ایک سال گزرنے کے باوجود شہداء کے ورثاء انصاف کی تلاش میں ہیں
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے ’’ سیاست نہیں ریاست بچاؤ ‘‘ کے نعرہ نے موجودہ فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کے محافظوں کی صفوں میں ہلچل پیدا کردی۔ گذشتہ سال حقیقی جمہوریت کے قیام، فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کے خاتمہ اور عوام کو اُن کے بنیادی حقوق کی بحالی کے لئے قائد انقلاب کے دس نکاتی انقلابی منشور اور 23 جون 2014ء کو وطن واپسی کے اعلان سے جبر اور استحصال کی مقتدر قوتوں اور سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ پس منظر کے حامل کرپٹ سیاستدانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا تو انہوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے ہر مذموم کوشش کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا۔
اس ضمن میں 17 جون2014ء کو ماڈل ٹاؤن میں واقع قائدانقلاب کی رہائش گاہ اور مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن کے آس پاس سڑکوں پر لگے بیئریئرز ہٹانے کے بہانے پنجاب پولیس کے مسلح اہلکاروں نے حکومتی ایماء پر ریاستی دہشت گردی کا بدترین مظاہرہ کیا اور نہتے کارکنان پر سیدھی گولیاں برسائیں، جس کے نتیجے میں دو خواتین سمیت 14 افراد شہید اور 90 افراد شدید زخمی ہوگئے۔ اس دوران خواتین، بچوں اور بوڑھوں پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ اِن تمام مناظر کو متعدد TV چینلز نے براہِ راست نشر کیا۔
حکمرانوں کی طرف سے کھیلے گئے اس المناک خونی کھیل کا مقصد قائد انقلاب کو ظلم کے نظام کے خلاف جدوجہد سے روکنا اور انہیں خوفزدہ کرنا تھا تاکہ وہ پاکستان آنے کا اپنا ارادہ بدل دیں۔ مزید یہ کہ عوام الناس میں بھی خوف و ہراس پیدا ہو اور وہ بھی اس فرسودہ سیاسی نظام کے خلاف قائد انقلاب کے ساتھ مل کر حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات نہ کریں۔ اس سانحہ کے دوران قائد انقلاب کی ہدایات کے مطابق مٹھی بھر کارکنان، طلبہ و سٹاف ممبران نے نہایت بردباری کا مظاہرہ کیا، یہاں تک کہ پولیس آپریشن کے دوران مرکز کی انتظامیہ نے مرکزی سیکرٹریٹ اور قائد انقلاب کی رہائش گاہ پر تعینات سیکیورٹی گارڈز سے لائسنس یافتہ اسلحہ بھی لے لیا جسے انہوں نے سخت اشتعال انگیزی اور اپنی حفاظت کے قانونی جواز کے باوجود استعمال کرنے سے اجتناب کیا۔
ہماری قومی تاریخ کے اس المناک واقعہ کو ایک سال بیت چکا ہے مگر مسندِ اقتدار پر فائز اس سانحہ کے ذمہ داران اپنی طاقت پر نازاں اور قانون کی گرفت سے آزاد دندناتے پھرتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں گذشتہ 1 سال میں جو کچھ ہوا زیرِ نظر تحریر میں اس کی تفصیلات نذرِ قارئین ہیں:
جوڈیشل کمیشن کا قیام
اس سانحہ کے رونما ہونے کے بعد 17جون 2014ء کو ہی وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس سلسلہ میں اس طرح کے کوئی احکامات صادر نہیں کئے اور نہ ہی میرے علم میں یہ بات ہے کہ یہ آپریشن رات 1 بجے سے جاری ہے۔ صبح میٹنگ کے دوران مجھے اس واقعہ کی اطلاع ملی تو میں نے پولیس کو وہاں سے فوراً واپس آجانے کے احکامات صادر کئے۔ اس پریس کانفرنس میں انہوں نے اصل حقائق جاننے کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر جوڈیشل کمیشن نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ہونے پر میری طرف اشارہ بھی کیا تو میں مستعفی ہو جاؤنگا۔
حکومت پنجاب نے لاہور ہائیکورٹ کے جج مسٹر جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا۔ اس دوران پنجاب کے حکمران سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے مختلف وضاحتیں کرتے رہے، کبھی کہتے کہ پولیس کو صرف رکاوٹیں ہٹانے کے لئے بھیجا گیا تھا۔۔۔ کبھی کہتے کہ ان رکاوٹوں کی وجہ سے ماڈل ٹاؤن کے شہری پریشان تھے۔۔۔ کبھی کہتے کہ منہاج القرآن سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا ہے۔۔۔ کبھی یہ دعویٰ کرتے پائے گئے کہ گولیاں منہاج القرآن کی طرف سے چلائی گئیں۔۔۔ مگر اس سلسلہ میں کوئی گواہ اور ثبوت پیش نہ کر سکے۔
