سانحہ ماڈل ٹاؤن کو آج برپا ہوئے ایک سال مکمل ہو گیا، ایک سال کے بعد ہم اپنے زخمی و شہید کارکنوں کے ساتھ اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ہم آپ کو نہ بھولے اور نہ قاتلوں کی پھانسی تک چین سے بیٹھیں گے۔ حکمرانوں کے مسلسل ایک سال سے جاری مظالم، جھوٹے مقدمات، سزائیں اور انتقامی کارروائیاں ہمارے حوصلوں کو ہرگز کمزور نہ کر سکیں گی۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ قاتلوں کی پھانسی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے اور ہمارا مطالبہ دیت نہیں قصاص ہے۔ ظالم اور قاتل حکمرانوں نے سربراہ عوامی تحریک قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ڈرانے اور جھکانے کیلئے ہر ستم اور ہتھکنڈہ آزمایا، ان کے خلاف سنگین دفعات کے تحت درجنوں مقدمات درج کیے، ان کا میڈیا ٹرائل کیا، ڈیل کی گھٹیا اور لغو تہمت لگائی مگر وہ انہیں ڈرا، دبا اور جھکا نہ سکے۔ وہ آج بھی اپنے شہید کارکنوں کے خون کا آئین و قانون کے مطابق قصاص کی صورت میں مانگ رہے ہیں۔ ان کا فرمانا ہے کہ انقلاب کیلئے جانیں دینے والے کارکن تاریخ کے ماتھے کا جھومر اور ہمارا گرانقدر سرمایہ ہیں۔ کارکنوں نے خون کا نذرانہ دیکر پاکستان کے عوام کے مقدر میں انقلاب لکھ دیا ہے اب دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو انقلاب سے دور رکھ سکتی ہے اور نہ ہی قاتلوں کو پھانسی کی سزا سے بچا سکتی ہے۔ اس سانحے کے فوراً بعد جس عزم کا اظہار کیا گیا تھا آج بھی پاکستان عوامی تحریک اس پر قائم ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی دہشت گردی، قتل وغارت گری اور حکومتی بربریت وتشدّد کی بدترین مثال ہے ،جس میں نہتے اور پُرامن شہریوں پر براہِ راست گولیاں چلائی گئیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہتی خواتین کوبھی براہِ راست گولیوں کا نشانہ بناتے ہُوئے شہید کر دِیا گیا۔ پُرامن اور نہتے شہریوں پر ظلم وبربریت ایک ایسا عمل ہے جو اسلامی، آئینی، قانونی، جمہوری اور بین الاقوامی اقدار کی دھجیاں اُڑانے کے مترادف ہے، اس کے ذِمہ داران کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
ریاستی دہشت گردی اور قتل عام کے مناظر ملکی چینلز پر براہِ راست دکھائے جاتے رہے جس میں نہتے شہریوں پر براہِ راست فائرنگ کی گئی۔ ان فوٹیجز کے ہوتے ہوئے کیا ابھی بھی مزید کسی ثبوت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور اس سانحہ میں ملّوث جملہ پولیس افسران، انتظامی عہدیداران بشمول IG، DIGآپریشنز، ہوم سیکرٹری پنجاب، DCO، CCPO، SSP's ،SPماڈل ٹاؤن اور متعلقہ DSP'sاور SHO's کو فوری طورپر برطرف کر کے قتلِ عام ،دہشت گردی اور اقدامِ قتل کے جرم میں گرفتار کیا جاتا مگر ملک کے طاقتور ادارے اور آزاد عدلیہ ایک سال گزرنے کے باوجود چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایک شراب کی بوتل کی برآمد پر تو سوموٹو ایکشن لے لیا جاتا ہے مگر 14 معصوموں کو شہید کرنے اور 100 لوگوں کو گولیاں مار کر زخمی کرنے پر کوئی حرکت میں نہیں آتا۔
پنجاب حکومت کے تحت قائم دہشت گردی کی عدالتیں آج تک کسی دہشت گرد کے خلاف فیصلہ کرنے کی تو جرات نہیں کرسکیں اور حکومت کو اس مقصد کے لئے فوجی عدالتوں کے لئے آئینی ترامیم کرنا پڑیں۔ مگر دہشت گردی کی یہ عدالتیں پاکستان عوامی تحریک کے معصوم کارکنوں کو پولیس کی طرف سے قائم کردہ جھوٹے مقدمات میں ظالم اور قاتل پولیس کی شہادت اور تفتیش پر سزائیں سنارہی ہیں۔ انصاف کا یہ قتل عام پاکستان کی تاریخ کی بدترین مثال ہے۔ عدل و انصاف کو یقینی بنانے والے ایوان خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
یہ سب مظالم قائد انقلاب اور پاکستان عوامی تحریک کے انقلابیوں کو نہ خائف کرسکتے ہیں اور نہ ہی حق کی جدوجہد سے باز رکھ سکتے ہیں۔ ہمارا جو موقف پہلے دن تھا آج بھی اس پر قائم ہیں اور ان شاء اللہ انصاف کے حصول اور انقلاب کی منزل کے حصول تک اپنی انقلابی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
