یہ حکمتِ ملکوتی، یہ علمِ لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ ربِ لم یزل کی منشا ہے کہ وہ چاہے تو کسی کو اپنے دین کی خدمت کا فریضہ سونپ دے یا پھر اسے دنیا میں مگن کرکے اور اس کو شہوات و لذات کے تابع کرکے ذلیل و رسوا کر دے۔ یہ سب کچھ اس کے دستِ قدرت میں ہے۔ اگر وہ ذات اپنے کسی بندے کو دین کی خدمت پر مامور کر دے تو اُس بندۂ حر کے لیے اِس سے بڑھ کر سعادت کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ اپنے دین کے فروغ کے لیے چنیدہ بندوں ہی کو منتخب فرماتا ہے۔ اس کے جواز میں بندے کی وہ ادائیں اور رویے کار فرما ہوتے ہیں، جو اس کی عبادات و ریاضات اور خشیتِ الٰہی کے سبب اس کی فطرتِ ثانیہ بن جاتے ہیں۔ پھر اس کے راست متناسب رحمان اور رحیم رب اس پر اپنی نوازشات و انعامات کا ایک لامتناہی سلسلہ وا کر دیتا ہے۔ اسے فہم و فراست کے بحرِ بے کراں میں غوطہ زن ہونے کے تمام تر ممکنہ مواقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ رحمت کے اس بحرِ پایاب سے خودی کا گوہرِ نایاب تلاش کر لائے۔ یہ وہ گوہر ہے جسے صوفیا و عرفا مَنْ عَرَفَ نَفْسَهٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهٗ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی جس نے اپنے من کو پہچان لیا، اس نے گویا اپنے رب کو پہچان لیا۔ یہ مقام برگزیدہ ہستیوں ہی کو تفویض ہوتا ہے۔ اس مقام کے لیے عرفانِ ذات، شعورِ زیست، حقِ بندگی اور اپنی ذات کا کامل احساس جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
اﷲ رب العزت جب کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے دین کا شعور عطا کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ قرآنِ مجید فرماتا ہے:
یُّؤْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ یَّشَآءُج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا.
’’جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔‘‘
(البقرة، 2: 269)
پھر جب یہ شعور حاصل ہو جائے تو انسان معرفتِ الٰہی کے بلند ترین درجات پر فائز ہو جاتا ہے۔ اللہ کی نظر میں اس کی وقعت و حیثیت وہ نہیں رہتی جو عام لوگوں کی ہوتی ہے۔ وہ عمومیت سے نکل کر خصوصیت کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے اور جب وہ مقربین میں شامل ہو جاتا ہے تو پھر حکیم الامت کے مطابق وہ مَر کر بھی زندہ ہی رہتا ہے۔ علامہ اقبال کے اس آفاقی فلسفہ پر غور کیجیے:
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، شہداء عظام، صوفیاء کبار، ائمہ و شیوخ الاسلام اور صالحینِ ذی احترام کی مبارک زندگیاں اس شعر کی مصداق ہیں۔ یہ سعید ہستیاں دنیا سے رخصت ہو جانے کے باوجود آج بھی زندہ و تابندہ ہیں۔ ان کے کارنامے انہیں انسانیت کے شعور و احساس میں زندہ و تابندہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ لوگوں کے رگ و ریشے میں پیوست ہیں اور یوں لگتا ہے کہ گویا وہ ہم میں موجود ہیں؛ سانس لے رہے ہیں اور ہم ان کی سیرت و اعمال کو دیکھ دیکھ کر اپنے اعمال و کردار کا قبلہ درست کر رہے ہیں۔