19 جون 2014ء کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ ایس ایچ او کی مدعیت میں تھانہ فیصل ٹاؤن میں درج کیا گیا جس میں اس واقعے کی ساری ذمہ داری منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی قائدین اور کارکنان پر ڈال دی گئی۔ گویا قاتلوں نے مقتولوں کے ورثاء و لواحقین پر مقدمہ دائر کردیا۔ ایک طرف جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا گیا کہ تحقیقات ہوں گی اور دوسری طرف خود ہی ہم پر مقدمہ بھی درج کرادیا۔ یہ اقدام حکمرانوں کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے اختیارات
19 جون کو ہی جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کیا تو تحقیقات کے پہلے روز ہی حکام نے کمیشن سے تعاون نہ کیا اور ادھوری رپورٹس کے ساتھ پیش ہو کر غیر ضروری ابحاث میں الجھے رہے۔ ظلم کی انتہا ہے کہ وزیرِاعلی کے اپنے بنائے ہوئے جوڈیشل ٹریبونل کو20جون 2014ء کو جو مراسلہ بھیجا گیا اس میں قتل کی منصوبہ بندی کرنے والے کا تعین کرنے کا اختیار دیا گیا تھامگر ٹھیک 7 دن کے بعد 27 جون کو نیا مراسلہ ہوم سیکرٹری نے جاری کیا جس میں منصوبہ ساز کے تعین کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔ اگرچہ حکومت پنجاب نے جوڈیشل کمیشن اپنی مرضی کا بنایا تھا اور پولیس پر مضبوط کنٹرول ہونے کی وجہ سے یقین تھا کہ کلین چٹ مل جائے گی مگر حکومتی ایماء پر قانون کے ماہر ین نے پھر بھی جوڈیشل کمیشن کے اختیارات کو محدود کر وا دیا۔ جوڈیشل کمیشن نے سانحہ کی ذمہ داری عائد کرنے کے اختیارات مانگے تو پنجاب حکومت کی طرف سے سیکشن گیارہ کے اختیارات دینے سے انکار کردیا کہ ٹریبونل کا کردار صرف انکوائری تک محدود ہے، کسی پر اس اندوہناک سانحہ کی ذمہ داری ڈالنے کا اختیار ہرگز حاصل نہیں ہے۔
پاکستان عوامی تحریک نے حکومت کی طرف سے تشکیل دیئے گئے اس جوڈیشنل کمیشن کا بائیکاٹ کیا اس لئے کہ ایک طرف مقتولین کے ورثاء اور مظلومین کی طرف سے ذمہ داروں پر ایف آئی آر کاٹنے سے حکومت انکار ی تھی اور دوسری طرف ہمارا موقف یہ تھا کہ بے اختیار کمیشن تحقیقات کے تقاضے پورا نہ کر سکے گا اور حکمران کمیشن کی رپورٹ اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کریں گے۔ لہذا مطالبہ کیا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس قتل و دہشت گردی کے اصل ذمہ دار ہیں، ان کے مسندِ اقتدار پر رہتے ہوئے کسی قسم کی غیرجانبدارانہ تفتیش وشہادتوں کا کوئی امکان ہے نہ ہی عدل و انصاف کے تقاضوں کی بجا آوری ممکن ہے ۔ لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب اور اس جرم میں شریک وزراء فی الفور مستعفی ہو کر خود کو قانون کے حوالے کریں۔ اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ملوث جملہ پولیس افسران اور انتظامی عہدیداران بشمول IG، DIG آپریشنز، ہوم سیکرٹری پنجاب، DCO، CCPO، SSPs، SP ماڈل ٹاؤن اور متعلقہ DSPs اور SHOs کو فوری طور پر برطرف کرکے قتل عام، دہشت گردی اور اقدامِ قتل کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔ نیز سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی آزادانہ، غیرجانبدارانہ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے تین ایسے غیر متنازعہ، غیر جانبداراور اچھی شہرت کے حامل ججز (جن پر متاثرین کو مکمل اعتماد ہو) پر مشتمل بااختیار جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے ۔ کمیشن کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ وزیراعظم، نامزد وفاقی وزراء ، وزیراعلیٰ پنجاب سمیت کسی بھی حکومتی و انتظامی شخصیت یا اہلکار کو طلب کرسکے ۔ مزید برآں جوڈیشل کمیشن سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لئے تحقیقی اداروں کے اچھی شہرت کے حامل اعلیٰ افسران پر مشتمل ہو جن پر متاثرین کو مکمل اعتماد ہو۔
