اللہ تعالیٰ نے اپنی شاہکار تخلیق انسان کو جسم اور روح سے مرکب کیا ہے۔ یہ اس کی کمال قدرت ہے کہ اس نے ان دونوں عناصر کی پرداخت و پرورش اور ان کی تقویت کے لئے بھی سامان کیا ہے۔ مادی جسم کی صحت و سلامتی اور بودو باش کے لئے مادی اسباب کو پیدا کیا جب کہ روح کو اجلا کرنے اور طاقت ور بنانے کے لئے روحانی اسباب مقرر کئے۔ یوں انسان کے ظاہرو باطن کی اصلاح اور صحت کے ذریعہ اسے زندگی کی مختلف کیفیات سے لذت آشنا کیا ہے۔
نفس انسانی کی ظاہری و باطنی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام سلام اللہ علیہم اجمعین کی وساطت سے جو نظام عبادات دیا ہے اگر انسان کماحقہ ان پر عمل پیرا ہو تو انسان رشک ملائکہ بن جاتا ہے۔ یوں تو اسلام کی ہر عبادت اپنے اندر بے پناہ اسرار و رموز رکھتی ہے مگر ان سب میں سے روزہ ایک ایسی عبادت اور عمل ہے جو کئی اعتبارات سے دیگر عبادات کے مقابلہ میں انفرادیت کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے متعلق قول باری تعالیٰ کو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم یوں ارشاد فرماتے ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَة رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی: کُلُّ عَمَلِ ابْنِ أدَمَ لَهُ فَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَی سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَّا الصِّيَامَ هُوَ لِي وَ أَنَا أَجْزِي بِهِ إِنَّهُ يَتْرُکُ الطَّعَامَ وَشَهَوَتَهُ مِنْ أَجْلِي وَيَتْرُکُ الشَّرَابَ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي فَهُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ.
(الدارمی، السنن، 2/ا40، 1770)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آدمی کا ہر عمل اس کے لئے ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔ سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں، یقینا وہ (روزہ دار) کھانا اور شہوت نفسانی کو میری وجہ سے ترک کرتا ہے اور اپنا پینا اور شہوت میری وجہ سے ترک کرتا ہے، پس وہ (روزہ) میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں۔‘‘
امام غزالی (505ھ) ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں مذکورہ حدیث کا مفہوم واضح کرتے ہوئے روزے کی حکمتوں پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
روزہ کی عظیم ترین فضیلت تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اسے اپنی ذات سے منسوب فرمایا ہے اور بالوضاحت ارشاد فرمایا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا بھی میں خود ہی دوں گا یعنی اگرچہ ہر عبادت خدا ہی کے لئے ہے لیکن روزہ کی تخصیص ایسی ہی ہے جیسے کہ کعبہ کو اپنا گھر کہا ہے حالانکہ ساری دنیا اسی کی ہے۔ روزہ دار کی دو خصوصیات ایسی ہیں جو اسے اس نسبت کا مستحق ٹھہراتی ہیں:
- روزہ کی حقیقت خواہش نہ کرنا ہے اور یہ باطنی خصوصیت ہے جو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوتی ہے اور اس میں کسی قسم کی ریاکاری کو دخل نہیں ہوتا۔
- اللہ تعالیٰ کا دشمن ابلیس ہے اور شہوات اس کا لشکر ہیں۔ روزہ شیطان کے لشکر کو شکست دے دیتا ہے کہ اس کی حقیقت ہی ترک شہوات ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شیطان آدمی کے اندر ایسے رواں دواں رہتا ہے جیسے کہ خون اس کے اندر رواں دواں رہتا ہے پس چاہئے کہ بھوک کے ذریعہ اس کا راستہ تنگ کردیا جائے۔ نیز فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے جو گناہوں کے وار سے پناہ دیتی ہے۔
الشیخ سید علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش ’’کشف المحجوب‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’روزہ ایک باطنی عبادت ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے کہ ظاہر سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور کسی غیر کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ اس سبب سے اللہ تعالیٰ نے اس کی جزا بھی بے حد رکھی ہے‘‘۔
حدیث قدسی اور اس کی مستند تشریحات سے واضح ہوا کہ تمام عبادات اسلامیہ میں سے روزہ ایک اہم ترین اور ممتاز عبادت ہے۔ دین اسلام میں روزہ کی تاریخ اور اس کے پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائً نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہر مہینہ میں تین روزے ایام بیض یعنی چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو رکھا کرتے تھے۔ بعد میں محرم الحرام کے ابتدائی دس یوم کے روزے رکھتے تھے۔ صحابہ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عمل مبارک کو دیکھ کر روزے رکھتے تھے تاآنکہ ماہ رمضان کے پورے مہینہ کے روزے فرض قرار دیئے گئے۔ ارشاد فرمایا:
ٰياَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.