پاکستان میں دہشت گردی اور قتل عام کا نہ تھمنے والا سلسلہ
کلمہ طیبہ کے نام پر لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہونے والا ملک پاکستان شروع دن سے غیروں کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف یہ بدترین حکومتوں کی بے تدبیریوں کے باوجود قائم و دائم ہے اور دوسری طرف اس کے نظریاتی اور سیاسی دشمنوں نے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی ہر ممکن سازشیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ گذشتہ ماہ کراچی میں دہشت گردی کا جو افسوسناک سانحہ رقم ہوا وہ چند ماہ میں سانحہ پشاور کے بعد دوسرا بڑا سانحہ ہے جس میں ایک پرامن اور محب وطن گروہ کے بے گناہ شہری بیوی بچوں سمیت لقمہ اجل بن گئے۔ یہ اور ایسے اعصاب شکن واقعات ہمارے پیارے دیس میں روز مرہ کے معمولات بن چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاک سرزمین دہشت گردوں کے نشانے پر کیوں ہے اور کیا ان حالات میں تبدیلی بھی ممکن ہے؟
چھوٹی موٹی قتل و غارت گری کے واقعات تو دنیا کے ہر خطے میں جاری رہتے ہیں مگر حالیہ عشروں میں پاکستان سمیت عرب مسلمان ممالک خصوصاً شام، یمن، عراق اور لیبیا میں تباہی اور خون خرابے کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ تمام تہذیبوں کے ماننے والے پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر زندگی گزار رہے ہیں، ترقی کے راستوں پر چلتے ہوئے نئی منزلوں کے سراغ لگارہے ہیں مگر ایسی بدقسمتی ہے کہ آفت زدہ مسلمان خطے خون سے ہی رنگین ہیں۔ عالمی سطح پر تو مسلمانوں کو لڑانے کے لئے استعماری قوتوں نے اختلافات کے ایسے بیج بوئے ہوئے ہیں جو نت نئے فتنوں کی صورت میں سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان باہمی اختلافات میں کچھ تو سیاسی و اقتصادی نوعیت کے مسائل ہیں مگر اصل اختلافات اعتقادی ہیں جن کی بنیاد پر خلیجی ممالک عرب و عجم اور شیعہ سنی لڑائی میں جتے ہوئے ہیں، جن کی تازہ مثال یمن کا قضیہ ہے۔ اس سے قبل یہی لڑائی شام میں لڑی جارہی ہے اور العیاذ باللہ اس کی شروعات پاکستان میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
٭ وطن عزیز میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے ذمہ دار ہمارے موجودہ اور سابقہ عاقبت نا اندیش حکمران ہیں مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ہماری ہر حکومت مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے مصلحت پسندی اور منافقت سے کام لیتی رہی ہے۔ سیاسی مہروں کی اہمیت ہمیشہ سے رہی اور ہر ایک کو رہی۔ اب بھی کراچی، بلوچستان اور سندھ میں جو کچھ ہورہا ہے، اس کے ذمہ دار بھی ہمارے سیاستدان ہی ہیں۔ آئے روز سیاسی جماعتوں سے وابستہ گینگ کے سرغنے اور دہشت گرد لوگ پکڑے جاتے ہیں اور ہر شخص کو یقین بھی ہوچکا ہے کہ یہی سیاسی کھلاڑی عوام کے خون سے کھلواڑ کررہے ہیں۔ لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ الیکشن میں ووٹ ڈالتے ہوئے ہم لوگ پھر انہی قومی مجرموں اور ان کے نمائندوں کو جتواکر اسمبلیوں میں بھجوادیتے ہیں۔
پاکستان میں جاری مصلحت آمیز سیاست کی موجودگی میں نہ تو ملک میں تبدیلی ممکن ہے اور نہ اہل دیانتدار قیادت اوپر آسکتی ہے۔ یہاں وفاقی وزراء سے کونسلر تک اکثر لوگ ’’دھندوں‘‘ اور ’’مافیا‘‘ سے وابستہ ہیں۔ کراچی جس کو پاکستان کی بیک بون کہا جاتا ہے اس میں دہشت گردی کے ساتھ بھتے کا دھندا بھی عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ یہ وہ جرم ہے جو چھپ چھپا کر نہیں علی الاعلان ہورہا ہے۔ دہشت گردی اور لاقانونیت کی ایک وجہ غربت اور جہالت بھی ہے غربت دہشت گردی اور کرپشن کی ماں بن چکی ہے۔ حکومت اگر منصوبہ بندی کرتی، سیاست، معیشت اور مذہب کو اپنے اقتدار کے لئے نہیں بلکہ عوام بھلائی کے لئے استعمال کرتی تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