ہم یہاں ایک ایسی ہی ہستی پر مختصر مگر جامع انداز میں روشنی میں ڈالیں گے، جو ہمہ جہت شخصیت کی حامل ہے۔ جن میں ’’حکمتِ ملکوتی‘‘ کے جوہر بھی کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے اور ان پر ’’علمِ لاہوتی‘‘ کے اسرار بھی فاش تھے، پھر ’’حرم کے درد کا درماں‘‘ کی تو بات ہی کیا کرنی! وہ تو روزِ اول سے ان کی ذات میں پیوست تھا، بلکہ یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ ان کی سرشت کا جزو لا ینفک تھا۔ وہ ایک طرف تو جدید عصری علوم سے آراستہ و پیراستہ تھے، جب کہ دوسری جانب سلوک و تصوف کے ارفع و اعلیٰ مناہج پر براجمان تھے۔ ان کی تمام عمر دین کی سربلندی و سرفرازی میں صرف ہوئی۔ ایک پل کے لیے بھی مخلوقِ الٰہی کی خدمت اور دینِ اسلام کی دعوت و تبلیغ سے غافل نہیں ہوئے۔ اس شخصیت کو فریدِ ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فریدالدین قادری 1918ء میں جھنگ کی سرزمین پر میاں اللہ بخش سیال کے گھر پیدا ہوئے۔ میاں اللہ بخش ایک نیک سیرت اور درویش صفت انسان تھے۔ ان کے آباؤ اجداد کئی پشتوں سے نرم خوئی، سادگی، شرافت، شفقت، فقر اور صوفیانہ مزاج کے حامل تھے۔ اس خاندان میں تصنع، بناوٹ، دنیا داری اور نمود و نمائش جیسی کوئی شے نہیں پائی جاتی تھی۔
فرید الدین کو علم سے وابستگی فطرت میں ملی تھی۔ وہ اوائل عمری ہی سے انتہائی ذہین و فطین تھے۔ انہیں علم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اسکول میں داخل کرایا گیا۔ انہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر جماعت میں اول آنے کا اعزاز قائم رکھا۔ ذہانت و فطانت اور ادب کی خوبیوں سے آراستہ ہونے کے سبب وہ اپنے اہلِ خانہ، اساتذہ اور اہلِ علاقہ کی آنکھوں کا تارا بنے رہے۔ نامساعد حالات کے سبب وہ اپنی تعلیم کا شان دار سلسلہ کچھ عرصے کے لیے جاری نہ رکھ سکے۔ ان کے والدِ گرامی نے انہیں اسکول سے ہٹا کر مروجہ فنِ طب میں مہارت کے لیے ایک طبیب کی شاگردی میں دے دیا تاکہ آنے والے وقت میں پیشہ ورانہ طبیب بن کر اپنے معاشی مسائل کا حل تلاش کرسکیں۔ علمی و ادبی ذوق رکھنے کے سبب فرید الدین کی طبیعت اس جانب مائل نہ ہوئی اور وہ جلد ہی اکتاہٹ کا شکار ہوگئے، کیونکہ ان میں علمی تشنگی کا احساس روز افزوں ترقی پاتا چلا جا رہا تھا۔ فطرت میں علم کی پیاس جیسی نعمتِ عظمیٰ سے متصف تھے۔ اس لیے اپنے مطمع نظر کے حصول کے لیے کچھ کر گزرنے کے لیے ہر لحظہ چاک و چوبند تھے جبکہ ان کے والدِ بزرگوار اس بات پر کسی صورت رضامند نہ ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ فرید الدین کے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے کے لیے ان کے اساتذۂ کرام نے بھی کئی مرتبہ ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر تمام کوششیں لاحاصل رہیں۔
آخر کار فرید الدین کی والدہ محترمہ جو اپنے جگر گوشے کے کرب کو شدت کے ساتھ محسوس کر رہی تھیں، ان سے رہا نہ گیا اور انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے کچھ کر گزرنے کی ٹھانی۔ انہوں نے اپنے فرزند کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے اپنے تمام تر زیورات بیچ ڈالے اور حاصل شدہ رقم اپنے جگر گوشہ کو تھما دی تاکہ وہ کسی علمی مرکز پر پہنچ کر اپنی تشنگی کا مداوا کر سکیں۔ انہوں نے یہ رقم لے کر شہرِ اقبال کا رخ کیا۔ یہاں میٹرک میں داخلہ لے لیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی کی اعلیٰ کتب کبار اساتذہ سے سبقاً پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یوں انہیں عصری اور دینی علوم کی تحصیل کا حسین امتزاج میسر آیا۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے ہندوستان کے علمی و ادبی مرکز لکھنو کا رخ کیا۔ وہاں کی علمی و ادبی فضا ان کے رجحانِ طبع کے عین موافق تھی۔ ملک بھر کے اکابر علمائ، شعراء اور ادباء بھی وہاں موجود تھے۔
