سوال: اجتماعی اعتکاف کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: اعتکاف میں اجتماعی نوعیت کے معاملات کے جواز اور عدمِ جواز میں اختلاف کی بنیادی وجہ اعتکاف کے معنی کی تعیین میں اختلاف ہے۔ ناموَر فقیہ علامہ ابن رشد فرماتے ہیں:
’’جس نے اعتکاف کا معنی مسجد میں مخصوص افعال پر اپنے نفس کو روک لینا سمجھا، اس نے معتکف کے لیے صرف نماز اور قراء تِ قرآن کو مشروع قرار دیا؛ اور جس نے اعتکاف سے مراد نفس کو دوسروں کے قرب سے بچائے رکھنا لیا اس نے لوگوں سے میل جول کے علاوہ ان تمام امور کو مشروع قرار دیا۔‘‘
( ابن رشد، بدایة المجتهد، 1: 312)، (ابن همام، فتح القدیر، 2: 396)
اِنفرادی اور اجتماعی نوعیت کے امور کا فرق
معتکف کے لئے نماز، تلاوتِ قرآن اور ذکر و اَذکار جیسی انفرادی عبادات تو متفقہ طور پر جائز ہیں اور ان میں کسی نوع کا اختلاف نہیں ہے۔ لیکن جمہور علماء کرام نے دوسروں سے میل ملاپ والی متعدی یا اجتماعی نوعیت کی عبادات کو بھی انفرادی عبادات کی طرح مشروع اور بعض صورتوں میں لازم قرار دیا ہے۔ ان اجتماعی عبادات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر، سلام کا جواب دینا، اِفتاء و اِرشاد اور اس طرح کے دیگر امور شامل ہیں۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ ان اُمور میں زیادہ وقت صرف نہ ہو۔
جہاں تک ایسے امور کا تعلق ہے جن میں زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔ مثلاً درس و تدریس، علماء کا دینی امور میں مناظرہ و مباحثہ اور درسِ قرآن و حدیث وغیرہ۔ تو ان امور کی مشروعیت میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے، مگر فقہ حنفی اور فقہ شافعی میں معتکف کے لیے اِن اُمور کو شرعاً جائز قرار دیا گیا ہے۔
( ابن همام، فتح القدیر، 2: 396)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
وَکَانَ یُخْرِجُ رَأْسَه اِلَیَّ وَهوَ مُعْتَکِفٌ، أَغْسِلُه وَ أَنَا حَائِضٌ.
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالتِ اعتکاف میں اپنا سر میری طرف نکال دیتے تو میں حالتِ حیض میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراقدس دھو دیتی۔‘‘
(بخاری، الصحیح، کتاب الحیض، 1:115، الرقم: 295)
علامہ خطابی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فان الاشتغال بالعلم وکتابته اهم من تسریح الشعر.
’’بلا شبہ علم میں مصروفیت اور اس کی کتابت بالوں کے سنوارنے سے زیادہ اہم ہے۔‘‘
(زین الدین عراقی، طرح التثریب فی شرح التقریب، 4: 175)
لہٰذا دورانِ اِعتکاف تعلیم و تعلم اور درس و تدریس جیسے اْمور بجا لانا بہتر ہے تاکہ اِسلام کے اُس آفاقی حکم پر بھی عمل ہو جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی وحی میں دیا گیا تھا اور جس کی بے پناہ تاکید قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں وارِد ہوئی ہے۔
اِعتکاف میںحسبِ ضرورت خرید و فروخت اور لین دین بھی درست ہے، لیکن اِس میں شرط یہ ہے کہ معاملہ ایجاب و قبول کی حد تک ہو اور سامانِ تجارت مسجد سے باہر ہو۔ یہاں اِس اَمر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اَشیاء کی نقل و حرکت کا ممنوع ہونا مسجد کے تقدس کی وجہ سے ہے نہ کہ اعتکاف کی وجہ سے۔ اس سلسلے میں امام شافعی ’الام‘ (2: 105) میں فرماتے ہیں:
’’معتکف کے لئے خرید و فروخت، حسبِ ضرورت کپڑے سلائی کرلینے، علماء کی مجلس میں بیٹھنے اور ایسی گفتگو کرنے کہ جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو، کوئی حرج نہیں۔‘‘
لہٰذا جب معتکف کاروبار کرسکتا ہے، حسبِ ضرورت کپڑے سی سکتا ہے تو اس کے لیے حصولِ علم تو بدرجہ اَولیٰ بہتر ہوگا۔ اور حصول علم وہ کارِ خیر ہے جس میں شرکت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ترجیح دی ہے۔
عصرِ حاضر اور مقاصدِ اِعتکاف
اس میں شک نہیں کہ اعتکاف کا مقصد نفس کی اصلاح، برائیوں سے اجتناب اور خلوت کا حصول ہے۔ مگر یہ بھی ایک قابلِ لحاظ امر ہے کہ کوئی بھی عمل جب تک کسی مستحکم بنیاد پر قائم نہ ہو، ثمرآور اور دیرپا نہیںہو سکتا۔ اور علم ہی کسی عمل کو مستحکم بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے دورانِ اعتکاف تعلیم وتعلم کو ایک اجتماعی عمل ہونے کے باوجود تمام ائمہ فقہ نے جائز قرار دیا ہے کیونکہ بغیر علم کے ریاضت و مجاہدہ کسی منزل تک نہیں پہنچا سکتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
فَقِیْهٌ وَاحِدٌ اَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدٍ.