(البقره،2:183)
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘۔
دین محمدی کے علاوہ پہلے سے موجود الہامی مذاہب یہودیت اور مسیحیت اور غیر الہامی مذاہب مثلاً بدھ مت، وغیرہ کی تاریخ اور ان کے موجود مذہبی لٹریچر کی روشنی میں اگر روزے کا تاریخی پس منظر دیکھا جائے تو ان کے ہاں بھی روزہ بطور عبادت پایا جاتا تھا اور ان کتب میں آج بھی اس کے بارے میں احکام پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں روزے کی حکمت اور فلسفہ قرآن مجید نے تقویٰ و پرہیزگاری کو قرار دیا ہے۔
رمضان کو خاص کرنے کی حکمت
سال کے تمام مہینے اور دن اللہ تعالیٰ کے ہیں تو پھر ماہ رمضان کو ہی روزوں کے لئے خاص کیوں کیا گیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی نے ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں ابوعمرو بن العلاء کا قول نقل کیا ہے کہ
’’رمضان کو رمضان اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس مہینہ میں اونٹ کے بچے گرمی کی وجہ سے جھلس جاتے ہیں۔ ابو عمرو کے علاوہ بعض دوسرے لوگوں نے وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ گرمی کی وجہ سے پتھر تپنے لگتے ہیں اور ’’رمضائ‘‘ گرم پتھروں کو کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ رمضان گناہوں کو جلادیتا ہے۔ رمض کا معنی ہے جلانا۔
بعض نے کہا کہ رمضان میں نصیحت اور فکر آخرت کی گرمی سے دل سے ایسے متاثر ہوتے ہیں جیسے ریت اور پتھر دھوپ سے متاثر ہوتے ہیں۔ خلیل نے کہا رمضان ’’رمض‘‘ سے بنا ہے اور ’’رمض‘‘ کا معنی ہے برساتی بارش۔ ماہ رمضان بھی بدن سے گناہ ایسے ہی دھو ڈالتا ہے اور دلوں کو پاک کردیتا ہے (جیسے بارش سے بدن دھل کر پاک صاف ہوجاتا ہے)‘‘۔
تمام عرب و عجم میں روزوں کے لئے دنوں کا تعین کتنا اور کس قدر ہو اور کون سا مہینہ ہو تاکہ مسلمانوں پر عبادت کے آسان ہونے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا شوق و جذبہ پیدا ہونے کا سبب بنے؟ ایسے سوالات پر بحث کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ دہلوی ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جب کسی مہینہ کا مقرر کرنا ضروری ہوا تو اس مہینے سے کوئی اور مہینہ زیادہ مناسب نہیں ہے جس میں قرآن کا نزول اور ملت محمدی کی تکمیل ہوئی۔ چنانچہ شب قدر کے پائے جانے کا بھی اسی مہینے میں قوی احتمال ہے‘‘۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رمضان المبارک کی فضیلت اور اہمیت کو مختلف مواقع پر بیان فرمایا۔ رمضان المبارک کے روزے ہمارے لئے کس قدر برکات کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں، چند احادیث کے اہم نکات یہ ہیں:
1۔ ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھنے والے کے لئے اگلے اور پچھلے سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
2۔ اس ماہ مبارک میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔
3۔ دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔
4۔ بڑے شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔
5۔ روزہ جنت میں لے جانے والا عمل ہے۔
6۔ روزہ انسان کو گناہ اور برائی سے بچانے والی ڈھال اور ایک مضبوط قلعہ ہے۔
7۔ روزہ انسانی جسم کی زکوٰۃ ہے۔
8۔ روزہ نصف صبر ہے۔
9۔ جنت کے دروازوں میں سے باب الریان صرف روزہ داروں کے لئے کھولا جائے گا۔
10۔ جس بدبخت شخص کی بخشش رمضان میں بھی نہ ہوسکی تو پھر اس کی بخشش کب ہوگی؟