انہوں نے لکھنؤ کے جوائنٹ طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا، اسی سے متصل کنگ جارج میڈیکل کالج کی جدید طرزِ تعمیر سے مزین عمارت بھی اپنے حسن کی جلوہ سامانیوں سے نظروں کو اپنی جانب راغب کرتی تھی۔ گویا ایک طرف قدیم طب تھی تو دوسری جانب جدید میڈیکل سائنس۔ اس طرح ان کے جدید طریقۂ تدریس کے مطابق کبھی طلبہ طبیہ کالج میں اکٹھے ہو کر درس لیتے اور کبھی دونوں کالجز کے طلبہ کنگ ایڈورڈ کالج میں جمع ہو کر جدید میڈیکل سائنس سے بہرہ ور ہوتے۔ اس قدیم و جدید کی دلکش فضا نے فرید الدین کو قدیم و جدید علوم و فنون سے استفادے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔
لکھنؤ کی ادبی فضا نے ان کے ادبی ذوق کو بھی مہمیز کیا اور انہوں نے امیر مینائی کے فرزند شکیل مینائی سے فنِ سخن وری کے اسرار و رموز سے شناسائی حاصل کی۔ اسی دوران میں ایسے ایسے عمدہ اشعار کہے کہ جس سے حیرانی بھی ہوتی ہے کہ آیا یہ ایسے شخص کے اشعار ہیں،جو پنجاب کے دور اُفتادہ علاقے جھنگ سے تعلق رکھتا ہے، جہاں اردو شاعری تو دور کی بات اردو بولنے والے بھی خال خال ہی نظر آتے تھے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کا شعری دیوان زمانے کی نظر ہو گیا۔ چند ایک فن پارے کسی طرح سے بچ گئے، جن میں سے یہ نعتیہ اشعار ان کی فنِ شاعری میں کامل مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اشعار دیکھیے:
السلام اے مطلعِ صبحِ ازل
السلام اے جانِ ہر نثر و غزل
السلام اے قلزمِ جود و سخا
السلام اے مصدرِ حمد و ثنا
تعلیم مکمل ہونے کے بعد ڈاکٹر فرید الدین قادری گھر لوٹ آئے اور فلاحِ انسانیت کے جذبے سے سرشار ہو کر انسانیت کی خدمت میں مگن ہو گئے۔ اسی دوران میں وہ محکمہ صحت میں ملازم بھی ہوگئے لیکن انسانیت کی خدمت کا مشغلہ ترک نہ کیا، کیونکہ ان کے من میں ایک ایسا غم پنپ رہا تھا جو ان کے لیے حرزِ جان بنا ہوا تھا اور وہ تھا اُمتِ مسلمہ کی حالتِ زار کا غم۔ وہ مسلمانوں کے دورِ انحطاط پر خون کے آنسو روتے تھے۔
ڈاکٹر فرید الدین قادری اس بات کے شدید خواہی تھے کہ ملتِ اسلامیہ اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت اور عظمت و جلال کو پھر سے حاصل کرلے کیونکہ وہ کبھی دنیا کی سپر پاور تھے اور پوری دنیا میں ان کے علم و فضل کے چرچے تھے۔ پورا عالم ان کے علمی و تحقیقی کارناموں سے بھرپور استفادہ کرتا تھا۔ مغربی دنیا زندگی کے مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی اِنقلاب آفریں ایجادات کی صمیمِ قلب سے معترف تھی۔ بغداد شہر جو اپنے عروج کے زمانے میں عروس البلاد کہلاتا تھا، مسلمانوں کے علمی مرکز کا درجہ رکھتا تھا۔ تمام اسلامی ریاست سے اعلیٰ پائے کے دماغ وہاں جمع ہوتے تھے اور علوم و فنون کی ترقی میں نمایاں خدمات سر انجام دیتے تھے۔ علم و فن میں ان کی فوقیت اور برتری کا یہ عالم تھا کہ یورپ کے لوگ بھی وہاں کی درس گاہوں سے علم کے نایاب خزینے سمیٹنے کو اعزاز تصور کرتے تھے۔ وہ اس بات کی شدید خواہش رکھتے تھے کہ کسی بھی طرح انہیں مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں داخلہ نصیب ہوجائے تاکہ وہ بھی ان کی طرح جدید علوم و فنون میں مہارتِ تامہ حاصل کر لیں۔
