ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین معاون: محمد شعیب بزمی
جب تک مسلمان اپنے فرض کی ادائیگی میں اللہ کی رضا کے حصول کو مقدم رکھتے ہوئے مصروف رہتا ہے تب تک اللہ تعالیٰ بھی اس کا ذکر کرتا اور اس پر خوش ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے حکم یہ ہے کہ مسلمان کی ساری زندگی رب کائنات کے راستے میں کوشش اور مجاہدہ کرتے ہوئے بسر ہو۔ جو لوگ ایسی زندگیاں گزارتے ہیں انہی کے لئے کامیابیوں کے نئے در وا کئے جاتے ہیں۔ اس کے لئے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ایک اصولی بات ارشاد فرمائی:
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.
’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں‘‘۔ (العنکبوت:69)
یعنی جو لوگ ہماری راہ میں، ہم تک پہنچنے، ہماری معرفت، رضا، قرب اور محبت کے حصول اور بندگی و عبدیت کی پختگی میں اپنی حتی المقدور سعی و کوشش اور تگ و دو کرتے ہیں، ہم یقینا انہی پر اپنے سارے راستے کھول دیتے ہیں۔
سورۃ فاتحہ میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں سیدھے راستے کے طلب ہی کی دعا سکھائی ہے کہ
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ. (الفاتحه:5)
اس آیت مبارکہ کے درج ذیل چار طرح کے تراجم ہیں اور ہر ترجمہ ایک علیحدہ درجہ کی طرف اشارہ کرتا ہے:
- اس آیت مبارکہ کے پہلے ترجمہ میں پہلے درجہ کی نشاندہی ہے کہ ’’اے اللہ ہمیں سیدھی راہ بتادے‘‘ کہ سیدھی راہ کونسی ہے؟
- دوسرے ترجمے میں دوسرے درجہ کی نشاندہی ہے کہ ’’اے اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھادے‘‘۔
اس لئے کہ بتادینے کے باوجود بھی بھول جانے کا ڈر رہتا ہے۔ کسی مسافر کو سیدھا راستہ بتادیں کہ اس طرف جانا ہے، عین ممکن ہے کہ آگے دوراہے یا چوراہے پر جاکر وہ بھول جائے۔ پس زیادہ مضبوط ہدایت اور خیر یہ ہے کہ دعا میں عرض کیا جائے کہ باری تعالیٰ ہمیں سیدھی راہ دکھادے۔ دکھانا، بتانے سے افضل اور زیادہ مضبوط و مستحکم ہے۔ اس لئے کہ انسان جب دیکھ لیتا ہے تو پھر پہچان ہوجاتی ہے اور بھولنے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔
- اس آیت کے تیسرے ترجمہ میں تیسرے درجہ کی نشاندہی ہے کہ ’’اے اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلادے‘‘۔
بتانا، دکھانا اور چلانا تینوں درجات میں فرق ہے۔ چلانا ایسے ہے جیسے انگلی پکڑ کر چلایا جائے اور بھول جانے کے تمام امکانات کا خاتمہ کردے۔ شیطان بھی سیدھی راہوں میں ہی بھٹکانے کے لئے بیٹھا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ شیطان اپنے ارادہ کا اظہار یوں کرتا ہے کہ
لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِيْمَ.
