر)، صاحب احداث (پولیس افسر) اور صاحب بیت المال (افسر خزانہ) اور قاضی تھے۔ (طبری، 2647، ابن خلکان، 253)
اضلاع میں عامل، افسر خزانہ اور قاضی وغیرہ ہوتے تھے۔ یہ سب کے سب گورنر کے ماتحت اور اس کے زیر نگرانی حکومتی معاملات چلاتے تھے۔
2۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان اہم ذمہ داریوں پر تقرر کے لیے ایک ضابطۂ انتخاب بھی وضع کیا ہوا تھا۔ آپ لوگوں میں سے اس کا انتخاب کرتے تھے جوانتہائی قابل، لائق اور راست باز ہوتا تھا۔ انتخاب کے حوالے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیدار مغزی اور تدبیر انھیں تاریخِ عالم میں ایک منفرد اور ایک ممتاز مقام پر فائز کرتی ہے۔ ان کی جوہر شناس طبیعت نے ہمیشہ قابل، لائق اور اچھے لوگوں کو ہر ہر ذمہ داری کے لیے تراشا ہے اور ان کو منتخب کیا ہے۔
3۔ آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کی تجویز پر سرکاری اہلکاروں کی بیش از بیش تنخواہیں مقررکیں تھیں تاکہ یہ ہر قسم کی خیانت و رشوت سے محفوظ رہیں۔ اگر کوئی عہدہ زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا تو اس کے انتخاب کے لیے مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقدکرتے اور جو شخص تمام ارکان مجلس شوریٰ کی طرف سے منتخب کیا جاتاتھا، اسے کسی انتہائی اہم ذمہ داری پر مامور کرتے تھے۔ (الفاروق، ص: 174)
4۔ آپ عاملوں کو ان کے فرائض سے آگاہ کرتے اور ان پر کاربند رہنے کے لیے ان کو پابند کرتے ہوئے ارشاد فرماتے:
’’یاد رکھو! میں نے تمھیں لوگوں پر صرف حکم چلانے والا مقرر نہیں کیا ہے اور نہ ان پر ظلم و جبر کرنے والا مقررکیا ہے بلکہ میں نے تمھیں ان پر راہنما مقرر کیا تاکہ وہ تمہاری زندگی کی پیروی کریں اور تم سب مسلمانوں کے بلاتفریق حقوق اداکرو، ان پر کسی قسم کا تشدد اور ظلم نہ کرو اورنہ ہی ان کو ذلیل و رسوا کرو اورنہ ہی ان کی بے جا تعریف کرو کہ وہ آزمائش میں مبتلا ہوں اور ان لوگوں کے لیے اپنے دروازے بند نہ کرو کہ کہیں ان کے قوت والے ان کے کمزوروں کو نقصان نہ پہنچائیں اور ان میں سے کسی کو ایسی ترجیح نہ دو کہ وہ دوسرے لوگوں پر ظلم کرے۔‘‘
(کتاب الخراج، ص: 66)
4۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حاکمانہ صفات
1۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ حکومت میں ہر عامل و گورنر سے اس زمانے کے مطابق وعدہ و عہد لیا جاتا تھا کہ وہ عیش و عشرت کی زندگی بسر نہیں کرے گا اور عام لوگوں کی طرح سادہ طرزِ زندگی کو اپنائے گا۔ ظاہری نمود و نمائش سے اعراض کرے گا اور عام لوگوں کی خدمت کے لیے اپنے دروازے ہمیشہ کھولے رکھے گا۔ (کتاب الخراج، ص 66)
2۔ آپؓ جوں ہی کسی شخص کو عامل و گورنر مقرر کرتے تھے۔ اس کے پاس جس قدر مال و اسباب ہوتا تھا، اس کی مفصل فہرست تیار کراکر رکھ لیتے تھے۔ اگر کسی حکومتی عہدیدار، وزیر، مشیر اور گورنر کے مال و اسباب میں کوئی غیر معمولی ترقی اور اضافہ دورانِ حکومت ہوتا تھا تو اس کا مواخذہ کیا جاتا تھا۔ ایک موقع پر کچھ عمال اس ضابطے کی زد میں آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان کے سب مال و اسباب کا جائزہ لے کر زائد مال کو قومی خزانے میں جمع کرلیا تھا۔ (ابو یوسف، کتاب الخراج، ص: 66)
3۔ آپؓ عمال کو یہ تاکیدی حکم دیتے تھے کہ تم لوگوں کے حقوق کو ضائع اور تلف نہ کرو، وگرنہ وہ لوگ کفرانِ نعمت کرتے ہوئے تمہارے خلاف ہوجائیں گے۔ (کتاب الخراج، ص: 66)
4۔ عمال کی جتنی بھی شکایات آتی تھیں ان کے تدارک کے لیے محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی وہ موقع پر جاکر لوگوں کی رائے معلوم کرتے تھے۔ (تاریخ طبری، ص: 2606)