روزے کی خصوصیات
جس طرح مادی جسم کی نشوونما کے لئے پیدا کی گئیں انواع و اقسام کی نعمتوں، اجناس، پھلوں اور مشروبات میں سے ہر ایک نعمت اپنے اندر الگ خصوصیات اور تاثیرات رکھتی ہیں۔ اسی طرح عبادات جو انسانی روح کی ترقی، نشوونما اور تقویت کا باعث ہوتی ہیں وہ بھی اپنے اندر جداگانہ خصائص اور تاثیرات رکھتی ہیں۔ بندہ مومن جب پورے اخلاص کے ساتھ ان عبادات کو بجا لاتا ہے تو پھر رحمت الہٰی سے وہ ان عبادات کے اثرات و نتائج کو اپنی شخصیت کے اندر محسوس کرتا ہے مثلاً یہ کہ شب بیداری کی لذتوں سے آشنا شخص کا چہرہ رات کی تاریکی میں کی گئی عبادات کی وجہ سے روشن و منور ہوتا ہے اور اس کی زبان میں ایسی تاثیر ہوتی ہے کہ جو دوسرے لوگوں کے دل پر اثر کرتی ہے۔
ماہ رمضان کے روزے ایک ایسی عبادت ہیں جو اپنے اندر بہت سی خصوصیات رکھتی ہیں ان میں سے چند کا تذکرہ اختصار کے ساتھ درج کیا جارہا ہے:
- تمام عبادات سوائے روزہ کے ظاہری اعضاء سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ روزہ باطن سے تعلق رکھتا ہے۔
- نماز ایک خاص وقت میں اسی تک محدود ہے جب تک نمازی اس عمل نماز میں شاغل ہے وہ نمازی ہے مگر دیگر اوقات میں وہ نماز کی حالت میں نہیں ہوتا۔ روزہ دار جب روزہ رکھتا ہے تو پھر طلوع فجر صادق سے لے کر غروب آفتاب تک ہر لمحہ روزے اور عبادت میں ہے اور اس کا دل اپنے رب کی طرف متوجہ رہتا ہے خواہ وہ سورہا ہے یا بیداری کی حالت میں ہے۔
- مادی مال و دولت کی زکوٰۃ سال گزرنے پر چالیسواں حصہ (یعنی اڑھائی فیصد) دی جاتی ہے۔ روزہ بدنی و جسمانی نعمت کی زکوٰۃ ہے، اس لئے پورے کا پورا بدن روزے سے ہوتا ہے گویا کہ روزہ شکم سیری کی زکوٰۃ ہے۔
- دیگر عبادات مثلاً نماز مخصوص اوقات میں مخصوص اعمال کو مخصوص طریقہ سے ادا کرنا ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ اپنے مال میں سے مخصوص رقم نکال کر مخصوص لوگوں کو دینا ہے۔ یونہی مخصوص دنوں میں مخصوص مقامات پر مخصوص اعمال کی بجا آوری کا نام حج ہے۔ مگر روزہ ایک ایسی پوشیدہ عبادت ہے کہ اس میں ظاہراً کوئی عمل نہیں کیا جاتا بلکہ کوئی روزہ دار کسی کو بتائے بھی کہ میں روزہ سے ہوں تو اس پر کوئی خارجی دلیل قائم نہیں کی جاسکتی۔ اس کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے یا روزہ رکھنے والا جانتا ہے کہ وہ روزے سے ہے۔
- دیگر عبادات ایک محب صادق کی طرف سے اپنے محبوب کے حضور ایک ظاہری نذرانہ عقیدت ہے جبکہ روزہ اپنے محبوب حق کی بارگاہ میں ایک پوشیدہ نذرانہ ہے۔ ظاہری عمل میں ریاکا عنصر ہونے کے سبب اس کی قبولیت مشکوک ہوجانے کا امکان ہے اور پوشیدہ نذرانہ و عمل یعنی روزہ میں ریا کا عنصر نہ پائے جانے کی وجہ سے اس کی بارگاہ ناز میں قبولیت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
- نماز، زکوٰۃ، حج وغیرہ جیسی عبادات میں اطاعت کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے جبکہ روزے میں جذبہ عشق کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس لئے کہ روزہ دار اپنے محبوب کی محبت میں اس کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔ وہ کھانا پینا اور نفسانی خواہشات کو محض اپنے محبوب کی رضا کے لئے ترک کردیتا ہے۔ یوں محب اور محبوب میں قرب و محبت دو چند ہوجاتی ہے۔ وہ محبوب سے ملاقات کے شوق میں رات کی نیند کو تج کرکے تراویح کی صورت قیام کرتا ہے۔ دن میں کھانا پینا ترک کردیتا ہے اور یوں بھوک کی شدت سے اس کا رنگ محض اپنے محبوب کی محبت میں زرد ہوجاتا ہے، جسم لاغر و کمزور ہوتا ہے۔ گویا کہ اس نے محبوب حقیقی کی محبت میں رات کا آرام، دن کا چین اور لذت دھن سب کچھ چھوڑ دی تو یہ اس کا اپنے محبوب سے عشقِ صادق کی دلیل ہے۔
