زکوٰۃ اسلام کے اقتصادی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زکوٰۃ کے حکم کے پیچھے یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ اسلامی حکومت پورے معاشرے کو ایسا اقتصادی و معاشی نظام، طرز زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے جس سے حرام کمائی کے راستے مسدود ہوجائیں اور رزق حلال کے دروازے کھلتے چلے جائیں۔ اس لئے شریعت مطہرہ نے ہر صاحب مال پر یہ فریضہ عائد کیا کہ وہ سالانہ بنیادوں پر اپنے جمع شدہ اموال پر اڑھائی فی صد کے حساب سے مال نکال کر اجتماعی طور پر حکومت کے بیت المال میں جمع کراوئے تاکہ وہ اسے معاشرے کے نادہندہ اور محتاج افراد کی ضروریات پوری کرنے پر صرف کرسکے۔ اس شرح سے اگر سب اہل ثروت اور متمول افراد اپنے سال بھر کے اندوختہ و زرومال سے اپنا اپنا حصہ نکالتے رہیں تو اس طرح نہ صرف ان کی کمائی حلال اور ان کا مال و متاع آلائشوں سے پاک و صاف ہوجائے گا بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی معاشی ناہمواریاں بھی از خود دور ہوتی رہیں گی۔ اگر یہ سوچ افراد معاشرہ کے قلوب و اذہان میں جاگزیں ہوجائے تو پوری زندگی میں حلال و حرام کی حدیں متعین ہوجائیں گی اور اجتماعی حیات کے احوال و معاملات سنور جائیں گے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کا قیام اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ ایک سے انسان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے تو دوسرے سے اس کی مادی ضرورتوں کی کفالت کی ضمانت میسر آتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ افراد کی روحانی اور مادی تقاضوں کی تکمیل کے بعد ہی جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں نیکیوں اور اچھائیوں کو فروغ ملتا ہے اور اس کے اندر پائی جانے والی برائیوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔
اسلام محض مسجد و منبر تک محدود نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ دینِ اسلام فقط روحانیات، طریقت تصوف، محاسبہ نفس پر بحث نہیں کرتا بلکہ اس کے نزدیک دین و دنیا لازم و ملزوم ہیں۔ دنیا اس انسان کے لئے ایک امتحان گاہ ہے جہاں وہ ایک طرف اپنے مادی ضروریات زندگی کے لوازمات کو اسلام کے قواعد و ضوابط کو مد نظر رکھ کر بسر کرے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رضا کے حصول کو اپنی زندگی کا شعار اور مرکز و محور بنائے۔ دوسری طرف اسلام نے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے ہوئے فرائض منصبی کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ معاشرے میں گزر بسر کے لئے معاشی وسائل اور مصارف کو بھی موضوع بحث بنایا۔
اللہ تعالیٰ نے دولت کو صرف معاشرے کے ایک متّمول اور جاگیردار طبقہ کے ہاتھ میں مرتکز کرنے سے منع فرمایا ہے۔ دولت کو اس کے مستحقین تک پہنچانے کی غرض و غایت بیان کرتے ارشاد فرمایا:
کَيْ لَا يَکُوْنَ دُوْلَةًم بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْکُمْ. (الحشر:7)
’’(یہ نظامِ تقسیم اس لیے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے) ‘‘
امراء اور سرمایہ دار سانپ بن کر اس خزانہ پر قبضہ نہ جمائے رہیں۔ دولت کا چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جانے سے معاشرے کے استحکام، ترقی، خوشحالی اور معاشی صورتحال کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارتکاز دولت کی اس منفی سوچ و رویہ کا قلع قمع کرنے کے لئے زکوۃ، صدقات، خیرات اور تحائف جیسے جائز امور عطا فرمائے۔ اگر ہم اپنا مال و دولت اور نقد و زر کو اسلام کے ان جائز ذرائع کے ذریعے استعمال کریں گے تو دولت معاشرے کے بااثر افراد کے شکنجے سے نکل جائے گی اور بلاتفریق اس کے اثرات ہر خاص و عام تک پہنچیں گے۔ زکوۃ کی ادائیگی کے بدولت معاشرے کے لاچار اورمفلس لوگوں کے لئے ترقیاتی اور رفاہی کاموں کے نیٹ ورک قائم ہوں گے۔ زکوۃ معاشرے کے قبیح اور رذیل ذرائع کے خلاف ایک موثر ترین ہتھیار ہے۔
زکوۃ اسلام کا ایک اہم رکن