گورنر و عمال کی اس کڑی نگرانی کا مقصد یہ تھا کہ تمام ملک و سلطنت میں ہر سطح پر مساوات اور جمہوریت کی روح کو فروغ دیا جائے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ حکومتی اہلکار اور عہدیدار اس کی عملی مثال بنیں۔ اس لیے کہ ان کے افعال کا اثر معاشرے کے تمام افراد پر پڑتا ہے۔ اگر ارکانِ سلطنت کا طرزِ حیات اور طرزِ معاشرت جدا اور ممتاز ہوگا تو لوگوں کے دلوں میں ان کے بارے میں نفرت اور حقارت پیدا ہوگی اور رفتہ رفتہ یہ ساری چیزیں نظامِ حکومت کو جمہوریت سے نکال کر شخصی آمریت کی طرف لے جائیں گی۔
5۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سیاست کے اصولوں سے خوب واقف تھے۔ آپؓ اپنی خلافت کے ماتحت خطوں کے حالات اور ان کے باسیوں کی نفسیات کو اچھی طرح جانتے تھے۔ عراق و ایران میں مدت سے کسان و دہقان چلے آتے تھے، اسلام کی فتح کے بعد بھی ان کا زور اور اقتدار قائم تھا۔ آپ نے ان کے لیے تنخواہیں مقرر کردیں جس کی وجہ سے وہ ریاست و حکومت سے مطمئن ہوگئے۔ اس طرح شام اور مصر کے لوگ رومیوں کے ظلم سے بہت تنگ تھے۔ وہ ایک عادل اور منصف حکومت کے طالب تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انھیں متعدد مراعات عطا کیں جس کی بنا پر انہوں نے کہا ہمیں مسلمان؛ رومیوں کی نسبت زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہیں۔ (الفاروق، ص: 288)
6۔ مصر میں مقوقس رومی سلطنت کا نمائندہ اور نائب تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے شروع سے ہی اس کے ساتھ حسنِ سلوک اور اعلیٰ برتاؤ کا مظاہرہ کیا تھا جس کی وجہ سے وہ آپ کا معتقد بن گیا تھا اور اس کی وجہ سے تمام مصری رعایا دل سے حلقہ بگوش اسلام ہوگئی تھی۔ مقوقس نے جنگی مقامات پر عرب مسلمان خاندانوں کو آباد کرادیا تھا اور فوجی چھاؤنیاں قائم کرادیں تھیں۔ جس کی وجہ سے سیکڑوں میل تک کا علاقہ محفوظ ہوگیا تھا اور کسی کو بھی بغاوت کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ (الفاروق، ص: 289)
7۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے امیر و غریب، سردار و غلام کے لیے بحیثیت حاکم قانون کو یکساں بنادیا تھا۔ ہر کوئی قانون کی نظر میں برابر تھا۔ کسی کو بھی اپنے معاشرتی درجہ و مرتبہ کی بنا پر قانون پر کوئی فوقیت اور ترجیح حاصل نہ تھی۔ جبلہ بن الایہم غسانی جو شام کا مشہور رئیس اور بادشاہ تھا، مسلمان ہونے کے بعد جب وہ کعبۃ اللہ کا طواف کرنے آیا تو اس دوران اس کی چادر کا ایک کونہ کسی عام شخص کے پاؤں تلے آگیا۔ جبلہ نے اس شخص کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا اور اس نے بھی اس کو برابر کا جواب دیا۔ اس سے وہ انتہائی طیش اور غصے میں آگیا اور اپنا مقدمہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس لایا۔ آپ نے اس کی شکایت کو اچھی طرح سنا اور اس کے بعد فیصلہ دیا کہ تم نے جو کچھ کیا تھا، اس کی سزا پائی ہے۔ اسے اس فیصلے پر سخت حیرت ہوئی اور کہا کہ ہم اس رتبے کے لوگ ہیں کہ کوئی شخص ہمارے ساتھ ہمارے وطن میں گستاخی سے پیش آئے تو وہ قتل کا مستحق ہوتاہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ زمانۂ جاہلیت میں یہاں بھی ایسا ہی ہوتا تھا لیکن اسلام نے پست و بلند سب کو ایک اور برابر کردیا ہے۔ غرضیکہ آپ نے اس بادشاہ کی خاطر اسلام کے قانون کو نہیں بدلا بلکہ اسے اسلام کے قانون کےمطابق خود کو بدلنے کا پابند کیا۔ (ابو یوسف، کتاب الخراج، ص: 66)
8۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں سب برابر تھے۔ اس حوالے سے اپنے عزیز و اقارب حتی کہ اپنی اولاد کو بھی کسی پر ہرگز ترجیح نہ دیتے تھے۔ جنگ قادسیہ کے بعد تمام قبائل عرب اور صحابہ کرامؓ کی تنخواہیں مقرر کیں تو سرداران قریش اور رئیسانِ قبائل اپنے خود ساختہ امتیاز اور اپنے مصنوعی اعزاز کے لیے بے تاب تھے اور حفظ مراتب میں وہ اپنی اولیت دیکھتے تھے۔ مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کے تمام گمان اور خیالات غلط کردیئے اور ان لوگوں کی دولت و جاہ، قوت و ناموری اورشہرت کی کچھ پرواہ نہ کی۔ ان سب کی مصنوعی معاشرتی خصوصیات کو مٹاکر صرف ایک پیمانہ قائم فرمایا کہ ایک جو لوگ اول اسلام لائے اورجنہوں نے جہاد میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ انھیں دوسروں کی نسبت زیادہ اعزاز دیا جائے گا۔
اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی قرابت کو دوسروں پر ترجیح دی اور ان خصوصیات میں جو برابر درجے کے تھے، ان کی تنخواہ برابرمقررکی۔ یہاں تک اس معالے میں غلام اور آقا کے فرق کو بھی روا نہیں رکھا حالانکہ عربوں میں غلام کے کوئی حقوق نہ تھے۔ یہی وجہ ہے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی تنخواہ جب اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ مقررکی تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عذر کیا کہ واللہ! اسامہ رضی اللہ عنہ کسی بھی موقع پر مجھ سے آگے نہیں رہا ہے، پھر بھی اس کی تنخواہ مجھ سے زیادہ کیوں؟ تو اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ، اسامہ رضی اللہ عنہ کو تم سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ (فتوح البلدان، ص: 456)
9۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سب اہل عرب کو اسلام کے جھنڈے کے نیچےبلا امتیاز رنگ و نسل اور قبیلہ و زبان کے جمع کیا۔ جو اس عظیم مقصد سے سرمو انحراف کرتا تو اسے سخت سزا دیتے تھے۔ اہلِ عرب میں ایک شعار تھا کہ جنگوں اورلڑائیوں میں فخریہ اپنے قبیلے کے نام کو بلند کرتے تھے۔ ہر قبیلے کے اس فخریہ نعرہ کو مٹانے اور اسلام کو فروغ دینے کے لیے تمام فوجی سپہ سالاروں اورجرنیلوں کو آپ نے لکھا کہ جو لوگ اپنے قبیلے کا نعرہ لگائیں، ان کو سخت سزا دی جائے۔ چنانچہ ایک موقع پر ایک شخص جو آل ضبد سے تعلق رکھتا تھا، اس نے ایک لڑائی میں آل ضبد کانعرہ لگایا تو آپ نے سال بھر کے لیے اس کی تنخواہ بندکردی۔ (کنزالعمال، 3: 167)
10۔ حاکمِ وقت کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی رعایا کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرے تاکہ معاشرتی سطح پر کسی قسم کی بے چینی اور بدامنی جنم نہ لے اورمعاشرے سے ہر طرح کے فسادات کا قلع قمع ہوتارہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نظامِ حکومت و خلافت کی سب سے بڑی امتیازی بات یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی رعایا کو بلا امتیاز رنگ و نسل اورمذہب و عقیدہ سب کو بے لاگ اور سستا عدل و انصاف ریاست کی طرف سے فراہم کیا تھا۔
آپ رضی اللہ عنہ کے طرزِ حکمرانی کی یہی بات سب سے زیادہ مقبولیت کی حامل تھی جس کی وجہ سے اہل عرب آپؓ کے سخت احکامات کو بھی گوارا کرلیتے تھے۔ آپؓ کے عدل و انصاف کے سامنے دوست و دشمن کی بالکل تمیز نہ تھی۔ آپ جرائم کی پاداش میں کسی کی عظمت و شان کا بالکل پاس نہیں کرتے تھے۔ حتی کہ اس اصول پر ان کے اپنے عزیز و اقارب حتی کہ اپنی اولاد کو بھی کوئی خصوصی برتاؤ اور سلوک حاصل نہ تھا۔
ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابو شحمہ نے شراب پی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں سے اس کو 80 کوڑے مارے اور وہ اسی صدمے میں فوت ہوگیا۔ قدامہ بن مظعون بڑے رتبے کے حامل تھے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے برادرِ نسبتی تھے۔ جب ان سے بھی شراب نوشی کا جرم سرزد ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قریبی رشتے دار کو بھی علانیہ 80 درے لگوائے۔ (الفاروق، ص: 291)
