حضرت سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام کا علمی مقام و مرتبہ، اُن کی قرآن فہمی، حقیقت شناسی اور فقہی صلاحیت تمام اولین و آخرین میں ممتاز و منفرد تھی۔ قدرت نے انہیں عقل و خرد کی اس قدر ارفع و اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا کہ جو مسائل دوسرے حضرات کے نزدیک پیچیدہ اور لاینحل سمجھے جاتے تھے، انہی مسائل کو وہ آسانی سے حل کردیتے تھے۔ اکابر صحابہ کرام رضوان للہ علیہم اجمعین ایسے اوقات سے پناہ مانگتے تھے کہ جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آجائے اور اس کے حل کے لیے حضرت علی علیہ السلام موجود نہ ہوں۔
حضرت سعید بن المسیب علیہ السلام بیان کرتے ہیں:
کَانَ عُمَرٌ یَتَعَوَّذُ بِاللّٰهِ مِنْ معضلة لَیْسَ فِیْهَا (وفی روایة: لَیْسَ لَهَا) اَبُوْحَسَن.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس پیچیدہ مسئلہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے جسے حل کرنے کے لیے ابوالحسن علی ابن ابی طالب علیہ السلام نہ ہوں۔‘‘
(فضائل الصحابة، ج:2، ص: 803، رقم: 1100)
بعض اکابر صحابہ کرام رضوان للہ علیہم اجمعین نے شہادت دی کہ مولیٰ علی علیہ السلام علمِ ظاہر و باطن دونوں کے امین تھے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اِنَّ عَلِیًا بْنَ ابی طَالِبٍ عِنْدَهٗ عِلْمُ الظَاهِرِ والبَاطِنِ.
’’بے شک علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پاس قرآن کا علمِ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔‘‘
(حلیة الاولیاء، ج:1، ص:105)
اُن کا بتایا ہوا مسئلہ اولوالعزم صحابہ رضوان للہ علیہم اجمعین کے نزدیک حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا۔ سیدالمفسرین حبر الامۃ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس علیہ السلام سے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
’’جب ہمیں کسی چیز کا ثبوت سیدنا علی علیہ السلام سے مل جائے تو پھر ہم کسی اور کی طرف رجوع نہیں کرتے۔‘‘
(الاستیعاب، ج:3، ص: 207)
ام المومنین سیدہ طیبہ طاہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
عَلیٌ اَعْلَمُ النَّاسٍ بِالسُّنَّةِ.
’’حضرت علی علیہ السلام تمام لوگوں سے بڑھ کر سنت کا علم رکھنے والے ہیں۔‘‘
(تاریخ مدینه دمشق، ج: 42، ص: 408)
یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ جو سنت کا سب سے بڑا عالم ہو وہی قرآن کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے۔ چنانچہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سب سے بڑے عالم کی شناخت یوں بیان فرمائی ہے:
اِنَّهٗ سَیَاْتِی نَاسٌ یُجَادِلُونَکُمْ بِشُبْهَاتَ الْقُرآنِ فَخُذُوْهُم بِالسُّنَنِ فَاِنَّ اَصْحَابَ السُّنَنِ اَعْلَمُ بِکِتَابِ اللّٰه.
’’عنقریب کچھ لوگ آئیں گے جو تمہارے ساتھ متشابہاتِ قرآن میں بحث کریں گے، تم ان کا مواخذہ احادیث سے کرنا، بے شک اصحابِ حدیث سب سے بڑھ کر قرآن کریم کے عالم ہیں۔‘‘
(سنن الدارمی، ج:1، ص:37، رقم: 19)
عبدالمالک بن ابی سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
اَکَانَ فِی اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم اَحْدٌ اَعْلَمْ مِنْ عَلِیٍ؟ قَالَ لَا وَاللّٰهِ مَا اَعْلَمُهٗ.