٭ ہماری طرف سے اس سانحہ کی غیر جانبدارانہ تحقیق کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) بنانے کا مطالبہ ہوا تو اس پر بھی حکمرانوں نے جو اصل میں اس واقعہ کے براہ راست ذمہ دار ہیں، اپنی مرضی کے افراد پر مشتمل JIT بنا ڈالی۔ پاکستان عوامی تحریک اور شہداء کے لواحقین کی طرف سے اس حکومتی ٹیم پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس کا بائیکاٹ کیا گیا۔
٭ 4 جولائی کو پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے سیشن کورٹ میں درخواست دی گئی کہ PAT کے موقف کے مطابق FIR درج کی جائے۔
٭ مورخہ 9 جولائی 2014ء کو جوڈیشل کمیشن نے وزیراعلی، متعلقہ حکام اور پولیس افسروں کی ٹیلیفونک گفتگو کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ علاوہ ازیں کمیشن نے آئی ایس آئی اور آئی بی کے ڈائریکٹرز سے بھی رپورٹ، ریکارڈ اور ٹیکنیکل معاونت مانگ لی۔ جب قاتل حکمرانوں نے دیکھا کہ کمیشن نے ہمارا ٹیلیفونک ریکارڈ بھی مانگ لیا ہے اور آئی ایس آئی اور آئی بی سے معاونت بھی مانگ لی ہے تو انہوں نے کمیشن کے قانونی دائرہ کار پر لاہور ہائیکورٹ میں اعتراض کر دیا ۔۔
٭ مورخہ 10 جولائی 2014ء کو قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قائم ٹربیونل یکطرفہ ہے۔ قاتل پولیس مدعی بن بیٹھی ہے ۔ من گھڑت شہادتیں اور جھوٹے ثبوت پیش کئے جا رہے ہیں۔ ٹربیونل کے جج کو چاہیئے تھا کہ اس قتل عام کا حکم دینے والے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو استعفیٰ دینے اور مظلوموں کی مدعیت میں FIR درج کرنے کا حکم دیتا۔ وزیراعلیٰ کے موبائل فون ریکارڈ کی طلبی پر ٹربیونل کے رجسٹرار جوادالحسن کو ہٹا دیا گیا اور اس ٹربیونل کو سانحہ میں ملوث عناصر اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا۔ قتل عام میں ملوث چین آف کمانڈ، چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، آئی جی پولیس، ڈی آئی جی آپریشنز، ایس پی ماڈل ٹاؤن اور SHOs کو ان کے عہدوں پر بحال رکھا۔
٭ مورخہ 13 جولائی 2014ء کو ہمیں اعتماد میں لئے بغیر حکومت کی مرضی کی بنائی گئی مشترکہ تفتیشی ٹیم نے تحقیقات کے دوران اصل ذمہ داران کے بجائے چار ایس پیز اور 20 اہلکاروں کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ تو کر لیا مگر انہیں حکم دینے والے سینئرز کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔
٭ مورخہ 15 جولائی 2014ء کو مشترکہ تفتیشی ٹیم نے وزیراعلی شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ سمیت 18 شخصیات کے ٹیلیفون ریکارڈ یک رکنی ٹریبونل جسٹس علی باقر نجفی کو جمع کروا دیا۔
٭ مورخہ 16 جولائی 2014ء کو سانحہ کے ایک ماہ بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے جاری ہونے والی فرانزک رپورٹ میں نہ صرف منہاج القرآن کے پانچ سٹوڈنٹس پر فائرنگ کا الزام عائد کیا گیا بلکہ حملہ آور پولیس والوں کی تعداد صرف 15 قرار دی گئی۔ حالانکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی براہ راست نشریات کے دوران ملک بھر کے میڈیا چینلز نے ہزاروں کی تعداد میں پولیس کو نہتے لوگوں پر بربریت کرتے دکھایا تھا۔
٭ مورخہ 27 جولائی 2014ء کو شہبازشریف نے اپنے بیان حلفی میں اقرار کیا کہ سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں پولیس آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، جس سے وہ مکمل طور پر لاعلم رہے ۔