جب مسلمان یورپ کی سرزمین ہسپانیہ کو اپنا مرکز بناتے ہیں تو وہاں بھی ان کی علمی برتری کا یہی عالم دیکھنے میں آیا۔ انہوں نے ہسپانیہ پر آٹھ سو سال پر محیط طویل عرصے تک حکومت کی۔ اس دوران ایسے ایسے سائنس دان پیدا ہوئے کہ جن کی تحقیقات آج بھی مسلمہ حیثیت کی حامل ہیں۔ مسلم تہذیب و تمدن کے گہوارہ قرطبہ شہر میں ایک جدید ترین یونیورسٹی قائم تھی۔ اس کے علاوہ مسلم تہذیب کی نمائندہ پرجلال و پُرشکوہ مسجدِ قرطبہ بھی وہیں موجود ہے۔ اس کی وسعت اور کشادگی کا یہ عالم ہے کہ یہ کل 1,200 ستونوں پر مشتمل ہے اور آج بھی دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے کا موجب بنتی ہے۔
اسی طرح جب مسلمان ترکی کی سرزمین پر حکمران کی حیثیت سے پہنچے تو انہوں نے وہاں بھی اپنے انمٹ نقوش ثبت کیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کے مطابق مسلمانوں نے شہرِ قیصر کو تاخت و تاراج کیا۔ جس سپہ سالار کی سرکردگی میں اسے فتح کیا گیا اسے دنیا سلطان محمد فاتح کے نام سے یاد کرتی ہے۔ مسلمانوں نے وہاں ایک طویل عرصے تک حکمرانی کی۔ اسے خلافتِ عثمانیہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ وہاں بھی علم کے ایسے ایسے شناور پیدا ہوئے کہ جن کا بدل آسمان نے آج تک نہ دیکھا ہوگا۔ وہاں پر ایسی ایسی ہستیاں تہِ خاک سو رہی ہیں کہ آسمان بھی اس قطعۂ ارضی پر رشک کرتا ہوگا۔ صحابیِ رسول حضرت ابو ایوب انصاری g استنبول کی فصیل کے بالکل قریب مدفون ہیں۔ اس کے علاوہ قونیہ شہر میں مولانا جلال الدین رومی جیسی نابغۂ عصر ہستی بھی آسودۂ خاک ہیں۔ غرض کہ یہ شان و شوکت اور عظمت و جلال مسلمانوں ہی کا مرہونِ منت تھا۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے اپنی اس حیثیت کو فراموش کر دیا، جو کبھی محض ہمارے ہی دم سے قائم و دائم تھی۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنی ایک شہرۂ آفاق نظم میں اس صورتِ حال کی بہترین منظر کشی کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
تمدن آفریں، خلاقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
یہی وہ طوفان تھا جو ڈاکٹر فریدالدین کی ذات میں موجزن تھا۔ جو انہیں ہندوستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے قریہ قریہ میں لیے پھرا۔ اوائل عمری میں سیالکوٹ کا سفر کیا، پھر لکھنؤ جیسے دور اُفتادہ علمی مرکز کا رخ کیا اور وہاں علم و ہنر کے گوہرِ تاب دار چن کر واپس پلٹے۔ اس دوران فقر و فاقہ جیسی سنگین صورتِ حال کا قلندرانہ وار مقابلہ کیا۔ ان کے دل میں ایک الاؤ بھڑک رہا تھا جو انہیں کسی پل چین و سکون نہ لینے دیتا تھا۔ اِسی قلبی و روحانی تسکین کا سامان باہم پہنچانے کے لیے اسلامی ممالک کے مراکز کے اَسفار کا سلسلہ قائم کیا۔ اولیاء کرام کی زیارت کے لیے کبھی سرہند شریف، کبھی اجمیر شریف، کبھی دہلی کے سفر کیے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ہندوستان کی حدود کو پار کر کے ایران، عراق، شام، ترکی اور سعودی عرب میں موجود انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء عظام اور دیگر اَئمہ و صالحین کے مزارات پر حاضری کا شرف بھی حاصل کیا۔ حق کی اس جستجو میں انہیں سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیg کی بارگاہ سے شیخِ کامل کی نسبت حاصل ہوئی۔ ان کے مزارِ اَقدس پر باقاعدگی سے حاضری دینا ان کے معمول کا حصہ تھا۔
عشقِ حقیقی کی چنگاری تھی کہ جو بجھنے کا نام نہ لیتی تھی، جس نے اس مردِ مومن کو اطمینان سے نہ بیٹھنے دیا۔ یہ چنگاری بڑھتے بڑھتے الاؤ بن گئی، جس نے انہیں اُمتِ مسلمہ کے لیے کچھ اور کر گزرنے کی تحریک دی۔ وہ عقلِ خداداد کی تمام تر سرحدیں عبور کرکے اس سے اگلے مرحلے میں قدم رکھ چکے تھے۔ اِس طرح علامہ اقبالؔ کے مطابق وہ اس شعر کے مصداق ٹھہرے:
ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے
ترا دم گرمیِ محفل نہیں ہے
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
ان کی فہم و فراست نے انہیں عشق کی وادی میں غوطہ زن ہونے کی ترغیب دی کیونکہ وہ روزِ اَوّل ہی سے عقل و دل کے حسین اِمتزاج کا مرقع تھے، دنیا کا کامل شعور رکھتے تھے اور اس سے بالکل بیزار بھی نہ تھے۔ وہ ایک ایسے نظریۂ حیات کے قائل تھے، جس میں رہنمائی کا فریضہ عقل کے پاس ہوتا ہے جب کہ قوتِ فیصلہ دل کے سپرد۔ انہوں نے محسوس کیا کہ میرے اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ایک جانشین کی ضرورت ہے، لہٰذا انہوں نے اللہ رب العزت کے حضور مناجات کیں۔
ڈاکٹر فریدالدین قادری کو 1948ء میں بیت اللہ کی زیارت کا شرف نصیب ہوا۔ انہوں نے رات کے پچھلے پہر خانہ کعبہ کا غلاف تھام کر اللہ رب العزت کے حضور مناجات کیں کہ اے پرودگارِ عالم! مجھے ایک ایسا فرزند عطا فرما جو تیرے دین کی سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ نثار کرنے سے بھی دریغ نہ کرے۔ اللہ رب العزت نے اپنے اس بندے کی التجا کو شرفِ قبولیت بخشا اور انہیں ایک چاند سے بیٹے سے نوازا۔ اس فرزندِ ارجمند کا نام بشارت کے مطابق ’محمد طاہر‘ رکھا گیا۔
فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری اپنی اِنقلابی سوچ و فکر کو اپنے بیٹے میں منتقل کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کے سینے میں موجزن اُمتِ مسلمہ کا کرب ان کے فرزند میں عود کر آئے اور وہ ان کے کام اور نیک ارادوں کے تکمیل کا فریضہ بحسن و خوبی سرانجام دے سکے۔
اس نصب العین کی تکمیل کے لیے انہوں نے محمد طاہر کو اپنی نگرانی میں تربیتی مراحل سے گزارا اور خشیتِ الٰہی، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علم و حکمت، روحانی بالیدگی اور اُمتِ مسلمہ کی پستی کا غم جیسی صفات ان میں راسخ کر دیں۔ ابتدا ہی سے اَحکاماتِ الٰہی کی بجا آوری اور سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی جیسے عمدہ خصائل سے متصف کیا۔ تہجد کے وقت اٹھ کر عبادتِ اِلٰہی میں مشغول ہونے کا شوق پختہ کر دیا۔ غرض کہ اللہ کی بندگی کے وہ تمام لوازمات پوری شد و مد کے ساتھ ان کی شخصیت میں مجتمع ہوگئے جو اس قدر کم عمری میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ درسِ نظامی کی بنیادی کتب بھی گھر پر ہی پڑھا دیں۔