’’میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لیے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تاآنکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں)‘‘۔ (الاعراف:16)
گویا غلط راہوں پر تو شیطان بیٹھتا ہی نہیں ہے کیونکہ غلط راہوں پر چلنے والے تو پہلے ہی اس کی پارٹی کے ممبر ہیں، لہذا اُسے ان کی کوئی فکر ہی نہیں۔ اس کی فکر تو ان لوگوں کے بارے میں ہے جو سیدھی راہ پر چل رہے ہیں۔ لہذا جب اللہ تعالیٰ سے درخواست کی جائے کہ ہمیں سیدھی راہ پر چلا دے تو اس میں ہدایت مستحکم ہوجاتی ہے اور سیدھے راستے پر قائم رہنا یقینی ہوجاتا ہے۔
- اس آیت مبارکہ کے چوتھے ترجمہ میں چوتھے درجہ کی نشاندہی ہے کہ ’’اے اللہ ہمیں اپنی منزل تک پہنچادے‘‘۔
یعنی ہمیں استقامت کے ساتھ اس صحیح راہ پر یوں چلا کہ استقامت بھی رہے اور منزل بھی نصیب ہوجائے۔ اس درجہ میں بندہ اللہ سے منزل پر پہنچنے کی بھی التجا کرتا ہے۔ پہلے تین تراجم میں بتانا، دکھانا اور چلانا کے الفاظ کے ذریعے صرف دعا کی گئی جبکہ اس درجہ میں خالی دعا نہیں بلکہ مجاہدہ کا صلہ بھی مانگا گیا ہے۔
اللہ رب العزت نے فرمایا وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کی طرف جانے والی راہوں پر تو وہ پہلے ہی چل رہے ہیں، اسی لئے تو فرمایا: جَاهَدُوْا فِيْنَا۔ اب ان پر جو ہدایت واضح ہوگی، وہ یہ ہے کہ لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ہم ان پر وہ سارے راستے کھول دیں گے جو ہماری منزل تک آرہے ہیں کہ جس راہ سے چاہو ہم تک پہنچ جائو۔ اتنی بڑی نعمت، احسان اور انعام اللہ تعالیٰ نے صرف مجاہدہ کے ساتھ متعلق کیا ہے کہ اگر مجاہدہ نفس کا حق ادا کیا جائے، اسکے تقاضوں کو پورا کیا جائے تو پھر اللہ رب العزت تک رسائی، قربت اور معرفت کے ایک نہیں بلکہ کئی راستے انعام و احسان کے طور پر کھول دیئے جاتے ہیں۔
مشاہدہ درحقیقت مجاہدہ کا انعام ہے
حضور سیدنا غوث الاعظم نے غنیۃ الطالبین میں حضرت شیخ ابوعلی دقاق کا ایک قول روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے ظاہر کو مجاہدہ کے ذریعے آراستہ کیا، اللہ تعالیٰ اس کے صلہ میں اس کے باطن کو مشاہدہ کے ساتھ آراستہ فرمادے گا۔
یعنی جس نے مجاہدہ کے ظاہری تقاضے پورے کئے، اپنے اعمال کو درست کیا، فرائض کی ادائیگی میں غفلت چھوڑ دی، نماز پنجگانہ، روزہ، حج، زکوٰۃ میں کمر بستہ رہے، غیبت، چغلی، حرام، غفلت اور گناہوں کو ترک کیا، تقویٰ و طہارت اختیار کیا، الغرض جس شخص نے اپنے ظاہر کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت اور اتباع میں مجاہدہ کے ذریعے حسین اور آراستہ کیا، اللہ تعالیٰ اس کی جزاء میں اس بندے کے باطن کو مشاہدہ سے آراستہ فرمادے گا۔ یعنی بندے کا کام مجاہدہ ہے جبکہ مشاہدہ اُس مجاہدہ کے صلہ کے طور پر عطائِ الہٰی ہے۔
ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم بغیر مجاہدہ کے مشاہدہ کے طالب ہوتے ہیں۔ بغیر محنت و ریاضت، عبادات اور مجاہدہ کے ہر کوئی ایسی دعا اور وظیفہ کی تلاش میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت ہوجائے۔۔۔ کوئی چاہتا ہے کہ کوئی طریقہ بتادیں کہ اللہ کا قرب نصیب ہوجائے۔۔۔ کوئی چاہتا ہے کہ کوئی ایسی تدبیر بتادیں جس سے آقا علیہ السلام کی خوشنودی اور اللہ کی رضا نصیب ہوجائے۔۔۔ ہمیں اتنی سی بات کی بھی سمجھ نہیں کہ یہ ساری چیزیں مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب تک آدمی اپنے ظاہر کو مجاہدہ میں ہی نہ ڈالے، ظاہر پر مجاہدہ وارد نہ کرے اور مجاہدہ کی شرطیں پوری نہ کرے، اس وقت تک اس کے باطن کو اللہ تعالیٰ مشاہدہ سے آراستہ نہیں فرماتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے۔ ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم وظیفوں کے ذریعے اس قانون کو توڑنا چاہتے ہیں کہ ایسا وظیفہ بتادیں جس سے اللہ کا قانون ٹوٹ جائے۔ افسوس یہ ہمارے نفس کی خواہشیں اور غفلتوں کو برقرار رکھنے کے طریقے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جس طرح آج کل بچوں کو نالائق رکھنے کے لئے میٹرک، انٹرمیڈیٹ اور ماسٹر کی کتابوں کی گائیڈ بکس مل جاتی ہیں تاکہ اصل کتابیں نہ پڑھنی پڑیں اور پانچ سال کے پچھلے پرچوں کی روشنی میں لکھی ہوئی گائیڈ بک تیار کرلیں اور امتحان پاس کرلیں۔ اس سے طالب علم امتحان تو شاید پاس کرلے گا مگر علم میں پختہ اور مضبوط کبھی نہیں ہوگا۔ لہذا مشاہدہ کو بطور انعام حاصل کرنے کے لئے مجاہدہ و ریاضت کی وادی سے گزرنا ہوگا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے قانون مقرر کردیا ہے کہ وہ لوگ جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ہم ان کو مشاہدہ عطا کرتے ہیں۔ رستوں کا کھل جانا مشاہدہ ہے۔
منہاج القرآن کے زیر اہتمام گوشہ درود و حلقات درود کا قیام اور ہر ماہ مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اہتمام کا مقصد بھی یہی ہے کہ جہاں پر ایک طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ہدیہ درود و سلام کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قربت نصیب ہو تو دوسری طرف طالبین قربتِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس قربت کے طریقے سیکھ کر جائیں کہ پردہ کیسے اٹھے گا۔۔۔ ؟ قربت کیسے نصیب ہوگی۔۔۔؟ نسبت کیسے پختہ ہوگی۔۔۔؟ زیارت کیسے ہوگی۔۔۔؟ کچہری کیسے نصیب ہوگی۔۔۔؟ حاضری کیسے ہوگی۔۔۔؟ محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم راضی کیسے ہوگا۔۔۔؟ محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عنایتیں کیسے نصیب ہوں گی۔۔۔؟ محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی توجہ اور نظر کیسے نصیب ہوگی۔۔۔؟ اگر گوشہ درود میں حاضری دی، آئے، صرف ثواب لیا اور طریقہ کار نہ سیکھا تو گویا آپ نے نصف مقصد حاصل کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ یہاں آنے والے ایسے بنیں کہ پورا مقصد حاصل کرکے جائیں۔