٭ 29 جولائی2014ء کو منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر اس سانحہ کے خلاف پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں ملک بھر سے 40 سے زائد سیاسی، مذہبی، سماجی، علاقائی جماعتوں، علمائ، مشائخ، وکلاء اور ہرطبقہ کی نمائندہ مختلف سطحوں پر قائم یونینز، سول سوسائٹی اور NGOs کے نمائندگان نے خصوصی شرکت کی۔ اس کانفرنس میں جاری مشترکہ اعلامیہ میں پولیس حملہ کو ریاستی دہشت گردی، قتل وغارت گری اور حکومتی بربریت وتشدّد کی بدترین مثال قرار دیا گیا۔ کانفرنس میں نہتے اور پْرامن شہریوں پر براہِ راست گولیاں چلانے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہتی خواتین کوبھی براہِ راست گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کرنے پر وفاقی وصوبائی حکومتوں اور پولیس انتظامیہ کو متنبہ کیا گیا کہ اِس طرح کے کسی واقعے کو قطعی برداشت نہیں کیا جاسکتا اوراس کے ذِمہ داران کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
کانفرنس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ منہاج القرآن کی طرف سے تھانہ فیصل ٹاؤن میں دائر کی جانے والی درخواست پر فوری FIRدرج کی جائے۔ مشترکہ اعلامیہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو اِس قتل و دہشت گردی کا اصل ذِمہ دار قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ ان کے مسندِ اقتدار پر رہتے ہوئے کسی قسم کی غیر جانبدارانہ تفتیش وشہادتوں کا کوئی امکان ہے اور نہ ہی عدل و انصاف کے تقاضوں کی بجا آوری ممکن ہے۔ لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب اور اس جرم میں شریک وزراء فی الفور مستعفی ہو کر خودکو قانون کے حوالے کریں۔ اگر وزیرِاعلیٰ ازخود مستعفی نہ ہوں تو صدر مملکت بحیثیت سربراہ ریاست اْن کو Stepdownکرانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ اعلامیہ میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ملّوث جملہ پولیس افسران اور انتظامی عہدیداران بشمول IG، DIG آپریشنز، ہوم سیکرٹری پنجاب، DCO، CCPO، SSP's، SP ماڈل ٹاؤن اور متعلقہ DSP's اور SHO's کو فوری طور پر برطرف کر کے قتل عام، دہشت گردی اور اقدامِ قتل کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔
مقتولین کا مقدمہ درج نہ ہو سکا
19 جون2014ء تھانہ فیصل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے شریف برادران اور پولیس سمیت اس واقعے کے اہم ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کیلئے درخواست دی گئی مگر افسوس کہ 14شہید اور 90زخمیوں کے باوجود پاکستان عوامی تحریک کی ایف آر درج نہ کی گئی جس پر 4 جولائی 2014ء کو سیشن کورٹ میں ایک درخواست دی گئی کہ ایف آئی آر درج کروائی جائے مگر پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ بالآخر پاکستان عوامی تحریک کے لاکھوں کارکنان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے قصاص، انصاف کے حصول اور بنیادی حقوق کی بحالی کے لئے ظالم حکمرانوں کے ظلم و ستم سہتے ہوئے 14اگست 2014ء کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا۔
٭ اس مارچ کے دوران 16 اگست 2014ء کو ایڈیشنل سیشن جج راجہ محمد اجمل خان نے وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ شہبازشریف، وزیر داخلہ چودھری نثار، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور گلو بٹ سمیت 21 شخصیات کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ مدعی کی درخواست کے مطابق درج کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے وکلاء سے دلائل سننے کے بعد چار صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی پہلی ایف آئی آر کی بظاہر کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ اس میں سانحہ کے دوران جاں بحق یا زخمی ہونے والے کسی شخص کا ذکر نہیں ہے۔ تحریری فیصلے میں تھانہ ایس ایچ او فیصل ٹاؤن کو حکم دیا گیا کہ ادارہ منہاج القرآن کی درخواست کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کیا جائے اور پھر قانون کے مطابق اس کی تفتیش کی جائے۔