- روزے کی حالت میں بندہ جب قدرت رکھنے کے باوجود کھانا پینا ترک کردیتا ہے تو اس سے اس کے اندر احساس بندگی اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مطلقہ کا احساس پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ سال کے باقی دنوں میں بھی اپنے مالک کے حضور سر نیاز خم کئے رکھتا ہے۔
- باقی عبادات مقام شکر میں ہیں جبکہ روزہ مقام صبر میں ہے کیونکہ اس میں راتوں کو قیام تراویح، رات کے آخری پہر میں سحری کے لئے اٹھنا، دن میں ترک خوردو نوش کرنا ان تمام امور میں صبرو استقامت پائی جاتی ہے۔ صبر ایک ایسا عمل ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا:
اِنَّ اﷲَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ. (البقره،2:153)
’’یقینا اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے‘‘۔
خصوصیات رمضان
- سال بھر کے دیگر مہینوں میں مخصوص دن اور مخصوص ساعتیں عبادت کی ہیں مثلاً محرم کی دسویں تاریخ اپنے اندر زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ رجب میں ستائیسویں شب معراج النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت سے عبادت کی خصوصیت رکھتی ہے۔ شعبان کی پندرھویں شب کی عبادت بھی اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ شوال کی پہلی شب عبادت کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے۔ ذوالحجہ میں چار دن نویں سے بارہویں تک ایام تشریق کہلاتے ہیں جن میں تکبیرات کہی جاتی ہیں جبکہ رمضان وہ مہینہ ہے کہ جس کے شب و روز کی ہر ساعت نورِ عبادت سے روشن و منور ہے۔ یوں کہ طلوعِ فجرِ صادق سے غروبِ آفتاب تک روزہ، پھر افطاری، پھر تراویح، پھر وقتِ سحر کی روحانی کیف آور ساعتیں، غرض ہر لمحہ اور ہر ساعت بندہ مومن مصروف عبادت ہے۔
- سال کے دیگر مہینوں کی نسبت اس ماہ مقدس میں عبادت، ذکر و اذکار، تقویٰ و طہارت اور نیکی و بندگی کی طرف دل زیادہ راغب ہوتے ہیں اور ایک مسلمان ان ایام میں عبادت کی لذت بھی محسوس کرتا ہے۔
- قرآن مجید (جو دنیائے انسانی کی طرف اس کے خالق اور محبوب حقیقی کی طرف سے آخری نامہ محبت ہے)کی تلاوت جس کثرت کے ساتھ ماہ رمضان میں کی جاتی ہے وہ سال کے دیگر ماہ و ایام میں نہیں ہوتی۔ ماہ رمضان کی قدسی صفات ساعتوں میں گناہگار ترین انسان بھی تلاوت قرآن سے اپنے باطن میں روحانی کیف و سرور اور حلاوت پاتا ہے۔
- ماہ مقدس رمضان کے شب و روز میں گلشن اسلام میں یوں بہار آجاتی ہے کہ سارا اسلامی معاشرہ ایک ہری بھری کھیتی کی مانند لہلہاتا نظر آتا ہے۔ مساجد آباد ہوجاتی ہیں، نیکی کرنے کے جذبات غالب آجاتے ہیں اور زبانیں ذکر الہٰی اور درود و سلام کی چاشنی و حلاوت سے آشنا ہوتی ہیں۔
- عام اسلامی مہینوں کی نسبت اس ماہ مبارک کا ہر بندہ مومن کو انتظار ہوتا ہے۔ وہ ذوق و شوق کے ساتھ اس کے چاند کا انتظار کرتا ہے اور خوشی و مسرت کے ساتھ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتا ہے جبکہ اس کے گزر جانے پر مومن صادق اس کے فراق میں آنسو بہاتا اور گریہ و زاری کرتا ہے۔
- اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام مہینے اور دن اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں مگر رمضان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کو اللہ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ ’’شعبان میر امہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے‘‘۔
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس ماہ مبارک میں بالخصوص کثرت کے ساتھ عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ جب رمضان شروع ہوجاتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنا کمر بند کس لیتے، پھر اپنے بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔
روزہ اور اس کے آداب
ماہ رمضان المبارک اپنے دامن میں ان گنت سعادتوں، رحمتوں اور برکتوں کے خزانے سموئے ہوئے ہے، اس کی سب سے اہم ترین عبادت جو اس کا امتیازی پہلو ہے وہ اس مہینہ کے دنوں میں اللہ کی رضا کے لئے روزہ رکھنا ہے۔
روزہ کو عربی میں ’’صوم‘‘ کہتے ہیں۔ ’’صوم‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کی جمع ’’صیام‘‘ آتی ہے۔ اس کے لغوی معنی روکنے کے ہیں لیکن شرعی و فقہی اصطلاح میں صوم کا معنی طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل سے رُکے رہنا ہے۔
روزہ جس قدر عظیم عبادت ہے اس کے آداب بھی اسی قدر زیادہ ہیں اس لئے روزے کی حقیقی برکات حاصل کرنے کے لئے ان آداب کا بجا لانا ضروری ہے۔ اس لئے کہ روزہ محض کھانا پینا ترک کردینے کا نام نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ لَمْ يَدَعْ قَولَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ ِﷲِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ.
(الترمذی، السنن، کتاب الصوم، 3/87، الرقم707)
’’جو شخص (بحالتِ روزہ) جھوٹ بولنا اور اس پر(برے) عمل کرنا ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
وَإِذَا کَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فلَاَ يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ.
’’اور جس روز تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ جھگڑے اور اگر اسے (روزہ دار کو) کوئی گالی دے یا لڑے تو یہ وہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں‘‘۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مختلف مواقع پر آدابِ صوم سے آگاہ فرماتے ہوئے امت کی راہنمائی فرمائی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
جھوٹ اور غیبت ایسے اعمالِ سوء ہیں جن سے روزہ اپنے اثرات و تاثیر کھودیتا ہے۔ پہلے یہ ڈھال کے طور پر حفاظت کرتا اور نیکیوں کی طرف بڑھنے کا راستہ آسان کرتا چلا جاتا ہے مگر اخلاقِ رذیلہ کی وجہ سے یہ اپنے اندر موجود قوتِ مدافعت کھودیتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: الصیام جنۃ مالم یخرقہا روزہ ڈھال ہے جب تک کوئی اسے پھاڑ نہ ڈالے۔۔۔ آپ سے پوچھا گیا بم یخرقہا؟ اسے کیسے پھاڑا جاسکتا ہے؟ فرمایا: بکذب اوغیبۃ۔ جھوٹ اور غیبت کے ذریعے
(الدرالمنثور، قوله تعالیٰ يا ايها الذين امنو کتب عليکم الصيام، جلد1، ص438)
اس تناظر میں اگر ہم اپنے اعمال و اخلاق کا جائزہ لیں تو ہم میں سے اکثریت ایسی ہے جسے پورے دن کی بھوک و پیاس کے علاوہ کچھ اور حاصل نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ عمل میں کارفرما روح کا لحاظ نہ رکھا گیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
انما الصيام من اللغو والرفث.