(ابو داود، السنن، باب فضل العلماء، 1: 81، رقم: 222)
’’ایک فقیہ، شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘
ہماری اجتماعی صورتِ اَحوال اور دور حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر اعتکاف میں فرد کی تربیت اور اصلاحِ معاشرہ سے تعلق رکھنے والے اجتماعی اُمور مجرد وظائف اور تسبیحات سے زیادہ اہم اور ضروری ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی جب معاشرہ کلیتاً برائی اور بے راہ روی کا شکار ہو تو اس صورت میں اَحکام بدل جاتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتعَالَی لاَ یُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِذَنْبِ الْخَاصُةِ. وَلٰکِنْ اِذَا عُمِلَ الْمُنْکَرُ جِهَارًا اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ کُلُّهُمْ.
’’بے شک اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کے سبب عامۃ الناس کو عذاب نہیں دیتا۔ لیکن جب اِعلانیہ برائی کی جانے لگے تو (خاص و عام) سب لوگ بلا امتیاز عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں۔‘‘
(مالک، الموطا، 2: 991، رقم: 23)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باشندگان سمیت پلٹ دو (تباہ و برباد کر کے رکھ دو)۔ جبریل علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے رب! ان میں تیرا وہ بندہ بھی ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اِس پر رب تعالیٰ نے فرمایا:
اَقْلِبْهَا عَلَیْهِمْ، فَاِنَّ وَجْهَهُ لَمْ یَتَمَعَّرْ فِیَّ سَاعَةً قَطُّ.
’’اس شہر کو ان پر پلٹ دے کیونکہ اس شخص کا چہرہ کبھی ایک گھڑی بھی میری خاطر (برائی کو دیکھ کر) متغیر نہیں ہوا۔‘‘
(بیهقی، شعب الایمان، 6: 97، رقم: 7595)
اس حدیثِ مبارکہ میں مجرد ذکر و عبادت میں مشغولیت کی وجہ سے مخلوقِ خدا کے اَحوال کی درستگی سے عدم دل چسپی پر وعید بیان کی گئی ہے۔ دعوت وتبلیغ کا یہ فریضہ اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب انسان انفرادی ذکر و اَذکار کو ہی کُل نہ سمجھے بلکہ دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ اَحوالِ اْمت کے نبوی فریضہ کو بھی عبادت جانتے ہوئے اپنے معمولات میں سے اسے خصوصی وقت دے۔ اس لئے تعلیم و تعلم، قرآن سیکھنے سکھانے اور اصلاح نفس جیسے دیگر امور جن کا تعلق دیگر افراد سے ہو، اعتکاف میں جائز اور مستحسن ہیں؛ اور یہی راجح قول ہے۔
معمولاتِ شہر اعتکاف
اجتماعی اعتکاف میں باقاعدہ نظام الاوقات کے تحت نماز پنجگانہ، تہجد، چاشت، اوّابین، اوراد و وظائف، حمد و نعت خوانی، دروس ہائے قرآن و حدیث، حلقہ ہائے فقہ و تصوف، تربیتی لیکچرز، خوفِ خدا، فکرِ آخرت، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی شمع دلوں میں فروزاں کرنا، جدید ترین علمی و روحانی پیچیدگیوں کا قرآن و سنت اور عقل سلیم کی روشنی میں تسلی بخش حل بتایا جاتا ہے۔ انفرادی اعتکاف میں اِن تمام فوائد کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔
اجتماعی اعتکاف میں اوراد و اذکار، درود و سلام، گریہ و زاری، توبہ و استغفار اور عبادت کی زبانی ہی نہیں بلکہ عملی مشق کروائی جاتی ہے۔
اجتماعی اعتکاف میں چند دن کے فیوض و برکات کی رحمت و برکت، تعلیم و تربیت اور ذوق و شوق کے وہ نقوش قلب و ذہن پر منقش ہو جاتے ہیں جن سے قلب و ذہن کے آئینے ہمیشہ چمکتے دمکتے رہیں گے۔ تنہا اعتکاف میں یہ سب کچھ کہاں میسر ہوتا ہے۔