٭ حکمرانوں نے اس حکم پر بھی ایف آئی آر درج نہ کی اور وزیراعظم اور وزیر اعلی سمیت 22 شخصیات کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کرنے کے ایڈیشنل سیشن جج کے حکم کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔
٭ انقلاب مارچ اور دھرنے کے دوران مسلسل ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے قاتلین کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ
انصاف کے حصول کے لئے لاکھوں شرکاء انقلاب مارچ اسلام آباد میں دھرنا دیئے ہوئے تھے کہ مورخہ 26 اگست 2014ء کو ایک نجی TV چینل کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آگئی جس میں پنجاب حکومت کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ فاضل ٹریبونل نے اپنی رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی بنیادی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے قرار دیا کہ ’’سانحہ ماڈل ٹاؤن انتظامیہ کی ناکامی تھی جس میں پولیس کی طرف سے نہتے افراد پر گولیاں چلائی گئیں۔ اس سانحے میں اس قدر وسیع پیمانے پر پولیس کی طرف سے کی گئی فائرنگ کسی ذمہ دار اتھارٹی کے حکم کے بغیر کرنا ممکن نہیں تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے ٹریبونل میں داخل کئے گئے حلف نامے میں تضاد ہے۔ وزیراعلیٰ نے کمیشن میں داخل حلف نامے میں کہا ہے کہ اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی انہوں نے متعلقہ اتھارٹیز کو اس بات کا حکم دیا کہ پولیس کو فوری طور پر ہٹا لیا جائے مگر سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور وزیراعلیٰ کے سابق پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ نے اپنے حلف ناموں میں اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ وزیراعلیٰ نے انکو کوئی ایسا حکم دیا۔ وزیراعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی ایسے حکم کا ذکر نہیں کیا۔ جس سے لگتا ہے حلف نامے میں یہ بات کچھ سوچ کر شامل کی گئی۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وزیراعلیٰ نے اپنے بیان حلفی کے برعکس پولیس کو پیچھے ہٹنے کا ذکر کیا ہی نہیں۔ رپورٹ کے مطابق 16 جون2014ء کی رات اس وقت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کئے گئے فیصلے وسیع پیمانے پر قتل عام کا سبب بنے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس مکمل طور پر ملوث ہے۔ یہ معاملہ پنجاب کی تمام حکومتی اتھارٹیز کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ پولیس نے وہی کیا جس کا اسے حکم ملا تھا۔ فاضل ٹریبونل نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا انکو ذمہ داری کا تعین کرنے کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی۔ فاضل ٹریبونل نے اپنی وجوہات کے آخر میں یہ بھی تحریر کیا حکومت اسکی روشنی میں ذمہ داروں کا تعین کرسکتی ہے‘‘۔
٭ شاہراہ دستور پر دیئے گئے انقلاب دھرنا کے دوران حکمرانوں کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمہ کے اندراج کے متعلق سیشن کورٹ کے حکم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں کی گئی درخواست 26 اگست 2014ء کو خارج کردی اور ہائی کورٹ نے بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کے خلاف PAT کے موقف کے مطابق مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس محمود مقبول باجوہ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ سمیت 21 افراد کے خلاف درج کرنے کے سیشن عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے چار وفاقی وزراء کی درخواستیں خارج کردیں۔ عدالت نے وفاقی وزیر اطلاعات نشریات پرویز رشید، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی کی طرف سے سیشن جج کے فیصلے کیخلاف دائر درخواستیں خارج کرتے ہوئے اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ درخواست گزار اپنی درخواستوں کے حق میں کوئی قانونی جواز فراہم نہیں کرسکے۔ سانحہ ماڈل ٹاون کا مقدمہ درج کئے بغیر اس فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