’’کیا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضوان للہ علیہم اجمعین میں سیدنا علی علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی عالم تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں، خدا کی قسم میں ایسے شخص کو نہیں جانتا۔‘‘
(المصنف لابن ابی شیبة، ج: 17، ص: 123، رقم: 32772)
یہی وجہ ہے کہ مولیٰ علی علیہ السلام کے سوا کسی شخص نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ’’ا س سے جو چاہو پوچھو وہ قرآن سے جواب دے گا‘‘ ایسا دعویٰ صرف انہوں نے ہی کیا۔ حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’سیدنا علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: لوگو تم مجھ سے سوال کرو! بخدا تم قیامت تک جس چیز کے متعلق بھی سوال کرو گے میں تمہیں بتائوں گا اور تم مجھ سے قرآن مجید کی بابت سوال کرو، بخدا قرآن مجید کی کوئی ایسی آیت نہیں مگر میں جانتا ہوں کہ وہ رات میں اتری یا دن میں، میدانوں میں نازل ہوئی یا پہاڑوں میں؟‘‘
(تاریخ دمشق، ج: 42، ص: 397-398)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حکمت دس حصوں میں تقسیم کی گئی، نو حصے علی علیہ السلام کو دیئے گئے اور ایک حصہ باقی تمام لوگوں کو دیا گیا۔‘‘
(حلیة الاولیاء، ج:1، ص: 104)
حضرت سعید بن المسیب علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضوان للہ علیہم اجمعین میں سے کسی شخص نے یہ دعویٰ نہیں کیا ’’سَلُوْنِی‘‘ (مجھ سے سوال کرو) ماسوا علی بن ابی طالب علیہ السلام کے۔‘‘
(فضائل الصحابة، ج: 2، ص: 802، رقم: 1098)
مولیٰ علی علیہ السلام کی علمیت کا مقام کیوں نہ ہوتا جبکہ ان کی شان میں آیا ہے کہ وہ علم کا باب (دروازہ) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُها.
’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں)۔‘‘
عربی گرائمر کے موجد مولیٰ علی علیہ السلام
سیدنا علی علیہ السلام کے باب العلم ہونے کی قوی دلیل مجھ ایسے سادہ لوگوں کے لیے یہ بھی ہے کہ حضرت مولیٰ علی علیہ السلام ایسے علم کے موجد ہیں جس کے بغیر کوئی انسان عالم ہو ہی نہیں سکتا۔ آج اگر کوئی انسان عالم ہے اور قرآن و حدیث کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو یہ صلاحیت صرف اسی علم کی بدولت ہے جس کے موجد باب العلم سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام ہیں اور وہ علم عربی گرائمر یعنی علمِ نحو ہے۔
جس شخص کو کسی بھی علم و فن سے کچھ تعلق ہو وہ جانتا ہے کہ کسی زبا ن کو سمجھنے کے لیے اس کی لغت کی معرفت کتنا ضروری ہوتی ہے پھر عربی لغت کی اہمیت تو محتاجِ بیان ہی نہیں۔ لغتِ عرب کی معرفت اتنا ضروری ہے جتنا کتاب و سنت کی معرفت ضروری ہے بلکہ قرآن وحدیث کا سمجھنا معرفتِ لغت پر موقوف ہے۔
قرآن کریم ہو، حدیث شریف ہو، کلامِ عرب ہو، اشعارِ عرب ہوں یا لغتِ عرب ہو، ان میں سے ہر ایک کا سمجھنا عربی گرائمر پر موقوف ہے۔ اسی لئے عربی گرائمر کے متعلق کہا گیا:
اَلصَّرْفُ اُمُ الْعُلُومِ وَالنَّحْوُ اَبُوهَا.
’’علمِ صَرف تمام علوم کی ماں ہے اور علمِ نحو ان سب کا باپ ہے۔‘‘
اور ان دونوں علوم کے موجد و موسس باب مدینۃ العلم سیدنا مولیٰ علی علیہ السلام ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی ان دونوں علموں کے بنیادی قوانین املا کرائے اور اسم، فعل اور حرف کی تمیز بتائی۔ پھر ان کے بتلائے ہوئے علم کو بغرض سہولت دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک کو ’’صَرف‘‘ کا نام دیا گیا اور دوسرے کو ’’نحو‘‘ کا۔ حقیقت میں ’’صرف‘‘، نحو ہی کا ایک حصہ ہے اور اس کے موجد سیدنا علی علیہ السلام ہیں۔
مولانا سیدابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
’’امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے متعدد ایسے کاموں کی ابتدا ہوئی جس کے آثار نہ صرف یہ کہ باقی و پائندہ ہیں بلکہ جب تک عربی زبان اور اس کے قواعدِ نحو و صرف باقی ہیں، وہ کارنامہ زندۂ و جاوید رہے گا۔ ابوالقاسم الزجاجی کی کتاب ’’امالی‘‘ میں مذکور ہے کہ (ابوالاسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ) میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کو دیکھا کہ سر جھکائے متفکر بیٹھے ہیں، میں نے عرض کیا: امیرالمومنین! کس معاملہ میں متفکر ہیں؟ فرمایا: میں تمہارے شہر میں عربی غلط طریقہ پر بولتے ہوئے سنتا ہوں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زبان کے اصول و قواعد میں ایک یاد داشت تیار کردوں۔ میں نے عرض کیا:
اِنْ فَعَلْتَ هٰذَا اَحْیَیْتَنَا وَبَقَیْتَ فِیْنَا هٰذِهٖ اللُّغَةُ.