ظاہر پر مجاہدہ کرنے، ظاہر کو مجاہدہ کی بھٹی میں تپانے اور مجاہدہ کی آری چلانے سے باطن میں مشاہدہ نصیب ہوتا ہے۔ اسی لئے اولیاء کرام نے کہا کہ اللہ کی راہ پر چلنے والا اپنے سفر کی ابتداء اس وقت کرتا ہے جب وہ مجاہدہ کا آغاز کرتا ہے۔ ہم سب لوگ ابھی ابتداء میں بھی نہیں، ہمیں کیا خبر کہ انتہا کیا ہے اور کہاں ہے؟ جب تک ہم مجاہدہ کی بھٹی میں کودیں گے نہیں اس وقت تک ہم مبتدی یعنی ابتداء کرنے والے بھی نہیں ہیں۔ اولیاء کرام فرماتے ہیں کہ جو لوگ ابتداء میں مجاہدہ نہیں کرتے، ان کو طریقت اور اس کی برکات کی ہوا تک بھی نہیں لگتی۔ یعنی سفر کی ابتداء میں خوب تیاری نہ کرنے کی وجہ سے انہیں راستوں کی معرفت تک بھی نصیب نہیں ہوئی۔
حضرت ابو عثمان المغربی نے فرمایا کہ اگر مجاہدہ و ریاضت کے بغیر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ اس پر راستہ کھول دیا جائے گا یا طریقت کا کوئی راز کھول دیا جائے گا یا معرفت کا کوئی پردہ اس پر سے اٹھادیا جائے گا یا عالم حقائق کا کوئی راز اسے دکھا دیا جائے گا تو وہ غلطی پر ہے۔ اس لئے کہ یہ ناممکن اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے خلاف ہے۔
آرام کس کا نصیب ہے؟
شیخ ابو علی دقاق کا ایک قول سیدنا غوث الاعظم نے غنیۃ الطالبین میں نقل فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص شروع میں مجاہدہ نہیں کرتا، اسے اپنے احوال یا سفر کے آخر میں کبھی آرام نہیں ملے گا۔ آرام کا حقدار وہی ہے جس نے شروع میں کثرت سے ریاضت اور مجاہدہ کیا ہو۔
اگر ہم اپنے روزمرہ معاملات پر غور کریں کہ ہمیں آرام کہاں ملتا ہے؟ تو یہ بات واضح ہے کہ تمام امور کی ادائیگی اور مقصد حاصل کرکے منزل تک پہنچ کر ہی آرام نصیب ہوتا ہے۔ راستے میں کبھی آرام نہیں ہوتا۔ راستہ تو نام ہی اس شے کا ہے کہ جس میں بندہ چلتا رہے۔ جس میں بیٹھ گیا، آرام کیا وہ راستہ نہیں۔ معلوم ہوا کہ آرام کی جگہ منزل ہے، کوئی منزل پر پہنچے گا تب اسے آرام ملے گا۔ گویا جو شخص اپنے سفر کے شروع میں مجاہدہ نہیں کرتا، اسے آخر میں آرام نہیں ملتا اور نہ کبھی منزل ملتی ہے کیونکہ منزل پر پہنچے گا تو پھر اللہ پاک اس کے لئے آرام کو حلال کردے گا۔ مسافر پر آرام حرام ہے اور منزل والوں کے لئے آرام اللہ کا انعام ہے۔
منزل کے آگے پھر ایک اور منزل ہے۔ اس منزل تک پہنچنے والے آرام سے نہیں بیٹھتے بلکہ وہ اگلی منزل کے لئے سفر شروع کردیتے ہیں، وہاں سے پھر اگلی منزل تک کا سفر شروع کردیتے ہیں۔ ایک طویل سفر ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، مسلسل جاری رہتا ہے اور ہر شخص اپنے روحانی مقام و درجہ کے مطابق منازل طے کرتا اور آرام پاتا رہتا ہے۔
امراضِ نفس سے عدم آگہی کی غفلت
حضرت شیخ بایزید بسطامی اپنے احوال کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’میں اپنے نفس کے بارے میں 12 سال تک غافل رہا‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بارہ سال تک غفلت میں رہے اور انہوں نے عبادت نہیں کی۔ وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ بارہ سال میں نے عبادت و ریاضت کی، نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، تسبیح کی، ذکر و اذکار کیا، سفر کئے، بارہ سال عبادتیں کیں۔ غفلت یہ ہوئی کہ میں عبادتوں میں مصروف رہا مگر نفس میں جھانک کر نہیں دیکھا کہ اس کے اندر کیا کیا خرابیاں ہیں؟ ان خرابیوں کے علاج کی طرف متوجہ نہیں ہوا، مراقبہ نہیں کیا کہ نفس کے احوال، امراض اور نفس کے اندر چھپی ہوئی بیماریوں سے آگاہی ہو۔