٭ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر 27 اگست 2014ء کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کرانے کے لئے PATکے وکلاء تھانہ فیصل ٹاؤن پہنچے مگر لاہور ہائیکورٹ کے احکامات کے باوجود بھی پولیس نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب سمیت اہم حکومتی شخصیات و پولیس افسروں کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج نہ کیا۔
٭ 27 اگست 2014ء کو دھرنے کے دوران حکومت کے اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ مذاکرات ہوئے مگر یہ مذاکرات حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ناکام ہوئے۔ ان مذاکرات میں ہم نے حکومت کے سامنے اپنی دو شرائط رکھی تھیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث 21 افراد کیخلاف مقدمہ درج کیا جائے اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف اپنا استعفیٰ پیش کریں لیکن وزیراعظم نوازشریف اور حکومت نے ہمارے جائز مطالبات کو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے استعفے تو دور کی بات، وہ مظلوموں کی ایف آئی آر بھی کٹوانے کو تیار نہ ہوئے۔ حکومت نے اس ضمن میں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ آئینی، قانونی، جمہوری اور اخلاقی طریقوں پر یقین نہیں رکھتے۔ حالانکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ مقتولین کے ورثا اور مظلوموں کا حق تھا جس کا حکم عدلیہ نے بھی دیا کہ اسکی ایف آئی آر درج کی جائے۔
٭ 28 اگست 2014ء کو لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ تھانہ فیصل ٹاؤن میں درج کر لیا گیا۔ مگر مقدمہ کے اندراج میں عمداً کئی چیزوں کو شامل نہ کیا گیا۔ نہ دہشت گردی کی دفعہ لگائی گئی اور نہ ہی وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کا نام شامل کیا گیا۔ لہذا PAT کی طرف سے اس ایف آئی آر کو نامکمل ہونے کے باعث یکسر مسترد کردیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ وہ تمام شقیں اس ایف آئی آر میں شامل کی جائیںجو ہمارا بنیادی قانونی حق اور سانحہ کی حقیقی صورت حال ہے۔ اس لئے کہ حکمرانوں نے اس سانحہ کے فوراً بعد ہمارے خلاف دہشت گردی کا پرچہ کاٹا جبکہ اپنے خلاف دہشت گردی کی دفعہ کو لگایا ہی نہ گیا۔
٭ دھرنے کے دوران اس سلسلہ میں حکومتی وفود سے وقتاً فوقتاً 7 مرتبہ مذاکرات ہوئے مگر یہ تمام مذاکرات حکومتی ہٹ دھرمی، غیر سنجیدہ رویے، تکبر و رعونت اور اقتدار کے زعم کی وجہ سے ناکام ہوئے۔ دھرنے میں پیش کردہ دوسرے مطالبات تو ایک طرف حکومت ہمارے موقف کے مطابق ایف آئی آر تک درج کروانے پر آمادہ نہ ہوئی۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر اور آرمی چیف
دھرنے کے دوران آرمی چیف نے قائد انقلاب سے 28 اگست 2014ء کو ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بھی قائد انقلاب نے حکومت کی طرف سے کاٹی گئی ایف آئی آر کی کاپی آرمی چیف کو دکھائی تو انہوں نے حکومت کی چالاکی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے غلط اقدام قرار دیا اور نئے سرے سے درست ایف آئی آر کے اندراج کا وعدہ کیا۔