11۔ نظامِ حکومت و خلافت کو چلانے کے لیے حاکمِ وقت کو اپنے عہدیدارانِ سلطنت کا انتخاب اپنی جوہر شناسی کی صفت سے کرنا چاہیے تاکہ حکومتی مشینری کے تمام پرزے کارآمد ہوں۔ سب باصلاحیت اور اعلیٰ درجے کی قابلیت کے مالک ہوں اور ہر کوئی اپنے شعبے کا صاحبِ کمال ہو۔ اگر ان عہدیداران کی صلاحیت و قابلیت پست ہوگئی تو اس کی بے مثل قیادت بھی قوم کے لیے ثمر آور نہ ہوسکے گی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو باری تعالیٰ نے اپنے عہدیدارانِ سلطنت منتخب کرنے کے لیے ایک بہت بڑا جوہر شناس بھی بنایا تھا۔ انھیں اپنی اس صفت کی بناء پر اپنے ہم عصروں میں امتیاز و انفرادیت حاصل تھی۔ انھیں اپنے تمام متعلقین کی قابلیتوں سے واقفیت حاصل تھی، جس کی بنا پر انہوں نے انھیں عملی ذمہ داریاں تفویض کی تھیں۔
سیاست و انتظام کے فن میں اکابر صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے شام، کوفہ اور بصرہ کے لیے عمرو بن العاصؓ، امیر معاویہ، مغیرہ بن شعبہ کو عامل و گورنر کی ذمہ داری دی تھی... جنگی مہمات کے لیے عیاض بن غنؓم، سعد بن وقاصؓ، خالد بن ولیدؓ اور نعمان بن مقرنؓ کو منتخب کیا تھا... زید بن ثابت اور عبداللہ بن ارقم انشاء رضوان اللہ علیہم اجمعین تحریر میں صاحبِ کمال تھے، ان کو سیکرٹری اور میر منشی کی ذمہ داری دی... قاضی شریحؓ، کعب، سلیمان بن ربیعہؓ، عبداللہ بن مسعودؓکو عدالتی ذمہ داریاں تفویض کیں۔
آپ نے جسے جو ذمہ داری دی، اس نے اپنی اس ذمہ داری کو یوں نبھایا کہ ہر کسی نے یوں محسوس کیا کہ گویا کہ وہ اسی ذمہ داری کے لیے پیدا ہوا تھا۔ ایک مشہور عیسائی مورخ لکھتا ہے حضرت عمر فاروقؓ نے صوبوں کے گورنروں اور فوج کے سپہ سالاروں کا انتخاب بلا رو رعایت اور انتہائی مناسب اور موزوں قابلیت کی بنا پر کیا تھا۔ (طبری، ص 2393)
خلاصۂ کلام
حاکمانِ وقت کے لیے سیاست ان کی حیات کی عادت کی طرح ہے۔ حکومت و سلطنت کے لیے سیاست لازم و ملزوم ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنی سیاست کو بھی شفافیت اور طہارت دی ہے اور اس سیاست کو سنت رسول ﷺ سے مطابقت اور موافقت دی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ اور شہنشاہ اور بڑے بڑے مصلح سیاست میں خدع، مکر، فریب، ظاہر داری اور نفاق کے سبب اپنی سیاست کو وہ رفعت، سطوت اور عظمت نہ دے سکے جس کا اسلوب و منہج ہمیں سیاست مصطفوی ﷺ کی اتباع میں سیاست فاروقی رضی اللہ عنہ میں نظر آتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیاست میں کوئی فریب و دھوکہ نہ تھا۔ وہ جو کچھ کرتے تھے، اعلانیہ کرتے تھے اور سر عام کہتے تھے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو سپہ سالاری سے معزول کیا تو سب کو اعلانیہ بتادیا:
’’میں نے خالد بن ولیدؓ کو کسی ناراضگی یا کسی خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا ہے بلکہ اس وجہ سے کیا ہے کہ لوگ فتوحات میں ان پر بہت زیادہ بھروسہ کرنے لگے تھے۔ اس لیے میں ڈرا کہ ان پر بھروسہ کئی اسلامی فتوحات کو نقصان نہ دے۔‘‘ (طبری، ص: 2393)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہ ساری حاکمانہ صفات، ان کی قائدانہ خصوصیات اور ان کے رہبرانہ امتیازات ہمارے مسلم حکمرانوں کے لیے مشعلِ نور ہیں۔ اگر دنیا کا ہر ہر حاکم اور اسلامی ریاستوں کے سارے حکام اسوۂ رسول ﷺ اور اسوۂ فاروقی رضی اللہ عنہ میں ڈھل جائیں تو آج بھی ہر سلطنت اور ہر حکومت لوگوں کے لیے اطمینان اور سکون کا باعث ہوسکتی ہے۔