ہم میں سے ہر شخص اس غلط فہمی میں مبتلا رہتا ہے۔ ہم تسبیح کرتے رہتے ہیں، نوافل پڑھتے ہیں، تہجد پڑھتے ہیں، ذکر و اذکار کرتے اور حلقات میں بیٹھتے ہیں، سارا کچھ کرتے ہیں مگر ہم اپنے نفس میں جھانک کر اس کا ملاحظہ نہیں کرتے کہ نفس کا حال کیا ہے؟ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ نوافل زیادہ پڑھنا، تسبیح کرنا، ذکر و اذکار کرنا بس یہی تصوف، روحانیت اور ولایت کی اصل راہ ہے، یہ ایک مغالطہ ہے۔ حضرت بایزید بسطامی اسی بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ میں نے 12 سال عبادت کی مگر نفس کے بارے میں غافل رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ثواب تو ملتا رہا مگر روحانی ترقی نہ کرسکا۔ جیسے ایک بیل کو آپ کسی جگہ باندھ دیں، وہ اس جگہ کے اردگرد چکر لگاتا رہے، وہ مصروف سفر بھی ہے مگر راستہ طے نہیں ہورہا۔ اسی طرح سفر کرکے بندہ تھک بھی جاتا ہے مگر وہ رہتا وہیں کا وہیں ہے اور اس کا روحانی درجہ نہیں بڑھتا۔
ہم میں سے بہت لوگ اس حال میں مبتلا ہیں کہ ساری زندگی عبادت میں بسر کرکے روحانی اعتبار سے وہیں کھڑے رہتے ہیں، ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اتنی عبادت کی، اتنی تسبیحات کیں، اتنے ذکر اذکار کئے، اتنے میلاد پاک کئے، اتنے صدقات و خیرات کئے، اتنے نیک کام کئے اب شاید میری روحانی ترقی ہوگئی ہوگی، لیکن ایسا نہیں ہوتا، ان سب چیزوں کا اجر و ثواب ہے اس لئے کہ اللہ پاک کسی شے کا ثواب ضائع نہیں کرتا مگر اس کا روحانی درجہ وہی رہا۔ اللہ کی معرفت، طریقت، روحانیت، تصوف اور حقیقت کی راہوں میں وہ جو پہلے دن تھا، اسی طرح رہا۔ اس کی مثال اس بیل کی طرح ہے جو کنوئیں کے اردگرد سالہا سال چکر لگاتا رہا، اس کا وہی راستہ اور وہی منزل ہے، آگے کہیں نہیں بڑھ سکا۔
پس نفس میں غور کرنے سے ہی روحانی ترقی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ نفس کے امراض کی تشخیص کے لئے میری کتاب ’’سلوک و تصوف کا عملی دستور‘‘ کا مطالعہ کریں اور اس کے علاج کے لئے ’’الفیوضات المحمدیہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ‘‘ کو شامل مطالعہ کریں۔ یہ دونوں تشخیص اور علاج کے لئے بہت عظیم روحانی کتابیں ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ نفس کس حال میں ہے۔۔۔۔؟ ہمارے نفس کی خرابیاں کیا ہیں۔۔۔؟ ان کا ظہور ہماری زندگی میں کس کس طرح ہوتا ہے۔۔۔؟ انسان کو چاہئے کہ وہ ریاضت و مجاہدہ معلوم کرے کہ نفس کیا کیا مکرو فریب کرتا ہے۔ نفس کی خرابی میں جھوٹ، غیبت، چغلی، مال کا حرص، زیادہ کمانے کا لالچ، عدم قناعت، عدم استغنائ، عجلت پسندی، بے صبری، بغض، کینہ، حسد، تکبر، رعونت، عدمِ برداشت شامل ہیں۔ جب انسان ان چیزوں کو محسوس کرتا ہے کہ یہ برائیاں میرے اندر ہیں تو انہی احساسات کے ذریعے اسے معرفت تک پہنچنا چاہئے کہ یہ میرے نفس کی کیفیات اور اثرات ہیں۔ جب نفس کی کیفیات اور امراض سے باخبر ہو تو اس کے علاج کی طرف متوجہ ہو۔ یہ وہ راستہ ہے جہاں سے طریقت کے دروازے کھلتے ہیں۔
حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ 12 سال کی عبادتوں کے بعد میں نفس کی خرابیوں کو مراقبہ کے ذریعے جاننے میں 6 سال تک مصروف رہا اور نفس کے امراض کو اچھی طرح پہچانا۔ ان امراض اور احوال کو پہچاننے کے بعد میں نے مزید بارہ سال مجاہدہ کیا۔ اس طرح باطن کو صاف کرنے، قلب کو خطرات سے پاک کرنے اور نفس کے امراض دور کرنے کے لئے 30 سال عبادت، مراقبہ اور مجاہدہ میں صرف کئے۔ تب جاکر میں نے دیکھا کہ نفس کی کچھ برائیاں ابھی بھی قائم ہیں۔ پھر مزید پانچ سال مجاہدات و ریاضات میں لگائے اور بالآخر 35 برس کے بعد میرے نفس کا بھی کامل علاج ہوگیا، میرے قلب کا بھی کامل علاج ہوگیا، میرے باطن اور میرے سِر کو بھی کامل شفاء نصیب ہوگئی۔
اس 35 سال کی مشقت کے بعد مجھ پر یہ کشف ہوا کہ اب الحمدللہ مخلوق میرے باطن میں مردہ ہوگئی ہے یعنی دنیاوی مال و دولت، پیسوں کی ریل پیل، عزت، جاہ و منصب، تعظیم و تکریم، شان و شوکت یہ تمام میرے اوپر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ اب ان کا کوئی اثر میری زندگی اور میرے باطن پر نہیں ہے۔ اس پر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس سے مجاہدہ نفس کے راستے کی طوالت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنا طویل سفر ہے۔
مجاہدہ و ریاضت کی بنیاد
حضرت جنید بغدادی نے اپنے شیخ حضرت سری سقطی کا قول روایت کیا ہے کہ ’’قبل اس کے تم میری حالت کو پہنچ جائو (یعنی جس بڑھاپے و معذوری کو میں پہنچ گیا ہوں) وقت ہے کہ جوانی میں کوشش و مجاہدہ کرلو۔ ورنہ آخری عمر میں تم کمزور ہوجائو گے اور اسی طرح قاصر اور محروم ہوجائو گے جیسے میں قاصر اور محروم رہ گیا ہوں‘‘۔ حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ ’’حضرت سری سقطی نے یہ بات اس وقت کہی کہ جب آپ عبادت و معرفت اور ولایت کے اس درجے پر تھے کہ شاید کوئی بھی ان تک نہیں پہنچ سکتا تھا‘‘۔
ان کی وساطت سے یہی بات میں کارکنان و رفقاء تحریک اور ہر دردِ دل رکھنے والے مسلمان سے کہتا ہوں کہ آیئے ہم اپنے احوال کو سنوارنے کی طرف متوجہ ہوں، اس وقت سنبھل جائیں اور محنت کریں، اتنی محنت کریں کہ نقصان سے باہر نکل سکیں۔ مجاہدہ کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں پر رکھی ہے:
- فاقہ کے بغیر کھانا نہ کھائو یعنی جب تک خو ب بھوک نہ لگے اُس وقت تک کھانا نہ کھائو۔
- جب تک نیند کا خوب غلبہ نہ ہو، سونے نہ جائیں۔
- جب تک اشد ضرورت نہ ہو، مت بولیں۔
یہ تین چیزیں اپنے اوپر لازم کرلیں۔ اگر اشد ضرورت کے بغیر نہ بولنے ہی کی پابندی کرلی جائے تو ساری غیبتوں کے سر یہیں قلم ہوجائیں۔ چغلی، غیبت، شر، فتنہ و فساد یہ سب بلا ضرورت اور حد سے زیادہ بولنے ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کسی عظیم مشن میں کام کرنے والوں کے لئے لازم ہے کہ وہ کم بولنے کی عادت کو اپنائے۔ جو لوگ مسند ارشاد پر فائز ہوجاتے ہیں ان کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے کہ وہ مخلوق کو دعوت دیں، حق کی طرف بلائیں اور راہ حق دکھائیں۔ ان کے لئے ایک ایک لفظ بولنا خیر، آقا علیہ السلام کی سنت اور عبادت ہوجاتا ہے۔ جو لوگ اس حال پر قائم نہیں ہوتے، ان کے بولنے میں 90فیصد گناہ، لغو، فضول اور بے مقصدیت ہوتی ہے، خیر اور نصیحت نہیں ہوتی۔