زکوۃ ایک مالی عبادت ہے۔ زکوۃ معاشرے کی غربت سے پسے ہوئے نادار، یتیموں اور دیگر مصارف کے لئے خوشحالی اور ترقی کی ضامن ہے اور جب پورا معاشرہ اس غربت و افلاس اور تنگدستی سے نجات حاصل کرے گا تووہ معاشرہ ایک ترقی یافتہ اور ایک مثالی معاشرہ متصور ہوگا۔ زکوۃ کی افادیت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جابجا نماز، آخرت اور روزہ کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا۔ قرآن پاک میں ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُالزَّکٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْج وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ. (البقره: 277)
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے، اور ان پر (آخرت میں) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے‘‘۔
زکوۃ دینے سے مال میں پاکیزگی اور برکت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے مال کو دوگنا کردیتا ہے۔ اس میں خیرو برکت کا عمل دخل ہوتا ہے لیکن آج بھی بعض صاحب استطاعت لوگ اس کی ادائیگی میں عمداً چشم پوشی کرتے ہیں اور حیلے بہانے تراشتے ہیں اور نصاب زکوۃ کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ان کے لئے آخرت میں ہلاکت کا سامان ہے۔ زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے دور خلافت میں منکرین زکوۃ کے خلاف اعلان جہاد کیا اور اسلام کے اس عظیم ستون کی بالا دستی کو قائم و دائم رکھا۔
زکوۃ کی عدم ادائیگی کے مرتکب لوگوں کو آخرت کا منکر بھی قرار دیا گیا۔ ارشاد فرمایا:
اَلَّذِيْنَ لَا يُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ کٰفِرُوْنَ. (حم السجده، 41:7)
’’جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور وہی تو آخرت کے بھی منکر ہیں‘‘۔
جو صاحب ثروت اور صاحب استطاعت لوگ زکوۃ کی ادائیگی کے احکامات کو پس پشت رکھتے ہیں اور حکم عدولی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خلاف سخت عذاب کی وعید سنائی ہے:
يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ کَثِيْرًا مِّنَ اْلاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اﷲِط وَالَّذِيْنَ يَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِلا فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ. (التوبه، 9:34)
’’اے ایمان والو! بے شک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دین حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کیے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں‘‘۔
اسی طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے عدم ادائیگی زکوۃ پر لوگوں کو روز محشر ان کے اموال کے ساتھ سخت حشر کرنے کی وعید بھی بیان کی:
يَوْمَ يُحْمٰی عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْط هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ. (التوبه، 9:35)
’’جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی (مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لیے جمع کیا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھے‘‘۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صاحب استطاعت کو آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو مال و دولت کی فراوانی سے نوازا اور تم اس چیز پر فخر محسوس نہ کرو کہ اصل مالک میں ہی ہوں بلکہ یہ دولت تمہارے لئے عطائی ہے کسی وقت بھی تمہارا رب تجھ سے دوبارہ چھین سکتا ہے لہذا تمہارا فرض ہے کہ ان اموال میں سے کچھ حصہ معاشرے کے مفلس لوگوں پر خرچ کرو تاکہ تمہارے مال میں خیرو برکت ہو۔
آقا علیہ السلام نے زکوۃ کے مستحقین اور صاحب زکوۃ کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا:
توخذ من اغنیاء ہم فترد علی فقراء ہم۔ (متفق علیہ)
’’زکوۃ ان کے امیروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر لوٹادی جائے گی‘‘۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے زکوٰۃ کی ادائیگی کو مال سے شر اور فساد ختم ہوجانے کی ضمانت قرار دیا۔ حضرت جابرص روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسول اﷲ! اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی؟
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَدَّی زَکَاةَ مَالِهِ فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ شَرُّهُ.