عصری علوم کے حوالے سے بھی آپ نے اپنے فرزند کو کسی سے پیچھے نہ رہنے دیا۔ انہیں شہر کے بہترین سکول میں داخل کرایا۔ جب وہ سکول سے واپس آجاتے تو عصر کے بعد سے لے کر رات گئے تک انہیں خود پڑھاتے۔ اس طرح انہوں نے اپنے اس غنچے کی نگہ و پرداخت اور آب یاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان کے معمولات اس قدر منظم و مستحکم کر دیے کہ ان کا ایک ایک لمحہ قیمتی بنا دیا۔ قدیم و جدید تعلیم سے تعلق کو اس قدر استوار کر دیا کہ دینِ اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا علمی و عقلی سطح پر دفاع کر سکے اور مسلمانوں میں علم و حکمت کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو بحال کر سکیں۔ ان کے اندر امت کے درد اور کڑھن کی جوت جگا دی تاکہ اسے پستی سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دے، جہاں پر وہ پہلے بھی براجمان رہ چکی تھی۔
یہ تھا وہ جذبہ جس سے مہمیز ہو کر ڈاکٹر فرید الدین قادری نے اُمت کو ایسے سپوت سے نوازا جسے رہتی دنیا تک ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے اندر موجزن حرم کے درد کا درماں اسی صورت میں پایۂ تکمیل تک پہنچنا تھا۔ ان کی علمی استعداد اور حصولِ علوم و فنون کی دوڑ دھوپ کی غرض و غایت ہی اُمتِ مسلمہ کی غم خواری تھا۔ یہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جو انہوں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی صورت میں ہمیں مہیا کیا۔ آج شرق تا غرب عالمِ انسانیت ان کے اجتہادی افکار و نظریات سے یکساں مستفید ہو رہا ہے۔ مسلمان جو کبھی روشن خیال نظریات کے حامل ہوا کرتے تھے، سہل پسندی نے انہیں قدامت پرستی جیسی الجھنوں کا شکار کر دیا تھا۔ ان میں ہلچل اور انسانیت کی بھلائی کا سامان مہیا کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی آفاقی سوچ نے دین کی اصل روح سے دنیا کو متعارف کرایا۔ تصنیف و تحقیق کی دنیا میں مختلف موضوعات پر ایک ہزار (1,000) سے زائد کتب تحریر کر کے امتِ مسلمہ کو اجتہادی افکار سے روشناس کرایا۔ تنِ مردہ میں نئی روح پھونک کر ملتِ اسلامیہ کی مسیحائی کی۔ بے مقصد عشق سے نکل کر مقصدیت سے لبریز عشق کی جوت جگائی۔ جیسا کہ اقبالؔ کہتے ہیں:
عشق اب پیرویِ عقلِ خدا داد کرے
آبرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے
کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے
یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے
حاصل کلام یہ ہے کہ ڈاکٹر فریدالدین قادری نے اِنسانیت کی فلاح کے لیے اپنی زندگی میں جتنے بھی کارنامے سرانجام دیے، ان میں سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی صورت میں اپنا جانشین دنیا میں چھوڑ گئے ہیں۔ 16 شوال المکرم بمطابق 2 نومبر 1974ء کو عالمِ اسلام کی یہ عظیم شخصیت اطمینانِ قلب کے ساتھ دنیاے فانی سے کوچ کرگئی۔ آج ہمیں جو کچھ بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کی جانب سے فیوضات و برکات میسر آرہی ہیں، دراصل وہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل فیوضات کا تسلسل ہیں۔ اللہ رب العزت اس سلسلے کو تابہ ابد قائم و دائم رکھے۔ آمین!