اگر آپ ایسا کردیں تو ہمیں آپ کے ذریعہ زندگی مل جائے گی اور ہمارے یہاں عربی زبان باقی رہ جائے گی۔
اس گفتگو کے تین روز کے بعد میں پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ایک کاغذ مرحمت فرمایا جس میں علم نحو کے ابتدائی مسائل درج تھے‘‘۔
(تاریخ الاسلام للذهبی ملخصاً، ج: 2، ص: 479)
خود سوچئے کہ جس علم کو حاصل کئے بغیر کوئی انسان (خواہ وہ عربی ہو یا عجمی) عالم نہیں بن سکتا تو پھر جو شخص اس علم کا موجد اور موسس ہو وہ باب العلم نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟ افسوس کا مقام ہے کہ لوگ علمِ صَرف اور نحو کو تو تمام علوم کا ماں باپ تسلیم کرتے ہیں لیکن جو ہستی ان علوم کی واضع اور صانع ہے، اسے تمام علوم کا دروازہ تسلیم نہیں کرتے۔
عامۃ الناس کو جانے دیجئے! کم از کم جو شخص عربی پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور خود کو عالم کہلاتا ہے اسے تو حدیث انا مدینۃ العلم وعلی بابھا کا انکار نہیں کرنا چاہئے! کیونکہ اس کے اندر عربی جاننے کی اہلیت صرف اور صرف اسی عربی گرائمر کی بدولت پیدا ہوئی جس کے موجد سیدنا علی علیہ السلام ہیں۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام کی اِس شانِ علم کو جاننے کے باوجود نہ جانے کیوں بدنصیب لوگ شانِ مرتضوی کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
مولیٰ علی علیہ السلام کے دس خصائص
حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ نو افراد پر مشتمل ایک وفد آیا تو انہوں نے کہا: اے ابن عباس! یا تو آپ الگ ہوکر ہماری بات سنیں یا ان لوگوں کو باہر بھیج دیں۔ اس وقت تک وہ صحیح تھے، نابینا نہیں ہوئے تھے۔ فرمایا: میں اٹھ کر تمہارے ساتھ باہر جاتا ہوں۔ انہوں نے گفتگو کی لیکن ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کہا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فارغ ہوکر آئے تو وہ اپنا دامن جھاڑتے ہوئے فرمارہے تھے:
اُفٍ وَتَفٍ یَقَعُونَ فِی رَجُلٍ لَهٗ عَشْرٌ.
افسوس! یہ لوگ اس ہستی کی برائی کرتے ہیں جس کو دس خصوصیات حاصل تھیں۔ (جو یہ ہیں):
1۔ یہ اس شخص کی برائی میں پڑگئے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا:
لَاَبْعَثَنَّ رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَا یُخْذِیْهِ اللّٰهُ اَبَدًا.
’’(قلعہ خیبر کو فتح کرنے کے لیے) میں اس شخص کو (پرچم دے کر) بھیجوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کبھی اس کو شرمندہ نہیں فرمائے گا۔‘‘
اس پرچم کو حاصل کرنے کے لیے لوگ للچانے لگے، لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی کہاں ہے؟ بتایا گیا وہ چکی میں گندم پیس رہے ہیں۔ فرمایا: تم میں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو چکی چلاتا؟ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بلایا حالانکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے، دیکھ نہیں سکتے تھے، تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں دم کیا، پھر تین دفعہ پرچم لہراکر انہیں سپرد فرمایا (بالآخر انہوں نے خیبر فتح کرلیا)۔
2۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سورۃ التوبہ کے ساتھ بھیجا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے پیچھے روانہ کیا تو فرمایا:
لَا یَذْهَبُ بِهَا اِلَّارَجُلٌ هُوَ مِنِّی وَاَنَا مِنْهٗ.