٭ بالآخر یکم ستمبر 2014ء کو ایف آئی آر آرمی چیف کے حکم پر درج ہوئی۔ حکومت نے فوج کے دباؤ میں آکر بادل نخواستہ حقیقت کو تسلیم کیا اور PAT کے موقف کے عین مطابق تمام دفعات بشمول دہشت گردی کی دفعہ لگاتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے جملہ ذمہ داران 21 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جو حکومت نے 17 جون 2014ء سے لے کر اب تک بالجبر روک رکھا تھا۔ تھانہ فیصل ٹاؤن میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں وزیراعظم نوازشریف‘ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت 21 اہم حکومتی شخصیات و پولیس افسران کے خلاف درج مقدمہ میں دہشت گردی‘ اغواء، قرآن پاک کی بے حرمتی اور تیاری کے ساتھ مداخلت بے جا کرنے کی دفعات شامل کر لی گئیں۔ تھانہ فیصل ٹاؤن میں عدالتی احکامات پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وزیراعظم نوازشریف‘ شہباز شریف‘ حمزہ شہباز‘ وفاقی وزراء سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ پرویز رشید‘ عابد شیر علی‘ چودھری نثار‘ رانا ثناء اللہ‘ سابق ڈی آئی جی آپریشنز لاہور رانا عبدالجبار و دیگر کے خلاف درج مقدمہ نمبر 696/14 میں 4 مزید دفعات کا اضافہ کیا گیا ہے جن میں انسداد دہشت گردی، حبس بے جا کی غرض سے اغوا کرنے، قرآن پاک کی بے حرمتی، کسی کی جگہ پر گھسنے کی دفعہ کا اضافہ کر دیا گیا۔ اس سے قبل مقدمہ میں قتل‘ ارادہ قتل‘ ڈکیتی سمیت دیگر دفعات لگائی گئی تھیں۔
مقام غور یہ ہے کہ جس ملک میں حکومتی ایماء پر سرے عام پولیس گولیاں مار کر 14لوگوں کو شہید اور 90 لوگوں کو زخمی کرے، اس کے تمام مناظر میڈیا پر براہ راست نشر بھی ہوں مگر پھر بھی ایف آئی آر درج کروانے کیلئے لاکھوں لوگوں کو لانگ مارچ کرنا پڑے اور اس کا اثر بھی نہ ہو، بالآخر آرمی چیف کی مداخلت سے ایف آئی آر درج ہو، ایسے نظام سے کس انصاف کی توقع کی جا سکتی ہے؟
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی عدم اشاعت اور کمیشن کی تحلیل
حکومت نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے سے انکار کردیا۔ اس تحقیقاتی جوڈیشل کمیشن نے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کردیا تھا۔ PAT کی طرف سے کوئی گواہیاں نہیں دی گئیں اسکے باوجود ٹربیونل نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حقائق واضح کردئیے۔ اس رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش نہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ اس رپورٹ سے وزیراعلیٰ کا قاتل ہونا ثابت ہوچکا۔ شہبازشریف نے اپنے بیان حلفی میں پولیس کو واپس بلانے کیلئے Disengagement کا لفظ استعمال کیا، یہ دہشت گردی کی اصطلاح ہے جس کے تحت صفایا کرو اور واپس آجاؤ کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ لہذا 14 لاشیں اور 14 گھنٹے کی یہ طویل کارروائی ان کے حکم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
وزیر اعلی اور اس کے کارندوں نے جب انگلی کے بجائے اپنی طرف پورا ہاتھ اٹھتا دیکھا تو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کے بجائے یہ کہہ کر کہ یہ رپورٹ درست تحقیقات پر مبنی نہیں، ایک نئی جے آئی ٹی بنا ڈالی اور پراپیگنڈہ کیا گیا کہ اس رپورٹ کو شائع کرنے سے فرقہ وارنہ فسادات کا خطرہ ہے۔
پاکستان عوامی تحریک نے لاہور ہائی کورٹ میںدرخواست دائر کی کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ شائع کی جائے مگر ان حکمرانوں نے جوڈیشل کمیشن بنتے ہی اپنے کسی عام شہری سے جوڈیشل کمیشن کی قانونی حیثیت کو چیلنج کروا دیا تھا تا کہ اگر فیصلہ ان کے خلاف آئے تواسے چیلنج کیا جا سکے۔ بالکل ایسا ہی ہوا کہ رپورٹ لکھے جانے کے بعد جب حکمرانوں کو پتہ چلا کہ ذمہ دار انھیں ٹھہرایا گیا ہے تو اس درخواست پر سماعت شروع کروا دی تا کہ کمیشن کو ہی ختم کر دیا جائے جس نے یہ رپورٹ لکھی ہے۔