(اخرجه ابن خزيمة فی الصحيح، 4 /13، الرقم: 2258)
’’جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، اس مال کا شر اس سے جاتا رہا ۔ ‘‘
حرام مال سے زکوۃ کی ادائیگی ثواب نہیں بلکہ ہلاکت کا موجب ہے۔ حضرت ابوہریرہ ص روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا أَدَّيْتَ الزَّکَاةَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْکَ، وَمَنْ جَمَعَ مَالًا حَرَامًا ثُمَّ تَصَدَّقَ بِهِ لَمْ يَکُنْ لَهُ فِيْهِ أَجْرٌ، وَکَانَ أَجْرُهُ عَلَيْهِ.
(اخرجه ابن خزيمة فی الصحيح، 4 /110، الرقم: 2471)
’’جب تونے (اپنے مال کی) زکوٰۃ ادا کر دی تو تو نے اپنا فرض ادا کردیا۔ اور جو شخص حرام مال جمع کرے پھر اسے صدقہ کردے اسے اس صدقہ کا کوئی ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس کا بوجھ اس پر ہو گا۔ ‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے زکوۃ و صدقات کی ادائیگی کو ایک طرف مال و دولت کی حفاظت کا سبب قرار دیا اور دوسری طرف صدقہ کی ادائیگی کو موذی امراض کا بہترین علاج اور مصائب کے ٹلنے کا بھی باعث قرار دیا۔
حضرت حسن بصری ص روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
حَصِّنُوْا أَمْوَالَکُمْ بِالزَّکَاةِ، وَدَاوُوْا أَمْرَاضَکُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَاسْتَقْبِلُوْا أَمْوَاجَ الْبَـلَاءِ بِالدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ.
(اخرجه ابوداود فی السنن، کتاب: المراسيل: 133)
’’اپنے مال و دولت کو زکوٰۃ کے ذریعے بچاؤ اور اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور مصیبت کی لہروں کا سامنا دعا اور گریہ و زاری کے ذریعے کرو۔ ‘‘
اسلام معاشرے کے تمام افراد کے مصائب و آلام اور مشکلات کا حل اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ وہ اپنی ذات کی بجائے دوسرے پر خرچ کرنا، دوسروں کی عزتِ نفس کی حفاظت کرنے کو زیادہ فوقیت دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ. (الحشر:9)
’’اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو‘‘۔
سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام و ائمہ اسلاف کی حیات مبارکہ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں جابجا اس ضمن میں ایثار و قربانیوں کی لازوال داستانیں نظر آتی ہیں۔ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ دولت کے بہائو کا رخ دولت مندوں سے غریبوں کی طرف ہو اور اس کا مستقل انتظام زکوۃ کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اگر معیشت کو اسلام کے نظام زکوۃ کے ذریعے معاشرے کی کماحقہ بنیادوں پر استوار کیا جائے اور نظام زکوۃ کے عمل کو اوپر سے نچلی سطح تک منظم، مربوط اور مستحکم کیا جائے تو اسلام کے اس روشن اصول کے ذریعے معاشرے سے تنگدستی اور غربت کے اندھیروں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:
وَ فِيْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ. (الذاريات: 19)
’’اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجتمندوں) کا حق مقرر تھا‘‘۔
آج کے دور میں ضرورت اس امرکی ہے کہ نظام زکوۃ کو منظم و مربوط طریق سے فعال کیا جائے تاکہ اس کے فوائد و ثمرات سے حقدار لوگ صحیح معنوں میں مستفیدہوسکیں۔