’’اس اعلان برأت کے ساتھ فقط وہ شخص جائے گا جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔‘‘
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حسن، حسین، فاطمہ اور علی علیہم السلام کو بلاکر ان پر چادر پھیلائی، پھر دعا فرمائی:
اَللّٰهُمَّ هٰوُلَاءِ اَهْلُ بَیْتِی، فَاذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِرْهُمْ تَطْهِیْرًا.
’’اے اللہ! یہ ہیں میرے اہل بیت، پس ان سے ہر طرح کی پلیدی دور فرمادے اور انہیں خوب پاک فرمادے۔‘‘
4۔ وہ اول شخص ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد اسلام لائے۔
5۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر اوڑھی تھی اور سوگئے تھے تو مشرکین ان کا یونہی قصد کرتے رہے جس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قصد کرتے تھے اور وہ گمان کرتے رہے کہ یہ اللہ کے نبی ہیں۔ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے پکارا: یارسول اللہ! حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بئر میمون کی طرف تشریف لے گئے ہیں۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غار میں داخل ہوئے اور مشرکین صبح تک سیدنا علی علیہ السلام کی جاسوسی کرتے رہے۔
6۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لشکر کے ساتھ غزوہ تبوک کی طرف جانے لگے تو حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا: کیا میں آپ کے ساتھ چلوں؟ فرمایا: نہیں۔ حضرت علی علیہ السلام رو پڑے، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا انک لست بنبی. انت خلیفتی یعنی فی کل مومن بعدی.
’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری منزلت میرے نزدیک ایسی ہے جیسی موسیٰe کے نزدیک ہارونe کی مگر یہ کہ تم نبی نہیں ہو۔ پھر فرمایا: تم میرے نائب ہو، یعنی میرے بعد ہر مومن کے۔‘‘
7۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردیئے گئے ماسوا باب علی کے۔ پس وہ مسجد میں داخل ہوتے تھے حالانکہ وہ جنبی ہوتے تھے اور مسجد ان کی راہ میں تھی۔ اس کے علاوہ ان کا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
8۔ اور فرمایا: من کنت ولیه فعلی ولیه.
’’میں جس کا ولی ہوں تو علی بھی اس کا ولی ہے۔‘‘
9۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ نے ہمیں قرآن میں خبر دی کہ وہ درخت تلے بیعت کرنے والوں سے راضی ہوگیا تو کیا اس کے بعد اس نے دوبارہ ہمیں بتایا کہ وہ ان پر ناراض ہوگیا؟
10۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کی گردن اڑادینے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ بدر کے احوال سے مطلع ہونے کے باوجود ارشاد فرمایا: تم جو چاہو کرو، میں نے تمہاری مغفرت کردی۔
(السنن الکبریٰ، النسائی، 7: 416، الرقم: 8355)
مولا علی رضی اللہ عنہ کے اس قدر حاسد کیوں تھے؟
ہمیشہ اربابِ نعمت حضرات کے حاسدین ہوتے ہیں اور مولیٰ علی علیہ السلام چونکہ بے شمار فضائل کے ہی نہیں بلکہ خصائص کے حامل تھے اس لیے ان کے ساتھ حسد کرنے والوں کی بھی کثرت تھی اور یہ ظاہر ہے کہ غلط اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کرنا اور بے پرکی اڑانا حاسدین کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ چنانچہ مولیٰ علی علیہ السلام کے حاسدین ایک طرف تو ان کی خوبیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے تھے اور دوسری طرف ان کے خلاف افواہیں پھیلاتے اور بے پرکی اڑاتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جو جماعت آئی تھی وہ ایسی ہی بے بنیاد افواہوں کے باعث مولیٰ علیٰ علیہ السلام کے ساتھ بغض کے مرض میں مبتلا تھی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ردعمل کے طور پر ان کی بکواسات کے مقابلہ میں حضرت علی علیہ السلام کے دس خصائص بیان فرماکر واضح کردیا کہ اے دشمنانِ علی! درحقیقت تم علی (علیہ السلام) کی شان سے بے خبر ہو۔ علی، علی ہے، اس کو علی (جل جلالہ) نے علی بنایا ہے، کسی سفلہ مزاج شخص کو مقامِ علی کی کیا خبر!؟ نادانو! تم ان کے خلاف زبان کھول کر اپنی عاقبت تو برباد کررہے ہو مگر ان کا کچھ نہیں بگاڑ رہے۔ یاد رکھو! علی المرتضیٰ علیہ السلام کے خلاف لب کشائی کرنا آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس تقریر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعدد ارشادات آگئے ہیں اور چونکہ محدثین نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، لہذا اس طویل حدیث کے ضمن میں جو دوسری احادیث آگئی ہیں ان کی صحت بھی از خود ثابت ہوگئی۔ نیز یہاں ایک عظیم فائدہ یہ بھی معلوم ہوا کہ خداوند قدوس اپنی برگزیدہ ہستیوں کے فضائل ہمیشہ ایسے ہی حاسدین و معاندین کے حسد و عناد کی تردید میں آشکار فرماتا ہے۔
اگر کبھی آپ غور فرمائیں کہ سورۃ الضحیٰ، سورۃ الکوثر اور سورۃ القلم، وغیرھا سورتیں اور آیات کیوں اور کس وقت نازل ہوئیں تو آپ پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس علیہ السلام کی زبان مبارک ایسے ہی موقعہ پر گوہر افشاں ہوئی اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس بھی اکثر ایسے ہی مواقع پر جنبش میں آئی۔
’’علی علیہ السلام اور قرآن دونوں جدا نہ ہوں گے‘‘
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت ابو ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
علی مع القرآن والقرآن مع علی، لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض.
’’علی (علیہ السلام) قرآن کے ساتھ اور قرآن علی (علیہ السلام) کے ساتھ ہے، دونوں جدا نہ ہوں گے حتی کہ اکٹھے حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے۔‘‘
(المستدرک، ج: 3، ص: 123، رقم: 4685)
اس حدیث پر غور کرنے سے اس ناکارہ کے ذہن میں ایک مفہوم آیا ہے اور یقینا وہ ایک روحانی مفہوم ہے۔ وہ یہ کہ جب مولیٰ علی علیہ السلام اور قرآن مجید کے مابین اس قدر دائمی معیت ہے تو پھر یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ کسی شخص کو قرآن کریم سے حقیقی فائدہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے من میں قرآن مجید کے ساتھ ساتھ مولیٰ علی علیہ السلام کی محبت موجزن نہ ہو اور قرآن حکیم سے حقیقی فائدہ حصول ہدایت ہے اور یہ نعمت محبت اہل بیت کے سوا قطعاً حاصل نہیں ہوسکتی۔ سو جو شخص اس محبت کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کرتا ہے یقین فرمایئے! اس پر ہدایت کے نہیں ضلالت کے دروازے کھلتے ہیں۔
جن لوگوں کو یہ بات حیران کن محسوس ہوتی ہے کہ سیدنا علی علیہ السلام کس طرح شہرِ علم کا دروازہ ہوسکتے ہیں جبکہ اکثر صحابہ کرام رضوان للہ علیہم اجمعین نے ان سے نہیں بلکہ براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علم حاصل کیا تھا، ایسے لوگ اگر غور کریں تو ان پر یہ حقیقت واضح ہوسکتی ہے کہ حبِّ مرتضوی کے بغیر کسی حد تک علومِ قرآنی پر تو دسترس حاصل ہوسکتی ہے مگر قرآن بطور ہدایت من میں نہیں اتر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مطلقاً فرمایا کہ علی علیہ السلام سے محبت، ایمان ہے اور ان کے ساتھ بغض، منافقت ہے۔
معلوم ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام خصوصاً اس علم کا دروازہ ہیں جو ہدایت پر مبنی ہے، لہذا جس شخص کا قلب محبت علی علیہ السلام سے خالی ہو اس کا علم ہدایت سے محروم رہنا یقینی ہے۔