٭ اس جوڈیشل کمیشن کو از خود تحلیل کرنے کے بعد اس سانحہ پر حکومت نے اپنی مرضی کی ایک اور JIT (تحقیقاتی ٹیم) بنا ڈالی۔ اس JIT پر بھی PAT نے عدم اعتماد کا اظہار کیا کہ یہ JIT ہمیں اعتماد میں لئے بغیر بنائی گئی ہے۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ ایک ایسی JIT بنائی جائے جس میں ISI، MI، IB اور KPK کا کوئی پولیس افسر شامل ہو تاکہ آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات عمل میں آئیں جبکہ حکومت اس طرح کی JIT بنانے میں بھی لیت و لعل سے کام لے رہی تھی اور نہ ہی شہباز شریف کا استعفیٰ آرہا تھا۔ حکومت نے اپنی مرضی کی JIT بنائی جس میں سربراہ کی ذمہ داری اپنے معتمد خاص عبدالرزاق چیمہ کو سونپی گئی۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ تفتیش کے لئے JIT بنانے کا اختیار بھی نامزد ملزمان جو پنجاب و وفاق حکمران ہیں، ان کے پاس ہو۔ پاکستان عوامی تحریک اور جملہ شہداء کے لواحقین نے اس سرکاری JIT کو ماننے سے انکار کردیا اور اعلان کردیا کہ ہم اس JIT پر اعتماد نہیں کرتے۔
٭ اس JIT نے اپنے متعدد اجلاس کئے، مگرجن پر ظلم ہوا، جن کے افراد شہید و زخمی ہوئے، جو متاثر ہوئے ان کی کوئی شنوائی تاحال نہ ہوسکی اور اس سانحہ کے دوران شہید و زخمی ہونے والے انصاف کی تلاش میں ہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اصل محرکات پر نوازشات
اگر یہ سانحہ حکمرانوں کی مرضی سے نہ ہوا ہوتا تو حکمران غیر جانبدار تفتیش کروا کر ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچاتے مگر یہاں پر کچھ الٹا ہی دکھائی دیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کو پنجاب حکومت کی طرف سے سزا دینے کی بجائے نوازا گیا۔ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو عہدے سے ہٹا کر عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بعد ڈبلیو ٹی او میں سفیر مقرر کر دیا گیا، جس پر پاکستان عوامی تحریک نے شدید احتجاج کیا اور ہزاروں لوگوں کے دستخطوں سے ڈبلیو ٹی او کو ایک یادداشت بھیجی کہ 14 انسانوں کے قاتل کو بطور سفیر قبول نہ کیا جائے جس کے نتیجے میں ڈاکٹر توقیر کو اس عہدے سے ڈبلیو ٹی او نے ہٹا دیا۔
اسی طرح رانا ثناء اللہ کو وزیر قانون کے عہدے سے ہٹانے کے بعد پہلے سے زیادہ اختیارات دے دئیے گئے۔ اس سانحہ میں ملوث کئی پولیس افسران کو ترقیاں دے دی گئیں اور کئی کو بیرون ملک کورسز پر بھجوا دیا۔ سانحہ ماڈل ٹاون کے ردعمل میں کم و بیش پاکستان کی تمام جماعتوں نے نہ صرف بھرپور مذمت کی بلکہ ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دلوانے کا مطالبہ بھی کیا لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور اب وہ اپنی سرکشی میں آگے ہی بڑھتے جارہے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد موجودہ حکمرانوں پر ماڈل ٹاؤن واقعہ کا الزام ہی نہیں بلکہ جرم ثابت ہوچکا۔ یہ بات واضح ہے کہ غیر جانبدار جے آئی ٹی کا قیام حکمرانوں کیلئے پھانسی کا پھندا ہے۔اگر حکمران قاتل نہیں تو غیر جانبدار جے آئی ٹی کیوں نہیں بناتے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اصل محرکات کو بے نقاب کیوں نہیں کرتے۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی جدوجہد جن کرپٹ ظالم حکمرانوں کے خلاف تھی وہی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اصل مجرم ہیں۔قائد انقلاب کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک نے اپنے کارکنان کی جانیں پیش کر کے پاکستانی عوام کے سامنے سیاسی شعبدہ بازوں کے راز کھول دئیے کہ ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے، سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑنے والے، دنیا دار اور دین کے ٹھیکیدار اپنے مفادات کو خطرے پہنچتے دیکھ کر آپس میں مک مکا کرلیتے ہیں۔ ان تمام حکمران طاقتوں کیلئے پاکستان عوامی تحریک کا پیغام ہے کہ ’’ظلم آخر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘‘ حکمران طاقت کے زور سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شواہد کو جتنا بھی مسخ کر لیں مگر ایک نہ ایک دن ان کو اس ظلم کا حساب دینا ہو گا۔ وقت بدلتا ہے، ایام گردش کرتے ہیں۔ اللہ کی صفتِ عدل یہ ہے کہ وہ اسی دنیا میں حساب برابر کر دیتا ہے۔ تم دنیا کے عدالتی نظام پر اثر انداز تو ہو سکتے ہو مگر خدائی نظام عدل میں مکافاتِ عمل سے کوئی راہ فرار نہیں۔