سَراپا دعا ہوں
کرم ایسا کیا اے مالک کون و مکاں تو نے
کہ ہم پر سہل کردی گردش ہفت آسماں تو نے
اٹھایا ایک لفظ کُن سے یہ ہنگامہ عالم
کیا اُمی لقب کو سرور کون ومکاں تو نے
ہمیں کونین میں خیرالامم کا مرتبہ بخشا
بناکر امت پیغمبر ہر دو جہاں تو نے
ہم ایسے خاک کے ذروں کو مہر و ماہ کر ڈالا
بہ فیض خواجہ کونین اے رب جہاں تو نے
بڑا اعزاز ہے، ختم الرسل کی چاکری بخشی
خلیل اللہ کے گھر کا بناکر پاسباں تو نے
بڑھا کر ایک مشت خاک کو انساں بنا ڈالا
بنائے اس کی خاطر پھر زمین و آسماں تو نے
ہم ایسے ناتوانوں کو کلیم بوذری دے کر
بنایا اس جہان رنگ و بو کا رازداں تو نے
تیرے بندے شہنشاہوں کو خاطر میں نہیں لاتے
کیا دانشوران دیں کو بھی آتش بجاں تو نے
اب اس انعام سے بڑھ کر کوئی انعام کیا ہوگا
کیا شورش کو حمدو نعت میں رطب اللساں تو نے
شورش کاشمیری
نعت بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم
حیرت میں ہوں کیا لکھوں شانِ محمد کا
دیدارِ محمد ہے قرآن محمد کا
بخشے گئے جتنے تھے بدکار ہی عالم میں
طوفان میں جب آیا غفران محمد کا
بندوں نے خدائی کی جب ان کے بنے بندے
بندوں پہ عجب برسا باران محمد کا
ڈوبا تو نکالا ہے پھسلا تو سنبھالا ہے
میں بھول نہیں سکتا احسان محمد کا
تصویرِ محمد ہے تحریر محمد کی
تقریرِ محمد ہے بیان محمد کا
کفرانِ محمد ہے کفرانِ خداوندی
کفرانِ خداوندی کفران محمد کا
شہنشاہی عالم جب ان کو مسلَّم ہے
پھر کیوں نہ ہو جبریل سا دربان محمد کا
وہ جلوہ نورانی وہ نقشہ رحمانی
رہتا ہے میرے دل میں ہر آن محمد کا
ہر آن میں ہر شان کے مظہر ہی محمد ہیں
ہر آن میں ہر شان میں ہے ذیشان محمد کا
ہم نام محمد ہوں مداحِ محمد بھی
ہاتھوں سے نہ چھوٹے گا دامان محمد کا
حضرت خواجہ محمد یار فریدی