اسی طرح نفس کے علاج کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھوک کے بغیر کھانا نہ کھائے۔ اسی طرح جو مبتدی ابھی حال کو نہیں پہنچا اور ابھی قال میں ہے، اس کے لئے نیند شر ہے اور جو صاحبِ حال ہے، اس کے لئے نیند خیر اور نعمت ہے۔ محروم اور مبتدی کے لئے نیند غفلت ہے اور صاحب حال کے لئے نیند جائے مشاہدہ و کشف ہے۔ جب حال بدل جاتا ہے تو پھر اس وقت ضابطے بدل جاتے ہیں۔ مسافروں کے لئے نیند حرام ہے اور منزلوں پر پہنچنے والوں کے لئے نیند اللہ کا انعام ہے۔ انہیں نیند میں مشاہدات ہوتے ہیں، ہم کلامیاں ہوتی ہیں، کرامات ہوتی ہیں، دروازے کھلتے ہیں۔ نیند ان کے لئے حصول اور وصال کا ذریعہ بنتی ہے۔ جبکہ مبتدی اور مسافروں کے لئے نیند غفلت اور راستے میں رہ جانے کا ذریعہ بنتی ہے۔
عوام کا مجاہدہ، ذمہ داریوں کی ادائیگی
کارکنان ، رفقاء، طلبہ اورعام لوگوں کے مجاہدہ کی ابتداء یہ ہے کہ جو فرائض اور اعمال ان کے سپرد کئے گئے ہیں انہیں صدق و اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ پوری تندہی سے انجام دیتے رہیں۔ یہ ابتدائے مجاہدہ ہے۔ جو کارکن احیائے اسلام اور تجدید دین کے اس مشن میں مختلف ذمہ داریوں پر فائز ہیں، وہ ہمیشہ باوضو رہیں۔ نیک نیتی اور جان و دل کے ساتھ جتنا وقت زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہیں اس کو حضور علیہ السلام کی نوکری سمجھ کر سرانجام دیتے رہیں۔ جن کے ذمے جو ذمہ داریاں ہیں ان کو صدق نیت اور اخلاص سے تکمیل تک پہنچائیں۔ نماز و دیگر مذہبی فرائض کی پابندی کریں۔ تنظیمی، تحریکی، دعوتی، تربیتی، دینی، مذہبی اور اخلاقی و روحانی جس طرح کی بھی ذمہ داریاں آپ پر ہیں، ان کو پورا کریں، یہ مجاہدہ کی ابتداء ہے۔
خواص کا مجاہدہ، اصلاح اخلاق
جو لوگ خواص ہیں، ان میں سے جو چاہیں وہ ایک قدم اور آگے بڑھیں بشرطیکہ پہلے ان تمام مذکورہ ذمہ داریوں کو پورا کرلیں۔ خواص کا مجاہدہ یہ ہے کہ وہ اپنے احوال کا تصفیہ کریں۔ اپنے حال کو صاف ستھرا کریں۔ اس لئے کہ شب بیداری کرلینا بھی آسان، نمازیں پڑھ لینا اور تسبیح پڑھ لینا بھی آسان ہے حتی کہ بھوک اور پیاس برداشت کرلینا بھی آسان ہے مگر روحانیت، طریقت، تصوف اور اللہ کی معرفت کی راہ کی طرف جانے کے لئے مشکل ترین کام برے اخلاق کا علاج کرنا ہے۔ تمام روحانی امراض کا علاج حسنِ اخلاق کو اختیار کرنے اور برے اخلاق سے اجتناب کرنے میں مضمر ہے۔ اخلاق یہ ہے کہ آپ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔۔۔ آپ سے کسی کا دل نہ ٹوٹے۔۔۔ آپ کے آنے سے کسی کو اذیت نہ ہو۔ یہ بہت مشکل اور دشوار ہے۔ اگر اس پر قابو پالیں تو حالات سنور جائیں گے۔