(صحيح ابن خزيمه باب نفی ثواب الصوم عن المسک، رقم: 1996)
’’بے شک روزہ لغویات اور بے ہودہ باتوں سے بچنے کا نام ہے‘‘۔ دوسرے مقام پر فرمایا:
من لم يصم جوارحه عن محارمی فلا حاجة لی ان يدع طعامه وشرابه من اجلی.
(الفردوس بما ثورالخطاب، رقم: 8075، ابن مسعود)
’’جس کے اعضاء حرام کاموں سے نہیں رُکتے اسے میری خاطر کھانا پینا چھوڑنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
روزہ کے فوائد و ثمرات سے مستفید ہونے کے لئے ضروری ہے کہ صرف پیٹ ہی بھوک و پیاس برداشت نہ کرے بلکہ جسم کے باقی اعضاء بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا کے حصول کے لئے بندگی اختیار کرتے نظر آئیں۔
حضرت جابر روایت کرتے ہیں:
اذا صمت فليصم سمعک وبصرک ولسانک عن الکذب والماثم ودع اذی الخادم.
(مصنف ابن ابی شيبه، باب مايومر به الصائم من فله الکلام، رقم: 8880)
’’جب تو روزہ رکھے تو چاہئے کہ تمہارے کان، آنکھیں اور زبان جھوٹ اور گناہ سے رک جائیں اور اپنے خادم کو تکلیف بھی نہ دے‘‘۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
ليس الصيام من الاکل والشرب انما الصيام من اللغو والرفث فان سابک احد اوجهل عليک فقل انی صائم.
(المستدرک علی الصحيحين، کتاب الصوم، رقم: 1570)
’’صرف کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام روزہ نہیں ہے اصلی روزہ تو یہ ہے کہ آدمی بے ہودہ اور بے کار باتوں اور شہوانی گفتگو سے بچے پس اے روزہ دار اگر تجھے کوئی گالی دے یا جہالت پر اتر آئے تو، تو کہہ میں روزے سے ہوں‘‘۔
ایسی اہم ترین عبادت جس کی اس قدر اہمیت بیان کی گئی ہو لازم ہے کہ اس کے ظاہری اور باطنی آداب و تقاضوں کو پورا کیا جائے تاکہ انسانی بساط کی حد تک اس کو پورے طور پر ادا کیا جاسکے۔
درجات روزہ
روزے کے تین درجے ہیں۔
- عام لوگوں کا روزہ یہ کہ کھانے پینے اور جماع سے اپنے آپ کو روکے رکھنا۔
- خواص کا روزہ پیٹ اور شرمگاہ کے علاوہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ، پائوں اور تمام اعضاء کو گناہوں سے باز رکھنا۔
- خاص الخواص کا روزہ یہ کہ جمیع ماسوء اللہ سے خود کو بالکلیہ جدا کر کے صرف اسی اللہ کی طرف متوجہ رہنا۔
اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ
اگر خاص الخواص والا روزہ نہیں رکھ سکے تو کم از کم خواص والا روزہ رکھتے ہوئے اپنے پورے بدن کو اللہ کی نافرمانی اور شیطان کی پیروی سے بچائے رکھیں تاکہ رمضان المبارک کی حقیقی برکات کے سے مستحق قرار پاسکیں۔
(جاری ہے)