سب سے بڑھ کر مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے علمی و فکری اور روحانی موضوعات پر مشتمل خطبات و دروس حاضرین و سامعین کی ذہنی و باطنی جلا کا سامان فراہم کرتے ہیں اور ان کے تزکیہ قلوب و نفوس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات بلامبالغہ کہی جا سکتی کہ تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہونے کے ناطے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اِعتکاف کا صحیح تصور عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
سوال: کفارہ کسے کہتے ہیں اور روزوں کے کفارہ ادا کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:شریعت نے کفارہ کو مکلف پر دنیا و آخرت میں گناہوں کو مٹانے کے لئے واجب کیا ہے۔ کفارہ کا حکم عموماً روزے رکھنے، غلام آزاد کرنے، مساکین کو کھانا کھلانے یا انہیں لباس فراہم کرنے پر مشتمل ہے۔
روزے کا کفارہ ساٹھ روزوں کی شکل میں ادا کرنا ہو تو مسلسل ساٹھ روزے بلا ناغہ رکھے جائیں مثلاً روزے قمری مہینے کی پہلی تاریخ سے شروع کیے گئے ہیں تو اس پورے مہینے اور اس کے بعد دوسرے قمری مہینے کے روزے رکھے۔ اگر روزے قمری مہینے کے وسط سے شروع کیے گئے تو اس مہینے کو پورا کر کے اگلا سارا مہینہ روزے رکھنے کے بعد تیسرے مہینے میں اتنے دن روزے رکھے کہ پہلے مہینے کے دن ملا کر تیس دن پورے ہوجائیں۔ ضروری ہے کہ دو ماہ کے روزے مسلسل ہوں، اگر ایک دن کا بھی روزہ چھوٹ گیا تو پھر دوبارہ ساٹھ روزے رکھنے ہوں گے۔
البتہ عورت کے حیض کے دنوں میں جتنے روزے چھوٹ جائیں وہ شمار نہیں ہوں گے بلکہ وہ حیض سے پہلے اور بعد والے روزے ملا کر ساٹھ روزے پورے کرے۔ کفارہ ادا ہوجائے گا۔
روزے کا کفارہ مساکین کو کھانا کھلانے کی شکل میں ہو تو شریعت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی مقدار ساٹھ دنوں تک اور دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے۔ بصورتِ دیگر ساٹھ مسکینوں کو فی آدمی دو کلو گرام گیہوں یا اس کی قیمت یا قیمت کے برابر چاول، باجرہ، جوار (یا کوئی سا اناج) بھی دیا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں کفارہ ادا کرنے والے پر یہ بھی واجب ہے کہ مساکین میں وہ لوگ شامل نہ ہوں جن کا نفقہ اس کے ذمہ ہے مثلاً اس کے والدین، دادا یا بیٹے، پوتے اور بیوی وغیرہ۔
اگر کوئی چاہے تو ایک روزے یا کئی روزوں کا کفارہ ایک ہی مسکین کو اکٹھا دے سکتا ہے۔ چاہے تو کئی روزوں کا کفارہ یکبارگی بھی دے سکتا ہے۔
سوال: مرنے والے کے ذمے فرض یا واجب روزہ ہو تو اْس کی طرف سے روزہ قضا کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: مرنے والے کے ذمے اگر فرض یا واجب روزہ ہو اور اسے اپنی حیات میں قضاء کا موقع میسر نہ آیا ہو علاوہ ازیں وہ مالدار بھی ہو تو جتنے روزے رہ گئے ہوں اتنے روزوں کے فدیہ کی وصیت کر جائے تاکہ اس کے مال سے فدیہ ادا کر دیا جائے۔ اس وصیت پر عمل واجب ہو گا۔ اگر وصیت نہیں کی تو ورثاء اپنی طرف سے فدیہ ادا کر دیں، تو بھی فدیہ ادا ہو جائے گا۔ فدیہ فی روزہ، صدقہ فطر کے برابر ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَعَلَیْه صِیامُ شَهرٍ، فَلْیَطْعَمْ عَنْه مَکَانَ کُلِّ یوْمٍ مِسْکِینٌ.
’’جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے ایک ماہ کے روزے ہوں، تو اس کے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔‘‘
( ابن ماجه، السنن، کتاب الصیام، باب من مات و علیه صیام رمضان قد فرط فیه، 2: 366، رقم: 1757)
لیکن اگر مرنے والا مالدار نہ تھا اور اس کے ورثاء بھی فدیہ ادا نہ کر سکیں تو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا، مہربان ہے۔