تصوف، طریقت، روحانیت اور ولایت کی بنیاد عبادات پر نہیں بلکہ اخلاق کی اصلاح پر ہے۔ عبادات کو پورا کرنا تو فرائض دین اور شریعت کا حصہ ہے، انہیں طریقت، روحانیت اور ولایت کی راہ کی طرف چلنے سے پہلے پورا کرلینا ضروری ہے۔ اگر اللہ کی معرفت کی طرف چلنا ہو تو اصل بات یہ ہے اخلاق درست کریں۔ اخلاق درست کرنے میں کھانے کی شرط ’’فاقہ‘‘ ہے۔۔۔ نیند کی شرط ’’غلبہ نیند‘‘ ہے۔۔۔ بولنے کی شرط ’’اشد ضرورت‘‘ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اخلاق کی درستگی، لوگوں سے برتائو اور دل و دماغ سے مثبت و بامعنی سوچنا اور پھر اس پر عمل کرنا ناگزیر ہے۔
درود پاک کی کثرت کیا کریں، گوشہ درود و حلقات درود میں باقاعدگی سے حاضر ہونے کو معمول بنائیں۔ اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ درود پاک کی برکت سے برے اخلاق اور برے احوال کو اندھیرے سے نکال کے نور کی طرف لے جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْکُمْ وَمَلٰئِکَتُـه لِيُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِط وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا.
’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے، اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے‘‘۔ (الاحزاب:43)
اللہ تعالیٰ کثرت سے ذکر کرنے والوں پر درود بھیجتا ہے اور درود اس لئے بھیجتا ہے تاکہ درود کے ذریعے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کے نور کی طرف لے جائے۔ اس آیت کریمہ سے جو خاص نکتہ اور معرفت مجھے نصیب ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ درود پاک کے اندر یہ برکت اور خوبی ہے کہ وہ اندھیرے سے نکال کے نور کی طرف لے جاتا ہے۔ دعا گو ہوں کہ وہ تمام راستے جن کا ذکر کیا ہے، اللہ تعالیٰ ان پر ہمارا چلنا اور استقامت کے ساتھ چلتے رہنا آسان فرمادے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم
اظہار تعزیت
گذشتہ ماہ محترم ڈاکٹر محمد ارشد نقشبندی (اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج نارووال) کی والدہ محترمہ، محترم تاج الدین کالامی (سینئر ریسرچ سکالر) کی ہمشیرہ، محترم ڈاکٹر محمد سلیم اعوان (ایڈمن آفیسر گرلز کالج بغداد ٹائون) کی ساس صاحبہ، محترم قاری حسنین فرید (نائب ناظم تربیت) کے والد محترم، محترم محمد منہاج الدین قادری (نائب ناظم تربیت) کے کزن شیخ آفتاب احمد، محترم علامہ نور احمد (ڈائریکٹر اسلامک سنٹر ناروے) کے دادا سسرمحترم جلال احمد چیمہ (سمبڑیال۔ سیالکوٹ)، محترم محمد اشرف تارڑ (فاروق آباد) کی پھوپھو جان اور چچا جان، محترم حاجی محمد یعقوب کمبوہ (نارووال) کی والدہ محترمہ، محترم مظہر علی (الیکٹریشن مرکزی سیکرٹریٹ) کے تایا جان، محترم حاجی محمد نذیر (نور پور پاکپتن) کے بھائی حاجی محمد حنیف بدر، محترم محمد شفیق (فوٹو کاپیئرمرکز) کی خالہ جان(فیصل آباد)، محترم محمد حنیف قریشی (لالہ موسیٰ) کے بڑے بھائی، محترم محمد یونس (لالہ موسیٰ) کی ہمشیرہ، محترم محمد عاصم شہباز (لیکچرار کالج آف شریعہ) کے والد محترم اور محترم فیض الحسن شاکر (سعودی عرب) کے والد محترم (کچھی والا۔ فورٹ عباس) قضائے الہٰی سے انتقال فرماگئے ہیں۔ انا لله وانا اليه راجعون.